• مودی ایک انتہاپسند ہندولیڈر اورفسطائی جماعت کے سربراہ ہیں، جوانڈیا کوایک ہندو ریاست بنانے پرتلے ہوئے ہیں۔
• بھارت نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا،ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ
• برطانوی اخبار گارڈین نے اقلیتوں پرڈھائے جانیوالے مظالم پر تفصیلی رپورٹ شائع کی۔
• اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دوسری عبادت گاہیں انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی
• بھارتی تنظیم برائے انسانی حقوق نے 2022ء کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم وتشدد کاسال قراردیا
• ہمیں مذہبی تعصب کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی،امریکی رکن کانگریس
• مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جنسی زیادتی، تشدد اور جبری قید کا سلسلہ جاری ہے،جینوسائیڈواچ امریکہ
• جب تک آر ایس ایس اوربی جے پی بھارت کے حکمران ہیں، بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور زندگیاں خطرے میں رہیں گی۔
• برطانوی میڈیا کے مطابق بھارت میں گائے کے محافظ بریگیڈوں کی تعداد 5000 سے زائد ہے۔
2014 l سے 15ستمبر 2023 تک ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کوصرف گائے کی حفاظت اوراحترام کرنے کی آڑ میں بدترین تشدد کرکے شہید کیاگیا۔
بھارت کے دوچہرے ہیں ایک وہ جو دنیاکودکھانے کی کوشش کررہاہے اوردوسرا اس کے پیچھے چھپا اصل خوفناک،بدنماچہرہ۔ بھارت اپنے اس مکروہ چہرے کوسیکولر ازم کے میک اپ سے ڈھانپنے کی کوشش کرتارہاہے،بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے انتہاپسندانہ اقدامات سے یہ ضرورہوا کہ بھارت کے چہرے سے سیکولرازم کا نقاب اُترگیا۔ مودی اپنی فسطائی پالیسیوں میں ہٹلرکے راستے پرگامزن ہیں،وہ اپنے ہندونظریات کوسب سے اعلی سمجھتے ہیں،ان کی سوچ یہ ہے کہ باقی دنیا کوان کی فسطائیت کے آگے سرجھکا دیناچاہیے۔سچ یہ ہی ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر حملے ،عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج ہیں۔دنیا کومودی کوروکنے کے لیے سخت اقدامات اورفیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
مودی اوران کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت کوایک ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں اکثریتی ہندوؤں کوتمام حقوق حاصل ہوں اور اقلیتوں کوان کی غلامی کرناپڑے۔جن میں مسلمان،مسیحی،سکھ ،بدھ مت سمیت تمام اقلیتیں شامل ہیں۔انڈیاکانام تبدیل کرکے بھارت رکھنے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔انتہاپسند ہندو تنظیموں کامؤقف ہے کہ انڈیا انگریزوں کی اختراع ہے،راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اس فلسفے کے پیچھے یہ ہے کہ ہندوتوا یاہندوقوم پرستی کے نام پرانڈیا کانام بھارت رکھاجائے۔مودی کی اس ہندوتوا یاہندو قوم پرستانہ پالیسیوں کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی ہے۔اقوام متحدہ،امریکہ،یورپی یونین،ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت عالمی تنظیمیں انتہاپسندانہ پالیسیوں پرتشویش کااظہارکرچکی ہیں۔
نریندرمودی نے وزیراعظم بنتے ہی بھارت کو ایک انتہاپسندانہ ہندو معاشرہ بنانے کے لیے دن رات کوششیں شروع کردیں۔مودی کے دورحکومت میں بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم بن گیاہے۔اقلیتوں کی نہ جان محفوظ ہے،نہ مال اورنہ عزت۔ انتہاپسند ہندوؤں کاجب دل چاہتاہے کہ جتھے بناکراقلیتوں کی آبادی پرحملہ کردیتے ہیں۔گھروں کو نذرآتش کردیاجاتا ہے ۔عزتوں کوپامال کیاجاتاہے۔
نریندرمودی نے وزیراعظم بنتے ہی بھارت کو ایک انتہاپسندانہ ہندو معاشرہ بنانے کے لیے دن رات کوششیں شروع کردیں۔مودی کے دورحکومت میں بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم بن گیاہے۔اقلیتوں کی نہ جان محفوظ ہے،نہ مال اورنہ عزت۔ انتہاپسند ہندوؤں کاجب دل چاہتاہے کہ جتھے بناکراقلیتوں کی آبادی پرحملہ کردیتے ہیں۔گھروں کو نذرآتش کردیاجاتا ہے ۔عزتوں کوپامال کیاجاتاہے۔کون نہیں جانتا مسلمانوں اورمسیحیوں کوگھرخریدتے یاکرائے پرمکان، فلیٹ لیتے ہوئے کتنی مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔ ممبئی جیسے شہرمیں کئی علاقے ہیں جہاں مسلمانوں،مسیحیوں اورسکھوں کے لیے رہائش اختیارکرناممکن ہی نہیں۔جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں نچلی ذات کے ہندوبھی محفوظ نہیں۔بھارتیہ جنتاپارٹی کی پالیسی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لیے دوستانہ اورنچلی ذاتوں کے لیے ظالمانہ ہے۔بی جے پی نے انتہائی متعصبانہ شہریت بل منظور کر کے ثابت کردیا کہ اقلیتوں کے لیے بھارت میں کوئی جگہ نہیں ۔
ورلڈ میٹر کے مطابق اس وقت بھارت کی آبادی ایک ارب 42 کروڑ86 لاکھ ہے،یہ 0.81 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس آبادی میں 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوؤں کی تعداد 79.80 فیصد،مسلمانوں کی تعداد 14.23فیصد، مسیحیوں کی تعداد 2.3 فیصد،سکھوں کی تعداد 1.72فیصد،بدھ مت کی تعداد 0.70 فیصد،جین مت مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 0.37 فیصد ہے۔ دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی تقریبا 0.88 فیصد ہے۔مودی اوربی جے پی کامنصوبہ ہے کہ اقلیتوں کویا تومذاہب بدلنے پرمجبورکردیاجائے یا ان کی نسلی کشی کرکے ان کی تعداد مزید کم کردی جائے۔
میں اپنے قارئین کے توجہ چند واقعات کی طرف دلواناچاہتاہوں جس کی بازگشت عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی، یہ واقعات دراصل بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کی حالت زار کی عکاسی کررہے ہیں۔اقلیتیں کتنے کرب میں اورکتنی غیرمحفوظ زندگی گزار رہی ہیں۔گارڈین کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کی فیلو نیرا چندوکے نے انتہاپسند ہندوؤں کے مسلمانوں پر حملے کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے ایک دلخراش واقعہ دیکھا، مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ فزیوتھراپسٹ زرین خان کو چار ہندو مردوں کے ہجوم نے پہلے لوہے کی راڈ سے ماراپیٹا،اس کاحجاب پھاڑ دیا،اس کے ساتھ بدسلوکی کی اورپھر گولی مار دی۔ جب اس متاثرہ خاتون نے مدد کی اپیل کی تو کوئی مدد کونہ آیا،الٹاحملہ آوروں نے کہا کہ انتظامیہ ہمارے ساتھ ہے۔ایک دوسرے واقعہ میں بغیرکسی وجہ کے امام مسجد کو چاقو مار کر قتل کرکے جلادیاگیا۔ اسی طرح ایک نوجوان مسلم ڈاکٹر کو گھر جاتے ہوئے مسلح ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا اور بدسلوکی کی۔ اس طرح کے ایک نہیں ہزاروں واقعات ہیں ،اگرانھیں لکھنے بیٹھ جاؤں تو پوری کتاب بن جائے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مارچ 2023 ء میں جاری کی جانیوالی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا، جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پربھارت سے احتجاج کرچکا ہے،لیکن بھارت کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ستمبر 2023ء میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ عدم برداشت، نفرت انگیز تقاریر، مذہبی انتہا پسندی اور امتیازی سلوک سے نمٹے اورتمام اقلیتوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی کوششیں تیزکرے۔ عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل کے 54ویں اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وولکر ترک نے ہریانہ اور منی پور میں تشدد سمیت خاص طور پر بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کو اجاگر کیا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر نے کہا کہ ان کے دفتر کو اکثر معلومات ملتی ہیں کہ بھارت میں پسماندہ اقلیتی برادریوں کو تشدد اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ہریانہ اور گروگرام میں پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مسلمان اکثر ایسے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔انہوں نے شمال مشرقی ریاست منی پورکا بھی ذکرکیا جہاں گزشتہ چار ماہ سے نسلی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔منی پور میں پرتشددکارروائیوں میں اب تک 200سے زائد افراد ہلاک اور 70,000سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مارچ 2023 ء میں جاری کی جانیوالی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا، جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔ بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر مذہبی اقلیتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، سیاسی رہنماؤں اور عوامی عہدیداروں کی طرف سے ان کے خلاف نفرت کا واضح اظہار ایک عام سی بات تھی اور انہیں سزا تک نہیں دی گئی۔ مسلم خاندانوں کے گھر اور کاروبار مسمار کرنے میں انہیں مکمل حکومتی سر پر ستی حا صل تھی۔ اقلیتی حقوق کا دفاع کرنے والے پرامن مظاہرین کو امن عامہ کے لیے خطر ے کے طور پر پیش کیاگیا۔
ایمنسٹی نے اس بات پربھی روشنی ڈالی کہ آدیواسیوں اور پسماندہ کمیونٹیز بشمول دلتوں کو تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کے ایک مسلسل طریقہ کار کے تحت سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے محافظوں بشمول کارکنوں، صحافیوں، طلباء اور ماہرین تعلیم پر غیر قانونی اور سیاسی طور پر محرک پابندیاں عائد کی گئیں۔
آپ کویقینا یاد ہوگا کہ ستمبر2022ء میں مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا میں اپنے آپریشن بند کرنے پرمجبور ہوگئی۔ایمنسٹی نے اعلان کیاکہ انھیں اپنے کام کی وجہ سے انڈیا کی حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ اس وجہ سے انڈیا میں اپنے آپریشن بند کر رہے ہیں۔ایمنسٹی کاکہناتھاکہ انڈین حکومت انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف ایک مہم چلا رہی ہے۔ایمنسٹی تنظیم کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے،جس کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اپنے ملازمین کو فارغ کر کے اپنا تمام کام روکنا پڑا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں اورمسیحیوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے، انتہاپسند ہندو بلوائیوں کی جانب سے انھیں تشدد کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔ بھارتی مسلمانوں اورمسیحیوں پر مظالم کی داستانیں عالمی میڈیا تک پہنچ گئیں۔بی جے پی کے زیر کنٹرول ریاستوں میں مسلمانوں کو 'درانداز' قرار دیا جاتا ہے، انہیں امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔
یورپی یونین اورامریکہ سمیت دنیاکے کئی ممالک اورانسانی حقوق کے ادارے بھارت کی ان پالیسیوں کی مذمت کرچکے ہیں۔اگست 2023ء میں شائع ہونیوالی امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 1947 سے لے کر اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچز اور دوسری عبادت گاہیں انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔انتہاپسند ہندو تنظیمیں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔ حلال جہاد، گائیں رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب پرپابندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کولے کرنچلی ذات کے ہندوؤں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کوخوف زدہ کیا جارہاہے۔ستمبر 2023 میں منی پور میں ہونیوالے فسادات میں 400 سے زائد چرچ نذر آتش کیے گئے۔منی پورمیں اب تک آگ سلگ رہی ہے،مسیحی برادری خوفزدہ ہے کہ کہیں انتہاپسند ہندو دوبارہ ان کی بستیاں نہ جلادیں۔ اس سے پہلے 2008 میں ہندو انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے 600 گاؤں اور 400 چرچ جلا دیے تھے۔عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جگہوں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کرنا، بلڈوزر پالیسی اور مساجد کی مندروں میں تبدیلی بی جے پی کی جانب سے بھارت کی تاریخ دوبارہ رقم کرنے کی کوشش ہے۔اسی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ہزاروں مسلمان ہندو انتہاپسندوں کے حملوں میں شہید ہوئے تھے۔ شاہی عیدگاہ مسجد، شمسی مسجد اور گیان واپی مسجد سمیت درجنوں عبادت گاہوں پر ہندو انتہا پسندوں کے قبضے کے دعوے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے اس پرہی بس نہیں کیابلکہ مشہور زمانہ تاج محل پر بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کردیا،تاج محل کی جگہ مندربنانے کی مہم شروع کردی۔ایک اورسانحہ جوپوری دنیا کویادہے وہ بھارتی فوج کے ہاتھوں سکھوں کاقتل عام تھا، بھارتی فوج نے 1984ء میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پرٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کردی تھی جس کے بعد سکھوں پر ہونے والے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
25 دسمبر 2021 کوامریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے، جو حال اس وقت مودی کی ہندو توا سوچ نے بھارت کا کر دیا ہے شاید ماضی میں ایسا نہ تھا۔ بھارت میں اقلیتیں خودکوغیرمحفوظ تصور کر رہی ہیں،ہندو انتہا پسند مسیحی برادری کی عبادت گاہوں کونقصان پہنچاتے ہیں اورعبادت سے روکتے ہیں ۔ موت کے خوف سے مسیحیوں نے خود کو ہندوظاہرکرناشروع کردیا ہے۔ نیویارک ٹائمزکے مطابق مسیحیوں پربڑھتے ظلم کی وجہ ہندوانتہاپسندانہ سوچ ہے،ہندوانتہاپسندمسیحیوں کوزبردستی ہندومذہب اختیارکرنے پرمجبورکررہے ہیں ۔مسیحیوں کے خیراتی اداروں کو ہندو انتہا پسند وکلا نے بند کرانے کے لیے ایف آئی آرز تک درج کرائیں۔اخبار نے لکھا کہ اقلیتوں پرمظالم کیخلاف مودی کی خاموشی پرعالمی برادری کوشدیدتحفظات ہیں،نریندرمودی مسلمانوں کے قتل عام اورمسیحی برادری کی نسل کشی پرخاموش ہیں۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے سرکاری طورپر گائے کوجس طرح عزت بخشی، وہ بھی مہذب دنیا کے لیے ناقابل یقین ہے ۔مودی کے وزیراعظم بننے کے بعدان کی خواہش پرسرکاری دفاترمیں گائے کے پیشاب کاچھڑکاؤ کیاگیا، گائے کے فضلے کوبھی مقدس بنادیاگیا۔ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلاکہ گائے کاتقدس انسانی جانوں سے بھی بڑھ گیا۔ کئی مسلمان نوجوانوں کوصرف اس وجہ سے انتہائی تشدد کے بعد شہیدکردیاگیا کہ انتہاپسند ہندوؤں کوشک تھاکہ ان نوجوانوں نے گائے کی توہین کی ہے۔ گائے کے گوشت کا الزام لگاکرگاؤں کے گاؤں جلادیے گئے۔ اگرمجموعی طورپرجائزہ لیاجائے تو 2014 سے 15ستمبر 2023 تک ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو صرف گائے کی حفاظت اوراحترام کرنے کی آڑ میں بدترین تشدد کرکے شہید کیاگیا۔جبکہ زخمی ہونیوالوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔2022ء تک آٹھ برسوں میں شہید ہونیوالوں کی تعداد 894 رپورٹ کی جاچکی ہے۔
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2022 تک گاؤ رکھشک بریگیڈ کے 206 حملوں میں 850 مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ صرف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 200 گاؤ رکھشک بریگیڈ ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق بھارت میںگائے کی حفاظت کرنے والے بریگیڈوں کی تعدادپانچ ہزار سے زائد ہے۔ سال 2015 سے 2018 کے درمیان 71 گئو رکھشک حملے ہوئے جبکہ میڈیا میں صرف 4 رپورٹ کیے گئے۔ ریاست ہریانہ میں سرکاری سطح پر ہندو انتہا پسند بجرنگ دل کے گئو رکھشک بریگیڈ کو گائے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سال فروری میں راجھستان کے ضلع بھرت پور میں 2 مسلمانوں کو اسی گروپ نے زندہ جلا دیا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر گئو رکھشک بی جے پی کے اتحادی یا حمایت یافتہ ہیں۔ سال 2015 سے 2023ء تک ان حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھاجارہاہے۔
بھارت میں مسلمانوں اورمسیحیوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے، انتہاپسند ہندو بلوائیوں کی جانب سے انھیں تشدد کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔ بھارتی مسلمانوں اورمسیحیوں پر مظالم کی داستانیں عالمی میڈیا تک پہنچ گئیں۔بی جے پی کے زیر کنٹرول ریاستوں میں مسلمانوں کو 'درانداز' قرار دیا جاتا ہے، انہیں امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔
اس سال جنوری میں جاری ہونیوالی ایک رپورٹ میں بھارتی تنظیم برائے انسانی حقوق نے 2022ء کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم وتشدد کاسال قراردیا اورکہا کہ یہ سال مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت،امتیازی سلوک اورظلم وتشدد کاسال رہا۔ تنظیم سٹیزن فارجسٹس اینڈ پیس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ بھارت میں جسمانی تشدد، ناروا سلوک کے واقعات زیادہ تر مسلمانوں، مسیحیوں اوردوسری اقلیتوں کے ساتھ ہوئے۔ ظلم وتشدد میں ملوث عناصر کا تعلق ہندو برادری، ہندوتوا تنظیموں سے تھا، مظالم کرنے والے عناصر کی ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔
کشمیرمیڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میںبتایاگیا کہ بھارت میں جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، مذہبی اقلیتوں کو اپنی سلامتی کے خطرے کا سامنا ہے۔ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی سرپرستی میں بی جے پی حکومت ہندو توا نظریات نافذ کر رہی ہے اور ملک کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مذہب کی جبری تبدیلی، مساجد اور گرجا گھروں پر حملے اور ہندو بلوائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مودی کے دور میں بھارت کی مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے لیے ہندوتوا ایک مسلسل خطرہ ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مودی حکومت نے حالیہ برسوں میں کئی قوانین منظور کیے ہیں جن سے مذہبی اقلیتوں کے لیے زندگی مزید اجیرن بن گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کی سرپرستی والی بی جے پی حکومت ہندو بنیاد پرستوں کو اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔جب تک آر ایس ایس اوربی جے پی بھارت کے حکمران ہیں، بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور زندگیاں خطرے میں رہیں گی۔
بھارتی حکومت کی اقلیت دشمن پالیسیوں کے خلاف پوری دنیا میں مذمت کاسلسلہ جاری ہے ۔ ان ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف بھارت کے اندرسے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ،دانشور،فنکار یہاں تک کہ سائنسدان بھی سراپا احتجاج ہیں،فنکاروں کے احتجاج کی خبریں توآپ پڑھتے رہتے ہیں،اب بھارتی سائنسدان بھی مودی کی پالیسیوں کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ ستاسی سالہ بھارتی سائنسدان پی ایم بھرگاوانے مودی سرکار کو ملک میں مذہبی انتہا پسندی فروغ دینے کا ذمہ دارقرار دیا اورسرکاری اعزاز پدما بھوشن احتجاجاً واپس کردیا ۔سو سے زائد دیگر سائنسدانوں نے بھی حکومت کوصاف صاف کہہ دیا اقلیتوں سے ہونا والا بدترین سلوک ناقابل قبول ہے، مودی سرکار ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
11 ستمبر2023ء کو امریکا کی غیر سرکاری تنظیم جینوسائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی سے متعلق الرٹ جاری کیا۔عالمی تنظیم نے اقوام متحدہ سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی سے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کشمیر میں ہندوتوا پالیسی پر عمل پیرا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت پر اکسایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، وادی میں کئی لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور مسلمان اکثریتی ریاست پر اقلیتی ہندو فوج کی حکمرانی ہے، ایسے میں مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر قتل عام شروع ہوسکتا ہے۔جینوسائڈ واچ نے الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے، اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کی وارننگ دیں، بی جے پی رہنما کشمیر کے 'آخری حل' کی باتیں کررہے ہیں جو قتل عام کی تیاری کا اشارہ ہے۔
جینوسائڈ واچ کی اس رپورٹ کو ترکیہ ویب سائٹ ٹی آر ٹی نے بھی نمایاں کرکے شائع کیا۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جنسی زیادتی، تشدد اور جبری قید کا سلسلہ جاری ہے، مسلمان رہنماؤں کو جلا وطن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مواصلاتی نظام معطل ہے جبکہ لوگوں کی نقل و حرکت اور میڈیا پر پابندی لگادی گئی ہے۔ بی جے پی نے 5 سال پہلے اقتدار میں آ کر ہندوؤں کو دوبارہ مضبوط کیا، جبکہ اقلیتوں کو دہشتگرد، شرپسند، علیحدگی پسند اور جرائم پیشہ بنادیاگیا۔ انڈیامیںانسانی حقوق کی پامالیاں،اقلیتوں کی نسل کشی دنیابھر کا ضمیر جھنجھوڑ رہی ہیں۔سوئٹزر لینڈ کے شہرجنیوامیں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھارت کے خلاف آواز اٹھائی اور اقلیتوں کی نسل کشی کی شدید مذمت کی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیاصرف زبانی کلامی بیانات سے بھارت میں اقلیتوں کی نسل کشی روکی جاسکتی ہے؟عالمی برادری کافرض ہے کہ وہ بھارت میں موجود کروڑوں انسانوں کونسل کشی سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔بھارت پرپابندیاں عائد کی جائیں کہ وہ اقلیتوں کے قتل عام سے بازرہے اورایسے عناصر کی حوصلہ افزائی نہ کرے جواقلیتوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔ ||
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے