قیامِ پاکستان کے اوائل ہی میں اس نوخیز مملکت کو جن بڑے مسائل سے دوچار کردیاگیا ان میں مسئلہ کشمیر سرِ فہرست ہے۔جس طرح کشمیر کے مہاراجہ کی ملی بھگت اور ایماء پر بھارت نے کشمیری عوام کی امنگوں کے برعکس 27 اکتوبر1947 کو کشمیر میں فوجیں داخل کرکے اس پر قبضہ کیا اور کشمیری عوام کی آزادی کو سلب کرلیا، ایسے استبداد اور ظلم کی مثال نہیں ملتی۔ کشمیری عوام اس جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستانی افواج اور عوام بھی ان کی مدد کو جا پہنچے تو اس وقت کے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہروحالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مسئلہ کشمیرکو اقوامِ متحدہ میں لے گئے۔ جہاں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ مسئلے کا حل کشمیری عوام کے استصوابِ رائے سے ہوگا اور انہیں یہ حق دیا جائے گاکہ وہ کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔بھارت کے اس وقت کے وزیرِ اعظم اوربعد میں آنے والی حکومتوں نے چالبازی اور لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے آج تک اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ 2019 میں بھارت نے کشمیری عوام کے حقوق کے علمبردار آرٹیکل 370 اور35-A ختم کرکے کشمیریوں کو حاصل آئینی حقوق سے بھی محروم کردیا۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے ہرفورم پر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اپناکردار اداکیالیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
27 اکتوبرہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں یومِ سیاہ کے طور پر منایاجاتا ہے، جس میں کشمیر پر ناجائز قبضہ جمانے پر بھارت کی مذمت کی جاتی ہے اور اقوامِ متحدہ کے ضمیر کو جگانے کے لیے احتجاجی مظاہرے اور دیگر انداز سے جدوجہد عمل میں لائی جاتی ہے۔1945میں اکتوبر کے مہینے میں ہی اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں آیاتھا۔ یومِ اقوامِ متحدہ کی مناسبت سے تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ ایسے میں اقوامِ متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ76 سالوں سے زیرِ التو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرے کہ اقوامِ متحدہ کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ بین الاقوامی سطح پر جنم لینے والے مسائل کا حل اقوامِ متحدہ کے فورم پرانتہائی شفافیت اور انصاف کی بنیادوں پر نکالاجائے۔ مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوامِ متحدہ کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
بہر طور جہاں تک ریاستِ پاکستان کا تعلق ہے تو کشمیریوں کے حقوق کے لیے آج بھی وہی مؤقف رکھتی ہے جو مؤقف 1948 میںاقوامِ متحدہ میں اختیار کیاگیا تھاجس کے تحت کشمیری عوام کو حقِ رائے دہی تفویض کرکے اس مسئلے کا حل نکالا جانا ہے۔ ریاست پاکستان اور عوام کی طرح افواجِ پاکستان بھی کشمیرکے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے نومبر2022میں اپنا منصب سنبھالتے ہی سب سے پہلا دورہ آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کا کیا، وہاں تعینات ٹروپس سے ملے اور ان کے حوصلے بڑھائے۔ ان کا دورہ اس حوالے سے دشمن کے لیے ایک بہت بڑا پیغام تھا کہ افواجِ پاکستان لائن آف کنٹرول سمیت ملک کے دیگر محاذوں پر سرحدوں کی حفاظت کے لیے چوکس اور چاق چوبند ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یوں ریاستِ پاکستان، کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دی ہے اور ان کی آزادی کے نظریے اور جدو جہد میں ان کے ساتھ ہے۔کشمیر جہدِ مسلسل کی تفسیر ہے اور یہ جدو جہد خطۂ کشمیر کی آزادی کے حصول تک جاری رہے گی۔ ||
تبصرے