پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے اپنے قیام کے وقت وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ایک بھی اسلحہ ساز فیکٹری حصے میں نہیں آئی تھی لیکن آج اللہ کے فضل و کرم سے 42 سے زائد ملکوں کو پاکستان چھوٹے اور روایتی ہتھیار ، ایکسپورٹ کر رہا ہے ، جن میں سعودی عرب ، مشرق وسطی ، جنوبی ایشیا ، کئی یورپی ممالک بھی شامل ہے ، ویت نام کی جنگ میں بھی پاکستانی ساخت رائفل استعمال ہوئی تھی ۔
ایم پی فائیو مشین گن ، جی تھری رائفل، سیمی آٹو میٹکPO فور اور PO فائیو مقامی طورپر تیار ہونے والے وہ ہتھیار ہیں ، جن کی دنیا میں مانگ ہے، مقبول عام بھی ہیں اور پاکستان ایکسپورٹ بھی کر رہا ہے ، پاکستان کی روایتی اسلحہ ساز اداروں میں ، واہ آرڈیننس فیکٹری نمایاں ہے۔
قیام پاکستان کے وقت متحدہ ہندوستان ، میں قریب قریب 16 اسلحہ ساز ادارے موجود تھے ، جن میں 3 کلکتہ میں 6 سنٹرل پنجاب ، پونا، جبل پور، شاہجہان پور اور کھماریہ میں 4 اتر پردیش ، کانپور، مراد نگر ، لکھنئو ، اور بیگم پور میں اور کچھ امرناتھ اور مدراس میں تھے۔ وہ سارے علاقے جو پاکستان کے حصے میں آئے ، ان میں ایک بھی اسلحہ ساز ادارہ نہ تھا ، سارے کے سارے اسلحہ ساز ادارے بھارت کے پاس چلے گئے تھے ، طے پایا تھا کہ جب تک پاکستان میں آرڈیننس فیکٹریز قائم نہیں ہو جاتیں ، یا جب تک پاکستان اسلحہ سازی میں فعال نہیں ہو جاتا وہ بھارت میں رہ جانے والے ان اسلحہ ساز اداروں سے استفادہ کر سکے گا ، لیکن بھارت نے اسلحہ کے سلسلے میں بھی پاکستان کے ساتھ ویسے ہی حربے استعمال کیے جیسے مالی معاملات میں اس نے خیانت کی تھی ۔
ٹیکسلا کی ہیوی ری بلڈ فیکٹری الگ ایک انعام ہے ، غوری میزائل اور شاہین کا ابھی ذکر میرا موضوع نہیں ، پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا اضافی اور حتمی حسن ہے ، کراچی میں ہونے والی گیارہویں بین الاقوامی دفاعی نمائش ' آئیڈیاز' میں واہ آرڈیننس فیکٹری نے بھر پور حصہ لیا تھا ، واہ آرڈیننس فیکٹری میں کم و بیش 30 روایتی ہتھیار بن رہے ہیں ۔
ٹیکسلا میں قائم ہیوی ری بلڈ فیکٹری کے دیگر کارناموں کے علاوہ ایک الخالد ٹینک بھی ہے ۔ یہ پاکستان کا وہ جدید ترین ٹینک ہے ، جس کی گولہ پھینکنے کی رفتار دنیا کے کسی بھی جدید ٹینک سے زیادہ ہے ۔ الخالد پر 1988 میں شروع کیے گئے کام کی تکمیل 17 جولائی 1991 کو ہوئی تھی ، تین سال کی انتہائی کم مدت میں تیار ہونے والا الخالد ٹینک گزشتہ 32 برس سے اپنی جدت اور اہمیت کے اعتبار سے دنیا بھر میں زیر بحث چلا آرہا ہے ۔ یاد رہے کہ اسلام کے عظیم سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کے نام سے منسوب الخالد ٹینک افواج پاکستان کی جنگی صلاحیت میں بے تحاشہ اضافہ کیے ہوئے ہے ۔ چین اور یو کرائن کے اشتراک سے تیار ہونے والا الخالد خالصتاً پاکستانی انجینئرز نے ڈیزائن کیا ہے ۔
ٹی 90 ٹینک الخالد کے 65 فیصد پرزے پاکستان میں ، 25 فیصد چین اور 10 فیصد یو کرائن کی معاونت سے تیار ہوئے ہیں۔ دنیا کا یہ جدید ٹینک الخالد 46 ٹن وزنی ہے جو 51 ٹن کوچک وزن کے مساوی ہے، جس کا 12 سو ہارس پاور انجن اور 125 ملی میٹر سمو تھ بور کی توپ کے علاوہ ، طیارہ شکن مشین گن ایک چھت پر اور دوسری ٹینک کے نیچے لگی ہوئی ہے ۔15 لاکھ ڈالر میں تیار ہونے والا الخالد ٹینک کا بین الاقوامی منڈی میں50 لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ لاگت کا تخمینہ ہے ۔الخالد 2 کلو میٹر تک دشمن کا نشانہ لے سکتا ہے ، 70 / 72 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والا الخالد ٹینک 90 آئی آئی ایم / ایم بی ٹی 2000, بغیر کسی مزاحمت کے 400 کلو میٹر تک آسانی سے سفر کر سکتا ہے۔اس کا عملہ تین افراد پر مشتمل ہے۔ا س کی اضافی خوبی یہ ہے کہ وہ 5 میٹر گہرے پانی سے گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اس کی لمبائی 10.07میٹر یا33 فٹ اور چوڑائی 3.50میٹر یا11.05 فٹ ہے اور اس کی اونچائی2.40 میٹر یا7.9فٹ ہے
قیام پاکستان کے وقت متحدہ ہندوستان ، میں قریب قریب 16 اسلحہ ساز ادارے موجود تھے ، جن میں 3 کلکتہ میں 6 سنٹرل پنجاب ، پونا، جبل پور، شاہجہان پور اور کھماریہ میں 4 اتر پردیش ، کانپور، مراد نگر ، لکھنئو ، اور بیگم پور میں اور کچھ امرناتھ اور مدراس میں تھے۔ وہ سارے علاقے جو پاکستان کے حصے میں آئے ، ان میں ایک بھی اسلحہ ساز ادارہ نہ تھا ، سارے کے سارے اسلحہ ساز ادارے بھارت کے پاس چلے گئے تھے ، طے پایا تھا کہ جب تک پاکستان میں آرڈیننس فیکٹریز قائم نہیں ہو جاتیں ، یا جب تک پاکستان اسلحہ سازی میں فعال نہیں ہو جاتا وہ بھارت میں رہ جانے والے ان اسلحہ ساز اداروں سے استفادہ کر سکے گا ، لیکن بھارت نے اسلحہ کے سلسلے میں بھی پاکستان کے ساتھ ویسے ہی حربے استعمال کیے جیسے مالی معاملات میں اس نے خیانت کی تھی ۔
معاہدے کی رو سے پاکستان کو بھارت نے پہلی کھیپ میں 36 ٹن وزنی دفاعی ساز و سامان حوالے کرنا تھا، لیکن 36 کے بجائے محض 10 ٹن سامان دیا تھا لیکن اس میں بھی جب مہر بند صندوق کھولے گئے تو بھارت کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ ان صندوقوں میں اسلحہ بارود کی بجائے فوجیوں کی پرانی وردیاں ، اور استعمال شدہ بلکہ کنڈم شدہ بڑے بوٹ بھرے ہوئے تھے ۔قائد اعظم چونکہ ہندو کی تنگ نظری اور ذہنیت سے بخوبی آگاہ تھے ۔اسی لیے قیام پاکستان کے فوری بعد ملک میں اسلحہ ساز فیکٹری کے قیام پر غور کرتے ہوئے ایک غیر ملکی ماہر اسلحہ ساز نیوٹن بوتھ کو منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی جس نے بہت جلد فیکٹری کے قیام کے بارے رپورٹ پیش کر دی ، جس کے بعد کابینہ اور متعلقہ کمیٹیوں کی منظوری کے بعد ، قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر پاکستان میں پہلی اسلحہ ساز فیکٹری نے راولپنڈیCMH کے پاس چھوٹی سی عمارت میں کام شروع کیا جس نے 1951 میں پیداوار دینا شروع کی تھی ۔ آگے چل کے لیاقت علی خان کی قائم کردہ واہ اسلحہ ساز فیکٹری میں جنرل ضیاالحق نے 21 جولائی 1985 کو ایک ذیلی ادارہ قائم کیا ، جس میں 105 ایم ایم توپوں کے گولوں کے لیے ٹینکسٹن الائے کی تیاری شروع کی ۔ جنوبی کوریا کے بعد تب پاکستان دوسرا ملک تھا جس کے پاس وہ ٹیکنالوجی تھی۔ پھر 1985 ہی میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے واہ فیکٹری ہی میں ایک اور ادارے کا افتتاح کیا جو 12.7 اشاریہ سات ایم ایم اینٹی ائیر کرافٹ گن تیار کرتا ہے۔ وہ شعبہ چین کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا ۔
اس کے علاوہ قیام پاکستان کے وقت فوجی یونٹ یا کوئی بریگیڈ پاکستان کو مکمل نہیں ملا تھا ، جو نامکمل رجمنٹ پاکستان کے حصے میں آئے بھی تھے تو ان میں فوجی جوانوں کے پاس وردی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، گزرے دنوں کی تاریخ پڑھیں تو بھارت کے کردار سے گھن آتی ہے ، بے سر و سامانی کے عالم میں قائم ہونے والی وہی پاکستانی فوج جو وسائل کی کمی کے باعث فائل ورک میں پیپر پن کی بجائے ببول کے کانٹے استعمال کرتے تھے، اب وہ فوج دنیا کے 206 ملکوں میں اپنی کارکردگی اور پیشہ وارانہ طور سے چھٹے نمبر پر ہے اورپاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے۔ پاکستانی فوج نے اپنی کمال حکمت عملی سے دنیا کی بڑی سے بڑی فوج کے بستر گول کرا دیے ہیں۔الغرض وہ فوج جو تہی دست تھی ، بکھری ہوئی تھی وہ آج دفاعی نکتہ نظر سے ایک مثالی فوج کے طور خود کو منوا چکی ہے ، ہر چند کہ پاکستان ایٹمی دھماکے کے حوالے سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے ، مگر جدید ٹیکنالوجی ، اعلی مہارت ، بہت زیادہ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی قسم اور تعداد کی وجہ سے دنیا میں اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے ۔
وہ بھارت جس نے ایٹمی دھماکہ تو پاکستان سے پہلے کیا تھا ،مگر مہارت اور پائیداری میں پاکستان سے بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ ||
مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے