(لائنز ایریا سے ہلال روڈ تک)
بریگیڈیئر(ر) صولت رضا کی خود نوشت
''پیچ و تاب زندگی''معروف نثر نگار اورممتاز مزاح نویس بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کی خود نوشت ہے۔۔۔ جس دلچسپ انداز میں بریگیڈئر صولت رضا نے اپنی یادوں کو بیان کیا ہے پڑھنے والوں کو لگتاہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی سفر پہ رہے ہیں ۔
جناب صولت رضا کے آبائو اجداد کا تعلق ظفر وال کے قریبی گائوں سنکھترہ سے ہے ۔۔۔ سادات گھرانے سے تعلق ہے ۔۔۔ ان کے خاندان کو یہ سعادت بھی حاصل ہیں کہ جب علامہ اقبال کا خاندان کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب کی طرف آیا تو وہ کچھ عرصہ سنکھترہ میں ان کے خاندان کے پاس رہے ۔
جناب صولت رضا کے والد گرامی گورنمنٹ سرونٹ تھے ۔۔۔لہٰذا یہ پشاور، مشرقی پاکستان اور کراچی سمیت مختلف مقامات پر رہے۔۔۔ صولت رضا پشاور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی ۔۔۔ شاید اسی لیے بعد ازاں ان کی شادی بھی حیدر آباد سندھ میں ہوئی ۔۔۔ جو ماشااللہ بہت کامیاب رہی۔۔۔ بریگیڈیئر (ر) صولت رضا یوں تو پاکستان بھر میں رہے لیکن لگتا ہے لاہور سے انہیں خاص انس ہے ۔۔۔ جامعہ پنجاب لاہور سے ایم اے صحافت کیا ۔۔۔ دوران تعلیم ہی ایک روز صولت رضا اور ان کے کلاس فیلو اجمل ملک مال روڈ پر چہل قدمی کر رہے تھے کہ شعبۂ صحافت کے اُستاد ڈاکٹر مسکین حجازی کی ان پر نظر پڑ گئی ۔۔۔۔وہ اپنے ان دونوں طالب علموں کو ساتھ ہی نوائے وقت کے دفتر لے گئے اور دو سو روپے ماہوار پر بھرتی کروا دیا ۔۔۔ اس کے بعد یہ دونوں طلبا یونین کا ساتھ دینے کی پاداش میں نوائے وقت سے نکالے گئے اور جاوداں اخبار کا حصہ بن گئے ۔۔۔ بعض اخبارات میں اتنی تنخواہ نہیں ہوتی کہ دال چاول کی سالم پلیٹ کھائی جا سکے ۔۔۔ یہ بھی دو دوست مل کر جب پہلی مرتبہ میکلورڈ روڈ پر واقع دال چاول کی دکان پر گئے اور ایک پلیٹ چاول اور دو چمچے مانگے تو اس نے فوراً پوچھا'' تسیں نال والے اخبار دے دفتروں تے نہیں آئے۔۔۔ ''؟
اخبار کی نوکری جاری تھی کہ آرمی کمیشن کے لیے اپلائی کر دیا اور سلیکٹ بھی ہو گئے ۔۔۔یونٹ میں پوسٹ ہونے کے بعد آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام شائع ہونے والے میگزین، ہلال کے لیے پہلی تحریر بھجوائی ۔۔۔ جو ایڈیٹر اکرام قمر نے بخوشی شائع کی اور بھانپ لیا کہ یہ کام کا بندہ ہے ۔۔۔ لہٰذا 1973 میں یونٹ سے آئی ایس پی آر پہنچ جانے کے بعد بھی وہ پیچھا کر کے ان سے لکھواتے رہے ۔۔۔ یوں جناب صولت رضا کی شعرہ آفاق کتاب 'کاکولیات' سامنے آئی ۔۔۔ بلکہ بار بار سامنے آجاتی ہے کہ اب تک اسکے بیسیوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔
ہلال کے لیے ان کی پہلی سٹوری جب شائع ہوئی اس وقت صولت رضا سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے ۔۔۔۔ جس پر کمانڈنگ آفیسر نے پچاس روپے انعام دیا جبکہ ہلال کی جانب سے تیس روپے اعزازیہ بھجوایا گیا ۔
''پیچ و تاب زندگی ''میں پیشہ ورانہ زندگی کا بھر پور احوال ملتا ہے ۔۔۔۔ مختلف کورکمانڈرز اور آرمی چیفس کے ساتھ کام کیا ۔۔۔ یوں بظاہر بہت سی دلچسپ اور تاریخی یادوں کو انہوں نے شیئر کیا ۔۔۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں جناب صولت رضا کے قریب رہنے کاموقع ملا۔۔۔ میں نے جب سال 2000 میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے آئی ایس پی آر جوائن کیا تو جناب صولت رضا کرنل تھے اور ڈی ڈی پی آر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے ۔ بعدازاں بریگیڈیئر کے رینک پرپروموٹ ہوگئے اور ڈائریکٹرپی آر تعینات ہوئے۔ یادگار زمانہ تھا وہ بھی ۔۔۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بات کہنے یا convey کرنے کا جو سلیقہ اور ملکہ جناب صولت رضا کے پاس ہے وہ بہت کم لوگوں کو حاصلہوتاہے۔۔۔ عسکری تعلقات عامہ کے حوالے سے ہم نے ان سے بہت سیکھا۔ اداروں کو اس پائے کے پروفیشنلز سالوں میں کبھی میسر آتے ہیں۔۔۔ یہ تجربے کی بات ہے کہ اخبارات میں بطور کارکن صحافی کام کرنے والے بہت اعلیٰ پائے کے پی آر پروفیشنلزبنتے ہیں ۔۔۔ وجہ یہ کہ وہ صحافت اور صحافیوں کے کام اور مقام سے واقف ہوتے ہیں ۔۔۔یوں دونوں جانب سے عزت اور احترام کا تعلق بن جانے سے معاملات بہتر انداز میں چلتے ہیں ۔۔۔ وگرنہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔
''پیچ و تاب زندگی ''لاہور سے قلم فائونڈیشن نے شائع کی ہے ۔۔ اس سے قبل بریگیڈیئر صولت رضا کی دو کتابیں ''کاکولیات ''اور کالموں کا مجموعہ ''غیر فوجی کالم'' شائع ہو چکی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ، جناب صولت رضا کو صحت و سلامتی سے رکھے اور وہ یونہی لکھتے رہیں تا کہ قارئین کو وہ بھی پڑھنے کو ملے جو انہیں اس خود نوشت میں پڑھنے کو نہیں ملا بشرطیکہ جناب صولت رضا وہ کبھی لکھ دیں ۔
تبصرے