کہا جاتا ہے کہ ترقی سڑک پر چل کر آتی ہے اور سڑک پاکستان اور چین جیسے دو برادر پڑوسی ممالک کے درمیان ہو اور اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد شروع کیا جائے تو ترقی کی رفتار اور معیار کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔رواں سال جولائی میں سی پیک کی 10 ویں سالگرہ منائی گئی۔ پاکستان چین ترکی وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے درمیان جغرافیائی قربت اور مواقع کی بنا پر ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ خاص طور پر چینی مصنوعات کی عالمی منڈی تک بآسانی رسائی کے لیے پاکستان کے راستے گوادر پورٹ اور اس سے آگے سمندری راستے سے دنیا بھر تک رسائی جو کبھی ایک خواب دکھائی دیتا تھا، اقتصادی راہداری کے ذریعے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔پاک چین اقتصادی راہداری60 ارب ڈالر کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندی تک پہنچ جائیں گے اور یہ طویل راہداری چین کے صوبے سنکیانگ کو باقی تمام دنیا سے پاکستان کی مدد سے جوڑے گی اور یوں چین مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
اس منصوبے کے تحت دونوں ممالک شاہراہوں، ریلویز اور پائپ لائنز کے ذریعے باہم منسلک ہوں گے۔ اس منصوبے کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے سرفہرست گوادر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تکمیل ہے اور کچھ چھوٹے منصوبے اس کا حصہ ہیں ان میں سے ایک شاہراہ قراقرام کی توسیع ہے۔ ایک فائبر آپٹک لائن بھی دونوں ممالک کے درمیان بچھائی جائے گی۔
سی پیک کے تحت گزشتہ 10 برس کے دوران 2 لاکھ براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرنے والے 30 سے زائد منصوبے مکمل ہو چکے ہیں،سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ 60 بلین ڈالر کا چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبہ پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو فروغ دینے، غربت میں کمی لانے، وسیع پیمانے پر فوائد پھیلانے اور نئے تجارتی راستے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنے کے لیے بے پناہ امکانات فراہم کرتا ہے۔چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)نے ان ترقیاتی کاموں کو فروغ دے کر خود کو پاکستان کے لیے ایک اہم اقتصادی محرک کے طور پر ثابت کیا ہے جو اس کے بنیادی ڈھانچے، توانائی، برآمدات، تجارت، نقل و حمل، زراعت، روزگار، ادویات، آئی ٹی، موبائل ٹیکنالوجی اور بہت کچھ کو بہتر بنا رہے ہیں۔گزشتہ 10 برس کے دوران، 200,000 براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرنے والے 30 سے زائد منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور مزیدتکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اس کے علاوہ 6000 میگاواٹ سے زائد بجلی نیشنل گرڈ میں ڈالی جا چکی ہے، 809 کلومیٹر ہائی وے بنائی گئی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی گئی ہیں۔ دس سال قبل اپنے قیام کے بعد سے سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے۔ اکتوبر 2022 تک، 6,370 میگاواٹ سے زیادہ کی مجموعی صلاحیت کے 11 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، اور 880 کلومیٹر طویل ایچ وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی گئی ہے۔ تقریباً 1,200 میگاواٹ کی گنجائش والے مزید تین منصوبے2023-24 میں مکمل ہونے کی امید ہے۔ حال ہی میں 1,320 میگاواٹ تھر کول بلاک ون نے کمرشل آپریشن شروع کیا ہے۔ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے منصوبوں کے علاوہ کئی دوسرے منصوبے زیر تکمیل ہیں، جو پاکستان کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو مزید فروغ دیں گے۔ خیبرپختونخوا میں 884 میگاواٹ کے سکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا پہلے ہی 70 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، جس کی صلاحیت 1,124 میگاواٹ ہے، 700.7 میگاواٹ کی صلاحیت والا آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 50 میگاواٹ چیچوونڈ پاور پراجیکٹ بھی زیرتکمیل ہیں۔ ویسٹرن انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ ونڈ پاور پراجیکٹ ایک اور منصوبہ ہے، جس کی صلاحیت 50 میگاواٹ ہے۔ ان منصوبوں سے ملک کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد ملے گی، لوگوں کو صاف اور سستی توانائی ملے گی۔مکمل ہونے کے بعد یہ منصوبے قومی گرڈ میں بجلی کی ایک قابل ذکر مقدار شامل کریں گے، جس سے درآمدی ایندھن پر ملک کا انحصار کم ہو جائے گا۔مزید برآں، سی پیک نے پاکستان کو اپنے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ پشاور کراچی موٹروے (ملتان سکھر سیکشن)، ہکلہ ڈی آئی خان موٹروے اور لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے کچھ بنیادی ڈھانچے کے منصوبے ہیں۔ کے کے ایچ فیز II) حویلیاں تھاکوٹ سیکشن(بھی مکمل ہو چکا ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ دونوں ممالک کے مشترکہ تعاون کی ایک شاندار مثال بن چکا ہے،اس منصوبے کے تحت گوادر پورٹ، توانائی کے منصوبے، ٹرانسپورٹیشن اور انفراسٹرکچر کی تعمیر دس سال سے جاری ہے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے گوادر پورٹ ماہی گیروں کا ایک چھوٹاسا گاؤں نہیں رہا۔ گوادر پورٹ پر ایک کثیر المقاصد ٹرمینل تعمیر کیا گیا ہے جس میں بیس ہزار ٹن وزنی تین برتھیں ہیں، جس سے سمندری راستے کھل رہے ہیں۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی طرف جاتا ہے۔ گوادر آزاد تجارتی زون کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے جس میں فرٹیلائزر، فشری پروسیسنگ، زرعی ترقی، سیاحت اور بینکاری سمیت 46 ادارے موجود ہیں جبکہ آزاد تجارتی زون کا دوسرا مرحلہ زیر تعمیر ہے۔ گوادر ایگزیبیشن سینٹر اور بزنس سینٹر کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے ۔ چین کی امداد سے تعمیر شدہ اسکول اور ہسپتال مقامی افراد کو صحت و تعلیم کی سہو لیات فراہم کررہے ہیں۔ مقامی لوگوں کی توانائی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھریلو سولر پینل آلات کے 4 ہزار سیٹس گوادر کے لوگوں کو عطیہ کے طور پر دیے گئے۔گوادر ڈی سیلینیشن پلانٹ منصوبے کی تکمیل کے بعد پانی کی قلت کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔سی پیک منصوبے نے مقامی معیشت اور معاشرے کی ترقی کو فروغ دیا ہے، روزگار میں اضافہ کیا ہے، لوگوں کے معاش کو بہتر بنایا ہے اور مقامی افراد کو ٹھوس فوائد پہنچائے ہیں۔سی پیک کے پہلے مرحلے میں توانائی کے منصوبوں کی تعمیر کو انتہائی اہمیت دی گئی ۔ گزشتہ دہائی میں کلوٹ ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور تھر بلاک 1انٹیگریٹڈ کول مائن پاور پراجیکٹ کے ذریعے پاکستان میں بجلی کی قلت کو دور کرتے ہوئے توانائی کے ڈھانچے کو بہتر بنایا گیا ہے جس نے پائیدار معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں سوکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے ڈیم کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا جو 2024 میں فعال ہونے کے بعد ہر سال 3.212 بلین کلو واٹ بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس منصوبے کی مدد سے پاکستان کے توانائی حاصل کرنے کے دیگرغیر قابل تجدید وسائل پر انحصار کو کم کیا جا سکے گا۔
توانائی کا شعبہ سی پیک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری، تیزی سے ترقی کرنے والے اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے شعبوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف پاکستان کو صاف،مستحکم اور اعلیٰ معیار کی توانائی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی ترقی فراہم کرتا ہے ،بلکہ بڑی تعداد میں با صلاحیت افراد کی تربیت اور روز گار کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔ سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر میں ایک بڑا منصوبہ پشاور،کراچی ایکسپریس وے (سکھر، ملتان سیکشن) باضابطہ طور پر آمدورفت کے لیے بحال ہے ۔ پاکستان کی پہلی میٹرو، لاہور اورنج لائن کو آپریشنل کر دیا گیا ہے ، اور انفراسٹرکچر منصوبوں کے سلسلوں نے مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور لوگوں کو حقیقی سہولیات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ||
مضمون نگار ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے