فطرت کا گاتھک رنگ روزانہ نئی آب و تاب کے ساتھ زمان ومکاں کی زینت بنتا ہے۔لوگ تو دن بھرمحنت و مشقت کی زنجیروں میں جکڑے سر جھکائے چلتے رہتے ہیں لیکن فرشتے برش اسٹروک سے زندگی کے آسمان کا کینوس سجاتے رہتے ہیں۔ انسانوں کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ قدرت کے حسین رنگوں کے مداح بھی ہوتے ہیں۔وین گاف اسکیچ بناتا ہے۔امرتا شیر گل، پال کلی اور ریمبراں کسی کھیت میں ڈوبتے سورج کو اپنی پینٹنگز میں ابھارتے ہیں اور میں بھی ایسے ہی نظاروں کی پیاس میں سفر کرتا ہوں۔مجھ جیسے کتنے ہی سیاح ہیں جن پر موسمیاتی تبدیلیاں اور معروضی حالات زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے۔ہم تو اجنبی جگہوں اور کچے گھروں کی آرتی اتارنے کے لیے پختہ گھروں کو تیاگ دیتے ہیں۔ہمارے سفر کی ریاضت کے صلے میں ربِ کریم ہمیں بہشت نما نظاروں کی سیر کرواتا ہے۔شاہراہ سری نگر بانہیں پھیلائے ہمارا سواگت کرتی ہے۔
کشمیر کی سب سے حسین لیپہ ویلی کی زیارت کے لیے ہم مظفر آباد سے لیپہ ویلی کی طرف گامزن تھے۔دریائے جہلم کے پرشور پانیوں نے ہمارے اندر بھی جوش بھر دیا تھا۔پیر پنجال کی گھاٹیوں سے جھاگ اڑاتا ہوا دریائے جہلم زندگی کا سرچشمہ ہے۔پھول ہوں یا خار ہوں ، سادات یا چمار ہوں، انسان کے منفی رویوں سے بے نیاز دریا اپنی فیاضی لْٹاتا ہوا رواں رہتا ہے۔
مظفر آباد سے لیپہ ویلی کا زمینی فاصلہ صرف ایک سو دو کلو میٹر ہے۔ اس خوبصورت راستے میں آنے والے چیڑ،کائل، چنار اور دیودار کے درختوں کی دیدہ زیب رونقیں پرندوں کی مسحور کن آواز وں سے مزید دلکش ہو جاتی ہیں۔ہمارا قافلہ ایک چھوٹے سے شہر ہٹیاں کے مرکزی بازار سے نیلی پُل کی جانب مڑتا ہے۔ سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس ایریا ہے ۔ان علاقوں میں مختلف مقامات پر چوکیاں قائم ہیں اور جانچ پڑتال کے بعد ہی آگے بڑھنے کی اجازت ملتی ہے۔ہر چیک پوسٹ پر باقاعدہ اندراج ہوتا ہے۔نیلی پل سے داؤکھن تک مسلسل چڑھائی ہے اور گاڑیاں انتہائی احتیاط سے چلانے کی ضرورت ہے۔قدرتی حُسن سے مالا مال یہ علاقہ اپنی شباہت میں جنت نظیر ہے۔ہمارا پہلا پڑائو دائوکھن کے ریسٹ ہاؤس میں تھا۔یہ ریسٹ ہاؤس محکمہ سیاحت کی جانب سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے اردگرد کی فلک بوس چوٹیاں بے حد نظر افروزہیں۔گوجر اپنے ڈھورڈنگروں کے ہمراہ ڈھوکوں میں آبسے تھے اور گہما گہمی کا ماحول تھا۔اسی ریسٹ ہاوس میں رات کو بانسری والا اپنے فن کا مظاہرہ کرکے ہمارے دل کو موہ لیتا ہے۔یہاں پر تمام طرح کے موبائل فونز کے نیٹ ورکس بند ہوجاتے ہیں۔ان علاقوں میں صبح کا منظر انتہائی شاندار ہوتا ہے۔ہر طرف گہرا سکوت اور پرندوں کے مسلسل نغمے کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔
ایک شب قیام کے بعدہم وادی ء لیپہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔اب یہ سفر نشیب کا سفر ہے۔لیپہ کسی حسین لڑکی کا نام ہوتا تو اس کے دل تک اترنے میں اتنی مشقت نہ اٹھانی پڑتی جتنی لیپہ ویلی تک پہنچنے میں اٹھانی پڑی۔مقامی دوستوں کے مطابق کسی قدیم زبان میں لیپہ'' پہلی رات کی دلہن '' کو کہا جاتا تھا۔ اس حسینہ پریہ نام جچتا بھی ہے۔سدرشن فاخر نے تو کسی ایک موڑ سے زندگی شروع کرنے کا گیت لکھا تھا لیکن دائوکھن سے لیپہ کی طرف جانے کے لیے ہمیں کم وبیش سترہ موڑ کاٹنے پڑے۔ سیدھے راستے بھی یکسانیت کا استعارہ ہیں۔اگر ہم 'حرض' سے 'البطحاء جانے والی 256 کلومیٹر طویل شاہراہ''الطریق السریع 10 '' پر سفر کریں تو راہ میں کوئی موڑ یا چکر نہیں آئے گا۔ یہ سیدھی سڑک سعودی عرب کی شان وشوکت کی نمائندگی کرتی ہے لیکن پاکستان میں لیپہ ویلی کو جانے والے راستے بھی چوبیس کیرٹ سونے سے کم نہیں ہیں۔ان راستوں کے پیچ و خم زندگی کی طرح تنوع سے بھرے ہوئے ہیں۔یہ راستے ہمیں چاک و چوبند رکھتے ہیں۔اس راستے پر گھوڑوں اور خچروں کے قافلے گامزن تھے۔مسلسل اترائی سے لگ رہا تھا جیسے ہم چاہِ بابل میں اتر رہے ہیں۔ہم نشیب کی نفسیات سمجھنے کے لیے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہورہے تھے۔دھان کے سرسبز لہلہاتے کھیت اور ان پر مقامی پرندوں کی آمدورفت مسرور کررہی تھی۔جس اکلوتی سڑک پر ہم رواں دواں تھے وہ برف باری کے دنوں میں مکمل ڈھک جاتی ہے اور لوگ رسیوں کے ذریعے برفیلے راستوں سے گزرتے ہیں۔فطرت پہاڑوں پر بہت مہربان ہے اسی لیے پہاڑوں کا دامن قدرتی وسائل اور دلآویز نظاروں سے بھرا ہوا ہے۔اس راستے پر محتاط ہوکر چلنا پڑتا ہے۔خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آنے والی گاڑیوں سے ٹکر ہوسکتی ہے۔نظاروں کی کشش میں کھو کر غیر محتاط ڈرائیور کھائی میں جا گرتا ہے۔
لیپہ ویلی تقسیمِ ہند سے پہلے ضلع کپواڑہ کا حصہ تھی اور اسے'' کرناہ ویلی'' بھی کہا جاتا تھا۔لیکن اب تحصیل لیپہ آزاد کشمیر کے ڈسٹرکٹ ہٹیاں بالا کا حصہ ہے۔اب ہم لیپہ ویلی کے مرکزی بازار سے گزر رہے تھے۔بہتے پانیوں کے بیچ لکڑی سے بنی دکانیں اور کہیں کہیں کچے مکانات نظر آرہے تھے۔وسیع وعریض میدانوں میں پھیلی سرسبز و شاداب لہلہاتی فصلیں تہ دار قطعوں کی صورت بہت دیدہ زیب لگ رہی تھیں ۔دھان اور مکئی کے کھیت سیڑھیوں پر بچھائے ہوئے قالین کی طرح دل افروز تھے۔سیب اور اخروٹ کے پھلدار گھنے جنگلوں کی خوشبو چہار سمت پھیل رہی تھی۔یہاں قیمتی جڑی بوٹیوں کا ایک جہان آباد ہے۔ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشموں سے پیاس بجھانے والوں کی کمی تو نہیں لیکن بلند و بالا پہاڑوں کی ہیبت لرزہ طاری کردیتی ہے۔پہاڑوں سے جھرنے پھوٹتے ہیں اور آبشاروں کے نیچے سے گزرنے والے پانی کے موتیوں سے طراوت محسوس کرتے ہیں۔لیپہ ویلی کا سب سے حسین مقام نوکوٹ گلی ہے۔پہاڑوں کے دامن میں پھیلے ہوئے دھان کے کھیتوں کا نظارہ عجب سرشاری میں مبتلا کردیتا ہے۔۔شمس بری سے ڈھلتے شمس کو دیکھنا یقیناََ زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا۔گہرے بادلوں سے جھانکتی پہاڑوں کی چوٹیاں اور سورج کی نرم و مدھم کرنیں رنگوں کی قوسِ قزح بنا رہی تھیں۔گردونواح میں جانوروں کے گلوں میں باندھی ہوئی گھنٹیوں کی سست آوازیں کانوں کو بھلی لگتی ہیں۔ہمارا سفر جاری رہتا ہے۔
اب ہم وادی کے پرکشش مقام چنیاں پہنچ چکے تھے۔یہ انتہائی حسین گائوں ہے۔خالص کشمیری زندگی کا مشاہدہ کرنا ہو تو سیاحوں کو اس گائوں میں کچھ وقت گزارنا چاہیے۔جدید دنیا سے بے نیاز یہ گائوں خواب ناک زندگی کا محور ہے۔لکڑی سے بنے ہوئے گھر وں میں سادہ زندگی گزارنے والے کشمیریوں کو دیکھ کر زندگی کا ایک الگ مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔یہاںپر زندگی ماں کے سینے سے لگ کر سوئے ہوئے معصوم بچے کی طرح دکھائی دیتی ہے ۔ لوگ گندم کو پیسنے کے لیے پن چکیوں کا استعمال کرتے ہیں۔لکڑی سے بنی ہوئی ان پن چکیوں کو پانی کے بہائو سے چلانے کا کامیاب مظاہرہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔پانی کا بہاؤ پن چکی کو طاقت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ لوگ پانی کی رفتار کو تکنیکی طور پر استعمال کرکے قدیم زمانوں کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔پانی سے چلنے والی روایتی پن چکی جو بہتے پانی کی ندیوں کے ساتھ واقع تھیں۔ان چکیوں کو گھرے اور ان کو چلانے والے ''گھراتی'' کہلاتے ہیں۔پانی کے دھاروں سے پہیے کو موڑ کر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ ایک بڑے پتھر کو تراش کردرمیان میں بڑا سوراخ بنایا جاتا ہے پھر اس میں گندم کو پیس کر استعمال کیا جاتا ہے۔اناج روایتی بھڑولوں میں رکھ کر محفوظ کیا جاتا ہے۔کچھ لوگ آٹا پیسنے کی مشین کو ''آسیا'' پن چکی اورقدیم طریقے سے چاول صاف کرنے کی مشین کو ''پیکو'' بھی کہتے ہیں۔دھان کے سِٹوں سے جب چاول نکال لیتے ہیں تو مْنجی کی پرالی کو خشک کرکے گٹھوں میں باندھ لیا جاتا ہے ۔پھر کسی درخت یا گھر کی چھتوں پر اسے ترتیب سے رکھ کر محفوظ کرلیتے ہیں تاکہ سردیوں میں آگ جلانے اور جانوروں کے کام آسکے۔ چنیاں میں نالا قاضی ناگ بہتا ہے۔جنگلوں کے بیچوں بیچ پانی کی رفتار مدھم ہوجاتی ہے۔عام طور پر سیاح اسی نالے میںنہاتے ہیں اور نالا قاضی ناگ کی دُم پکڑنے کے لیے پیدل نکل پڑتے ہیں۔لیکن لائن آف کنٹرول کی وجہ سے زیادہ تر سیاحوں کو سرحدی علاقے کے آس پاس جانے کی اجازت نہیں ملتی۔چنیاں وہی مشہور مقام ہے جو مقبوضہ کشمیر کے نزدیک ترین تصور کیا جاتا ہے۔قاضی ناگ یہاں سے آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے۔ماضی قریب میں مقامیوں کی بڑی تعداد نے جنگ کا سامنا کیا ہے۔لوگوں کے جانور مر گئے، گھر اجڑ گئے اور مسلسل فائرنگ کی وجہ سے انسانی زندگیوں کا بھی نقصان ہوا۔گولہ باری سے انسانوں اور قدرتی ماحول کے نقصان کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ بارودی سرنگوں کے مسائل اور ناگہانی آفتوں کا خوف بھی کشمیریوں کی زندگی کو کرب میں مبتلا رکھتا ہے۔ لیکن اب حالات مکمل قابو میں ہیں اور سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے معیشت میں بھی بہتری آرہی ہے۔چنیاں کے مقام پر سرکاری طور پر بھی سیاحت کے لیے کام ہورہا ہے۔تالاب بنا کر فیملیز کے لیے محفوظ سیاحت کا بندوبست یقیناََ سیاحت کے لیے اہم قدم ہے.شب بسری کے لیے ہم نے اس گائوں میں ڈیرے ڈال لیے۔
وہ سحر انگیز شب تھی۔ہلکی ہلکی پھوار سے پتوں نے مترنم ہوکر گیت سنائے۔ بارش کی بوندوں سے لکڑی کی چھتیں بھی مہک رہی تھیں۔ہم نے ٹھنڈے میٹھے چشموں کے کنارے سرسبز گھاس کے فرش پر بیٹھ کر شام کا کھانا کھایا۔ہمارے میزبان نے خاص طور پر چٹ پٹے کھانوں کا بندوبست کیا تھا۔اُبلے ہوئے چاول ، گائے کا خالص گرم دودھ اور شکر کی صورت لذتِ دہن کا خوب اہتمام تھا۔شب بسری کے کمرے کو روایتی کشمیری انداز میں سجایا ہوا تھا۔نرم تکیے پر کاڑھے پھول کسی دوشیزہ کے خوبصورت ہاتھوں کا شاہکار تھے۔جولائی کے دوسرے ہفتے میں بھی خنکی بڑھ رہی تھی۔نیم دراز ہوتے ہی ہمیں نیند کی دیوی نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
صبح دم سورج کی جھلمل کرتی کرنوں نے پیشانی کے نرم بوسے سے ہمیں جگایا۔ہم شوقِ دیدار میں منہ دھوئے بغیر ہی کشمیری پھولوں کو چومنے گھر سے نکل پڑے۔آب حیات سے نمو پاتے وسیع و کشادہ باغات میں پھلوں کے علاوہ رنگ برنگے پھولوں کی مہک بھی ماحول کو خوشگوار بنارہی تھی۔آڑے ترچھے پہاڑوں کی بلندیوں سے پگھلتی برف اور قدرتی چشموں کی رفتار پہلے پہل حیرت اور پھر انجانے خوف میں مبتلا کردیتی ہے۔چنیاں گائوں کا ہر گوشہ پرکیف دکھائی دے رہا تھا۔پرندوں کی چہچہاہٹ ،دودھیا دھاروں، تابہ فلک پربتوں اور ہواؤں کی اٹھکھیلیوں سے عجب فسوں پھیل رہا تھا۔ ہمارے ایک طرف نالا قاضی ناگ بہہ رہا تھا اور دوسری طرف قد آور دیودار اور اخروٹ کے درخت، گھراٹ، پیکو اورجنگلی پھول تقدیسِ فطرت کا خاموش سُر بکھیر رہے تھے اورساتھ ہی کچی مسجد کے اسپیکر سے خدائے عظیم کی حمد وثنا بہشت نما منظر پیش کررہی تھی۔وہاں کے مقامی باشندے لبگراں میں حضرت مٹھا بابا سرکار کے دربار میں حاضری دینے ضرور جاتے ہیں۔یہ درگاہ لائن آف کنٹرول کے عین ساتھ ہے۔وہاں عقیدت مندوں کا ہمیشہ رش رہتا ہے۔اس گائوں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ۔کچن اور دیگر امورِخانہ داری کے علاوہ مویشی سنبھالنے میں بھی برابری کی سطح پر ہاتھ بٹاتی ہیں۔اب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوچکا تھا۔شوق اور مضبوط اعصاب کے بغیر مسلسل چڑھائی، پیچیدہ موڑ ، ناہموار اور تنگ راستے طے کرنا آسان نہ تھا۔ وادی ء جنت نما کی دل آفریں ، نظر افروز اور روح پرور یادیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی تھیں۔ہم نے دمِ واپسیں ہر نظارے کو سلامِ عقیدت پیش کیا اور کشمیر سے ڈھیروں محبتیں سمیٹ کر گھر لوٹ آ ئے۔ ||
مضموں نگار، شاعراور سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے