وطن سے محبت اور عقیدت فطری ہوتی ہے ، اس فطری تقاضے کا اظہار لفظوں سے نہیں بلکہ جذبوں سے ہوتا ہے ۔ وطن کی محبت مقدم حیثیت اور اولیت رکھتی ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر کوئی بھی شخص آزاد شہری کہلاتا ہے ۔
وطن کی محبت وہ لازوال اور بے مثال رشتہ ہے جو تمام انسانی محبتوں پر حاوی ہے۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ مادر وطن سے محبت اور عقیدت ہمارے ایمان کا لازمی اور بنیادی جزو ہے ۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص سے وفاداری کا دعویٰ نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی مٹی سے وفادار نہیں ہے ۔
چھ ستمبر ، یوم دفاع تو عہد وفا کا دن ہے، یہ زندہ قوموں کی پہچان ہے ۔ یہ ہماری آزادی کی علامت ہے ، آزادی کے لیے قومیں تو خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتی ہیں چھ ستمبر ہماری تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جسے ہم یوم دفاع کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ دن ان شہیدوں اور غازیوں کے نام ہے جنہوں نے6 ستمبر1965 کی پاک بھارت جنگ میں تحفظ وطن کے لیے بے پناہ قربانیاں پیش کیں ۔ اس جنگ کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس جنگ میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد نے فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ ملک کے دفاع کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ۔
ہمارے ازلی اور روایتی دشمن بھارت نے 6 ستمبر کو رات کے اندھیرے میں واہگہ بارڈر کو کراس کرنے کی کوشش کی ، یہ سراسر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھی لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی سے صرف یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ بین الاقوامی قانون کو کاغذ کے چند پرزوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ۔ جب یہ بزدلانہ حملہ ہوا تو پاکستانی فوج کے پاس بیشک اسلحہ اور افرادی قوت کی کمی تھی لیکن ہمارے فوجی جوان مملکت خداداد کے تحفظ کے لیے جذبہ ایمان ، جرأت اور بہادری سے سرشار تھے ۔ بھارتی فوج نے17 دن میں 13 حملے کیے لیکن یہ ہماری فوج کا جذبہ ایمانی ہی تھا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ خود سے بڑی طاقت کا مقابلہ ضروری نہیں کہ عددی اکثریت سے کیا جائے ۔ یہ ہماری فوج کے جذبہ جہاد کی لگن ہی تھی کہ میجر عزیز بھٹی شہید ساری ساری رات جاگ کر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ ملک کا دفاع کرتے رہے۔ وہ لاہور میں برکی کے مقام پر کمپنی کمانڈر تعینات تھے ۔ انھوں نے دشمن کو بی آر بی نہر پار نہ کرنے دی اور پسپائی پر مجبور کر دیا ، اس مرد حر نے اپنے سینے پر گولہ کھا کر وطن کی لاج رکھ لی ۔ لاہور کے محاذ پر ہمارے ڈیڑھ سو سپاہیوں کی ایک کمپنی نے بھارت کے ڈیڑھ ہزار سپاہیوں کو روکے رکھا ۔
وطن کی محبت وہ لازوال اور بے مثال رشتہ ہے جو تمام انسانی محبتوں پر حاوی ہے۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ مادر وطن سے محبت اور عقیدت ہمارے ایمان کا لازمی اور بنیادی جزو ہے ۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص سے وفاداری کا دعویٰ نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی مٹی سے وفادار نہیں ہے ۔
اس روز پاک فوج اور غیور عوام نے ہم قدم ہو کر دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ بھارتی جرنیلوں نے تو یہی سوچ رکھا تھا کہ 6 ستمبر کے اگلے دن لاہور کی سڑکوں پر اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دیں گے اور شام کو لاہور جم خانہ میں کاک ٹیل ( شراب نوشی)کی تقریب منعقد کر کے بین الاقوامی دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ اسلام کا قلعہ سمجھی جانے والی ریاست پر انڈیا کا قبضہ ہو چکا ہے لیکن پاکستانی افواج نے بھارتی فوج کے ان ناپاک ارادوں پر اس طرح پانی پھیر کر اسے یوں ملیا میٹ کر دیا جس طرح ایک بوسیدہ عمارت ذرا سے جھٹکے سے زمین پر آجاتی ہے ۔
یہ لڑائی ٹینکوں کی لڑائی بھی کہلاتی ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی ۔ بھارتی فوج یہاں سیکڑوں ٹینک لے کر آگئی تھی لیکن پاک فوج کی بروقت اور درست جوابی کارروائی نے دشمن کے متعدد ٹینک تباہ کر دیے اورکئی فیلڈ گنیں بھی قبضے میں لے لیں ۔ بھارتی فوج تو ایسی حواس باختہ ہوئی کہ میدان میں ہی ٹینک چھوڑ کر بھاگ گئی گویا پاکستانی فوج نے چونڈہ کے مقام کو بھارتی فوج کے لیے ٹینکوں کا قبرستان بنا ڈالا ، جنگ کے بعد دشمن فوج کے قبضے سے ملنے والے ٹینک اور دیگر ساز و سامان کو منٹو پارک میں نمائش کے لیے بھی رکھا گیا ۔
1965ء کی جنگ میں اگر فاتح پاکستانی افواج تھیں تو وہیں پاکستانی عوام چاہے وہ گھریلو خواتین ہوں ، مائیں ، بہنیں ، بچے ، بوڑھے ، جوان ، شاعر ، گلوکار سب کے سب ایک ہی صفحے پر نظر آئے ۔پاکستانی شاعروں نے جذبہ حب الوطنی کا اظہار یوں کیا کہ جیسے ملی نغمے لفظوں سے لکھی ایک تحریر نہ تھی بلکہ سچے جذبوں سے گندھی ایک تاریخ بن گئی ۔ یہ اشعار ہمارے وطن کی حفاظت کے امین بن گئے ، یہ ملی نغمے نوجوانوں کی ہمت بندھاتے رہے اور ان کے عزم و حوصلہ کو کبھی متزلزل نہ ہونے دیا ۔
ریڈیو پر نور جہاں اور استاد امانت علی خان کے ملی نغمے گونجے ۔ بہت سے مخیر حضرات دیگیں پکوا کر لاتے رہے اور فوجیوں کو خوراک اور دیگر کمک پہنچائی گئی ۔
یعنی قوم اس قدر متحد تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی ، پاکستانی فوج اب بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے لیکن اس وقت دنیا بھر میں اسے ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے ۔
ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بارڈرز پر فوجی چوکس کھڑے ہیں تو دوسری طرف ملک میں ہونے والی خانہ جنگی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے لیے ایک خطرناک چیلنج کی صورتحال اختیارکر گئی ہے ۔ اس وقت فوج کو بیرونی سرحدوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا ملک دشمن عناصر وطنِ عزیز پاکستان اورپاکستانی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
فوج بہت سے محاذوں پر لڑ رہی ہے ، قدرتی آفات ہوں یا دفاعی سرگرمیاں ، ہم فوج کے کردار سے انکار نہیں کر سکتے لیکن بجائے اس کے کہ فوج کا مورال بلند کیا جائے چند وطن فروش اور احسان فراموش کالی بھیڑیں فوج کے مقدس ادارے پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں، جو قابل مذمت ہے اور لائق سزا ہے ۔
آج جو ہم سب اس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں وہ بہادر مائوں کے ان غیور اور جری سپوتوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ، ہم ان مجاہدین کے مقروض ہیں جنہوں نے اپنی جانیں پہلے بھی قربان کیں اور اب بھی عہدِ وفا نبھاتے ہوئے اپنے لہو کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ۔ ہم ان مائوں سے محبت کا حق ادا نہیں کر سکتے جنہوں نے قوم کے لیے اپنے جگر گوشے قربان کر دیے ۔ ہم ان بیوہ خواتین کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے جنہوں نے اس ملک کی آن بان کے لیے اپنا سہاگ کھو دیے اور کتنے ہی بچے یتیم اور بے سہارا ہو گئے ۔
دیکھا جائے تو یوم دفاع صرف چند تقاریب اور فوجی نمائشوں کا ہی دن نہیں ، یہ تو ایک نظریہ ہے جو ہماری نسلوں کی بقا کا ضامن ہے، یہ تو بہادر وطن کے جری جوانوں کی بہادری اور ا ن کی غیرت و حمیت کی داستاں ہے ۔ پاکستان کی سالمیت مضبوط ہاتھوں میں ہے ہمیں اس کی سربلندی کے لئے کام کرنا ہے۔ چاہے ہم ملک کے کسی بھی شعبے میں کام کیوں نہ کر رہے ہوں ۔ ہماری فوج دشمن کے سامنے ایک آہنی دیوار ہے جس کے سائے تلے ہم سب سکون کی زندگی گزار رہے ہیں آج ہر فوجی یہی پکارتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
مضمون نگار گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور رپورٹر ، محقق اور پروڈیوسر وابستہ ہیں ، کالم اور بلاگس کے ساتھ ساتھ افسانے بھی تحریر کرتی ہیں ۔
[email protected]
تبصرے