کیپٹن حافظ کاشان علی نویدبھمبر کے علاقے میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج سے جھڑپ میں مارٹرگولے کاشیل لگنے سے زخمی ہوئے اوربعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 8 اگست 2020 کو جام شہادت نوش کرگئے۔ کیپٹن کاشان شہیدکے بہادر والدلیاقت علی نوید اورباہمت والدہ شہناز لیاقت نے آج بھی اپنے گھر میں شہیدکوملنے والی اسناد، شیلڈز اور ان کی مختلف خوبصورت تصاویر اور یونیفارمزسجا رکھے ہیں۔یہ محب وطن اورعظیم والدین لوگوں کوبڑے فخر کے ساتھ شہید کی یہ چیزیں دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ'' دیکھو!یہ تھا ہمارا پیارااوربہادر بیٹا جس نے سات سالہ فوجی کیریئر میں بہترین خدمات انجام دیں ،بہت سے انعامات حاصل کیے اور پھر دشمن فوج کے ساتھ لڑتا ہو اوطن پرقربان ہوگیا''۔
کیپٹن حافظ کاشان علی نویدکی بلندحوصلہ والدہ جب اپنے بیٹے کی یادیں ،باتیں اوربچپن کی شرارتیں تازہ کرتی ہیں تو بسا اوقات ان کے ضبط کابندھن ٹوٹنے لگتاہے اور ان کی آنکھوں سے آنسورواں ہونے لگتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک نہایت بلند حوصلہ ماں بھی ہیں جنہیں آج بھی اس بات پر کوئی ملال نہیں کہ انہوںنے اپنے لخت جگر کو پاک فوج میں کیوں بھیجا تھا۔وہ فخر سے بتاتی ہیں کہ میرا بیٹا وطن کی خاطر جنوبی وزیرستان میں لڑتے ہوئے غازی بنا اورپھر لائن آف کنٹرول(بھمبرسیکٹر) پر سبزہلالی پرچم کی خاطر دشمن سے لڑتا ہوا جام شہادت نوش کرگیا۔ وہ اپنے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتی ہیں کہ وہ ایک حافظ قرآن اور شہید کی ماں ہیں۔
کیپٹن حافظ کاشان علی نویدکی والدہ صاحبہ نے ''ہلال''سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کاشان شہید 23نومبر1992ء کولاہورمیں قدیم آبادی کرشن نگر (اسلام پورہ)میں پیدا ہوئے اوران کابچپن اسی علاقے میں گزرا۔شہید نے پانچویں جماعت تک تعلیم یہیں سے حاصل کی۔اس کے بعدہم واپڈاٹائون گئے توکاشان کو ہم نے دی ایجوکیٹرسکول جوہرٹائون میں داخل کروادیا۔اس ادارے سے کاشان نے شاندار نمبروں سے میٹرک کاامتحان پاس کیا اور ہائی فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔کاشان شہید نے KIPSکالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیااوراس کے بعد فوج میں اپلائی کیا۔کیپٹن کاشان شہید کا تعلق پی ایم اے131 لانگ کورس سے تھا اوروہ تربیت کے بعد انفینٹری کی28سندھ رجمنٹ میں شامل ہوئے۔شہیدکی والدہ بتارہی تھیں کہ کاشان کے تمام دوست احباب واپڈاٹائون سے تعلق رکھتے ہیں اورپورے ٹائون کے لوگ آج بھی اسے بہت یاد کرتے ہیں۔ واپڈاٹائون قبرستان میں ہی شہید کو دفن کیا گیاہے۔ شہید کی قبر پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہاہے۔فلائٹ لیفٹیننٹ عباد الرحمن شہید کی قبر بھی قریب ہی واقع ہے ۔اللہ ان تمام شہیدوںکے درجات بلند فرمائے۔شہید کی والدہ ماجدہ کی آوازمیں بہت دکھ تھا اورآنسوں رواں تھے ۔کہنے لگیں کہ کاشان کے بعد میری تو زندگی ہی ویران ہو چکی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی سوچتی ہوں کہ آخر اللہ نے مجھے ایک شہید کی ماں بھی بنادیاہے، جومیرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے لیکن کیا کروں کی اولاد کا دکھ ہی ایسا ہوتا ہے کہ بس...... اللہ کسی ماںکو یہ دکھ نہ دے۔بے شک اللہ نے ہمیں ایسے بچے عطا فرمائے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ان سب شہید بچوں کی عادات و اطوار ایک جیسی ہوتی ہیں۔میں چونکہ اب بہت سارے شہید بچوں کے والدین سے ملتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی یہ سب بچے ایک ہی جیسی فطرت لے کرا س دنیامیں آئے تھے۔سب مائیں جب ان کی عادتیں بتاتی تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بچے خاص طور پر ''God Gifted'' ہوتے ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ ہم اتنے پیارے اوربہادر بچوں کے والدین ہیں۔ بس جدائیوں کا غم ہے جو کسی صورت بھی چین نہیںلینے دیتا۔اللہ ان کی شہادتوں اور ہماری دعائوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان پیارے جوانوں کی قربانیوںکے صدقے اس مملکت خداداد کو ہمیشہ قائم ودائم رکھے۔ میں سمجھتی ہوںکہ پاک فوج ہمارا کنبہ ہے۔ہمارے بے شمار بچوںنے جس طرح دفاع وطن کے لیے قربانیاں دی ہیں، پاک فوج نے بھی پھر ہمارے ساتھ وفاکی ہے اور ہمیشہ ہمیں یاد رکھا۔اللہ کریم ہماری فوج کو اور ہمارے پیارے وطن کو سدا سلامت رکھے اور دشمن کونیست و نابود کردے۔
کیپٹن کاشان علی نوید کی پہلی پوسٹنگ جنوبی وزیرستان میں تھی۔اس نے ایک آپریشن میں حصہ لیا اور خطرناک دشمنوں کو گرفتار کیاتاکہ ان سے مزید تفتیش کر کے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیاجائے۔ان دہشت گردوں کو گرفتار کرنے پر کیپٹن کاشان کے کمانڈر نے اپنے بازو سے اپنی گھڑی اتار کر انہیں تحفے میں دی تھی۔کاشان کی بہادری، فرض سے لگن اور عسکری صلاحیت کی ان کے کمانڈروں اورفوجی ساتھیوںنے بہت تعریف کی ۔ اس وقت کے آرمی چیف کی طرف سے بھی انہیں تعریفی سند سے نوازا گیا۔13اگست2015ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کیپٹن کاشان علی نوید شہید کے نا م ایک Commendation Cardجاری کیا جس میں پاک فوج کے سربراہ نے لکھا کہ:
''فرض کی ادائیگی میں آپ کی انتھک لگن،بے لوث محنت اور عمدہ کام کی وجہ سے آپ کانام میری توجہ میں لایاگیا ہے۔میں آپ کو اس مثالی فرض شناسی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو اس کااجرعطا فرمائے۔میں نے ہدایت کی ہے کہ آپ کی اعلیٰ کارکردگی کو ریکارڈ پر لایاجائے''۔
شہیدکی والد ہ بتارہی تھیں کہ کاشان زخمی ہونے سے15دن قبل گھر چھٹی گزار کر واپس ڈیوٹی پربھمبرآزاد کشمیر گیااورتقریبا ً 12دن بعد وہ پھر گھر آیا تو میں حیران رہ گئی کہ ابھی توا پ چھٹی گزا ر کر گئے ہو اور اتنی جلدی دوبارہ آگئے۔جب میں نے اس کا زخمی باز و دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ کوئی مسئلہ بن گیا ہے۔پھر اس نے مجھے بتایا کہ ماں جی ! میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے ساتھ ایک جھڑ پ میں زخمی ہوگیاتھا اورمارٹر کاایک شیل میرے بازوسے آرپار ہوگیا ہے،میں12دن سی ایم ایچ کھاریاں میں داخل رہا اور اب مجھے مزید ریسٹ اور علاج کے لیے تین ماہ کی چھٹی پر گھر بھیجا گیاہے۔میں نے اپنی بہو اور دیگر گھروالوں سے کہاکہ سب لوگ کاشان کی خوب خدمت کروتاکہ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔پھر ایک دن وہ اچانک ہمیں چھوڑ کر چلاگیا۔بتایا گیاکہ اس کی شہادت ہارٹ اٹیک کے سبب ہوئی تھی۔دراصل اسے جو زخم آیا تھاوہ بھی کافی گہراتھا۔کاشان کی شہادت کے بعد پاک فوج نے بھمبر میں ایک روڈ کانام ان سے منسوب کر کے ایک تختی نصب کی ہے جس پر شہید کے کارنامے درج ہیں ۔کاشان مجھے بتاتاتھا کہ اس نے بھمبر میں لائن آف کنٹرول پر ایک بڑی دیوار اور دو کمرے تعمیر کروائے تھے ، یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ یہاں ہروقت بھارتی فوج کی نظریں رہتی تھیں اور شدید شیلنگ ہوتی تھی لیکن کیپٹن کاشان نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر یہ کام جلد کروادیا۔یہ کا م توبعد میں مکمل ہوگیا لیکن اسے دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ یہ مقام کاشان شہید کے نام سے منسوب کیاگیا ہے۔کاشان نے سات سال نوکری کی اور وہ دومحاذوں کاغازی رہا۔اس نے ساڑھے تین سال جنوبی وزیرستان میں گزارے اور بعدمیں بھمبر میں ایل او سی پر دفاعِ وطن کے لیے خدمات انجام دیں۔محترمہ شہنازلیاقت نے بتایا کہ وہ بہت ذہین اور ہردلعزیزجوان تھا۔ جہاں بھی بیٹھتا تھا محفل لوٹ لیتا تھا۔بہن بھائیوں کے ساتھ مل جل کررہنا اسے اچھا لگتاتھا۔
میرے بیٹے کانام کاشان تھا تو اللہ نے اس کو'' شان''بھی بہت عطا کر دی۔ اللہ نے اسے بہت عزت سے نوازا۔وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے۔اپنے پیاروں کو بھی لوگ بھول جاتے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ بھی شہید کواعزازحاصل ہے کہ وہ کبھی لوگوں کے دلوں سے محونہیںہوتا۔والدین ،بہن بھائی تو اسے ہمیشہ یاد رکھتے ہی ہیں لیکن ایسے ہیروز کو پوری قوم بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھتی ہے۔کاشان شہید کی شادی شہادت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی تھی، یہ ایک بہت خوبصورت جوڑی تھی۔میر ی دعا ہے کہ اللہ کریم میری بہو کے نصیب اچھے کرے۔آمین۔
شہید کی والدہ محترمہ نے بتایا کہ کیپٹن کاشان علی نوید نے 2006ء میں اقراء اشرف الاطفال کالج روڈ ،ٹائون شپ سے قرآن پاک حفظ کیاتھاتواس وقت ادارے کی جانب سے اس کی دستار بندی کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جس میں ہم سب نے شرکت کی ۔انہیں ادارے کی جانب خصوصی انعام بھی دیاگیا،یہ ایک بڑی یادگار تقریب تھی۔
شہید کے والدین نے بتایا کہ ہم توا سے انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن اُسے پاک فوج میں جانے کا شوق تھا اور ایف ایس سی کا امتحان پاس کرتے ہی اُس میں ایک جنون پیدا ہو گیا کہ میں نے آرمی جوائن کرنی ہے۔ ہم ان دنوں حج بیت اللہ شریف کے لیے جارہے تھے تو کہنے لگا کہ میرے لیے دعا کیجیے گاکہ میں پاک فوج میں سلیکٹ ہوجائوں۔ہم نے اسے کہا کہ آپ انجینئر بنو گے ،لیکن اس کی ایک ہی ضد تھی کہ میں نے فوج میں جانا ہے ہم نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اسے بخوشی اجازت دے دی۔ہم نے اسے دعا دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا جو آپ کے حق میں بہتر ہو اللہ وہی کرے ۔یہ بات کرتے ہوئے شہید کی والدہ کی آواز رندھ گئی ، کہنے لگیں کہ پھر شاید اللہ کو یہی منظور تھا کہ وہ فوج میں گیا اور پھر جام شہادت نوش کر گیا۔
شہید ِوطن کیپٹن کاشان شہید کی نماز جنازہ میں اہم سیاسی ،عسکری و سماجی شخصیات اور عام شہریوںنے شرکت کی اور انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ واپڈاٹائون لاہور میں سپرد ِخاک کیاگیا ۔اہالیانِ لاہورآج بھی اپنے اس ہیرو کو یاد کرتے ہیں اورانہیں شاندارالفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ||
مضمون نگار ایک قومی اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے