گراڈسکا کی مسجد کے مینار دور سے نظر آ رہے تھے، ہم راستہ تلاش کرتے ہوئے مسجد کے سامنے جا رکے جس کا طرز تعمیر ترکی میں بنائی جانے والی مساجد جیسا تھا۔ ارد گرد سے گزرنے والی عورتوں نے پورے کپڑے اور سروں پر حجاب اوڑھے ہوئے تھے۔ ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک جوان شخص پتلون قمیض میں ملبوس آ موجود ہوا۔ میں نے امام مسجد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو معلوم ہوا کہ وہ خود ہی امام مسجد ہے۔ اس نے ہمارے یونیفارم اور اس پر لگے ہوئے پاکستان کے نشان کو پڑھ کر ہمیں گلے لگایا۔ اپنے کمرے میں لے گیا اور جلد ہی میز کو انواع و اقسام کے کے کھانوں سے بھر دیا اور نہایت لذیذ قہوہ پلایا۔
اسی دوران امدادی سامان ان کی بتائی ہوئی جگہ پر اتار دیا گیا۔امام صاحب جو کہ بغیر داڑھی مونچھ کے تھے، مجھ سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پاکستان اور امت مسلمہ کی باتیں کرتے اور بوسنیا کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتے رہے۔ ایک نہایت دلچسپ اور یادگار ملاقات کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوئے۔ کچھ امدادی سامان ہم نے واریش کے قصبے میں بھی پہنچانا تھا۔ واریش سے کچھ پہلے ایک پل پر ہمیں مجاہدین کی طرف سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ آگے مجاہدین اور عیسائی ملیشیا میں لڑائی جاری ہے آپ انتظار کریں۔
مجھے انہوں نے اپنے ساتھ چلنے اور قہوہ پینے کی دعوت دی۔ قافلے کی گاڑیوں کو سڑک کے کنارے کھڑا کر کے میں ان کے ساتھ چل دیا۔ وہ ایک لمبے راستے سے مجھے پل کے نیچے لے گئے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کی فلموں میں دکھائے جانے والے پلوں کی طرح کی جگہ تھی جس کے نیچے چشموں کا پانی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ مجاہدین کے کمانڈر نے مجھے میرے یونیفارم سے پہچانتے ہوئے گلے سے لگایا اور اپنے ساتھیوں سے ملاقات کروائی۔ ان میں دو ایرانی اور تین عرب نوجوان تھے۔ ہم سب زمین پر بیٹھ گئے ۔ شام کا وقت تھا اور اندھیرا آہستہ آہستہ ہر طرف پھیل رہا تھا۔ ایک طرف پتھروں سے بنے ہوئے چولہے میں جلتی بجھتی آگ پر قہوہ پک رہا تھا۔مجھے قہوہ پلایا اور خشک گوشت کھانے کو دیا۔ اسی دوران ان کے کمانڈر کو وائرلیس پر کہیں سے ہدایات موصول ہوئیں اور ہمیں آگے جانے کی اجازت مل گئی۔ سامان بحفاظت پہنچا کر رات گئے ہم واپس کیمپ ڈولا آ گئے۔اسی دوران پاکستان سے ایک بحری جہاز سامان رسد لے کر سپلٹ کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا۔ اس میں ہماری بکتر بند گاڑیاں ، مواصلاتی آلات اور پینے کا پانی پاکستان سے آیا تھا۔ میں اس سامان کو وصول کرنے کے بندرگاہ پہنچا تو وہاں پر میجر جانسن سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھے اپنے دفتر میں لے گئے۔ اس دوران کرنل جوزف بھی وہیں آ گئے۔ میجر جانسن نے کافی اور بسکٹ منگوا لیے اور ہم پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ نیوزی لینڈ کی باتیں کرنے لگے۔
اگلی صبح میں کیمپ ڈولا جانے کے لیے ہوٹل سے روانہ ہوا۔ اس ہوٹل میں قیام کے دوران میں مسلسل آنکھوں اور دم سمیت تلی ہوئی مچھلی اور انڈے ڈبل روٹی کے ساتھ کھا رہا تھا کیونکہ باقی جو کچھ کھانے کے لیے پیش کیا جاتا تھا مشکوک تھا۔سور کے گوشت کے قتلوں اور ٹکڑوں کے بیچ میں سے آپ کو اپنا رزق شناخت کرکے نکالنا ہوتا تھا۔ہم شہر سے باہر نکلے تو ایک کھلے میدان میں سفید رنگ کی اقوامِ متحدہ کی جیپیں اور بڑی گاڑیاں ایک ترتیب سے کھڑی نظر آئیں۔ کچھ گاڑیوں پر پینٹ کیا ہوا پرچم ستارہ و ہلال بھی دور سے دکھائی دے رہا تھا۔ گاڑیوں سے ذرا ہٹ کے ایک ٹینٹ نصب تھا جس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ یہ ویسا ہی ٹینٹ تھا جو ہم فیلڈ میں لنگر کے لیے نصب کرتے ہیں۔ میں بے اختیار اس کچے راستے پر مڑ گیا۔وہاں پہنچ کر میجر اکرام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا دستہ ایک دوسرے سیکٹر میں فرائض انجام دینے کے لیے جارہا ہے اور یہ ان کا عارضی پڑاؤ ہے۔
وہ مجھے اپنے خیمے میں لے گئے اور تھوڑی دیر میں چنے کی دال اور تازہ روٹیوں سے بھرا ہوا تھال آگیا۔ اس دال اور ان روٹیوں سے بہتر کوئی چیز شاید جنت میں ہی کہیں میسر ہو گی۔ میں نے سیر ہو کر دال اور روٹیاں کھائیں کیونکہ کیمپ ڈولا میں بھی ابھی تک ہمیں جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی اور ہم ڈبل روٹی کے ساتھ چنے اور سبزیاں وغیرہ کھا رہے تھے۔ گوشت خوروں کے لیے یہ نہایت کڑا وقت تھا۔میجر اکرام کا شکریہ ادا کر کے میں کیمپ آگیا۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شعیب منصور جو کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ کام کرتے ہیں، کسی ڈرامے کے سلسلے میں یہاں آ رہے ہیں اور کچھ دن ہمارے ساتھ رہیں گے۔ اسی دوران ہم خیموں سے نکل کر اپنی پکی رہائش نمفا ہوٹل میں منتقل ہوگئے۔چند دن بعد شعیب منصور بھی آن پہنچے۔ وہ دراز قامت اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے شخص ہیں۔ جلد ہی ہم گھل مل گئے اور انہوں نے اپنے ڈرامے کے بارے میں ہم سے مشورہ لیا۔ ڈرامے کی کہانی سنائی اور ہم نے بھی اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات انہیں سنائے جو انہوں نے اپنے ڈرامے میں شامل کرلیے۔ ڈرامے کے نام کے بارے میں ابھی تک کچھ طے نہیں ہوا تھا ۔ ہم دوست ایک دوسرے کو براوو کہہ کر پکارتے تھے۔ فوجی زبان میں اس کے ظاہری معنی بھائی کے ہیں اس کے علاوہ اس کے کچھ باطنی مطالب بھی ہیں جو یہاں بتانا مناسب نہیں۔
شعیب منصور نے مجھے بھی ڈرامے میں ایک کردار کی پیشکش کی لیکن میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے وقت نہ نکال سکا۔ جب ڈرامہ مکمل ہوا تو شعیب منصور نے بتایا کہ ڈرامے کا نام الفا براوو چارلی رکھا ہے تو ہمیں بھی یہ نام پسند آیا۔
ہمارا ہوٹل کیونکہ سمندر کے کنارے تھا تو ہم شام کو اکثر سمندر میں تیرنے کے لیے چلے جاتے۔ ہم نے پانی میں پہننے والی گوگلز اور اسنارکل بھی خرید لیے جن کی مدد سے ہم پانی کے اندر دیکھ سکتے اور دیر تک تیر سکتے تھے۔ سمندر کے مد و جزر کا چاند کے گھٹنے بڑھنے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ چاند جب مکمل ہوتا تو سمندر کی لہریں بلند ہوکر کسی وحشی کی طرح بار بار اپنا سر ساحل پر پٹختیں۔ ہم اکثر چودھویں کی راتوں میں ساحل پر چلتے ہوئے دور تک نکل جاتے اور سمندر کی وحشت کا نظارہ کرتے۔ ایک شام جب کہ سمندر خاموش تھا اور پانی بالکل ساکت کسی جوہڑ کی طرح لگ رہا تھا ہم نہانے کے لیے سمندر میں اتر گئے۔میں نے اسنارکل پہنے ہوئے تھے اور زیر آب پودوں اور مچھلیوں کو دیکھ رہا تھا اتنے میں مجھے سیاہ اور سرخ چھوٹی مچھلیوں کا ایک گروہ نظر آیا۔ وہ اتنی خوبصورت تھیں کہ میں ان کو نزدیک سے دیکھنے کے لییان کی طرف تیرنے لگا۔ کافی دیر تک وہ میرے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی رہیں اور پھر غائب ہوگئیں۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے کیونکہ میں ساحل سے بہت دور نکل آیا تھا۔ ایک دفعہ تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں واپس نہیں پہنچ سکوں گا لیکن میں نے اپنے حواس بحال کیے اور اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں آہستہ آہستہ ساحل تک پہنچ سکتا ہوں۔ میں دھیرے دھیرے اپنے آپ کو یقین دلاتا بالآخر ساحل پر پہنچ گیا جہاں دوسرے افسر میرا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے میری دیر تک اور دور تک تیرنے کی صلاحیت کی بہت تعریف کی۔ میں نے بھی خاموشی اختیار کیے رکھی کیونکہ انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں تھا۔
پاکستان سے روانگی کے وقت والد صاحب مجھے الوداع کہنے ائیر پورٹ تک آئے اور ایک بڑا لفافہ میرے حوالے کیا اور فرمانے لگے کہ بیٹا اس میں قرآن مجید ہے اس کو ایک دفعہ ضرور پڑھ لینا۔ میں نے ان سے قرآن پڑھنے کا وعدہ کیا تو وہ میرا ماتھا چوم کر مجھے ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد یوں لگا جیسے سب کچھ مجھ سے علیحدہ ہو گیا ہے۔ میرا پاکستان، میرا خاندان، میری بیوی، میری دونوں بیٹیاں ردا اور ایلیاء ۔ابھی تومیں پاکستان میں ہی تھا پھر بھی میرا دل اداسی کے ڈھیر میں یوں دبا کہ سانس لینا مشکل ہوگیا۔
دونوں بیٹیوں کی چمکتی ہوئی آنکھیں اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرا سانس روک رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے آ کر مجھ سے میرا سامان لیا تاکہ جہاز میں رکھا جا سکے۔ کروشیا پہنچ کر میں نے قرآن کو کھولا اور ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے قرآن کو غور سے پڑھا۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا میری اشتہاء بڑھتی گئی اور اپنی کم علمی اور کم عملی کا احساس جان لیوا ہوتا گیا۔ آہستہ آہستہ میں قرآن سے مانوس ہوا تو اس نے میرے اندر کی ان پرتوں کو بھی کھول کر میرے سامنے رکھ دیا جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ ان کو میرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ میں ایک انجانے خوف کا شکار ہوتا گیا لیکن قرآن نے نہایت نرمی سے اپنے آپ کو آشکار کیا اور تمام انسانی بیماریوں اور گناہوں سے بچنے کے طریقے بتا دیے اور نیکیوں کے لیے اجر عظیم بھی پیش کیا۔میں ایک انجانی اور غیر دریافت شدہ دنیا میں گم ہوتا گیا۔ یورپ کے بیچوں بیچ میں جہاں ہر طرح کا عیش و عشرت دو دو ٹکے میں میسر تھا، قرآن نے میری رہنمائی کی اور میں نے جانا کہ اگرچہ برائی کرنے میں لطف ہے لیکن برائی کو توجہ نہ دینے اور اس سے بچنے کا لطف زیادہ ہے۔ والد صاحب کا تیر نشانے پر لگا اور میں نے قرآن کو اپنا ساتھی بنا لیا وہ بھی عین جوانی میں اور یورپ کے بیچ میں۔ ||
تبصرے