جنگ ستمبر ایک کرشماتی اور معجزاتی یاد ہے ، اس جنگ نے پاکستان کے مختلف اور دور دراز علاقوں میں بسنے والوں کو متحد کر دیا تھا ، مختلف زبانیں بولنے والے بھی یک زباں ہو گئے تھے ، بھارت کا مادی ، افرادی اور فوجی زعم بھی پارہ پارہ ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مغربی اور مشرقی پاکستان کے آپس کے اتحاد اور بھائی چارے کی آزمائش کا امتحان بھی ہوا ۔پاکستان کے ان دونوں حصوں میں ہزار میل کا فاصلہ اور مواصلاتی رابطے میں کسی خلل کے سبب احتیاطاًمشرقی پاکستان کے اُن دنوں کے فضائیہ کے انچارج کو بتا دیا گیا تھا کہ انہیں یہ اختیار ہے کہ وہ اگر محسوس کریں اور خبر کنفرم بھی ہو کہ بھارت نے مغربی پاکستان پر حملہ کر دیا ہے تو وہ مزید کسی پیغام کا انتظار کئے بغیر بھارتی دفاعی ٹھکانوں پر حملہ کر دیں۔ یہی وجہ تھی کہ7 ستمبر کو ڈھاکہ سے خبر ملی تھی کہ صوبہ بہار کے کلائی کنڈہ فوجی ائیر پورٹ پر حملہ کر کے پاکستانی طیاروں نے بھارتی فضائیہ کو خاصا نقصان پہنچایا تھا خیال تھا کہ بھارت کے 14 کینبرا طیارے زمین پر ہی تیاہ کر دیے گئے تھے ، جب کہ 6 کینبرا اور 4 ہنٹر طیاروں کو اس ساری کارروائی میں جزوی نقصان پہنچا تھا ۔پاکستان کو صرف ایک طیارے کا نقصان ہوا تھا۔
مغربی پاکستان میں 6 ستمبر 1965 کو جب سویرے سویرے بھارت نے اچانک اور غیرعلانیہ جنگ کا آغاز کیا تو باقی مسلح افواج کی طرح ایئر فورس بھی الرٹ تھی اور مقابلے کے لیے تیار دکھائی دی۔
ائیر مارشل محمد اصغر خان اور دیگر ائیر فورسقیادت نے فیصلہ کیا کہ بھرپور دفاع اور جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ دوست اور مسلمان ملکوں میں بھی جایا جائے جہاں سے کچھ جنگی ساز و سامان جس کی فوری ضرورت تھی وہ لیا جائے ۔ پہلے مرحلے میں ، چین ، انڈونیشیا اور دوسرے مرحلے میں ترکی اور ایران پر فوکس کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان ایئر فورس نے کم طیاروں کے ساتھ بہترین حکمتِ عملی اپنائی اور بھارت کو ناکوں چنے چبوادیے۔
بہر طور بات 6 ستمبر کی بھارتی جارحیت سے شروع ہوئی تو پاکستان کی طرف سے بھارت پر پہلا فضائی حملہ پلان کیا جو 6 ستمبر کو پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر سکواڈرن لیڈر حیدر کی قیادت میں ہوا اور کامیاب رہا۔ سکواڈرن لیڈر سید سجاد حیدر جونوزی حیدر کے نام سے جانے جاتے تھے وہ پیشہ ورانہ طور سے گزشتہ تین ماہ سے بھارت کے شہر انبالہ کے ہوائی اڈے کو فوکس کئے ہوئے تھے ، اسی کے جغرافیے اور محل و وقوع پر مہارت پا چکے تھے، بس ضرورت پڑنے کا انتظار تھا اور یہ معمول کی دہرائی ہوتی رہتی ہے تاکہ کسی ہنگامی صورت حال کے لئے خود کو تیار رکھا جائے لیکن اچانک جب انبالہ کے بجائے ٹارگٹ تبدیل کر دیا گیا تو نوزی حیدر کے لئے پٹھان کوٹ تو بالکل ہی نیا اور انجانا ٹارگٹ تھا ، باوجود اس نا انسیت کے پٹھان کوٹ کے لئے نوزی حیدر نے خود کو کمر بستہ کر لیا۔ چھ ستمبر کو چار بجے شام اپنے 19 سکواڈرن کے دیگر 8 فائٹر پائلٹس کو ٹارگٹ کے بارے بریفنگ دینے کے بعد پانی سے بھری ایک بالٹی منگوا کے اس میں یوڈی کلون کی بوتل انڈیل کے چھوٹے چھوٹے سفید تولئے اس میں بھگو کے تمام ساتھی پائلٹس کے گلے میں حمائل کر کے سکواڈرن لیڈر نوزی حیدر نے کہا کہ ہم ایک خطر ناک مشن پر روانہ ہو رہے ہیں ، ممکن ہے ہم مادر وطن پر نثار ہو جائیں، میری خواہش ہے کہ ہمارے جسموں سے خوشبو آتی رہے ، جب ہم اللہ کے حضور پیش ہوں تو ہم معطر ہوں ،اس عمل سے ساتھی پائلٹوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور وہ سب پٹھان کوٹ مشن پرروانہ ہو گئے، جہاں پہنچ کے انہوں نے پٹھان کوٹ کے فوجی اڈے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، اڈے پر کھڑے ، روسی ساخت مگ 21 ، جو چند گھنٹے پیشترچندی گڑھ ائیر بیس سے پٹھان کوٹ لائے گئے تھے اور تھوڑی دیر پہلے وہ چھمب کے علاقے میں اپنی پیدل فوج کی ہلا شیری کے لئے پاکستانی علاقے پر بمباری کر کے پٹھان کوٹ میں پٹرول لے رہے تھے کہ پاکستانی فائٹر نے انہیں جا لیا اور اڑان بھرنے سے پہلے ہی ان سب کو تباہ کر دیا اس کے علاوہ پانچ ہنٹر طیارے ،یک ٹرانسپورٹ سی 119 ، اور پٹھان کوٹ کا ائیر ٹریفک کنٹرول ٹاور بھی تباہ کر دیا تھا ، یوں اگلے سترہ دن کی جنگ کے تمام عرصے میں پٹھان کوٹ کا وہ فوجی ہوائی اڈہ نہ صرف یہ کہ دوبارہ قابل استعمال نہ بنایا جا سکا بلکہ ، مگ 21 جدید طیارے بھی بھارت نے مکمل طور سے جنگ سے باہر کر دئیے تھے۔ سکارڈرن لیڈرنوزی حیدر نے پٹھان کوٹ مشن کو خطر ناک اس لئے کہا تھا کہ ایک تو وہ اس ٹارگٹ سے پوری طرح باخبر نہ تھے۔ دوسرا ان کے طیارے F-86 جنہیں شیر دل طیارہ بھی کہتے تھے، ان کی آپریشنل رینج صرف 280 میل تھی جب کہ ٹارگٹ 257 میل کی دوری پر تھا ۔پاکستان کے لئے پٹھان کوٹ مشن کی کامیابی کا اعتراف اس وقت کے بھارتی ائیر چیف راگھویندرن نے بھی کیا تھا ۔ پٹھان کوٹ مشن کی کامیابی پر ونگ کمانڈر غلام محمد تواب اور سکواڈرن لیڈر سید سجاد حیدر کو ستارہ جرأت دیا گیا تھا!!
پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھارت نے پاک فضائیہ کے عزائم بھانپ لئے تھے، یہی وجہ تھی کہ آدم پور اور ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر حملوں کے وقت بھارتی طیارے فضا میں گشت پر تھے، آدم پور مشن کی قیادت سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم (محمد محمود عالم ) کر رہے تھے اور ہلواڑہ اٹیک کی 5 سکواڈرن کی کمان سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی کے ذمے تھی۔ ان دنوں مشرقی پنجاب کے ایک بڑے حصے پر گرد و غبار کا طوفان چھایا ہوا تھا، فضا میں سخت دھند تھی۔ ایم ایم عالم اور سرفراز احمد رفیقی امرتسر سے گزر کر ذرا آگے گئے تو بھارتی فضائیہ نے انہیں آلیا ، یوں آدم پور اور ہلواڑہ پر حملے کا پلان مسدود ہو گیا۔ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم سرگودھا بیس پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ، مگر سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی نے دشمن کا دفاع توڑ کر اپنے ٹارگٹ پر ہلواڑہ جانے کی کوشش کی اور اپنی قیادت میں بھارت کے دو ہنٹر طیارے مار بھی گرائے اور اسی دوران رفیقی شہید ہوگئے، رفیقی کی شہادت سے پاکستان ایک عظیم ہوا باز سے محروم ہوگیا۔ رفیقی پاکستان فضائیہ کا 1965 کا پہلا شہید تھا، رفیقی کی شہادت نے سرگودھا بیس کے دیگر پائلٹس کو ایک نئے جذبے سے ہم آہنگ کیا۔اُنہیں ہلالِ جرأت اور ستارہ جرأت بعد از شہادت ملے ۔سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی کے طیارے کو جس بھارتی ہنٹر نے نشانہ بنایا تھا، اس ہنٹر کو پاکستانی فضائیہ کے گروپ کیپٹن سیسل چودھری نے فوری نشانہ لے کر مار گرا یا تھا ۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جنگ ستمبر 1965 اس خطے پر اسلام اور کفر کا چوتھا معرکہ تھا۔ پہلی بار دیبل712میں محمد بن قاسم کی فتح نے خطے میں مسلمانوں کے لئے پیش قدمی کے راستے کھولے ، دوسری بار1026 میں محمود غزنوی نے کارروائی کر کے ہندوؤں پر سات سو برس تک مسلمانوں کی فتوحات کی راہ ہموار کی اور تیسری بار پانی پت کی تیسری جنگ 1761 میں احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو شکست فاش دی، جب کہ چوتھی بار ستمبر 1965 میں پاکستان نے بھارت کی جارحیت اور شب خون مارنے کا گھمنڈ خاک میں ملایا تھا۔
1965 کی جنگ سے پہلے پاکستان کی اقتصادی حالت خاصی بہتر تھی، ملک کی مجموعی پیداوار 8 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال تھا کہ اگر ترقی کی یہ شرح دس سال تک برقرار رہی تو وہ دن آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا جب ایشیا میں پاکستان جاپان کے برابر کھڑا ہو گا۔ ان دنوں پاکستان سیٹو اور سینٹو میں شامل تھا۔ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی تھا ۔ پاکستان کے دفاعی اخراجات بھی کم تھے ، آمدن کا زیادہ حصہ زراعت اور صنعت پر خرچ ہو رہا تھا جس کی وجہ سے ملک کا اقتصادی مستقبل روشن اور پر امید تھا۔
جنگی اعتبار سے تینوں فورسز ایک دوسرے کی معاون ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کا اندازہ 1971 کی پاکستان اور بھارت کی جنگ میں اس وقت ہوا تھا جب سوویت یونین مشرقی پاکستان جانے والے سمندری راستے میں جارحیت کرتے ہوئے رکاوٹ بنا اور فضائوں پرظاہر ہے بھارتی فضائیہ نے راہداری نہ کھولنی تھی نہ کھولی۔ یوں1971 میں ایک محدود ماحول میں 34 ہزار پاکستانی فوج ساڑھے پانچ لاکھ بھارتی فوج اور ڈیڑھ لاکھ مکتی باہنیوں سے نبرد آزما رہی۔
پاکستان مسلح افواج اور قوم نے ان جنگوں سے بہت کچھ سیکھا اور پھر معرکۂ کارگل اور بھارت کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہونے والی جھڑپوں کو اس امر کا بخوبی ادراک ہوگیاکہ پاکستان کو جارحیت کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی ۔
بہرحال 6 ستمبر کے موقع پر یومِ دفاع و شہداء منایاجاتا ہے۔ اس موقع پر قوم کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ ملک بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں مسلح افواج کے شہداء اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ہماری قوم کی باہمی یکجہتی اور یگانگت اس کا اثاثہ ہے جو ہر مشکل گھڑی میں یکجان ہوتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ پاکستان تاقیامت سلامت رہے گا۔ان شآء اﷲ!! ||
مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے