پاکستان کے معاشی گڑھ یعنی کراچی کا ذکر آئے اور ساتھ مزار قائد کا ذکر نہ آئے ایسا ممکن ہی نہیں، بلکہ روشنیوں کے شہر کراچی کا دوسرا نام ہی ''شہر قائد''رکھ دیا گیا ہے۔ایک طرف برتھ پلیس یعنی بانیِ پاکستان کی جائے پیدائش کراچی میں ہے تو وسط البلد میں مزار قائدایک وسیع رقبے پر خوب صورت تعمیری شاہکار کا نمونہ بنا ایستادہ ہے۔کراچی شہر، یوں تو کئی تفریحی مقامات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے لیکن کراچی شہر دیکھنے آنے والوں کی اصل منشا دو چیزوں کو دیکھنے کی ہوتی ہے، ایک ساحل سمندر دوسرا مزار قائد۔۔۔ ان دو جگہوں کو دیکھنے کے لیے ہر باہر سے آنے والی آنکھ بے تاب ہوتی ہے۔مزار قائد سے مراد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ہے۔یہ مزار پوری دنیا میں کراچی کی پہچان ہے۔
سانحہِ ارتحال
11 ستمبر 1948 کو جب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے وفات کی خبر پورے ملک میں پھیلی تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ابھی تو پاکستان نو آموزدگی کی صف میں کھڑا تھا، ہر جگہ قائد اعظم کی رہنمائی اور قیادت کی ضرورت تھی لیکن اس سانحہ ارتحال نے دھوپ کو اور گھنا کردیا تھا۔
مزار کے ڈیزائن کے لیے مقابلہ
حکومت پاکستان بابائے قوم کی مزار کو ایک منفرد اور اعلیٰ پائے کے ڈیزائن سے آراستہ کروانا چاہتی تھی اسی بنا پر 20 ستمبر 1948 کو پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں 'قائداعظم میموریل فنڈ' کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا گیا جس نے ایک روپے، پانچ روپے اور سو روپے کے کوپن جاری کیے۔اس فنڈ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مزار کی تعمیر میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی ہاتھ بٹا سکیں۔سات آٹھ سال تک محمد علی جناح کی قبر ایک شامیانے کے زیر سایہ مرکز زیارت بنی رہی۔ اسی دوران قائد اعظم کے دو دیرینہ ساتھی لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر بھی ان کی قبر سے کچھ فاصلے پر سپرد خاک ہوئے۔اس سلسلے میں سب سے پہلی اور نمایاں پیش رفت اس وقت ہوئی جب 1957 کے اوائل میں حکومت پاکستان نے اس مقصد کے لیے 61 ایکڑ زمین مختص کی۔اسی سال کے وسط میں قائد اعظم میموریل کی سینٹرل کمیٹی کے ایما پر انٹرنیشنل یونین آف آرکیٹکٹس (آئی یو اے) نے جناح کے مزار کی ڈیزائننگ کے لیے ایک بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام کیا۔ اس مقابلے میں 31 دسمبر 1957 تک ڈیزائن قبول کیے گئے۔ اس مقابلے میں 17 ممالک کے 57 نامور آرکیٹکٹس(نقشہ نگاروں)نے حصہ لیا۔
مزارِ قائد کے لیے ڈیزائن موصول ہونا شروع ہوئے۔ ان میں سے ایک ڈیزائن پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے آرکیٹکٹ مہدی علی مرزانے، دوسرا علامہ اقبال کے مزار کے آرکیٹکٹ زین یار جنگ نے اور تیسرا ترکی کے آرکیٹکٹ وصفی ایجیلی نے تیار کیا تھا۔ مگر حکومت پاکستان نے یہ تینوں ڈیزائن مسترد کردیے۔ان آرکیٹکٹس کے ڈیزائن کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الاقوامی جیوری بھی قائم کی گئی۔ اس جیوری کے چیئرمین پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون تھے۔
تاہم انھوں نے مصروفیات کی بنا پر اس کی صدارت کے لیے وزیر خزانہ سید امجد علی کو نامزد کیا۔ جیوری کے دیگر ارکان میں دنیا کے بعض معروف ترین آرکیٹکٹس شامل تھے۔8 فروری 1958 کو کراچی میں اس جیوری کے اجلاس شروع ہوئے اور 15 فروری 1958 کو اس جیوری نے اپنے فیصلے کا اعلان کردیا۔
اس فیصلے کے مطابق لندن کے ایک تعمیراتی ادارے 'ریگلان سکوائر اینڈ پارٹنرز' کے ڈیزائن کو اول قرار دیا گیا۔ یہ ڈیزائن آرکیٹکٹ 'رابرٹ اینڈ رابرٹس'نے تیار کیا تھا۔
مقابلے کی انعامی رقم 25 ہزار روپے بھی اسی ادارے کو دی گئی۔ ریگلان سکوائر اینڈ پارٹنرز کا مجوزہ ڈیزائن جدید فن تعمیر کا شاہکار تھا اور فن تعمیر کے اسلوب'ہائپر بولائیڈ'میں بنایا گیا تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح کا اعتراض
بہت جلد اخبارات میں رابرٹ اینڈ رابرٹس کے ڈیزائن کے خلاف مراسلات شائع ہونے لگے۔ ان مراسلات میں کہا گیا تھا کہ یہ ڈیزائن اسلامی فن تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا اورقائداعظم کی شخصیت کے شایان شان نہیں ہے۔محترمہ فاطمہ جناح نے ان مراسلات کا سختی سے نوٹس لیا اور ریگلان سکوائر اینڈ پارٹنرز کے ڈیزائن کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔بالآخر بمبئی کے یحییٰ مرچنٹ کو ڈیزائن کی ذمہ داری دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے خواہش ظاہر کی تھی کہ مزار کا ڈیزائن بمبئی میں مقیم آرکیٹکٹ یحییٰ قاسم مرچنٹ سے بنوایا جائے جنھیں جناح خود بھی ذاتی طور پر پسند کرتے تھے۔حکومت پاکستان نے مادر ملت کی خواہش کا احترام کیا اور یحییٰ مرچنٹ سے رابطہ کر کے انھیںقائداعظم کا مزار ڈیزائن کرنے کے لیے کہا گیا ۔
یحییٰ مرچنٹ نے فوری طور پر اس درخواست کی تعمیل کی اور قائداعظم کی شخصیت، کردار اور وقار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے شایان شان ایک مقبرے کا ڈیزائن تیار کیا جسے محترمہ فاطمہ جناح نے بھی پسند فرمایا، ان کی پسندیدگی کے بعد 12 دسمبر 1959 کو حکومت پاکستان نے بھی یہ ڈیزائن منظور کر لیا۔
مزار کی تعمیر 1960 کے عشرے میں مکمل ہوئی۔ مزار 54 مربع میٹر احاطہ پر سفید سنگ مرمری کمانوں اور تانبہ کی باڑوں سے بنایا گیا ہے۔ مزار کا رقبہ61 ایکڑ (3100 m) ہے جہاں بیک وقت دس ہزار زائرین آ سکتے ہیں۔تعمیراتی کام کا باقاعدہ آغاز 8 فروری 1960 کو کیا گیا اور31 مئی 1966 کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہوا۔12جون1970 کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
مزارِ قائد کے سنگِ بنیاد کی تقریب
31 جولائی 1960 کو ایک باوقار تقریب منعقد کی گئی جس میں صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے مزار کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر مزار پر سنگ مرمر کی ایک تختی بھی نصب کی گئی جس پر حسب ذیل عبارت درج تھی:
"مزار قائداعظم محمد علی جناح،
تاریخ ولادت 25 دسمبر 1876۔
تاریخ وفات 11 ستمبر 1948۔
یہ سنگ بنیاد فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدر پاکستان نے بروز اتوار 31 جولائی 1960 مطابق 6 صفر المظفر 1380 ھ کو رکھا۔یہ سنگ بنیاد ایک طویل عرصے تک جناح کے مزار پر موجود رہا مگر ایوب خان کے اقتدار سے ہٹتے ہی اگلی حکومت نے اسے مزار سے ہٹا دیا۔
مزار قائد کے اندرونی اور بیرونی اسرار؛
مزار قائد کو ازبکستان کے شہر بخارا میں سامانی حکمران اسماعیل کا مقبرہ (جو کہ 892 تا 943 کے درمیان تعمیر ہوا) سے مماثلت دی گئی۔قائد اعظم کا مزار اس طرح تعمیر تیار کیا گیا ہے کہ اس میں ایک تو وسطی ایشیائی ممالک کی جھلک بھی نظر آتی ہے تو دوسری طرف مسجدِ قرطبہ کی محرابوں کے ڈیزائن کو بھی اس مزار کا حصہ بنایا گیا ہے-
عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ(جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر تعمیر کیا گیا ہے جو کہ ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ساتھ ہی عمارت کو زلزلہ پروف بھی بنایا گیاہے-
مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربع شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن کی شکل میں بنائی گئی ہے- مثمن (ہشت پہلو)سے بنے ہوئے ڈیزائن کو اسلامی فنِ تعمیر میں کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جس سے جیومیٹری کے بیش بہا اور نہ ختم ہونے والے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔مزار کے چاروں اطراف داخلی دروازے ہیں جو کہ بیضوی شکل کی محرابوں سے بنائے گئے ہیں، جن کی چوڑائی 22 فٹ اور اونچائی 36 فٹ تک ہے۔جہاں پر عوام جاکر حاضری دیتے ہیں وہ قبر کا تعویز(علامتی قبر) ہے، اصل قبر تہہ خانے میں موجود ہے ،جہاں مخصوص لوگ ہی جا سکتے ہیں۔
مزارِ قائد کے کونوں میں اوپر بالکونی اور تہہ خانے میں جانے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ مثمن شکل کی دیواروں کو چھت پر پہنچتے ہی دائروی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے جو کہ اونچائی میں 14 فٹ تک ہے۔ اس دیوار پر 70 فٹ قطرکا گنبد بنایا گیا ہے جو کہ مکمل طور پر کنکریٹ سے تیار کیا گیا ہے-
مزار کے مشرقی حصے میں ایک کمرے کے اندر پانچ قبریں ہیں۔ یہ قبریں معمولی افراد کی نہیں ہیں بلکہ قائد اعظم کے سیاسی سفر میں شریک رفقائے کار کی ہیں- ان میں سب سے پرانی قبر قائد ملت لیاقت علی خان کی ہے، دوسری قبر سردار عبد الرب نشتر کی ہے، تیسری قبر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی ہے، چوتھی قبر محمد نور الامین کی ہے اور پانچویں قبر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی ہے۔
مزار کے ارد گرد چہار باغ کے تصور کے مطابق لان بنائے گئے ہیں۔ جہاں عوام مزار پر حاضری کے بعد سیر و تفریح کا سامان بھی کرتی ہے۔
اسی عمارت میں ایک جگہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے زیرِ استعمال رہنے والے نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان نوادرات کو ایک کمیشن آف انکوائری نے جمع کیا تھا-اس کمیشن کو حکومتِ پاکستان نے 1969 میں تشکیل دیاتھا۔
مزار قائد کے گنبد کا اندرونی حصہ چین کی عوام کی جانب سے تحفہ کیے گئے فانوس کی وجہ سے سبز جھلک دیتا ہے۔ مزار کے گرد ایک پارک بنایا گیا ہے، جس میں نصب طاقتور روشنیاں رات کے وقت مزار کے سفید سنگ مرمر پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ جگہ پر سکون ہے اور دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک کے مرکز کی عکاس ہے۔
چین کی جانب سے فانوس کا تحفہ
مزار کے افتتاح کے دو ہفتے بعد 29 جنوری 1970 کو پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر چانگ تنگ نے ایک سادہ سی تقریب میں قائد اعظم مزار میموریل کمیٹی کے صدر میجر جنرل پیرزادہ کو عوامی جمہوریہ چین کی مسلم ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک خوبصورت فانوس کا تحفہ پیش کیا۔یہ خوبصورت فانوس مزار میں محمد علی جناح کی لحد کے علامتی قبر کے عین اوپر نصب کیا گیا۔ جنرل پیرزادہ نے یہ تحفہ پیش کرنے پر عوامی جمہوریہ چین کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ تحفہ بابائے قوم کی اس یادگار کو چار چاند لگا دے گا۔مزار پر نصب یہ فانوس زمین سے 19 فٹ بلندی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی مجموعی لمبائی 81 فٹ ہے۔ اس فانوس کے چار حصے ہیں جو بدھ سٹوپا کی طرز پر بنائے گئے ہیں۔فانوس کی گولائی نیچے سے اوپر بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس میں مجموعی طور پر 40 سنہری لیمپ لگے ہیں۔ یہ فانوس 46 سال تک مزار پر روشنیاں بکھیرتا رہا۔2016 کے لگ بھگ حکومت چین نے پاکستان کو پیش کش کی کہ وہ اس فانوس کو تبدیل کر کے اس کی جگہ ایک نیا فانوس نصب کرنا چاہتی ہے۔ حکومت نے یہ پیش کش قبول کر لی اور 17 دسمبر 2016 کو بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزارپر نئے دیدہ زیب فانوس کی تنصیب کی رسم انجام پائی۔اس نئے فانوس کا طول 26 میٹر اور وزن 1.2 ٹن ہے۔ اس فانوس کی تیاری پر 22 کروڑ روپے لاگت آئی ہے اور اس میں آٹھ کلو گرام سے زائد سونا استعمال کیا گیا ہے۔اس میں چار دائرے ہیں۔ پہلے دائرے میں 16، دوسرے میں 10، تیسرے میں آٹھ اور چوتھے میں چھ قمقمے نصب ہیں۔یہ فانوس چار ماہ کی مدت میں چین میں تیار ہوا اور 13 چینی ماہرین نے کراچی میں تقریباً ڈیڑھ ماہ کی مدت میں اسے جوڑا اور پھر مزار قائد میں نصب کیا۔
خصوصی مواقع اور مزار قائد
خصوصاً 23 مارچ، 14 اگست، 11 ستمبر، 25 دسمبر، اور دیگر اہم دنوں کے مواقع پر مزار پر خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی معززین اور اعلیٰ عہدیدار بھی مزار کا دورہ کرتے ہیں۔ مزار قائد کو اب ملک کے ''قومی مزار''کا درجہ دے دیا گیا ہے۔الغرض! مزار قائد ایک طرف فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے تو دوسری طرف عوام اور سیاحوں کا مرکز نگاہ بھی ہے۔دعا ہے کہ رب ذوالجلال قائد اعظم محمد علی جناح کی لحد میں تاقیامت نور کی بارشیں برسائے اور ہمیں قائد اعظم کے پیغام کو لے کر چلنے والا بنائے۔ آمین۔ ||
مضمون نگار متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے