موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی صورت بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر یہی موت کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے عزت و وقار کے راستے پر چلتے ہوئے نصیب ہو جائے تو یہ انسان کے لیے اعزاز بن جاتی ہے پھر اُس انسان کی خوش نصیبی کے تو کیا کہنے جس کو وطن کی حفاظت کے لیے میدانِ کار زار میں داد ِشجاعت دیتے ہوئے شہادت کی ابدی زندگی مل جائے۔
شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہڈالی ضلع خوشاب کا وہ خوش نصیب شہر ہے جس کی سرزمین پر جنم لینے والے غیور ،جرأت مند ،بہادر ،باہمت اورمحب ِوطن بیٹوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ناموسِ وطن کے تحفظ کے لیے ہمیشہ اپنی جانوں کا نذ رانہ پیش کرتے ہوئے اپنے گرم خون سے ملک کی آبیاری میں بھرپور حصہ لیا۔ قیام ِپاکستان سے تاحال ضلع خوشاب کی تاریخ میں سب سے زیادہ شہادت کا تاج سرپرسجانے والے سرفروشوں میں ہڈالی سرِفہرست ہے۔
شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہڈالی ضلع خوشاب کا وہ خوش نصیب شہر ہے جس کی سرزمین پر جنم لینے والے غیور ،جرأت مند ،بہادر ،باہمت اورمحب ِوطن بیٹوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ناموسِ وطن کے تحفظ کے لیے ہمیشہ اپنی جانوں کا نذ رانہ پیش کرتے ہوئے اپنے گرم خون سے ملک کی آبیاری میں بھرپور حصہ لیا۔ قیام ِپاکستان سے تاحال ضلع خوشاب کی تاریخ میں سب سے زیادہ شہادت کا تاج سرپرسجانے والے سرفروشوں میں ہڈالی سرِفہرست ہے۔
قیام پاکستان کے فوری بعد 1948ء کے پہلے پاک بھارت معرکے میں کشمیر کے محاذ پرجامِ شہادت نوش کرنیوالے خوش نصیبوں میں ہڈالی کے تین جان نثاروں اللہ دتہ بھٹی شہید ، میاں محمد تھہیم شہید اور محمد صادق سنبلی شہید کے نام جگمگاتے نظر آتے ہیں ۔ 1948ء کے پہلے معرکے کے صرف دس سال بعد 1958ء میں بھی پاک بھارت جنگ ہوئی جومشرقی پاکستان کے محاذ پر لڑی گئی ،اس محاذ پر ہڈالی کے سپاہی محمد امیر بالی نے جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے وطن پرجان نچھاور کر دی۔ پھر سات سال بعد 1965ء میں بھی مکار دشمن نے پاکستان کی سا لمیت پر حملہ کرنے کی ناپاک سازش کی۔ دشمن کا خیال تھا کہ نوزائیدہ مملکت ِخُداداد پاکستان بھارت جیسے بڑے ملک کے لیے ترنوالہ ثابت ہو گی لیکن اُسِ کو معلوم نہیں تھا کہ جذبہء جہاد سے سر شارموت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی پر موت کو ترجیح دینے اور شہادت کی تمنا رکھنے والی قوم جاگ رہی ہے، ستمبر 1965ء سے قبل اپریل مئی سے ہی رن آف کچھ کے علاقہ میں بھارت نے اپنی جارحانہ کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں جو کہ متنازع علاقہ تھا اور بھارت اُس پر زبردستی فوج کشی کے ذریعے اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن اس محاذ پراُسے منہ کی کھانا پڑی اور پاک فوج کی جوابی کاروائی پر اُسے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
رن آف کچھ کے اس معرکہ میں ہڈالی کے سپاہی مہر علی بالی شہید جن کا تعلق پاکستان رینجرز سے تھا آخری دم تک اپنے مورچے پر ڈٹے رہے اور دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
پھر ستمبر 1965ء میں مکاردشمن نے جب رات کی تاریکی میں وطن عزیز پر بُزدلانہ حملہ کرنے کی جرأت کی تو پاکستانی قوم مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیواربن گئی اور پاکستان کی مسلح افواج اور عوام نے متحد ہوکر دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا،جس کی مثال تاریخ میں نہیںملتی۔ معرکہ ستمبر میں لاہور سیکٹر پر ہڈالی کے جن دو جوانوں نے دشمن کا پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا ،ان میں سوار شیر محمد ٹوانہ شہید اور پاکستان رینجر کے سپاہی عبدالحمید شہید شامل ہیں۔ آج بھی پاکستان رینجر ز ہیڈکوارٹرز لاہور میں یادگار شہدا ء پر ہڈالی کے سپاہی مہر علی بالی شہید اور سپاہی عبدالحمید شہید کے نام ثبت ہیں ۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہڈالی کے جِن چھ نوجوانوں نے پاکستان کی بقا کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا اوروہیں آسودہ خاک ہوئے، اُن میں نائیک محمد رمضان سپراشہید ،کلرک خُدا بخش کلیارشہید،لانس نائیک شیر محمد شہید، سپاہی حبیب نواز بھٹی شہید اور سپاہی رحمت اللہ مغل شہید شامل ہیں۔جبکہ اِسی معرکہ میں مغربی پاکستان کے محاذ پر ہڈالی کے جن چار جوانوں نے دفاعِ وطن کا قرض ادا کیا اُن میں سیالکوٹ سیکٹر میں رسالدار شاہ سوار مستیال شہید، لاہور سیکٹر میں سوار سرفراز خان شہید ،سپاہی احمد حکیم سنبلی شہیداور حُسینی والا سیکٹر میں سپاہی خُدا بخش چھبورا شہید شامل ہیں۔ ان بڑی پاک بھارت جنگوںکے علاوہ مختلف معرکوں ،محاذوں اورسرحدی جھڑپوں میں وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے والوں میں 1988ء میں سکردو کے مقام پر سپاہی محمد ایوب بُھٹہ شہید ،سپاہی محمد ممتاز کندی شہید اور سپاہی عطامحمد مغل شہید نے آبرو ئے وطن پر قربان ہو کر برف زاروں میں شہادت کے پھول کھلائے، اندرون ملک سما ج دشمن عناصر کی سر کوبی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں 1986ء میں دادوکے مقام پر صوبیدار نورمحمد سنبلی شہید اور ڈی ایس آرامان ا للہ وڈھل نے شہادت پائی۔ صوبیدار نورمحمد سنبلی کو ان کی بہادری پر ''تمغہ بسالت'' سے نوازا گیا۔1990ء میں سپاہی عطا محمد نے کشمیر میں اپنے خون کی لالی سے ارضِ وطن کی مانگ بھری جبکہ1993ء میں صومالیہ میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حوالدار رانا حبیب اللہ شہید نے جامِ شہادت نوش کرکے وطن عزیز کا پرچم سر بلند کیا ۔
1993ء ہی میں سپاہی محمد رمضان کندی شہید سکردو میں دشمن سے ایک جھڑپ میں شہادت کے عظیم رتبے پر سرفراز ہوئے، 1998ء میں ڈی آئی جی بہاولپور ملک محمد اشرف اعوان شہید دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ 1999ء کے معرکہ کارگل کے دوران لانس نائیک حبیب نواز بھٹی شہید اور میجر احمد خان وڈھل ٹوانہ شہید نے دشمن سے پنجہ آزمائی میں جرأت وبہادری کی داستان رقم کرتے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر سبز ہلالی پرچم لہرایا بعد از شہادت میجر احمد خان وڈھل ٹوانہ کو ''تمغہ بسالت ''سے نوازا گیا۔
2000ء میں کشمیر میں لانس نائیک احمد نواز اعوان نے دشمن کی گولیوں کی بوچھاڑ کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں خُلعت شہادت پائی۔
2007ء میں دانا کے مقام پر لانس نائیک خضرحیات انجم شہید نے دہشت گردوں سے مقابلہ میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی ۔
ارضِ وطن میں بیٹا تیرا دھرتی ماں تو میری
آنسو خون پسینہ اپنا بھر دیے مانگ میں تیری
ہڈالی کے یہ وہ انمول ہیرے ہیں جنہوں نے شجاعت،بہادری،جرأت اور جواںمردی کی داستان رقم کرتے ہوئے آبروئے وطن پر قربان ہو کر نہ صرف شہر، علاقے اور ملک وقوم کا سر فخر سے بلند کیا بلکہ اللہ کے حضور شہادت کا تاجِ زریں سجا کر سر خر د بھی ہوئے۔
سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو
ایسی راہوںسے جب تم گزرنے لگو
سورہا ہے جہاں اک شہید وطن
اک لگن میں مگن عاشقی کارتن
اک انمٹ روشنی ایک امربانگپن
دست بستہ دبے پاؤ ں چلنا وہاں
اور تعظیم میں
خوں سے لتھڑی ہوئی آستیں چومنا
اپنے سرکو جُھکا کر زمیں چومنا
یہ مکاں چومنا
یہ مکیں چومنا ||
مضمون نگار شعروادب سے خصوصی لگائو رکھتے ہیں اور خوشونت سنگھ لائبریری ہڈالی (ضلع خوشاب) کے منتظم ہیں۔
تبصرے