شہداء کی ماؤں کے انداز ہی شاہانہ ہوتے ہیں اور کیوں نہ ہوں آخر وہ اپنے جگر گوشوں کو اس دھرتی کی بقا اور سلامتی کے لیے قربان کر کے ملک کے لیے اپنے حصے کا فرض ادا کر چکی ہوتی ہیں اور نہ صرف ایک بچہ قربان کر نے پر اکتفا کرتی ہیں بلکہ اپنی باقی اولاد کو بھی شہادت کے اسی جذبے کے لیے تیار کرتی ہیں ۔ آج ہم ایک ایسی ہی عظیم ماں سے مل کر ان کے اس شہید بیٹے کی کہانی سنانے جارہے ہیں جس نے اپنے فرائض کی ادائیگی اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور اپنی والدہ کو ایک شہید کی والدہ کے رتبے پر پہنچایا اور باقی دو بچے بیٹا اور بیٹی بھی پاک فوج میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں کیپٹن شرجیل شنواری شہید کی ۔آج ہم کیپٹن شرجیل شہید کی والدہ اور بہن سے کیپٹن شرجیل شہید کی زندگی کے بارے میں خوبصورت یادیں تازہ کریں گے ۔کیپٹن شرجیل شہید گھر کے سب سے بڑے بیٹے تھے ان کے بعد ایک بہن اور چھوٹا بھائی ہیں ۔
رسمی سی گفتگو کے بعد جب کیپٹن شرجیل شہید کی والدہ نے اپنے شہید بیٹے کی زندگی کے اوراق پلٹے تو کہنے لگیں کہ 3 جنوری 1986 جمعہ کا وہ مبارک دن تھا جب اللہ تعالی نے مجھے ما ں جیسے رتبے پر فائزکیا۔والدہ کہتی ہیں کہ میرے شرجیل نے پشاور کے خوبصورت شہر میں آنکھ کھولی پہلا لباس اس کو زیبِ تن کیا گیا اور آخری لباس بھی اس کو سی ایم ایچ پشاور میں ہی پہنایا گیا اور ساتھ ہی آنسوؤں کی ایک لمبی سی لڑی ان کے رخساروں سے بہنے لگی لیکن گفتگو کا سلسلہ تھمنے نہ دیا اور کہا کہ جب شرجیل کی پیدائش پر اس کو پہلا جوڑازیب تن کیا پھر اس کو تیار کر کے ہم راولپنڈی آ گئے۔
والدہ کہتی ہیں کہ خاندان کا پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے شرجیل نے ننھیال اور ددھیال دونوں سے خوب پیار سیمٹا اور سب کی آنکھ کا تارا بنا۔ گھر میں سب پیار سے ان کو سنی کہتے تھے ۔ان کے نانا جو کہ انگلینڈ میں مقیم تھے سنی کو پیار سے سنی صاحب کہہ کر پکارتے تھے ۔ پھر لٹرکپن سے سکول تک کا سفر شروع ہوا شرجیل دوسروں بچوں کی طرح نہ زیادہ ضدی تھا نہ شرارتی ۔وہ بہت سلجھی ہوئی طبیعت کا مالک تھا۔آنکھیں موٹی اور رنگ گورا ہونے کی وجہ سے جو معصومیت اس کے چہرے پر تھی اس کی وجہ سے جب وہ سکول میں ہر ٹیچرکا پسندیدہ بچہ تھا اور اس کے علاوہ وہ ذہین بھی بہت تھا ۔وہ سکول سے آ کر کھانا بھی بعد میں کھاتا تھا پہلے ہوم ورک مکمل کرتا تھا۔شرجیل کے والد چونکہ آرمی میں بطور میجر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے اور راولپنڈی سے باہر ہی زیادہ تر ان کی پوسٹنگز ہوتی تھیں اس لیے اپنے تینوں بچوں کی دیکھ بھال میں نے خود اکیلے ہی کی ہے۔شرجیل نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز آرمی پبلک سکول ویسٹرج راولپنڈی سے کیا۔
کیپٹن شرجیل شہید کی بہن نے مزید بتایا کہ بھائی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمیں کالونی کے لوگ آکر بتاتے ہیں کہ ہم آپ لوگوں کو نہیں جانتے مگر ہم پر آپکے بیٹے کیپٹن شرجیل شہید کے لیے دعا کرنا فرض ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ہماری والدہ جو سیڑھیاں نہیں اتر سکتیں تھیں ضعیف ہیں ان کا گھر آ کر چیک اپ کیا تھا کوئی کہتا ڈاکٹر صاحب نے پارک میں میرے دادا بو کو چیک کیا تھا کیونکہ وہ ہسپتال نہیں جانا چاہتے تھے ۔
وہ اپنی کلاس کے بہترین طالبعلم تھے۔ وہ دوسری کلاس سے ساتویں کلاس تک ہمیشہ پوزیشن ہولڈر رہے۔ شرجیل جب بھی کلاس میں فرسٹ آتے تو ان کی والدہ ان کے رزلٹ کارڈ کی فوٹو کاپی ان کے نانا کو انگلینڈ بھجواتی تھیں اور سنی صاحب کو ان کے نانا پاؤنڈ بطور انعام بھجواتے تھے ۔ان کی والدہ کا مزید کہنا ہے کہ میرے شرجیل کو 'نجم شہید' میڈل بھی ملا ہے اور یہ صرف ان اسٹوڈننس کو ملتا ہے جو اپنی کلا س میں فرسٹ آنے کے ساتھ ساتھ تما م سیشکن کے بچوں سے زیادہ مارکس لیتا ہو۔
اس کے بعد شرجیل ساتویں کلاس کے بعد کیڈٹ کالج کوہاٹ کے لیے سلیکٹ ہوا۔ جس دن آرمی پبلک سکول میں ساتویں کلاس کا رزلٹ تھا اسی دن کیڈٹ کالج کے لیے شرجیل کا انٹرویو تھا۔ والدہ کہتی ہیں کہ شرجیل کی خوشی اس دن دیدنی تھی ۔شرجیل کو اس کے ابو کو ہاٹ انٹرویو کے لیے لے گئے تھے اور میں خوشی کے مارے شرجیل کے سکول جا پہنچی اور اسکی کلاس ٹیچر سے پوچھا کہ میں شرجیل کا رزلٹ کارڈ کیسے حاصل کر سکتی ہوں تو ٹیچر نے کہا کہ سب کا اناونس ہو جائے گا تو آکر مجھ سے شرجیل کا رزلٹ کارڈ وصول کر لیں ۔میں بھی دوسرے والدین کی طرح سٹیج پر چلی گئی اور شرجیل کا رزلٹ کا رڈ وصول کیا ۔سب نے بہت سراہا اور خوب تالیاں بھی بجائیں۔ یہ بات بتاتے ہوئے کیپٹن شرجیل کی والدہ کی آنکھیں نم ہو گئیں وہ سسکیا ں لے لے کر رونے لگیں اور کہا کہ مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کی سال کی محنت کا کارڈ وصول کیا تھا۔
آرمی پبلک سکول سے آٹھویں پاس کرنے کے بعد کیڈٹ کالج کوہاٹ میں سلیکشن کے بعد کوہاٹ کیڈٹ کالج چلے گئے ۔اور وہاں ایوب ہاؤس کے بورڈنگ سکول میں رہنے لگے۔ کیڈٹ کالج کوہاٹ میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھیل کے بہترین میرٹ کے ساتھ بطور ملٹری کیڈٹ سلیکٹ ہوئے اور آرمی میڈیکل کالج میں رازی کمپنی مل گئی ۔یہاں پر بھی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہاکی اور دوسری سوشل سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے لگے لیکن کیپٹن شرجیل شہیدخطاطی کے میدان میں بھی نمایاں رہے انھوں نے بہت سے اللہ کے صفاتی ناموں کواپنے ہاتھوں سے لکھا جو آج بھی ان کے کمرے کی الماری میں آویزاں ہے ۔
کیپٹن شرجیل شہید کی والدہ خود بھی ایک مذہبی خاتون ہیں ۔شرجیل کو بھی مذہب سے بہت لگاؤ تھا اور شرجیل کی چھوٹی بہن اور بھائی دونوں حافظ قرآن ہیں ۔
والدہ کا کہنا ہے کہ میری اور شرجیل کے والد کی زندگی کا مقصد ہی اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کرنا تھا ۔ کیپٹن شرجیل شہید کے والد میجر شاہد نے ہمیشہ بچوں کو اعتماد دیا اور ماں ہونے کے ناتے میں نے بہت ہی پیار اور محبت دی جیسا کہ ہر ماں کرتی ہے ۔ہمار ا مقصد تھا کہ ہمارے تینوں بچے مسلمان ہو نے کے ساتھ ساتھ بہترین اور کامیاب انسان بنیں اور میں چاہتی تھی کہ یہ تینوں ایسے مسلمان بنیں کہ جن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
والدہ کا مزید کہنا تھا کہ میرے بیٹے شرجیل کے ہاتھ میں اللہ نے شفا رکھی ہوئی تھی وہ ایک خوش اخلاق انسان تھا۔ والدہ کہتی ہیں کہ میں اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں بہت کامیاب رہی ہوں میں نے اپنے حصے کا چراغ اپنے بیٹے کی شہادت کے بدلے دیا ہے اور اس دھرتی پر اپنے ہونے کا حق بھی ادا کیا ہے اور مزید ایسے کئی چراغ دیگرماؤں نے بھی جلائے ہوںگے ۔ہمارے شہیدوں کا خون کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گااور پھر لمحے بھر کے لیے خاموشی طا ری ہوئی ۔
دوبارہ گفتگو کا آغازہوا تو والدہ نے کہا کہ میرے باقی بچے ابھی چھوٹے تھے اور شرجیل چونکہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور ان کے والدکی پوسٹنگ راولپنڈی سے باہر تھی اس لیے گھر میں شرجیل نے بڑا بیٹا ہونے کا حق ادا کیا اور باقی دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت میں میرا بہت ساتھ دیا ۔ میرے چھوٹے دو بچوں کی کامیابیوں میں شرجیل کا بہت ہاتھ تھا ۔شرجیل بچپن سے ہی بہت سمجھ دار اور عقل مند تھاشاید اسی لیے کہ اس کو اپنی چھوٹی سی زندگی میں بڑے بڑے اور زیادہ کام کر نے پڑ گئے تھے ۔
شمیلہ شاہد (کیپٹن شرجیل شہید کی چھوٹی بہن ) سے ہم نے کیپٹن شر جیل کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ بھائی ہمیشہ مجھے بس پڑھنے کے تلقین کیا کرتے تھے، کہتے تھے سوتے ،جاگتے پڑھتی رہو اور خودبھائی بھی ایسے ہی تھے اور وہ خود نہ صرف کتابوں میں کھوئے رہتے بلکہ شرجیل بھائی بہت اچھی خطاطی کرنا بھی جانتے تھے ۔ اس نے بہت سے فن پارے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیے تھے ۔اور میڈیکل کے آخری سال شرجیل بھائی کو خطاطی میں اول انعام بھی ملا تھا۔پھر ان کی بہن نے مزید ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور بتایا کہ شرجیل بھائی نے چھوٹی چھوٹی چوڑیوں میں "اسمائے حسنہ "بہت حوبصورت پینٹ کیے ۔ان کی یہ سب چیزیں اور تمام ٹرافیاں، انعامات اورنجم شہید میڈل (جو ساتویں کلاس میں ان کو ملا تھا)ہم گھر والوں نے ڈرائنگ روم کے ایک کارنر میں سجائے ہوئے ہیں ۔
ہم دونوں آرمی میڈیکل کالج میں اکھٹے ہی پڑھتے تھے ۔گھر میں بے تکلف دوست ہونے کے باوجود ہم کالج میں صرف ضرورت کے وقت ملتے تھے ۔ساتویں کلاس کے بعد کیڈٹ کالج اور پھر ایف ایس سی کے بعد آرمی میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہے اور یہ پورا سال انہوں نے اپنی ہاؤس جاب کے طورپر گزارا۔پھر ماضی کے اس ورق کو کیپٹن شرجیل شہید کی والدہ نے مزید ایسے یادگار بنایا کہ شرجیل کوپڑھائی سے جیسے ہی فرصت ملے تووہ اپنا وقت فضول کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے دین کے کسی کام میں صر ف کرے۔
کیپٹن شرجیل شہید کی بہن نے مزید بتایا کہ بھائی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمیں کالونی کے لوگ آکر بتاتے ہیں کہ ہم آپ لوگوں کو نہیں جانتے مگر ہم پر آپکے بیٹے کیپٹن شرجیل شہید کے لیے دعا کرنا فرض ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ہماری والدہ جو سیڑھیاں نہیں اتر سکتیں تھیں ضعیف ہیں ان کا گھر آ کر چیک اپ کیا تھا کوئی کہتا ڈاکٹر صاحب نے پارک میں میرے دادا بو کو چیک کیا تھا کیونکہ وہ ہسپتال نہیں جانا چاہتے تھے ۔
کیپٹن شرجیل شہید کی بہن کہتی ہیں کہ میرا بھائی ڈاکٹر تو بنا اور حسبِ توفیق خدمتِ خلق بھی کر لی مگر اسے اپنی ڈگری دیکھنا نصیب نہ ہوئی جو ان کی شہادت کے بعدآئی۔ 'یہ کہتے ہوئے وہ تھوڑی سی آبدیدہ بھی ہوئی مگر پھر سبنھل گئی' کیونکہ ان کو خوف تھا اگر انہوں نے حوصلہ توڑا تو پھر والدہ کو کون سنبھا لے گا؟ انہوں نے مزید بتایا کہ بھائی نے شہادت سے قبل تین عیدیں ہمارے ساتھ نہیں کیں ۔کبھی سیلاب زدگان کی خدمت کے لیے سندھ جاتے توکبھی کدھر۔پھر عید الفطر پر بھائی کو وانا جانا پڑ گیا ۔
2012 کی عید قرباں پر ہمیں انتظار تھا کہ بھائی آئیں گے تو ہم مل کر عید منائیں گے لیکن اس عید کے آنے سے پہلے ہی وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اب ہم ہر عید ان کے بغیر ہی گزارتے ہیں۔
جب بات آئی کیپٹن شرجیل شہید کی شادی کے حوالے سے تو ان کی والدہ نے بتایا کہ ہمارا بھی ارمان تھا کہ اپنے بیٹے کے سر پہ سہرا دیکھتے لیکن ہمار ی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کہتی ہیں کہ جب میں نے شرجیل سے شادی کی بات کی تھی تو کہنے لگا کہ پہلے شمیلہ (چھوٹی بہن)کی شادی کر لیں تب تک میرا ہارڈ ایریا بھی مکمل ہو جائے گا میں بعد میں کر لوں گا شادی اور فرمانبرادار تو وہ اتنا تھا کہ جب میں نے پوچھا کہ شرجیل بیٹا اگر کوئی آپکی پسند ہے تو بتادیں تو کہنے لگا یہ آپ کا کام ہے بس اتنی سی گزارش ہے کہ لڑکی سر پر سکارف لیتی ہو۔
کیپٹن شرجیل شہید کے بھائی شمویل آج کل سیالکوٹ میں آرمرڈ کور کی ایک یونٹ میں بطور میجر میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں انہوں نے ہم سے اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ میری خواہش ہی رہ گئی کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ یونیفارم میں تصویر بنواتا۔ بہن کے بھی یہی تاثرات تھے۔کیپٹن شرجیل شہید کی بہن کا کہنا ہے کہ جب بھائی کو پاکستانی پرچم میں سپر د ِ خاک کیا جارہا تھا تو میرے سامنے بھائی کا مسکراتا ہوا چہرہ بار بار آرہا تھاجو آخری دفعہ کوہاٹ سے جاتے ہوئے دیکھا تھااورآخر میں وہ پاکستانی پرچم میں لپٹے اس دنیا سے بھی بہت شاہانہ انداز میں گئے ہم نے ان کے جنازے سے بڑا جناز ہ آج تک کسی کا نہیں دیکھا۔
اب ہم باقی ماندہ زندگی بھائی کی یادوں کے سہارے ہی جی رہے ہیں اور پھر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور زاروقطار رونے لگیں پھر میں نے کچھ لمحے دل کو مظبوط کیا اور سوچا کی شہید کی ماں بہن اور بیٹی ہونا کسی عام عورت کے بس کی بات نہیں ہے ۔
کپٹن شرجیل شہید کی والدہ کا کہنا ہے کہ میری زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب جن پر مجھے صبر کرنا تھا جیسے کے اپنے والد اور والدہ کی وفات اور پھر سب سے بڑھ کر شرجیل کی شہادت نے تو جیسے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہو۔ 20ستمبر کو شرجیل کی شہادت 21ستمبر کو اس کی تدفین یہ دو دن تو جیسے میر ی پوری زندگی پر بھاری ہوں۔ ایک ماں کی حیثیت سے میری ساری قوتیں ہی سلب ہو گئی ہیں۔شہید کا دکھ صر ف وہی ماں جان سکتی ہے جن کے جگر گوشے ان کی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں زندہ ہو ں گی اور میرا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہو گا۔ آخر میں میں اپنے شہزادے کے بارے میں یہی کہوں گی کہ میں تو بالکل ایک عام سی خاتون ہوں مگر میرا بیٹا شہید ہو کر مجھے شہید کی ماں بنا کر میرا رتبہ بلند کر گیا ہے۔ اللہ تعالی میر ی پاک فوج کو سلامت رکھے۔ مجھے اپنی پاک فوج سے اتنی محبت ہے کہ میں اس پر اپنا ایک بیٹاتو کیا سارے بچے قربان کر سکتی ہوں۔اس لیے تو میری بیٹی شمیلہ شاہد آج پاک فوج میں بطور میجر ڈاکٹراور میرا چھو ٹا بیٹا شموئیل بھی پاکستان آرمی میں بطور میجر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔اس سے بڑھ کر میں اپنے وطن کو کیا پیش کروں ؟
اپنی جاں نظر کروں ؟ اپنی وفا پیش کروں قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں ۔اس موقع پر مجھے یہی ملی نغمہ اچھا لگا تو میں نے اس کے چند اشعار گنگائے اور پھر ایک فخر والی نگاہ کیپٹن شرجیل شہید کی والدہ پر ڈالی اور ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اللہ میرے ملک کو ان جیسی ہزاروں ماؤں سے مستفید رکھنا ۔پاک فوج زندہ باد۔ ||
مضمون نگارایک اخبار کے ساتھ بطورایسوسی ایٹ ایڈیٹرمنسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے