لائبریری لاطینی زبان کا لفظ ہے جو لائبر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں کتاب۔ دراصل لائبریری ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں فکری و علمی اثاثہ لاکھوں کروڑوں اربابِ علم و دانش کی ذہنی ، علمی ، ادبی کاوشوں کی آماجگاہ ہے، جس میں الہامی کتب ، مختلف النوع لفظوں کے معنی و مفہوم ، مذہبی علوم کا گنجینہ گوہر ، محققین و مفکرین کی علمی دولت ، مصنفین و شعرا کی ادبی ولسانی کاوشیں ،مترجمین کے تراجم اور انسانی احساسات و تجربات کا وسیع سرمایہ یکجا کیا جاتا ہے۔مختلف زبانوں نے اس کو مختلف نام دیے ہیں مثلاً اردو فارسی میں اسے کتاب خانہ /کتب خانہ کہا گیا جب کہ عربی میں اس کو خزینة ا لکتب ، مکتبہ اور دار الکتب جیسے ناموں سے پکارا گیا۔
پاکستان میں متعدد نجی و سرکاری لائبریریاں کام کر رہی ہیں ان لائبریریوں میں چند ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم پنجاب پبلک لائبریری مشہو رو معروف لائبریری ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مغلیہ دور کی یاد دلاتی ہے۔ کراچی میں بھی ایک سٹریٹ لائبریری موجود ہے۔ جہاں مختلف موضوعات کی کتب موجود ہیں یہ اپنی نوعیت کہ پہلی سٹریٹ لائبریر ی ہے جس کے منتظمین خود عوام ہیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری ہے۔ یہ میلسی کے ایک قصبہ سردار پور جھنڈیرجنوبی پنجاب کی حدود میں واقع ہے۔ یہ قصبہ میلسی دنیا پور روڈ پر واقع ہے جو ملتان سے 85 اور بہاول پور سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ لائبریری تقریباً سوا سو سال پرانی ہے۔ 1890 میں سردار پور جھنڈیر کے ایک زمیندار ملک غلام محمد کا علم سے محبت کا سفر شروع ہوتا ہے جو آگے جاکر کتابوں سے عشق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان کی عقیدت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ ایک طرف آمدن کا بڑا حصہ کتب کی خریداری میں صرف ہوتا تو دوسری طرف وقت کی دولت کو ان کے مطالعہ پر نچھاور کرتے ہیں۔ ان کی اولادِ نرینہ نہ تھی۔ چار بیٹیاں رحمت بن کر ان کے آنگن میں اتریں۔ غلام محمد اپنی وفات سے قبل یہ قیمتی اثاثہ اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی زبیدہ خاتون کے شوہر میاں سردار محمد جھنڈیر برادران کے والد کو 1952 میں سونپ گئے۔ اس کا نام پہلے جھنڈا گیر تھا جو مرورِزمانہ اور لسانی بگاڑ کی وجہ سے جھنڈیر ہو گیا۔جھنڈیر برادران کو یہ نایاب لائبریری 1936 میں ورثے میں ملی۔ 1963 میں اپنے والد میاں سردار محمد کے نام سے اس بستی کی داغ بیل ڈالی۔
لمحہ موجود میں یہ لائبریری اوسط درجے کے زمیندار جھنڈیر برادران( میاں مسعود احمد جھنڈیر ،محمود احمد ، غلام احمد) کی تحویل میں ہے۔ محدود وسائل کے باوجود اس قیمتی ورثے کو نہ صرف محفوظ رکھا گیا بلکہ اس کی نوک پلک سنوارنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ زمینداری اور کتب داری کا حسین سنگم ایک طرف تو انسان کی سوچ میں تبدیلی لانے کا موجب بنتا ہے تو دوسری طرف علم کی وادی میں ایک نئے باب کو رقم کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے۔ یہ کشتِ سخن دینی ،قومی، تاریخی ، ثقافتی اور ادبی کتب کے گنجینہ گوہر پر مشتمل ہے۔
یہ منفرد لائبریری 1952 میں ایک کمرے تک محدود تھی۔ 60کی دہائی سے آغاز کر کے صدی کے اختتام تک ارتقائی سفر کو طے کر کے 25 کمروں تک جا پہنچی۔ بڑی بڑی الماریوں میں قیمتی و نایاب کتب سے مزین کمرے آنے والے کا دل موہ لیتے ہیں۔
یہ لائبریری چونکہ اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کی منازل طے کر رہی ہے تو اس کے منتظمین کو کتب کے حصول میں مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کتابوں کے حصول کا سفر پھولوں اور کانٹوں سے اٹا ہوا تھا۔ ہر کتاب کے حصول میں ایک کہانی پوشیدہ ہے۔ کبھی شہرِ خموشاں سے قرآن مجید کے نادر و نایاب نسخے حاصل کیے گئے کبھی تاریک کنوؤں سے کتب کی دستیابی ممکن ہو سکی۔ جھنڈیر برادران کا کتب سے والہانہ عشق ہر کتاب سے جھلکتا ہے۔بقول ان کے :کتابیں ان سے ہم کلام ہوتی ہیں۔دعائیں دیتی ہیں جب روٹھ جاتی ہیں تو انہیں منانا پڑتا ہے۔
خوش قسمتی سے یہ لائبریری خوشگوار ماحول جہاں کپاس کے دودھیا سفید ریشے ، سونے کے رنگ میں لپٹے گندم کے خوشے ، سورج مکھی کے ہرے بھرے کھلیان ہیں، میں گھری ہوئی ہے۔ لائبریری میں داخل ہونے والا شخص سب سے پہلے ترشاوہ پھلوں کی سوندھی خوشبو ، درختوں کی ہریالی، بہتی ندیوں کی نغمہ ریزی، معطر ہواکی مہک، پرندوں کی نغمہ سرائی جیسے طلسماتی ماحول سے بغل گیر ہوتا ہے۔ پھر لاکھوں شاہکار لوگوں سے ہم کلام ہوتا ہے اور ان کی فکری روشنی سے جہانِ ذہن و قلب کو جگمگاتا ہے۔یہ لائبریری ہیڈ سائفن کے کنارے پر واقع ہے اس کی وجہ سے لہروں کا ارتعاش پانی کے بہاؤ کی خوب صورت آواز حسن میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لائبریری سے منسلک ایک دل کش سبزہ زار ہے جو تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ذہنی آسودگی اور دلی مسرت کے حوالے سے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ محقق تحقیق جیسے سنجیدہ کام سے جب تھک جاتا ہے تو یہ سبزہ زاراسے نئی قوت اور جذبے سے نوازتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ بھی اْنہی قوموں کو زندہ رکھتی ہے جو اپنے عِلمی سرمائے کی حِفاظت کرنا جانتی ہیں۔
یہ ایک مکمل تحقیقی لائبریری ہے جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکالرز کے لیے تحقیق کا مرکز ہے۔ یہ لائبریری ایک ایسے علاقے میں کتب بینی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے جو کسانوں اور زمینداروں پر مشتمل ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد نجی لائبریریاں بنانے کی ترغیب ملتی ہے۔ یہ شوق تو شاہانہ شغل تھا جس کو جھنڈیر برادران نے نہ صرف اختیار کیا بلکہ اس روایت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔ لائبریری مواد اور اصناف کے لحاظ سے مالا مال ہے جہاں ہر موضوع و صنف پر وافر کتب موجود ہیں۔ یہاں اسلام سے متعلق 35500 کتب کا ذخیرہ موجود ہے جس میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر کے علاوہ قرآن مجید کے 1125 قلمی نسخے موجود ہیں۔
لائبریری میں تقریباً چار ہزار پچاس مخطوطات موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر نہ صرف نایاب ہیں بلکہ سات سو سالہ قدیم بھی ہیں۔ چند نایاب مخطوطات میں نصیرالدین طوسی کی تصنیف عربی زبان میں موجود ہے۔اس قلمی نسخے میں متعدد دیدہ زیب اشکال موجود ہیں۔ لائبریری میں قدیم ترین مطبوعہ کتاب رچرڈ السری کی تصنیف
The Christianity in piety of Decay the of cause
ہے جو1669میں شائع ہوئی۔ علامہ اقبال کے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے دو خطوط بھی لائبریری کی زینت ہے۔ دیگر معروف ادبیوں ، مشاہیر کے خطوط تقریباً 4000کی تعداد میں موجود ہیں۔شاہنامہ فردوسی کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے۔ رسائل و جرائد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔
لائبریری قومی و بین الاقوامی نمائشوں میں بھرپور حصہ لیتی رہی ہے۔ آخری نمائش 2000میں منعقد ہ بہاول پور بین الاقوامی کانفرنس سیرت النبیۖ سے متعلق تھی اس کانفرنس میں آنے والے150 ملکی و غیر ملکی مندوبین نے لائبریری کا دورہ بھی کیا۔ اس لائبریری کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی رکنیت کی فیس نہیں ہے۔ کتابیں اور دیگر مواد باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لائبریری کے منتظمین اس کی کانٹ چھانٹ میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اس لائبریری کو تحقیق کا اعلیٰ و ارفع جدید ترین مرکز بنایا جائے۔
جھنڈیرلائبریری میں موجود نادرونایاب کتب کو محفوظ کرنے اور ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے قارئین اور محققین تک مفت رسائی ممکن بنائی ہے۔ اس کے لیے ایک لاکھ چالیس ہزار کتب کی جدید خطوط پر ڈیٹا بیس پر چغتائی پبلک لائبریری کے تعاون سے کتب کی درجہ بندی اور ترتیب و تنظیم کی گئی ہے ہزاروں کتب کی سکینگ کر کے آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کردیا ہے۔
لائبریری کے ایک بڑے ہال کمرے میں اْن اشیا کو محفوظ کیا گیا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ متروک ہورہی ہی ہیں۔نادر و نایاب اشیا پر مشتمل یہ ہال میوزیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ لائبریری کے بانیوں کے مستقبل کے منصوبوں میں میوزیم کا منصوبہ بھی شامل ہے جو کہ تیار ہے صرف اس کی نوک پلک سنوارنے کاکام باقی ہے۔ اس گاؤں میں ایسی دلکش لائبریری کا وجود ایک طرف یہاں کے مکینوں کو کتاب کا شعور اور کتاب دوستی جیسے جذبے کو فروغ دینے میں کوشاں ہے تو دوسری طرف مغلیہ دور کی یاد تازہ کرتا ہے۔
مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان اسلام آباد نے ایک پی ایچ ڈی خاتون سکالر کو اس لائبریری کے مخطو طات کی کیٹلاگ تیار کرنے کا فریضہ سونپا جنہوں نے دس ماہ لائبریری میں کام کر کے یہ کام مکمل کیا، حکومت ایران نے اس فہرست کو کتابی شکل میں 2005ء میں شائع کیا۔
لائبریری انتظامیہ کے مطابق دسمبر 2013ء میں پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی انٹرنیشل لائبریری کانفرنس میں لائبریری پر ایک پی ایچ ڈی سکالر نے انگریزی زبان میں ایک مقالہ بعنوان'' مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری، پاکستان کے لیے سرمایہ افتخار'' پیش کیا۔
14 اگست 2014ء کے موقع پراس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے لائبریری کے منتظم میاں غلام احمد جھنڈیر کو قومی ورثہ جمع اور محفوظ کرنے اور اس کو پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری بنانے کے اعتراف میں سول صدارتی ''تمغہ امتیاز'' کے اعزاز سے نوازا۔اس لائبریری کے حوالے سے متعدد ملکی و غیر ملکی چینلز نے دستاویزی فلمیں تیار کر کے نشر کیں جن میں ایران کے شعبہ ٹیلی ویژن کی دستاویزی فلم( 4 جون 1994 ) بڑی اہمیت کی حامل ہے۔لندن کی سب رس نشریات میں رضا علی عابدی نے میاں غلام احمد کا انٹرویو کر کے لائبریری پر تعارفی پروگرام نشر کیا۔ پی ٹی وی ورلڈ نے امیزنگ پاکستان میں متعدد بار اس لائبریری کے حوالے سے دستاویزی پروگرام نشر کر کے اس کی اہمیت دگنی کر دی۔
زراعت و علم و ادب کا اتنا حسین اور متوازن امتزاج دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملتا۔ یہاں علمی نوادرات کا ایک خزانہ ہے جو اہلِ علم کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔یہ لائبریری اپنے اندر یورپ طرز کی لائبریریوں کی تمام خصوصیات سموئے ہوئے ہے۔ جاگیرداروں کی علم سے محبت دنیا کو ایک نیا پیغام دیتی ہے۔ جگنوؤں کو پال کر روشنی تقسیم کرنا اس خاندان کی سنہری روایت ہے۔ یہ لائبریری اہلِ دل ،اہلِ ذوق اور اہلِ نظر کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ یہاں آ کر کتب برائے کتب نہیں بلکہ کتب برائے زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ ویرانے کو علم کی شمع اور جہالت کی تاریکی میں تعلیم کی لو جگا کر نہ صرف اہلِ علاقہ بلکہ پوری دنیا کو علم سے محبت کا پیغام دیا۔ ||
مضمون نگار ایپسیکس سیکرٹیریٹ میںاُردو کوارڈینیٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
[email protected]
تبصرے