بھارتی 'را' کی جانب سے کینیڈا میں مقیم رہنما تحریکِ خالصتان ہردیب سنگھ نجر کے قتل کے تناظر میں لکھا گیا مضمون
تحریکِ خالصتان سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980 کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کر کے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ اسی دوران کینیڈا میں مقیم سکھوں پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے بھارتی مسافر طیارہ اغوا کر کے تباہ کر دیا۔
سکھ قوم بھارتی پنجاب کوبھارت سے علیحدہ کرکے آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک پر ایک طویل عرصے سے جدوجہد کررہی ہے۔بہرطور آج موجودہ دور میں بی جے پی کی حکومت میں سکھوں پر مظالم مزید بڑھ گئے ہیں مودی حکومت نے مشرقی پنجاب کے سکھ کسانوں پر نئے قانون کے ذریعے ان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب اب سکھ قوم کے نوجوانوں نے آزادی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اضافہ کردیا ہے جس کے ردعمل میں بھارت نے بھارتی پنجاب میں گرفتاریوں ، تشدد اور سکھ کشی کی وارداتوں میں بہت تیزی سے اضافہ کیا ہے ۔
بھارتی حکومتوں کے مظالم کے تسلسل سے گھبرا کے ہزاروں سکھ خاندان بے وطن ہوئے اور بھارت سے نکل کر برطانیہ ، آسٹریلیا ، امریکہ اور کینیڈا جیسے ملٹی کلچرل ممالک میں آباد ہوگئے جہاں بیٹھ کر انہوں نے خالصتان کی تحریک کی سیاسی اور اخلاقی مدد جاری رکھی جس کے جواب میں بھارتی انٹیلی جنس را نے بھارت کے اندر رہنے والوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک رہنے والے سکھ راہنماوئوں کو بھی چن چن کر قتل کرنا شروع کردیا ۔ بی بی سی کے مطابق
• جون 2023 میں خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں ایک بازار میں قتل کر دیا گیا تھا۔
• اس کے بعد کئی ممالک میں سکھ علیحدگی پسندوں اور انڈین حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو کے مناظر دیکھے گئے۔
• خالصتان کے حامیوں نے ہردیپ سنگھ کے قتل کے خلاف ٹورنٹو، لندن، میلبرن اور سان فرانسسکو سمیت دنیا کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔
• ہردیپ سنگھ سے پہلے پرمجیت سنگھ پنجواڑ، جنھیں حکومت ہند نے انتہا پسند قرار دے رکھا تھا، کو مئی 2023 میں پاکستان کے شہر لاہور میں قتل کر دیا گیا تھا۔
• یہی نہیں بلکہ جون 2023 میں برطانیہ میں مقیم اوتار سنگھ کھنڈا کی پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ تھے۔
• سکھ علیحدگی پسندوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں زہر دے کر مارا گیا ہے۔
علیحدگی پسند سکھ تنظیموں نے اسے ٹارگٹ کلنگ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انڈین حکومت سکھ علیحدگی پسند رہنمائوں کو قتل کروا رہی ہے۔
یہاں تک کہ کینیڈا میں ہونے والے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد تک ہونے والی انوسٹی گیشن کے باعث جب بہت سارے شواہد اور حقاق سے ثابت ہوگیا کہ اس میں براہ راست بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را ملوث ہے تو کینیڈین حکومت کا خاموش رہنا ممکن نہ رہا اس سے پہلے کینیڈین وزیر ِ خارجہ میلانیا جولی اپنے بیان میں کہہ چکی تھیں کہ ایک غیر ملکی حکومت کا نمائندہ یہاں کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہو سکتا ہے ۔ یہ الزامات کینیڈا کے لیے نہ صرف پریشان کن ہیں بلکہ مکمل طور پر ناقابل قبول بھی ہیں۔
میلانیا نے کہا کہ اگر یہ درست ثابت ہو گیا تو یہ ناصرف ہماری خودمختاری کی بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں اس کے بنیادی اصول کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ کینیڈین وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی ہم منصب کو کہہ دیا ہے کہ کینیڈا ہندوستان سے مکمل تعاون کی توقع رکھتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ہم اس کی تہہ تک پہنچیں۔
کینیڈا میں ہونے والے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد تک ہونے والی انوسٹی گیشن کے باعث جب بہت سارے شواہد اور حقاق سے ثابت ہوگیا کہ اس میں براہ راست بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را ملوث ہے تو کینیڈین حکومت کا خاموش رہنا ممکن نہ رہا اس سے پہلے کینیڈین وزیر ِ خارجہ میلانیا جولی اپنے بیان میں کہہ چکی تھیں کہ ایک غیر ملکی حکومت کا نمائندہ یہاں کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہو سکتا ہے ۔ یہ الزامات کینیڈا کے لیے نہ صرف پریشان کن ہیں بلکہ مکمل طور پر ناقابل قبول بھی ہیں۔
بعد ازاں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں را کے ملوث ہونے کی تصدیق بھی کردی جس کے بعد بھارتی سفیر کو قتل میں براہ راست ملوث ہونے کی بنیاد پر کینیڈا سے نکل جانے کے احکامات صادر کردیے گئے ۔ دوسری جانب انڈیا نے بھی کینیڈین ہائی کشمنر کو پانچ دنوں کے اندر اندر بھارت سے نکل جانے کا کہہ دیا ۔
انڈیا کا الزام ہے کہ ٹروڈو حکومت کینیڈا میں سرگرم سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انڈین حکومت کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ علیحدگی پسند کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس دوطرفہ الزامات اور اقدامات کے نتیجے میں کینیڈا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے اور اس کا اثر براہ راست دونوں ممالک کے سفارتی اور معاشی تعلقات پرپڑتا نظر آتا ہے ۔
تعلقات میں یہ دراڑیں جی 20 کانفرنس کے دوران نظر آئیں۔ انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔
کانفرنس کے دوران سرکاری سلامی کے دوران ٹروڈو کو نریندر مودی سے جلد بازی میں مصافحہ کرتے اور تیزی سے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
تاہم ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا ہمیشہ سیاسی آزادی ، پرامن مظاہروں اور آزادی اظہار کا تحفظ کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر وہ چیز کینیڈا کے لیے بہت اہم ہے جس کا تعلق امن اور قانون سے ہے ۔ کینیڈا تشدد کو روکنے اور نفرت کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔ ٹروڈو نے کہا کہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چند افراد کے انفرادی اقدامات مجموعی طور پر کینیڈا کے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جبکہ بھارت نے کینیڈا کے وزیراعظم کے خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کے الزام پر کہ اس میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے سربراہ پون کمار ملوث ہیں، کی انڈین حکومت نے سختی سے تردید کرتے ہوئے انڈیا سے کینیڈا کے سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا کہہ کر گویا کشیدگی کو ہوا دینے کیساتھ ساتھ بھارتی وزیراعظم کے بارے میں پہلے سے پائے جانے والے دہشت گرد ہونے کے تاثر کو مزید تقویت دی ۔
اگرچہ عالمی جغرافیائی اور سیاسی شطرنج کی بساط پر انڈیا ایک اہم کھلاڑی ہے۔ یقینا یہ ساری صورتحال دیکھتے ہوئے ہی جسٹن ٹروڈو نے یہ معاملہ اپنے اتحادی ممالک امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بھی اٹھاتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے بات کی ۔انھوں نے کہا کہ میں واضح الفاظ میں یہ کہتا رہا ہوں کہ انڈیا کی حکومت اس معاملے پر تحقیقات کے لیے کینیڈا کے ساتھ تعاون کرے۔جس پر امریکہ اور برطانیہ نے انڈیا سے سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات میں تعاون کرنے کا کہا ہے۔ محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکہ کینیڈا کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں ہے۔ برطانوی حکام کا کہنا تھا کہ ہمیں ان الزامات کے بارے میں تشویش ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں جامع تحقیقات کی جائیں اور ہم انڈین حکومت پر تحقیقات میں تعاون کرنے پر زور دیں گے۔
• برطانوی وزیرخارجہ جیمز کلیورلی کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے مجرموں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
• جیمزکلیورلی نے کہا کہ تمام ممالک کو قانون کی حکمرانی کا احترام کرنا چاہیے۔ بھارت پر لگے سنگین الزامات سے متعلق اوٹاوا سے رابطے میں ہوں۔
• برطانوی وزیرخارجہ کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ کینیڈا مکمل تحقیقات کر کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
• کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل نے کینیڈا کے شہریوں کو غصہ دلایا ہے، جس سے کچھ لوگ اپنی حفاظت کے معاملے میں خوفزدہ ہیں۔
• ورلڈ سکھ آرگنائزیشن سمیت کینیڈا میں کچھ سکھ گروپوں نے وزیر اعظم کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جسٹن ٹروڈو نے اس بات کی تصدیق کی ہے جس پر سکھ برادری پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر یقین کرتی ہے۔
اگرچہ بھارتی انتہا پسندی دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی اور اس ملک میں سیاسی حکومتوں کے آنے سے بھی کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آتی لیکن اس کے باوجود بھارت کبھی معاشی تعلقات کے پیچھے اور کبھی ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں میں اپنا حقیقی چہرہ چھپاتا آیا ہے ۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں کا رسیا بھارت اب پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے ورنہ آج تک دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے پاکستان کے خلاف بھارتی پراپیگنڈا عروج پر رہا ہے ۔ پوری دنیا میں پھیلائے گئے پاکستان دشمن پراپیگنڈے اوردیگر سرگرمیوں کے نیٹ ورکس کے ایکسپوز ہونے کے باوجود بھارت، پاکستان دشمن کردار سے باز نہیں آیا ۔ سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہ پیدا کرکے ان کی مدد کرنے والا بھارت آج درجن سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکوں کے نرغے میں آچکا ہے ۔ کینیڈین شہریت کے حامل سکھ راہنماوں کے قتل سے بھارت نے کینیڈین شہریت کے احساس تحفظ پر جو حملہ کیا ہے یہ کینیڈین حکومت ، عوام اور کسی بھی آزاد ملک کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ پاکستان کے سیاسی حالات کی خرابی پر بغلیں بجانے والے بھارت کے خلاف دنیا بھر کی نفرت اور تشویش دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جو مظلوم اور بے وطن سکھوں کی آزادی کی تحریک کے لیے اخلاقی اور سیاسی جیت کے مترادف ہے ۔ اب وہ دن دور نہیں جب سکھ اپنے آزاد ملک میں سانس لے رہے ہوںگے ۔
مضمون نگار مصنف صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے شاعر ، تجزیہ کار اور پچھتر کتابوں کے خالق ہیں۔
[email protected]
تبصرے