زمین کے ماتھے پر سجے قدرتی گہنوں کو سدا خوبصورتی سے سنبھالے رکھنا ہنر ہے، ایسے ہاتھوں کے ملاپ سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں سانس کی ڈوری بنا کسی رکاوٹ جسم و جاں سے بندھی رہتی ہے، جہاں گھٹن سا ماحول تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا، ہم مڑ کر تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو "صفائی نصف ایمان ہے" کا حقیقی منظرنامہ ہمارا منتظر دکھائی دیتا ہے، وقت کا پہیہ گھوما بارہ سے بارہ کو پہنچنے والی سوئیاں تیز،بہت تیز چلیں تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو ترقی کی جستجو میں اس قدر تیزی سے دوڑے ہیں کہ زندگی کے کئی خوبصورت پہلو ہم سے کہیں پیچھے رہ گئے۔ ہم نے اپنی آسانی کے لیے مشینیں بنا لیں ہر شے کو توڑ مروڑ کے "سمارٹ یوز" کی ڈبی میں قید کرنے کی خاطر ہم نے انکی بناوٹ سے بچنے والے کوڑ کباڑ سے قدرتی پہاڑوں کو کچرے کے پہاڑوں میں بدل دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
آج حالات یہ ہیں کہ دنیا کے کئی ملکوں میں کچرا ٹھکانے لگانے کو نہ وقت ہے نہ وسائل اور نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ہمارا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے جہاں چاروں موسم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے' ککلی کلیر' کھیلتے ہیں جہاں بادل آکر ہمارے کہساروں سے آنکھ مچولی کرتے ہیں، جہاں دریا کی لہریں سات سُر بکھیرتی ہیں ایسے میں اس جنت جیسی زمین کو صاف ستھرا رکھنے کو بھلا کس کا دل نہ مچلے گا؟
کچرا کسی بھی ملک کی آب وہوا کو آلودہ کرنے کی پہلی اینٹ ہے۔ بدقسمتی سے دیہاتوں سے شہروں تک کے سفر نے پہلی اینٹ پر مزید عمارت کھڑی کرنے کا کام بخوبی سر انجام دیا۔ آبادی بڑھی تو ضروریات زندگی نے بھی بانہیں پھیلانا شروع کر دیں۔ ضرورت کی شے کا استعمال اور بچی کھچی چیزوں کو آس پاس پھینک دینے سے یہ مسئلہ سنگین ہوتا چلا گیا۔ آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں اس قدر کچرا اکٹھا ہوچکا ہے کہ اسے اٹھاتے اٹھاتے ویسٹ مینجمنٹ والے تھک جائیں مگر کوڑا کرکٹ ختم نہ ہو جبکہ ہم اچھے سے باخبر ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد گندگی کی وجہ سے زندگیوں کو خیرباد کہنے پر مجبور ہے ۔
بڑھتی ہوئی آلودگی اور تیزی سے تباہ ہوتے ماحول کو بچانے کے لیے سوچ اور فکر کی راہیں کھل چکی ہیں، کس طرح کچرے کو تلف کیا جائے یا پھر کم کیا جائے؟ اس حوالے سے نت نئے خیالات اور تصورات سننے کو مل رہے ہیں۔ آس پڑوس کے ممالک میں تو حیران کر دینے والے طریقوں سے کچرے کو استعمال میں لایا جارہا ہے کہیں اس سے بجلی بن رہی ہے تو کہیں کھاد، کہیں تو اسی کچرے سے روزمرہ ضروریات تک کی اشیا بھی بنائی جارہی ہیں۔ملائشیا اور انڈونیشیا میں لوگ پھل فروٹ کھا کر ان کی گٹھلیاں یا بیج محفوظ کرلیتے ہیں۔ پھر دوران سفر انہیں مختلف جگہوں پر پھینکتے چلے جاتے ہیں تاکہ وہاں سے جب اگلی نسل کا گزر ہو تو انہیں پھل دار درخت اور گھنے سائے تحفتاً ملتے رہیں اور یہ عمل سالوں سے چلا آرہا ہے جس سے کچرا پیدا ہی نہیں ہوپاتا۔ تیز ترقی کرتے اس دور میں ایک جدید تصور زیرو ویسٹ مینجمنٹ (Zero Waste Managment) کابھی ہے اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کچرا بالکل ہی پیدا نہ ہو یعنی کہ وسائل کا تحفظ اس طرح ممکن ہو کہ پیداوار ،استعمال ،پیکنگ اور ڈیلیوری بغیر ماحول کو آلودہ کیے، جاری رہے اور اس سارے عمل سے قدرتی نظام محفوظ رہے، ظاہری سی بات ہے کہ جب بھی کوئی شے کارخانے میں بنائی جاتی ہے تو فاضل مواد کو یا تو جلا دیا جاتا ہے یا پھینک دیا جاتا ہے اس سے ایک تو زمین پر کچرا جگہ گھیرتا ہے دوسرا اس سے ماحول بھی تعفن زدہ ہونے لگتا ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں میں یہ مسئلہ دن بہ دن دردِ سر بنتا جارہا ہے۔ صرف کراچی میں روزانہ 18000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف 9 ہزار ٹن ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے باقی کا کچرا وہیں کا وہیں پڑا رہ جاتا ہے اور یوں تھوڑا تھوڑا ہوتا یہ ڈھیر ندی نالوں کی روانی کو متاثر کرتا ہے۔ نکاسی آب کے لیے بنائے گئے پراجیکٹس بھی اسی کچرے تلے کہیں دبے چلے جارہے ہیں، پھر برسات کے دنوں میں شہر کا شہر کسی دریا کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ سونے پہ سہاگا کہ ماحول کو مزید گندہ اور حبس زدہ بناتے کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے والے کئی بحری جہاز بھی اب اپنا فضلہ سمندر میں بہا دیتے ہیںاور اسی سمندری آلودگی کی وجہ سے سمندری حیات کے ساتھ ساتھ کشتی رانی بھی شدید متاثر ہے اور کراچی سے یومیہ 8 ملین گیلن آلودہ سیوریج کا پانی اور 6 ہزار ٹن کچرا سمندر برد کیا جارہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے باقی شہروں میں بھی حکومتی سطح پر تو کہیں نہ کہیں کچرے کو تلف کرنے کے لیے ادارے تشکیل دیے گئے ہیں لیکن معاشرتی ذمہ داریوں سے عاری شہریوں کی مدد کے بغیر ان اداروں کے لیے بھی یہ کام مشکل دکھائی دیتا ہے۔گلوبل ویسٹ مینجمنٹ آئوٹ لک کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ 12بلین ٹن کچرا پیدا ہو رہا ہے جبکہ ہر شخص روزانہ کم و بیش 1 کلوگرام کچرا پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
استعمال شدہ شے کے دوبارہ استعمال کے تصور سے بھی کسی حد تک زیرو ویسٹ کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ہم نے اپنی آسانی کے لیے ایسی اشیا استعمال کرنا شروع کر دی ہیں جن کا استعمال صرف ایک بار ہی کیا جاسکتا ہے یعنی کہ استعمال کے بعد انہیں پھینک دینا جیسا کہ پلاسٹک کے برتن،کھانے کو ڈھکنے کے لیے کلنک فلم،پانی بھرنے کے لیے پلاسٹک کی بوتلیں، یہ تمام چیزیں استعمال کرنے میں تو آسان ہیں لیکن یہ ہماری صحت کے ساتھ ساتھ پورے ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ ٹنوں کے حساب سے ایسی اشیاء روز کچرا کنڈی میں شامل ہوتی ہیں کیونکہ نہ صرف یہ اشیاء گھروں بلکہ ہوٹلوں میں بھی استعمال ہورہی ہیں۔سٹیل یا مٹی کے برتن، کپڑے کے رومال، مٹی کے گھڑے اسٹیل کے جگ گلاس یہ تمام چیزیں ایک بار استعمال کرنے کے بعد دوبارہ استعمال ہوسکتی ہیں جس سے کسی حد تک کچرا پیدا کرنے میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ شوگر ملوں کے باہر ٹنوں کے حساب سے گنے کا ویسٹ ضائع ہوتا ہے کئی کئی دن اسے جلانے یا اٹھانے میں لگ جاتے ہیں جبکہ کئی ممالک اسی فاضل مواد سے بجلی تک بنا رہے ہیں یعنی کچرے کو ضائع کرنے کے بجائے اسے دوبارہ خام مال کے طور پر استعمال کر لیا جائے۔پلاسٹک،گتا،اخبارات،شیشہ ،لوہا یہ تمام اشیاء ایسی ہیں جو بے کار ہوکر بھی کارآمد ہیں، انہیں ری سائیکل کرکے مفید چیزیں بنائی جاسکتی ہیں۔ اب پاکستان میں بھی ری سائیکل کا تصور خاصا مقبول ہورہا ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے زیرو ویسٹ مینجمنٹ اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک یہ ہدف پورا کرنا ضروری ہوچکا ہے وہ ممالک جو بین الاقوامی اداروں سے فنڈز یا قرضے لیتے ہیں ان کے لیے بھی ماحول کو آلودگی سے بچانے کے اقدامات کو شرائط میں شامل کیا جاتا ہے۔ زیرو ویسٹ کو لے کر ہر صنعت کے لیے اصول بنا دئیے جاتے ہیں کہ کس طرح ماحول کو محفوظ رکھتے ہوئے پیداوار کا عمل جاری رکھنا ہوگا۔
پاکستان میں اب ماحول کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ماحول دوستی کے نت نئے طریقوں پر کام ہورہا ہے۔ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بھی اب پاکستان ماحولیاتی آلودگی کو لے کر کھل کر اپنا پوائنٹ آف ویو دنیا کے سامنے رکھ رہا ہے، واک اور سیمینارز منعقد کیے جارہے ہیں۔ زیرو ویسٹ مینجمنٹ کے اداروں کو وسائل فراہم کیے جارہے ہیں۔ ملین ٹری اور گرین پاکستان منصوبے کے تحت درخت لگائے جارہے ہیں لیکن یہ سب عوام کے تعاون کے بنا ممکن نہیں۔ اگر حکومت سخت قوانین بنائے گی تو اس پر عمل درآمد بھی ممکن بنانا ہوگا۔ جیسے حال ہی میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی گئی اسی طرح تھرموپور کے برتنوں کی فروخت پر پابندی کے فیصلے بھی کیے گئے لیکن معاشرے کو ماحول سے دوستی نبھائے رکھنے کے لیے خود کو ان قوانین کے تابع کرنا پڑے گا۔
لفظوں کے گورکھ دھندے سے نکل کر عوام کو سہل انداز میں بتانا پڑے گا کہ ماحول کی آغوش میں سکون سے پلنا بڑھنا ہے تو اسے صاف رکھنا ہمارا معاشرتی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ عوام کی شراکت کے ساتھ کچرے کو کم پیدا کرنے کا رجحان گھروں سے لے کر صنعتوں اور کارخانوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔طرز زندگی کو سادہ اور آرام دہ رکھنے کے لیے پرتعیش زندگی کے فارمولوں سے نکلنا ہوگا۔کیونکہ زیادہ کوڑا ہوگا تو اسے تلف کرنے کے لیے ذرائع بھی زیادہ درکار ہوں گے وقت بھی مہینوں چاہیے ہوگا پھر یہ مسئلہ الگ کہ کوڑے کا آخر کیا کیا جائے اگر اسے زیرِ زمین دبایا جائے گا تو وہاں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں ماحول کو گھٹن زدہ کر دیں گی اور اگر اس ڈھیروں ڈھیر کوڑے کو دریاں،ندیوں،نالوں اور سمندر میں پھینکنے کی سعی کی جائے تو آبی اور زمینی مخلوق کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ نتیجتاً آج کئی ایسی آبی حیات اور جانور ایسے ہیں جن کی نسلیں ہم اپنے ہاتھوں سے ختم کر بیٹھے ہیں،انسانی زندگی کی بقا انہی جانداروں سے جڑی ہوئی ہے جنہیں ہم اپنے ہاتھوں سے ناپید کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
کہنے سننے میں شاید عجیب لگے لیکن کچرا دراصل ایک خزانہ ہے یہ وہ سرمایہ ہے جسے کارآمد بناتے ہوئے اچھا خاصا منافع کمایا جاسکتا ہے۔ یہ کام دنیا بھر میں مقامی حکومتی کے ذمے ہے ۔اندازہ لگائیے کوڑا کرکٹ سے کس حد تک پیسہ کمایا جاسکتا ہے کہ نیویارک کی مقامی حکومت نے 2017 میں شہر کا کچرا 412 ارب روپے میں فروخت کیا۔پاکستانی معاشرے میں اکثریت ذمہ دار شہریوں کی ہے یہاں ملک سے عقیدت اور محبت میں ہر اس پراجیکٹ پر حکومتوں کا ساتھ دیا جاتا ہے جس سے وطن کو فائدہ ہو، اگر سنجیدگی سے زیرو ویسٹ مینجمنٹ پلان پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لیے قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد کیا جائے تو لوگ اپنے گھروں سے اس تصور کو فروغ دینے کے لیے آغاز کریں گے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے قدرتی حسن کو گہنانے نہ دیا جائے ،ہر وہ شے جو اسکی خوبصورتی کو نقصان پہنچائے اسے سرے سے پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے جنگلات، جھرنے،کہسار،جنگلی و آبی حیات اور انسانی زندگیوں کو جنت کے اس ٹکڑے میں صاف ستھرے ماحول کے سنگ جینے کی آزادی ہو،کیونکہ ماحولیاتی آلودگی سے پاک پاکستان ہی صحت مند پاکستان کی ضمانت ہے۔ ||
مضمون نگار صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی اور بعض اخبارات کے لیے بھی لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے