اہلِ کشمیر اور پاکستان اتحادو یگانگت اور باہمی عزت و احترام کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔باہمی اتحادو یگانگت کے اس رشتے کی بنیاد ایک تہذیب، ثقافت و تمدن، یکساں سماجی، معاشی اور مذہبی رہن سہن ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جغرافیائی حد بندی اور یکساں نظریاتی احساس کی وجہ سے کشمیر اور پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
1930 میں خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے جہاں قیام پاکستان کے خدو خال کو واضح طور پر ا جاگر کیا وہاں مسلما نان کشمیر کے لیے بھی آزادی حریت کے جذبے کو جلا بخشی۔ مسلما نان کشمیر بھی دو قومی نظریے کے حامی اور ڈوگرہ حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں ، امتیازی قوانین اور توہین مذہب سے سخت خائف تھے۔چنانچہ اپریل 1931 میں ریاست میں بندش خطبہ عید اور پھر توہین قرآن الحکیم کے واقعات نے سرزمین میں سلگنے والی چنگاری کو شعلے کی شکل دے دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری سرزمین جموں و کشمیر نعرہ تکبیر کی صدائوں کے ساتھ تحریک آزادی کی نوید سے گونج اٹھی۔
29 اپریل 1931کو جب کہ جموں کے مسلمان عید گاہ میں نماز عید ادا کر رہے تھے اور امام مسجد عطا اللہ شاہ بخاری فرعون اور حضرت موسیٰ کا واقعہ خطبہ عید میں بیان کر رہے تھے، اچانک ایک غیر مسلم ڈی آئی جی چوہدری رام چندبولا امام صاحب خطبہ بند کیجیے، آپ قانون کی حدود کو پھلانگ رہے ہیں اور جرم بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں میں اس واقعہ سے زبردست اشتعال پیدا ہوا اور نماز کے فورًا بعد جامع مسجد میں ایک پر جوش احتجاجی جلسہ عام ہوا جس میں جموں کی ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کے نوجوانوں نے پرجوش اور جذباتی تقاریر کرتے ہوئے اس مداخلت پر شدید احتجاج کیا ۔چند دن ہی گزرے تو جموں جیل کی پولیس لائنز میں ایک ہندو ہیڈ کانسٹیبل کے ہاتھوں تو ہین قرآن کا حادثہ پیش آیا ۔ انہی دنوں جموں کے گائوں میں پولیس نے مسلمانوں کو عید گاہ میں نماز پڑھنے سے روک لیا۔ ان تمام واقعات نے مسلمانوں میں سخت اشتعال پیدا کیا اور ریاست بھر میں بھرپور احتجاج ہوا۔ اسی سلسلے میں سرینگر کی جامع مسجد میں ایک بڑا جلسہ عام ہوا جس میں مقررین نے جموں کے واقعات پر زبردست احتجاج کیا۔
جلسے کے بعد ایک احتجاجی جلوس ترتیب دیا گیا تمام ریاست کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی۔
مہاراجہ ہری سنگھ کا مشیر خاص مسٹر ویک فیلڈ (G.E.C. Wakefield) اس سلسلے میں جموں آیا، اس نے مسلمانوں کو ایک وفد کی صورت میں مہاراجہ ہری سنگھ سے ملنے کا مشورہ دیا ۔چنانچہ مسلمانان جموں نے چوہدری غلام عباس ، مستری یعقوب علی،سردار گوہررحمان اور شیخ عبدالحمید کو ایک جلسہ میں اپنا نمائندہ چن لیا۔ سرینگر والوں کو بھی اپنے ساتھ نمائندے چننے کا مشورہ دیا گیا خانقاہ معلی کے اجلاس میں کشمیر سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں خواجہ سید الدین شال، میر وائس محمد یوسف شاہ، میر وائس احمد اللہ حمدانی،آغا سید حسین شاہ جلالی، خواجہ غلام احمد عثمانی، شیخ محمد عبداللہ اور منشی شہاب الدین کو نمائندہ منتخب کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر ایک نوجوان عبدالقدیر جو تمام کارروائی سن رہا تھا کھڑا ہو گیا اور اس نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ قراردادوں اور گزارشات سے شب ظلمت سحر سے کب ہمکنار ہوتی ہے ۔لوگو! اٹھو اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو جائو اس کے بعد اس مرد مجاہد نے ایک نفرت بھری نظر راجہ کے محل پر ڈالتے ہوئے اس طرف ہاتھ کا اشارہ کیا اور جذبات میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔'اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو ۔'
25 جون کو عبدالقدیر کو گرفتار کر لیا گیا اور سیشن جج پنڈت لال کچلوکی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ چلنے لگا ۔ 13جولائی 1931 کے دن سینٹر جیل سری نگر میں عبدالقدیر کے مقدمے کی پیشی تھی۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی کشمیری مسلمان جیل کے باہر جمع ہونے لگے۔ جلد ہی ان کی تعداد 7 ہزار تک پہنچ گئی۔ دوران سماعت نماز کا وقت ہو گیا۔ عبدالخالق شورہ نے اذان دینا شروع کی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے گولی چلانے کا حکم دے دیا جس سے عبدالخالق شہید ہو گیا۔ جہاں اس نے اذان چھوڑی تھی وہاں سے ایک اور نوجوان نے اذان شروع کی، اس کو بھی شہید کر دیا گیا، اذان کی تکمیل میں 22 نوجوانوں نے شہادت قبول کی۔ ان تمام شہیدوں میں سے اکثریت کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔
کشمیری ادیب ومؤر خ ڈاکٹر اشرف کشمیری اور ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان کے جمع کیے گئے ریکارڈ کے مطابق ان 22 کشمیری نوجوانوں کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ غلام محمدحلوائی 2۔ غلام احمد کال باف 3۔ عبدالخالق شورہ
4۔ سبحان خان 5۔ غلام محمد صو فی 6۔ غلام محمد نقاش
7۔ غلام قادر بٹ 8۔ احمد راتھر 8۔ عبدالخالق
10۔ غلام محمد درزی 11۔ محمد اکبر 12۔ احمد ڈار
13۔ محمد رمضان 14۔ امیر جھنڈ ا گاڑو 15۔ عبدالقادر
16۔ولی وانی 17۔ محمد عثمان 18۔ عبدالاحد
19۔ غلام رسول دورا 20۔ میر جو مکئی 21۔ غلام نبی کلوال
22 ۔ سبحان جو مکئی
ایک زخمی نے آخری ہچکی لینے سے پہلے وہاں موجود شیخ عبداللہ سے کہا "شیخ صاحب ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے۔ شہدا کو زیارت نقشبند صاحب خانیار (مزار شہدا) میں دفن کیا گیا۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالہ سے یہ دن ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے اس دن کے بعد فیصلہ کر لیا کہ وہ ڈوگرا جبرو استبداد سے آزادی حاصل کریں گے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں آج بھی ہندوستان کے غاصانہ قبضہ کے خلاف آزادی کی جدوجہد جاری ہے۔ جو کہ کشمیر کی تحریک آزادی کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔
تبصرے