اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 02:51
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

ہلال اردو

ایس آئی ایف سی۔ پا کستان کی معاشی بحالی کے لیے ایک روشن منصوبہ

اکتوبر 2023

حکومتی امور کو بہتر انداز میں چلانے اور معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان گزشتہ سالوں سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضوں پر منحصر ہے جس کے ساتھ ساتھ ناگزیر شرائط بھی منسلک ہیں۔ان کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان عوام الناس پر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حا ل سے نبردآزما ہونے کے لیے اور مہنگائی کے گرداب سے نکلنے کے لیے20جون 2023میں اکنامک ریوایول پلان کے تحت ایسی حکمت عملی وضع کی گئی کہ جس سے معاشی استحکام پیدا ہو سکے اورباہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ اندرون و بیرون ملک سرمایہ کاری ہی ایک واضح حل ہے جو کہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔  
اس ضمن میں موجودہ فوجی و سیاسی قیادت کی معاونت سے ایس آئی ایف سی ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ دینا اور ایسا ماحول فراہم کرنا جس میں ٹیکس کی آسان شرائط ہوںاور سنگل ونڈو سسٹم ہواور جو یقین کی فضاء قائم کر سکے۔ 



پاکستانی فوج ایک ایسا واحد ادارہ ہے جو قائد اعظم کے سنہری قول  " ایمان ، اتحاد اور تنظیم "  پر عمل پیرا ہے اورپاکستانی عوام جب بھی مشکلات میں مبتلا ہوئی خواہ وہ قدرتی آفات سے متعلق ہوں یا اندورنی و بیرونی دشمن کے حملوں کی صورت میں، ہر حال میں افواج پاکستان نے صف اول میں آ کراپنا مثبت کردار اداکیا اور امن و امان کی فضاء قائم کی۔ حالیہ معاشی عد م استحکام اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فوجی قیادت اپنا مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے میدان عمل میں آئی اور معیشت کی بحالی کے لیے انہوں نے ہرطرح کی ممکنہ معاونت کی پیشکش کی۔


ایس آئی ایف سی کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سول وملٹری باہمی اشتراک کے ساتھ پاکستان کی معاشی خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں۔اس ضمن میں زراعت کے سیکٹرمیں گرین پاکستان کے وژن کے تحت24جولائی2023 کو خانیوال ماڈل ایگری کلچر فارم کاافتتاح کیا گیا اوریکم اگست2023کو منرل سومٹ کا انعقاد جس میں پاکستان کے معدنیات سے بھر پورقد رتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کا مواقعوں کو نمایاں کیا گیا۔این اے ایس ٹی کانورخان بیس میں4اگست 2023کو افتتاح کرنے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکٹرکو اجاگر کیا گیا ۔ علاوہ ازیں لاہور اور کراچی کی کاروباری کمیونٹی کے ساتھ اور پاکستان کے بیرون ممالک نمائندگان سے و یبنار کے ذریعے ہائی اتھارٹی کی میٹنگ کی گئی جس میں ایس آئی ایف سی سے متعلق بریفنگ دی گئی۔


ایس آئی ایف سی(سپشل انوسٹمنٹ فاسیلیٹیشن کونسل) ، ابھرتے ہوئے روشن پاکستان کا ضامن ہے۔ اسے چارٹر آف اکانومی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایسا منظم ادارہ ہے جس میں مکمل حکومتی حمایت اپروچ کے ذریعے کاروبا ر کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا شامل ہے جس میں پاکستان آرمی کا تعاون ہر سطح پر یقینی بنایا جائے گا۔اس ادارے کے زیر اثر سرمایہ کاری کے لیے زراعت اور لائیو سٹاک کو گرین پاکستان ، کان کنی اور معدنیات کو پاکستان کے عجائب ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ڈیجیٹل پاکستان اور انرجی کو روشن مستقبل کے وژنز کے ساتھ منتخب کیا گیا ہے۔
ایس آئی ایف سی کے مینڈیٹ درج ذیل ہیں:
1۔ اوپربیان کردہ سیکٹرز میں سرمایہ کاری اور پرائیوٹائیزیشن پر توجہ دینا
2۔ سرکاری عوامل میں اور بیوروکریسی کی رکاوٹوں کو دور کرنا
3۔ سرمایہ داروں کے لیے سنگل ونڈو سسٹم قائم کرنا
4۔ ایز آف ڈوینگ بزنس(کاروبار کرنے میں آسانی) کے تحت ٹیکس میں چھوٹ اور سپیشل اکنامک زون کی سہولت فراہم کرنا
5۔ پاکستان میں مخفی استعداد اورصلاحیتوں سے آگاہ ہونا
6۔ ادارے کے تمام تر معاملات میں پاک آرمی کی طر ف سے تعاون، شامل ہیں۔
 ایس آئی ایف سی کے بنیادی ڈھانچے میں تین طرح کی کمیٹیاں شامل ہیں۔ پہلی اپیکس کمیٹی جو کہ وزیر اعظم ، چیف آف آرمی سٹاف اور صوبو ں کے چیف منسٹرز پر مشتمل ہے ۔ ان کے زیر اثر ادارے کی کارکردگی کا ہر ماہ دو بارجائزہ لیا جائے گا۔ دوسری ایگزیکٹیو کمیٹی منسٹرز لیول سے متعلق ہے اورجس میں فوج کی طر ف سے قومی کوآرڈینیٹرشامل ہیں۔ تیسری امپلی مینٹیشن کمیٹی میں وزیراعظم کا مشیرخاص اور فو ج کی طر ف سے ڈائریکٹر جنرل کا تقر رکیا گیا ہے جن کے ماتحت ہر ایک سیکٹر کی ڈویژن ہے جواپنی فیلڈ میں ریسرچ اینڈ ڈیلوپمنٹ ،انوویشن اورحکمت عملی بنانے کے ساتھ ساتھ آپریشنزکو کنٹرول کریں گے۔ ان تمام تر کمیٹیوں کا اجتماعی طور پر یہ مقصد ہے کہ قومی و بین الاقوامی سطح پرپاکستان میں سرمایہ کاری کی آگاہی پیدا کرنا، بہترین حکمت عملی اورقومی مفاد کو بنیاد بنا کر پروجیکٹس کی منظوری دینا اور بغیر رکاوٹوں کے عملی لحاظ سے کامیاب کرنا شامل ہے۔
خوش آئند با ت یہ ہے کی اس ادارے کے قیام اور آپریشنزمیں سیاسی و فوجی قیادت ایک ہی پلیٹ فارم پر مل کر کام کر رہی ہیں۔ ایس آئی ایف سی کے ابتدائی ہدف میں پانچ ملین ڈالرز کی غیر ملکی بلاواسطہ سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) ہے اور آنے والے مزید پانچ سے دس سالوں میں سو ملین ڈالرز کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ایف ڈی آئی سے مراد ، ایسا فنانشل ٹول ہے جس کے تحت غیر ملکی سرمایہ کار یا حکومت کسی دوسرے ملک میں منافع، روزگار اور اقتصادی ترقی کی غرض سے سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے متحدہ عرب امارت کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے تا کہ یہ ممالک پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے نا صر ف اپنے لیے منافع کو بڑھائیں بلکہ پاکستان کی معیشت کوبھی بہتر کر نے میں کارگر ثابت ہوں گے۔   


ایس آئی ایف سی(سپشل انوسٹمنٹ فاسیلیٹیشن کونسل) ، ابھرتے ہوئے روشن پاکستان کا ضامن ہے۔ اسے چارٹر آف اکانومی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایسا منظم ادارہ ہے جس میں مکمل حکومتی حمایت اپروچ کے ذریعے کاروبا ر کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا شامل ہے جس میں پاکستان آرمی کا تعاون ہر سطح پر یقینی بنایا جائے گا۔اس ادارے کے زیر اثر سرمایہ کاری کے لیے زراعت اور لائیو سٹاک کو گرین پاکستان ، کان کنی اور معدنیات کو پاکستان کے عجائب ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ڈیجیٹل پاکستان اور انرجی کو روشن مستقبل کے وژنز کے ساتھ منتخب کیا گیا ہے۔


ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1965میں جنرل ایوب خان کے دورحکومت میں سب سے زیادہ ایف ڈی آئی ہوئی جو کہ پاکستانی ٹوٹل جی ڈی پی کا 22.7 فیصد تھی اور اس بڑھوتری کی شرع 5.81 فیصد تھی۔2023میں اب یہ صرف 13فیصد ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اس کو بڑھا کر 15فیصد تک لے جایا جائے۔ 
اسی طرح ماضی میں پاکستان پر غیر ملکی دفاعی مصنوعات کی خریداری پر بھی پابندیاں عائد ہوئیں جس کی وجہ سے دفا عی سازوسامان کی اندرون ملک میں پروڈکشن کا آغاز ہوا ۔جس کا نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ پاکستان دفاعی مصنوعات میں اب دنیا بھرمیں اپنی بہترین کوالٹی کی وجہ سے مشہور ہے اور بہت سے ممالک دفاعی مصنوعات کی خریداری میں پاکستان کو ترجیح دیتے ہیں۔ بالکل اس طرح کی جدوجہد کی ابتداء اب معاشی طورپر خودکفیل ہونے کے لیے ہے۔ ماہرین نے پاکستان کے جغرافیہ اوراور اس کے مخفی وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے منافع بخش سیکٹرز کا انتخاب کیا ہے تاکہ اس سے جلد ازجلد معاشی بحالی ممکن ہو سکے۔ 
یہ ادارہ ایک روشن پاکستان کی ضمانت لے کر ابھرا ہے اور اس میں ایسا مثالی میکانزم متعارف کروایا گیا ہے کہ جس سے معاشی بحالی یقینی ہو سکے گی۔ اس ادارے کا مرکزی مقصد ایف ڈی آئی کو فروغ دینا ہے تو اس سے متعلق مشہور معیشت دانو ں نے اپنے نظریات پیش کیے ہیں جن میں سب سے زیادہ چار نظریات شامل ہیں۔ ان کو کسوٹی بنا کر اگر فوائد حاصل کئے جائیں تو مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
تھیوری آف امپرفیکٹ مارکیٹ: 
اس تھیوری کے بانی سٹیفن ہامر اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ ایف ڈی آئی کیوں کسی ملک میں آتی ہے۔ ان کے نزدیک دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی اجارہ داری قائم کرتی ہیں۔ وہ کسی بھی ملک میں اس وجہ سے سرمایہ کاری کرتی ہیں کہ اس ملک کی لوکل کمپنیوں کے ساتھ مل کر معاہدہ طے کرتی ہیں کہ دونوں اپنی اپنی مصنوعات کو برا بری کی سطح پر ہی فروخت کریں گی تا کہ دونوں کو ایک جیسا منافع حاصل ہو سکے اور ان کے کاروبار میں امپرفیکٹ مارکیٹ سب سے زیادہ موزوں ہے ۔ کیونکہ ایسی مارکیٹ میں سوداگر اور خریدار دونوںہی مارکیٹ پر اثرانداز ہوتے ہیں اورمصنوعات کی نامکمل سی معلومات ہی مارکیٹ میں پائی جاتی ہے۔ 
پروڈکٹ لائف سائیکل تھیوری:
 ایف ڈی آئی کب کسی ملک میں آتی ہے اس کا جواب ہمیں اس تھیوری سے ملتا ہے۔ تما م تر مصنوعات اپنے تین مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلا بڑھوتری کی طرف جس میں ایک خاص حد تک فروخت ممکن ہو سکتی ہے ۔ دوسرا مرحلہ میچورٹی کا ہے جس میں فروخت برقرار رہتی ہے اور اس مرحلے کے بعد آخر میں کمی کی طر ف رجحان شروع ہو جا تا ہے ۔ جب یہ آخری مرحلہ آتا ہے تو کمپنیاں دوسر ے ممالک کے رخ کرتی ہیں جہاں پر ان کی فروخت ابھی شروع نہیں ہوئی اور قدر بھی زیادہ ہے۔ مزید اس بات کا بھی خیا ل رکھا جا تا ہے کہ وہاں یہ ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے نہ تبدیل ہو جتنی کہ ان کے اپنے ملک میں ہو چکی ہے۔
انٹرنیشنلائزیشن اپرووچ تھیوری: 
اس تھیوری کے مطابق نہ صرف مصنوعات بلکہ انٹرمیڈیٹ اشیاء مثلاً معلومات، پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک وغیرہ کے ذریعے سے ایسی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں جس کی مانگ دوسرے ممالک میں زیادہ ہے اور اپنے ملک میں نہ ہونے کے برابر۔
 ایکلیک ٹک تھیوری: 
اس تھیوری کا دوسرا نام او ایل آئی پیراڈئم بھی ہے۔ جو کہ تین طرح کے فوائد پر مبنی ہے۔ پہلا ملکیت ہے جس میں بیرون ملک سرمایہ کار کسی دوسرے ملک کی کمپنی کو خرید لیتے ہیں او ر اس کے تمام تر آپریشن کو کنٹرول کرتے ہیں تا کہ منافع حاصل کرسکیں اور اس ملک کی اکنامک حالت کو بہتر کر سکیں۔ دوسرا لوکیشن ہے جس میں ملک میں موجو دہ ٹیکس کی پالیسز، ہنر مند افراد کا موجود ہونا، کم لاگت پر مزدوری جیسی کاروباری سہولیات کا ہونا ہے۔ اور آخری انٹرنیشنلائزیشن ہے جس میں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے ٹارگٹ مارکیٹ بڑی ہو اور ان کی ٹیکنالوجی کی نقل بھی ممکن نہ ہو سکے۔
 جہاں روزگا ر کے مواقع زیادہ ہوںگے، ہنر مند افراد میں اضافہ ہو گا ، تکنیکی و مالی تعاون ہوگا، برآمدات میں اضافہ ہو گا اور مسابقتی مارکیٹ کا ماحو ل پیدا ہو گا وہاں ساتھ ساتھ مقامی انڈسٹری کا متبادل، ماحولیاتی آلودگی میں زیادتی، مقامی ثقافت کی تباہ کاری اور سیاسی بدعنوانیوں جسے خدشات بھی پروان چڑھیں گے۔تمام مندرجہ بالا تھیوریز کے مطابق پاکستانی کو بہت غوروفکر کے بعد سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کا جائزہ لینا ہو گا اور اس بات کاخاص طور پرخیال کرنا ہو گا کہ ان کی شرائط کیا ہیں اور پاکستانی قومی مفاد میں ہیں ۔ مزید براں دونوں طرفین کے فوائد میں توازن ہونے سے ہی ان تمام خدشات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔
ایس آئی ایف سی کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سول وملٹری باہمی اشتراک کے ساتھ پاکستان کی معاشی خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں۔اس ضمن میں زراعت کے سیکٹرمیں گرین پاکستان کے وژن کے تحت24جولائی2023 کو خانیوال ماڈل ایگری کلچر فارم کاافتتاح کیا گیا اوریکم اگست2023کو منرل سومٹ کا انعقاد جس میں پاکستان کے معدنیات سے بھر پورقد رتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کا مواقعوں کو نمایاں کیا گیا۔این اے ایس ٹی کانورخان بیس میں4اگست 2023کو افتتاح کرنے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکٹرکو اجاگر کیا گیا ۔ علاوہ ازیں لاہور اور کراچی کی کاروباری کمیونٹی کے ساتھ اور پاکستان کے بیرون ممالک نمائندگان سے و یبنار کے ذریعے ہائی اتھارٹی کی میٹنگ کی گئی جس میں ایس آئی ایف سی سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
اس ادارے کے قیام پر مختلف ماہرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہا ر کیا جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایکسپرٹ شعیب احمد شیخ جو کہ بول نیٹ ورک اور ایگزٹ کے بانی ہیں، ان کے مطابق صرف آئی ٹی سیکٹر ہی پچاس ملین ڈالرز پاکستان کی معیشت میں اضافہ کرسکتا ہے اور یہ شارٹ ٹرم میں ممکن بھی ہے۔ اس کے حصول کے لیے انہوں نے تین حل پیش کیے ہیں۔ پہلا مقامی کاروباری حضرات کو ٹیکس میں آسانی جیسی سہولیات دی جائیںتا کہ وہ اپنا تمام تر منافع و جمع پونجی پاکستان میں لا سکیں۔ دوسرا حکومتی فنڈز کی بجائے وینچر کپیٹل سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ تیسرا IT-Enabled انڈسٹریز کی ٹیکس میں چھوٹ دے کر اوربہترکاروباری پالیسیز سے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جا سکے جو کہ ملک کے اقتصادی نظام پہ ڈائریکٹ اثر انداز ہوگا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر قیوم سلہری جو ایس ڈی پی آئی کے ایگزیٹیو ڈائر یکٹر ہیں، نے اپنی آراء کو ایک انٹرویو میں پیش کیا جس میں انہوں نے واضع کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی ایف ڈی آئی کو بڑھانے سے متعلق منصوبہ سازی کی گئی تو بیوروکریسی اور پروسس کی روکاٹوں اور فالو اپ کے فقدان کی وجہ سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہو سکے مگر اب سول و ملٹری ایک پلیٹ فارم پر ہیںاور کاروباری پالیسز میں تسلسل بھی نظر آرہا ہے جو کہ عوام الناس کی سپورٹ اور بہتر کوآرڈینیشن سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے اس با ت پر زور دیا کہ عوام کے اعتماد کو صرف اور صرف اب حقیقی معنوں میں ترقی اور سہولیات کی فراہمی سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔جس طرح سے کوویڈ کے دور میں این سی او سی کے ساتھ حکومت کی بہترین کوآرڈینیشن سے پاکستان کو اس عالمی وباء سے چھٹکارا حاصل ہوا اورتمام اداروں کی انتھک محنت اور مثبت کردار کی وجہ سے پاکستان FATFکی گرے لسٹ سے نکلا۔  اسی طر ح سے کاروباری پالیسیزمیں ترمیم کے ساتھ ساتھ کوآرڈینیشن بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ||


مضمون نگار الیکٹرونک انجینیئر ہیں اور ٹیکنالوجی سے متعلق موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]