جنگ ستمبر 65 کے غازی کرنل ارشد نذیر چشتی (ر) کی یادوں پر مبنی رابعہ رحمن کی تحریر
وطن کی مٹی پہ قربان ہونے کا فخر تاج بن کر ہمیشہ شہیدوںاور غازیوں کے سر پہ سجتا رہے گا۔ وطن سے والہانہ عشق کرنے والوں کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے۔ کوئی بھی اور کیسا بھی کڑا وقت ہو محبت کا یہ جذبہ وطن پرست اور محب وطن کے سینے میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا دشمن کواپنی لپیٹ میں لے کرنیست و نابودکر دیتاہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان قدرت کا وہ معجزہ ہے جسے ظہور پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکا، کٹھن جدوجہد صادق جذبوں کی مرہون ہوا کرتی ہے۔ قوم کی توانائیوں میں جب قربانیوں کا درس اذان بن کے گونجتا ہے تو پھر لبیک کہنے والوں کے خوف سے دشمن لرز اُٹھتا ہے جیسا کہ6ستمبر 1965ء کی جنگ میں ہوا۔ بھارت اپنی طاقت کے غرور میں شب خون مارنے نکلا مگر ہمارے جانبازوں نے یوں ڈٹ کے مقابلہ کیا کہ دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔ پاک فوج نے اس تاریخی معرکے میں سیالکوٹ، قصو ر اور لاہورمیں بی آر بی نہر سمیت ہر محاذ پر اپنے دفاع سے کامیابی حاصل کی اور یہ جنگ بھارت کے لیے بدترین حالات کا باعث بنی۔
1965ء کے شہیدوں کی کہانیاں پڑھ کر اور غازیوں سے گفتگو کرنے کے بعد ہمارے اندر جہاد کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتاہے اور 1965کے واقعات ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کرنل ارشد نذیر چشتی بھی1965ء کی جنگ کے غازی ہیں، بعد میں انہوں نے پاکستان کی دو اور تاریخی جنگوں میں اگلے مورچوں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی زندگی کی خوبصورتی ہے کہ جیسے ہی انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا تو میدان جنگ میں قدم رکھا، ان کا جذبہ ان کی جوانی کا جوش دونوں ہی عروج پر تھے، انہوں نے اپنے روح پرور حالات بیان کرتے ہوئے بتایاکہمیں اپنے خوبصورت گائوں چٹی شیخاں تحصیل وضلع سیالکوٹ میں اپریل 1943ء میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والدصاحب حاجی فضل الٰہی شاہ چشتی بھرپور علم رکھنے والے ڈاکٹر تھے، اس وقت ہم چار بھائی اور دو بہنیں تھے، والد صاحب اپنی بوڑھی ماں یعنی ہماری دادی جان کی خبرگیری کے لیے ہماری والدہ صاحبہ کو گائوںمیں ہی رکھتے تھے۔ کبھی چار چھ مہینے کے لیی ہماری والدہ کو اور ہمیں اپنے ساتھ اپنی تعیناتی کی جگہ پر لے جاتے تھے۔ اس طرح ہم آدھی جماعت گائوں کے سکول میں پڑھتے تھے اور آدھی جماعت اباجان کی نوکری والے شہر میں پڑھتے تھے۔اس طرح ہمیں مختلف شہروں اور مختلف لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا اورانہی ملاقاتوں میں میرے اندر اپنی فوج سے شدید محبت کا جذبہ پیدا ہوچکاتھا۔
1954ء میں اباجان کولمبیایونیورسٹی نیویارک سےMPH کی ڈگری لے کر آئے تو وہ سول ہسپتال کی ملپور (آج کل اٹک) میں تعینات ہوئے اورانہوں نے ہماری تعلیم کے لیے کیڈٹ کالج حسن ابدال کا انتخاب کیا۔میں نے ٹیسٹ پاس کرکے اپریل1955ء میں اس کالج میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لے لیا، میرا چھوٹا بھائی ارشد منیرچشتی بھی دو سال بعد اسی کالج میں داخل ہوگیااور پانچ سال کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدپاکستان فوج میں جانے میں کامیاب ہوگیا۔
میں18مئی1961ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوگیا اور13اکتوبر 1963ء کے دن اللہ کے فضل وکرم سے کمیشن سے نوازا گیا، میری پہلی پوسٹنگ 13FF رجمنٹ میں میرے آبائی شہر سیالکوٹ میں ہوئی۔ اس وقت میرے والد صاحب سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے ہیلتھ آفیسر تھے۔ میں نے فوج کے طریقے بڑی خوشدلی سے اپنائے اور ہروقت اپنے والدکی طرح مطالعہ کی عادت ڈال لی،PMAکی ٹریننگ میں ہمیں جفاکش اورجرأت مند بنادیا۔
13FFرجمنٹ کا کام کچھ اس نوعیت کا تھاکہ1965ء کی جنگ کے ہرمحاذ پر ہماری کوئی نہ کوئی پلاٹون ضرور ہوتی تھی، اس لیے ہمارے افسران کی سوچ کا محور کچھ زیادہ تعلیم کا متقاضی تھا۔
حملے میں چونڈہ کے مقام پر بھارتی فوج کی تین انفنٹری ڈویژن اور ایک بکتر بند ڈویژن شامل تھے، ہمارے لیے اس حملے پر بہت زیادہ غورکرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ حملہ ہمارے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا، اس حملے میں بھارت کی22انفنٹری بٹالین تھیں اور287 ٹینک تھے۔ ہماری فوج کے پاس اتنی نفری نہیں تھی اس لیے وہاں سیالکوٹ کے ایک نالہ اور دیگر ندی کے35کلومیٹر کے لمبے محاذ پر ایک بٹالین3FF اور15ٹینک تھے اور میری پلٹن13FF کی بی کمپنی بھی بہت لمبے چوڑے محاذ پر پھیلی ہوئی تھی۔
1964ء میں بھارت اور پاکستان پرجنگ کے بادل منڈلانا شروع ہوگئے اور ہمارے دلوں میں کچھ شکوک آنے لگے کہ بھارت کے ساتھ اب مقابلہ ہوا چاہتا ہے۔ پھر1962ء میں ہم نے بھارت کی اتنی بڑی فوج کو چینی فوج کے ہاتھوں بری شکست کا سنا تو ہمیں امید ہوئی کہ ہم بھی بھارت کی اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہمارے اندر غازی بننے کے بجائے شہید ہونے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگااور ہمیں یقین تھا کہ جس بہادری ، دلیری اور جانفشانی سے ہم نے لڑناہے وہ ہماری اگلی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ ہوگی اور ہم اللہ کی مدد سے دشمن سے پاکستان کو بچاکررکھیں گے۔
فروری1965ء میں بھارتی فوج کی رن آف کچھ میں شرارت کا منہ توڑجواب دیا تو شاستری نے اپنی مرضی کا محاذ چننے کی دھمکی دے دی۔6ستمبر1965ء کو رات کے اندھیرے میں لاہور بارڈر اور نارووال کے بارڈر پل پر سخت شب خون مارا، ہماری افواج نے زبردست دفاع کیا اوریہ حملے اپنے سینوں پر روک لیے۔میری یونٹ13FF سیالکوٹ چونڈہ ظفروال شکرگڑھ اور نارو وال کے ہر محاذ پر داد شجاعت دے رہی تھی۔ 7ستمبر کی رات بھارت نے سیالکوٹ اور چونڈہ کی جانب ایک بہت بڑا حملہ کیا، یہ1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کا سب سے بڑا حملہ تھا, اس حملے میں چونڈہ کے مقام پر بھارتی فوج کی تین انفنٹری ڈویژن اور ایک بکتر بند ڈویژن شامل تھے، ہمارے لیے اس حملے پر بہت زیادہ غورکرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ حملہ ہمارے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا، اس حملے میں بھارت کی22انفنٹری بٹالین تھیں اور287 ٹینک تھے۔ ہماری فوج کے پاس اتنی نفری نہیں تھی اس لیے وہاں سیالکوٹ کے ایک نالہ اور دیگر ندی کے35کلومیٹر کے لمبے محاذ پر ایک بٹالین3FF اور15ٹینک تھے اور میری پلٹن13FF کی بی کمپنی بھی بہت لمبے چوڑے محاذ پر پھیلی ہوئی تھی۔دشمن کی فوج کو دھوکہ اور فریب دینا کوئی گناہ تو نہیں ہے،13FFکا طریقہ جنگ بالکل مختلف اور نیا تھا۔ یہ اس قدر اچھوتا طریقہ جنگ تھا کہ ہماری اپنی فوج کے افسروں کو بہت سال تک سمجھ نہیں آیا، خاص کر ان افسروں کو تو بالکل نہیں سمجھ آیا جن کو مطالعہ کا بہت زیادہ شوق نہیںتھا۔
13FF کی پلاٹونوں نے ایسے پینترے بدل بدل کربھارتی بکتربند ڈویژن کے مغربی بازو پھر مشرقی بازو اورپھر حد ہوگئی بہادری کی کہ بھارتی بکتر بند ڈویژن پر پیچھے سے حملہ کردیا، ہر شخص ا پنے پیچھے سے حملہ پر بہت زیادہ پریشان ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے جنگیں لڑی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دشمن پر پیچھے سے حملہ کرنا دشمن کے لیے پریشان کن ہوجاتاہے۔
1965کی جنگ میں ہمارے شاعروں، ادیبوں اور گلوکاروں نے اپنے فن سے اپنی فوج کے جذبوں کوجس طرح سے جوش دلایا اور ان کی ہمت بندھائی، ان شاعروں،ادیبوں، گلوکاروں اورموسیقاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
13FFکے افسروں جے سی اوز اور جوانوں کے ایسے دلیرانہ قسم کے جنگی پینتروں سے دشمن کی بڑی فوج کی پیش قدمی کو روک کر ہم نے اسے جامد کردیا۔ پاکستانی فوج نے جس طرح سے یہ جنگ لڑی اس کی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان زندہ باد، پاکستانی فوج زندہ باد۔13FFرجمنٹ زندہ باد
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے