اس اگست میں پاکستان نے اپنی آزادی کے 76 سال مکمل کرلیے ہیں ۔ اس دوران اس ملک کی تاریخ میں جہاں اندرونی بیرونی سازشوں کی کہانیاں صفحے صفحے پربکھری ہوئی ہیں وہیں اس ملک نے تاریخ کے بدترین سیلاب، زلزلوں اوردیگر قدرتی آفتوں کا سامنا کیا ہے۔ پاکستان دنیا میں ان ممالک میں شامل ہوگیا جن کو موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے ۔ ایک طرف تو یہ چیلینج ہے تو دوسری طرف ایک اور چیلینج ہے وہ ہے مسلسل بڑھتی آبادی۔ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک بن گیا ہے۔ قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 18 لاکھ31 ہزار19 ہوگئی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی آبادی خطرے کی گھنٹی ہے جس کی ضروریات ملک کے محدود قدرتی وسائل میں پورا کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف ضروریات دوسری طرف معاشی سنگینی ہمیں بدترین بحران سے دوچار کرسکتی ہے۔
ایک زرعی ملک جسے قدرت نے ہر طرح کے پیداواری وسائل عطا کر رکھے ہیں، اگر سال میں آٹھ دس ارب ڈالر صرف خوراک کی درآمد پر خرچ کرتا ہو تو تشویش جائز ہے۔ اس سلسلے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی دلچسپی قابلِ تحسین اور باعثِ امید ہے۔ یہ کوششیں جاری رہیں تو بہت جلد ہمارا ملک اس منزل تک پہنچ سکتا ہے جسے زرعی انقلاب کہتے ہیں۔
گلوبل ہنگر انڈیکس 2022کے مطابق پاکستان 121ممالک میں99 ویں نمبر پر موجود ہے۔ FAO، WFP، UNICEF، WHO اور IFAD کی 2019 کی مشترکہ طور پر شائع شدہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی 20.3 فیصد آبادی غذائی قلت /غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے انسانی ہمدردی شراکت داروں کی جانب سے تیار کردہ ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کو تقریبا ًایک سال گزرنے کے باوجود پاکستان کو اس وقت شدید عذائی بحران کا سامنا ہے.
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زرعی شعبہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ شعبہ چالیس فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔ جبکہ لگ بھگ 25کروڑ کے قریب آبادی کی خوراک کی ضرویارت کے لیے بھی اسی شعبہ پر ہم انحصار کرتے ہیں ۔ زراعت کے شعبے کو حکومتی سرپرستی مایوس کن حد تک کم ہے۔ دور جدید میں زراعت سمیت کسی پیداواری شعبے کی ترقی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے لیکن ہمارے کاشتکار آج بھی قدیم دور کے پیداواری طریقہ کار اور آلات کے محتاج ہیں ۔ ان کے پاس جدید زرعی مشینری تک رسائی یا اسے خریدنے کی استطاعت نہیں ہے ۔
جبکہ کمرشل بینکوں کے زرعی شعبے کے لیے قرضہ جات مارکیٹ ریٹ پر اور سٹیٹ بینک کی نافذ کردہ بلند ترین شرحِ سود کے ساتھ غریب کسان کے لیے ناممکن ہیں۔
پاکستان میں زراعت کو موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں بھی غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال کے سیلاب اس کی مثال ہیں۔ ان سیلابوں سے ہونے والے کل نقصان کا نصف کے قریب زرعی شعبے کا تھا۔ جو کاشتکار قرض لے کر فصل کاشت کرتا ہے اور خدانخواستہ وہ فصل بارشوں ،ژالہ باری یا دوسری انتہائی صورت میں خشک سالی کا نشانہ بن کر برباد ہو جائے تو اس متاثرہ کاشتکار کے لیے عمر بھر معاشی طور پہ کمر سیدھی کرنا ممکن نہیں رہتا۔ جبکہ ہمارے کاشتکار کو جدید کاشتکاری کے علمی اور تربیتی مواقع بھی میسر نہیں جس کے نتیجے میں پیداواری صلاحیتوں میں ترقی یافتہ ممالک کا کیا تذکرہ ہم تو اس خطے کے اکثر ممالک کے ہم پلہ بھی نہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میں جو نہری نظام ہے اسے دنیا کا بہترین نظام مانا جاتا ہے ۔زیر زمین پانی بھی حسبِ ضرورت دستیاب رہتا ہے اور سال کے چار موسم ہر طرح کی فصلیں کاشت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں مگر ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت تشویشناک حد تک کم ہے۔ ایک زرعی ملک جسے قدرت نے ہر طرح کے پیداواری وسائل عطا کر رکھے ہیں، اگر سال میں آٹھ دس ارب ڈالر صرف خوراک کی درآمد پر خرچ کرتا ہو تو تشویش جائز ہے۔ اس سلسلے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی دلچسپی قابلِ تحسین اور باعثِ امید ہے۔ یہ کوششیں جاری رہیں تو بہت جلد ہمارا ملک اس منزل تک پہنچ سکتا ہے جسے زرعی انقلاب کہتے ہیں۔ 60 کی دہائی میں پاکستان یہ معرکہ سر کر چکا ہے جب گندم اور دیگر فصلوں کی کاشتکاری کے لیے جدید وسائل متعارف کروائے گئے۔ آج پھر ہم اسی دو راہے پر ہیں ترقی کا سفر زرعی شعبے کی ترقی کا متقاضی ہے کہ یہ شعبہ متعدد شعبوں کو قوتِ متحرکہ فراہم کر سکتا ہے۔
1960 کی دہائی کے 'سبز انقلاب' نے زرعی ترقی کو دیکھا۔ ایوب حکومت نے زمینی اصلاحات متعارف کرائیں جس میں انفرادی ملکیت پر زیادہ سے زیادہ کی حد لگا دی گئی، ملک میں پہلی زرعی یونیورسٹی قائم کی گئی، ٹریکٹروں کی درآمد کے لیے لبرل سبسڈی کی پیشکش کی گئی، اور سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں پانی کی کمی پر قابو پانے کے لیے ٹیوب ویل لگائے گئے۔ .
ساٹھ کی دہائی کے دوران اوسط سالانہ شرح نمو 5.07فیصد تھی۔ 1970 کی دہائی میں شرح نمو 2.37 فیصد تک گر گئی جب حکومت کے قومی پروگرام نے اہم زرعی مصنوعات کی پیداوار اور تقسیم کو اپنے پاس رکھا۔
زرعی شعبے میں چینی حکمت عملی
چینی فوج کی زرعی اور سائیڈ لائن پیداوار کی شاندار روایت ہے۔ حالیہ برسوں میں، بیرون ملک تعینات چینی امن دستوں نے سبزیوں کے باغات لگانے کے لیے اپنے کیمپوں کے اندر بے کار زمین کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ اپنے فارغ وقت میں وہ مختلف سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ اس مشق نے نہ صرف غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کر کے غذائی تحفظ کو بڑھایا ہے بلکہ اس نے بیرون ملک تعیناتی کے دوران چینی امن فوجیوں کے فراغت کے وقت اور ان کی مجموعی فلاح و بہبود کو بھی نمایاں طور پر تقویت بخشی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ امن مشن کی مدت کے دوران چینی فوج نے اپنی امن فوج کے لیے ایک تربیتی سیشن کا اہتمام کیا ہے، جس کا مقصد انہیں سبزیوں کی کاشت کی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا، ان کی سائنسی پودے لگانے اور انتظامی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانا، اور تازہ سبزیوں کی ہنگامی پیداوار کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔ یہ اقدام مقامی حالات کی بنیاد پر فوجی نان سٹیپل فوڈ سپلائی کی ضمانت دینے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔
خوراک کے حوالے سے ایک بڑی حد تک خود کفیل ہونے کے باوجود، پاکستان میں صرف 63.1% گھرانے ''خوراک کے حوالے سے محفوظ''ہیں۔ پاکستان میں زرعی درآمدات سالانہ 8 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ صرف 28% قابل کاشت زمین سیراب ہونے کے ساتھ، زرعی شعبے میں غیر استعمال شدہ زمین کو استعمال میں لانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ملک کی 42.3% افرادی قوت زراعت میں مصروف ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے متعلقہ سرگرمیوں پرانحصار کرتا ہے۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر بنجر یا نیم بنجر زمینیں ہیں، جن میں 20 ملین ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین ہے جسے کاشت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ صرف پنجاب میں 3.8 ملین ایکڑ بنجر/غیر زرعی زمین ہے۔ گندم کی پیداوار میں 4.5 من فی ایکڑ اضافہ کرکے پاکستان 40 لاکھ ٹن اضافی گندم حاصل کرسکتا ہے، جس کی مالیت تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔وسائل کا صحیح استعمال پاکستان کو خود کفالت حاصل کرنے اور زرعی اجناس کا برآمد کنندہ بننے کے قابل بنا سکتا ہے۔
زراعت کے شعبے میں اتار چڑھائو والی پالیسیاں
لیموں اور دودھ کی نمایاں پیداوار ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی موجودگی کے باوجود، ہم اپنی زرعی پیداوار سے حاصل شدہ پروسیس شدہ یا ویلیو ایڈڈ ضمنی مصنوعات برآمد کرنے کے لیے ان عوامل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کے زرعی شعبے کی موجودہ صورتحال کی وجہ پالیسی سازوں کی بے حسی، اداروں کے فریم ورک کی کمی، غیر متوقع سرکاری پالیسیاں، ڈونر ایجنسیوں کا غیر ضروری دبائو اور نجکاری کے اثرات ہیں۔سعودی عرب پاکستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت اور کان کنی کے شعبوں میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ سعودی عرب سرمایہ کاری کے مقاصد کے لیے 24 بلین ڈالر کے فنڈز طے کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے تین شعبوں میں مواقع تلاش کرنے کے لیے 22 بلین ڈالر کے فنڈز مختص کیے ہیں۔
موسم کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کے بیج کی فراہمی
پاکستان کے کاشتکار 63 فیصد بیج گھریلو جبکہ 37 فیصد موسمی پھلوں اور سبزیوں کے بیج کا استعمال کرتے ہیں، صرف 8 فیصد بیج ہائبرڈ ہے اور بقیہ 92% بیج مصنوعی ہے جس کی پیداوار کم ہوتی ہے، کیونکہ ان کی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے نشوونما نہیں ہوپاتی ہے، فصل کے لحاظ سے بیجوں کو ضرورت کے مطابق درجہ بدرجہ بیان کیا گیا ہے۔
زراعت میں چین، مصر اور برازیل کی کامیابی:
چین کے علاقے سنکیانگ میں کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ کور کے ذریعے لاکھوں ایکڑ اراضی کو زرخیز کیا گیا ہے، جس کی بدولت چین چالیس فی صد کپاس کی پیداوار یہاں سے کر رہا ہے۔
برازیل میں، ایمبراپا (برازیلین ایگریکلچرل ریسرچ کارپوریشن)نے اپنی ناقابلِ کاشت اراضی کو دوگنا کرکے زرعی پیداوارمیں چھ گنا اضافہ کیا، ملک کے زرعی شعبے کو تقویت دی۔ برازیل جس کی 87.3 بلین ڈالر کی کل برآمدی آمدنی ہے، یہ ملک اپنی زرعی پیداوار جیسے کہ سویا بین، مکئی، کپاس،گنا، ایتھنول جیسی فائدہ مند کاشت کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ برازیل اب بین الاقوامی منڈیوں میں امریکہ کا ایک اہم زرعی حریف ہے۔ مصرمیں جاری فوجی اسٹیئرنگ پروجیکٹ کا مقصد 600,000 ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کرنا ہے۔ ریاست اس منصوبے کے تحت 2.5 ملین کھجوروں کی کاشت کرنا چاہتی ہے۔مصر 217,700 ایکڑ زرعی اراضی پر کاشتکاری کرکے سالانہ تقریباً 550,000 ٹن گندم حاصل کرتا ہے۔
پاکستان میں مستقبل کی زرعی صلاحیت :
پاکستان کے پاس صوبہ پنجاب میں تھل اور چولستان کے علاقوں میں ایک ملین ایکڑ، صوبہ سندھ میں تھر سمیت دیگر ریگستانی علاقوں میں 0.3 ملین ایکڑ، بلوچستان میں کیچ، خضدار اور جعفر آباد / سبی کے میدان میں 0.7 ملین ایکڑ اراضی کو نئی ٹیکنالوجی کی بدولت قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے
مویشیوں کی پیداوار اور برآمدی صلاحیت:
پاکستان میں مویشی، بھینس، بھیڑ، بکری اور اونٹ کے 220 ملین کی وافر تعداد موجود ہے۔ پاکستان کے پاس 5.5 ملین ٹن گوشت کی پیداوار کی صلاحیت ہے جس میں پولٹری بھی شامل ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔پاکستان کے پاس 55 ملین ٹن کی کھپت کے ساتھ 68 ملین ٹن کی ممکنہ پیداوار کی صلاحیت ہے، وطن عزیز 13 ملین ٹن دودھ ویلیو ایڈیشن کے تحت زرمبادلہ میں اضافے میں مدد دے سکتا ہے۔
امید افزا بات یہ ہے کہ چھوٹے حصوں کو 6 ماہ میں 2,500 ایکڑ کے بڑے فارم میں تبدیل کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اس اراضی پرجدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاکر کاشتکاری کو فروغ دیا جائے گا، اس کے علاوہ اس حکمت عملی میں انفراسٹرکچر اورگودام کے فعال کردار کے لیے ورکشاپس کا انعقاد شامل ہے۔
موسمی تبدیلیوں کے خدشے کی وجہ سے خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ میں بہتری لانا بے حد ضروری ہے، جس کی بدولت ہم پاکستان کو سرسبز اورزرخیز ریاست بنا سکتے ہیں۔ ||
مضمون نگار معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے