پاکستان کا قیام لاکھوں شہیدوں کی قربانی سے معرض وجود میں آیا۔ اقلیمِ سخن ، مصورِ پاکستان اور شاعرِ مشرق ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے پیش کردہ خاکے کو حقیقت کا روپ عطاء کرنے میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور اُن کے رفقائے کار نے وہ خدمات سر انجام دیں جو دوسروں کے لیے قابلِ تقلید بن گئیں۔ اُنھوں نے اپنے زریں کارناموں سے اہلِ وطن کی خدمت کو اپنا شعار بنا کر آنے والی نسلوں کے لیے اس صفحۂ ہستی پر ایسے نقوش چھوڑ گئے جن کی تابش سے آج بھی جبین کہکشاں پائندہ و تابندہ ہے ۔ لیاقت علی خان کا شمار بھی ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا ہے ۔لیاقت علی خان ' جو انسانیت و شرافت' دیانت و امانت ' فتانت و ذہانت ' سنجیدگی و متانت ' عزم و عمل ' مردانگی و شجاعت اور ایثار و قربانی کا مجسمہ ، قائداعظم محمد علی جناح کے دستِ راست اور اُن کی بصیرت کا عملی نمونہ ، ' بانی پاکستان کا سچا پیرو اور اُن کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے والے سرفروش ' پاکستان کا حقیقی پاسبان ' سچا محب وطن ' اقدار اسلامیہ کی ترویج کا شیدائی ' بے باک مجاہد ' بندہ مومن ' اعتدال پسند ' صلح جو ' جس کے اوصاف حمیدہ اور اعمال پسندیدہ نے ملت سے قائد ملت کا لقب پایا جس نے غازی کی زندگی گزاری اور شہید کی موت پائی۔ جس نے اپنا تن ' من ' دھن ملک و ملت پر نثار کیا ۔اُنھوں نے جہانگیر پارک کراچی کے جلسہ میں یومِ آزادی 1951ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا میرے پاس روپیہ نہیں ' جائیداد نہیں کہ تمھیں دوں۔ مَیں خوش ہوں کہ میرے پاس مال و دولت نہیں کیوں کہ یہ چیزیں ایمان کو کمزور کرتی ہیں۔ میری جان عوام کے لیے وقف ہے ۔ ایک وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ملک کی سا لمیت و بقاء اور ملت کی عزت و احیاء کے لیے خون بہانے کی ضرورت پیش آئی تو لیاقت علی خان کا خون اس میں شامل ہو گا۔
باالیقین! صادق القول قائد ملت 14 محرم الحرام 1371ھ حسینی سوئم کے دوسرے روز بمطابق 16اکتوبر 1951ء لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک شقی القلب' نگِ قوم و ملت سید اکبر نامی شخص کے ہاتھوںلیاقت علی خان نے پستول کی دو گولیاں کھا کر ' شجر ملت کو اپنے لہو سے سینچ کر اپنا وعدہ وفا کردیا۔ ''برادرانِ ملت''کے الفاظ سے حاضرین کومخاطب کیا ہی تھا کہ دو گولیاں قلب کے زیریں حصے میں پیوست ہو گئیں جونہی سٹیج سے گرے اُن کے قدیم رفیق کار ' معتمد خاص اور سیاسی مشیر نواب صدیق علی خان اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راولپنڈی' مسٹر ہارڈی نے اُن کو سہارا دیا، گولیاں لگنے کی وجہ سے خون کا ایک فوارہ چھوٹا ' جس سے سارا سٹیج اور نواب صدیق علی خان کے پار چات لت پت ہو گئے۔ غشی کی حالت میں کلمہ پڑھا اور فرمایا ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے'' اللہ اللہ صد آفرین کہ موت کی دہلیز پر بھی قائد ملت کو پاکستان کی حفاظت اور سا لمیت کا خیال اس حد تک دامن گیر تھا کہ انھوں نے موت کے منہ میں بھی اپنی آخری خواہش اور وصیت پاکستان کی بقاء اور تحفظ کے سلسلے میں فرمائی۔لیاقت باغ سے اُن کو فوری طور پر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جایا گیا مگر ملک الموت نے مہلت نہ دی۔
انا اللہ وانا الیہ راجعون
حصول پاکستان کی جدوجہد میں ہر موقع پر قائداعظم کے دوش بدوش سرگرم عمل رہے ۔14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر بنے اور ان کے رفیق کار ' قائدملت ' خان لیاقت علی خان ' پاکستان کے پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے اور جب تک زندہ رہے نہایت محنت ' لگن اور خلوص سے پاکستان کی سربلندی و عظمت کے لیے کام کرتے رہے۔
اُنھوں نے حریت اسلام اور پاکستان کی حفاظت کی خاطر جان عزیز قربان کر دی۔ یہی وہ مقام شبیری ہے جسے جان کی بازی لگا کر اور خون میں غلطاں ہو کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور قائد ملت نے وہ مقام بلند پا لیا۔ اسی روز شام سات بجے جب ریڈیو پاکستان نے خان لیاقت علی خان کی شہادت کی خبر نشر کی تو سارے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔چرخ عالم اسلام پر غم و اندوہ کے بادل چھا گئے۔ پاکستان کے ہر شہر میں کاروبار حیات معطل ہو گئے ۔دُ کانوں پر تالے پڑ گئے سینما گھروں کی بتیاں گل ہو گئیں ۔دو روز کے لیے سرکاری دفتر بند کر دیے گئے۔ تین روز تک قومی پرچم سرنگوں رہا۔ چالیس روز تک ملک میں سوگ منایا جاتا رہا۔دوسرے روز17اکتوبرکو جب صبح پانچ بجے ان کی لاش پہنچائی گئی تو ان کی رہائش گاہ 10۔ وکٹوریہ روڈ ایک ماتم کدہ بن گئی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ آنسوئوں اور آہوں کا طوفان عظیم امڈ آیا ۔ تمام قوم قائد ملت کے غم میں زار وقطار رو رہی تھی۔
17 اکتوبر1951ء ڈیڑھ بجے مولانا احتشام الحق نے پولو گرائونڈ میں لاکھوں کے مجمع کو نماز جنازہ پڑھائی اور آخری دیدار کے بعد شہید کارواں ' قائداعظم کے دست راست کو' قائداعظم کے مزار کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ۔اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جوار رحمت میں جگہ دے۔
11 ستمبر1948ء (قائداعظم کی وفات) کے بعد جب مایوس اورناامیدی کی بھیانک تاریکیاں اہل پاکستان کی نگاہوں کانور چھین لینے میں سرگرم عمل تھیں اور ہر سو افسردگی ' ناامیدی کے بادل امڈ آئے تھے تو عین اسی وقت قائداعظم کے نائب پاسبان ملت پاکستان خان لیاقت علی خان نے روتی ہوئی قوم کے سرپر دست شفقت رکھ کر اہل پاکستان کی دستگیری فرمائی تھی اور پاکستان کی ہچکولے کھاتی ہوئی نائو کی ملاحی اپنے ذمہ لے لی تھی مگر وہ بھی پاکستان کی محافظت کو خدا کے حوالے کرکے ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔قائدملت نے4 ۔مارچ1949ء کو اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کی مقدس سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کا تہیہ کر لیا ہے ۔ ہم یہ طے کر چکے ہیں کہ پاکستان کے لیے زندہ رہیں گے اور پاکستان کے لیے ہی مریں گے۔لہٰذا انھوں نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔
جاں ہے تو کام آئے گی سدا اہل وطن کے
سر ہے تو اسے نذرِ وطن کرتے رہیں گے
تحریکِ پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ عنایت اللہ گوئندی نے ایک ملاقا ت پر بتایا کہ وہ اس دورے کے بعد سرگودھا تشریف لائے ۔ سرگودھا میں باغِ جناح کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ، اُنھوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی کرنسی کی قیمت گر رہی ہے ۔ الحمد للہ ! پاکستان کے روپے کی قیمت اپنی جگہ قائم دائم ہے ۔
قائدملت خان لیاقت علی خان ضلع کرنال(بھارت) کے ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔جن کا شجرہ نسب نوشیرواں عادل سے ملتا ہے' اور ان کے آبائو اجداد تقریباً ساڑھے پانچ سو سال بیشتر ہندوستان آ کر آباد ہو گئے تھے۔ لیاقت علی خان رستم علی کے گھر یکم اکتوبر1895ء میں پیدا ہوئے یعنی وہ قائداعظم محمد علی جناح سے 19 سال اور محترمہ فاطمہ جناح سے2سال چھوٹے تھے۔ اُنھوں نے 1918ء میں علی گڑھ سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ 1919ء میں آکسفورڈ سے ایم۔اے پاس کیا ۔1922ء میں انگلستان سے بیرسٹریٹ لاء کی ڈگری حاصل کرکے وطن واپس لوٹے تو 1923١ء میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہو کر قائداعظم محمد علی جناح کے مشیر خاص بن گئے۔ قائداعظم مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے مسلمانوں کے حقوق تسلیم کرانے کے لیے سرگرم عمل تھے۔ لیاقت علی خان اس جدوجہد میں ہر موقعہ پر اپنے قائد کا ساتھ دیتے رہے۔1943ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی میں اتفاق رائے سے مسلم لیگ کے سیکرٹری چنے گئے۔ 1945-46ء میں انتخابات ہوئے تو قائداعظم نے انھیں اپنی جانب سے انتخابات کی نگرانی کا فرض سونپا۔ اُنھوں نے ملک کے وسیع تر دورے کرکے مسلمانوں کو لیگ کی حمایت کی ترغیب دی اور پنجاب ' سندھ ' سرحد اور مشرقی بنگال سے مسلم لیگ کو نمایاں کامیابی سے ہم کنار کرایا آزادی ہند کے متعلق شملہ مذاکرات میں قائداعظم کی معیت میں شرکت کی اور منطقی تقاریر سے قائداعظم کے موقف کو تقویت بہم پہنچائی۔1946ء میں وائسرئے ہند کی انتظامیہ کے ہمراہ انگلستان گئے اور جنگ آزادی کے تقریری محاذ پر منطق اور استدلال کے وہ جوہر دکھائے کہ سامعین ششدر رہ گئے۔
اُنھوں نے جہانگیر پارک کراچی کے جلسہ میں یومِ آزادی 1951ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا میرے پاس روپیہ نہیں ' جائیداد نہیں کہ تمھیں دوں۔ مَیں خوش ہوں کہ میرے پاس مال و دولت نہیں کیوں کہ یہ چیزیں ایمان کو کمزور کرتی ہیں۔ میری جان عوام کے لیے وقف ہے ۔ ایک وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ملک کی سا لمیت و بقاء اور ملت کی عزت و احیاء کے لیے خون بہانے کی ضرورت پیش آئی تو لیاقت علی خان کا خون اس میں شامل ہو گا۔
وزیر مالیات کی حیثیت سے 1946-47 کا متوازن بجٹ پیش کرکے ماہرین مالیات سے داد تحسین حاصل کی۔حصول پاکستان کی جدوجہد میں ہر موقع پر قائداعظم کے دوش بدوش سرگرم عمل رہے ۔14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر بنے اور ان کے رفیق کار ' قائدملت ' خان لیاقت علی خان ' پاکستان کے پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے اور جب تک زندہ رہے نہایت محنت ' لگن اور خلوص سے پاکستان کی سربلندی و عظمت کے لیے کام کرتے رہے۔ پاکستان کا دفاع مہاجرین کی آباد کاری ' خارجہ پالیسی ' داخلی نظم و نسق مسئلہ کشمیر اور پاکستانی معیشت کی بحالی ایسے مسائل تھے ' جن کا حل عام اعصاب کے انسان کے بس کا روگ نہ تھا مگراُنھوں نے ہر مسئلہ کے حل کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جس سے ملکی استحکام اور وقار میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا ' اُنھوں نے قائداعظم کی وفات کے بعد جہاں ملک کے چپے چپے کا دورہ کرکے پاکستان کے افسردہ اور مغموم عوام کی ڈھارس بندھائی وہاں بھارت ' برطانیہ' امریکہ اور روس کا دورہ کرکے اپنے خارجہ مراسم کو مستحکم کیا ' اُنھوں نے پیچیدہ مسائل میں اسلامی ممالک کو اپنا ہمنوا بنایا جو بین الاقوامی فورم پرہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے رہے۔وہ 1950ء میں امریکہ گئے وہاں کی کنساس یونی ورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے اُنھوں نے پاکستان کے قیام کی اہمیت واضح کی۔ مزید برآں اُنھوں نے ترقی یافتہ ممالک سے توقع کی کہ وہ نوزائیدہ مملکت پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں اس کی معاونت کریں گے۔ تحریکِ پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ عنایت اللہ گوئندی نے ایک ملاقا ت پر بتایا کہ وہ اس دورے کے بعد سرگودھا تشریف لائے ۔ سرگودھا میں باغِ جناح کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ، اُنھوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی کرنسی کی قیمت گر رہی ہے ۔ الحمد للہ ! پاکستان کے روپے کی قیمت اپنی جگہ قائم دائم ہے ۔
مملکت خدا داد پاکستان ' قائداعظم اور قائد ملت کی طویل سیاسی جدوجہد کا ایک انمول شیریں ثمرہے۔ عصرِ حاضر کے سیاست دانوں کے لیے اُن کی زندگی مشعلِ راہ ہے ۔ پاکستان اُن کی ایک مقدس امانت ہے اس کے حصول میں لاکھوں افراد کا خون بہا ہے۔ قائد ملت کی روح ہم سے تبھی خوش اور مطمئن ہو سکتی ہے جب ہم ان کے لائحہ عمل کو اپناتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کی اوج و عظمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیں۔ ||
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے