مسلسل رواں دواں اک متحرک دنیا جہاں توانائی اور ترقی مرتکز ہوتی ہیں، ایسی دنیا کو برقرار رکھنے کے لیے توانائی کا شعبہ کارفرماہوتا ہے۔ توانائی میں جدت صرف ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ انسانی ذہانت کے جوہر اور خوشحالی کی مجموعی خواہش کا عملی نمونہ ہے۔ یہ ملک کے بنیادی ڈھانچے میں نہ صرف ایک اہم جزو ہے بلکہ معیشت کی زندگی میں جلا بخشتی ہے۔ اس سے کاروبار کی نئی جہتیں رونما ہوتی ہیں۔اسی کی بنا پر قوم کے افراد میں موجود پنہاں صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتاہے جو ملک و قوم کی خوشحالی کا باعث بنتی ہے۔
دور جدید میں پاکستان میں ابھرتا ہوا توانائی کا شعبہ، کراچی کے مصروف ترین مراکز سے لے کر شمالی علاقوں کی خوبصورت وادیوں کے خاموش گوشوں تک کو روشن کرتا ہے۔یہ خوشحالی کی ایک ایسی دھن پیدا کرتا ہے جس سے افراد مسحور ہوتے ہیں۔ جو قوم کی توقعات میں زندگی کو بیدار کرتا ہے اور نظریات کو حقیقت میں تبدیل کرتا ہے۔
آزادی پاکستان سے لے کر عصر حاضر تک یہ شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ توانائی کے شعبہ کی تاریخ کا جائزہ لینے کے لئے اس کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
بنیادی وضع کاری کادور (1947-1970):
تقسیم برصغیر کے موقع پر پا کستان اپنی 31.5ملین عوام الناس کے لیے صر ف ساٹھ میگا واٹ پاور جنریشن کی اہلیت رکھتا تھا۔ ملک کے دستور سازی کے عمل کے ساتھ ساتھ 1952 میں کراچی الیکٹرک کمپنی کا کنٹرول پاکستانی حکومت کے زیرانتظام آگیا۔ اس وقت کمپنی میں ایک ڈیزل یونٹ اور دو سٹیم یونٹ تھے جن کی مجموعی پیداوار 29.5 میگا واٹ تھی۔ ہجر ت کر کے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے حکومت کو مزید سٹیم یو نٹ لگانا پڑا تاکہ 30میگا واٹ پیداوار کو ممکن بنا جا سکے۔اس کے علاوہ بجلی کی ترسیل و انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے بھی ضروری اقدامات کیے گئے۔اس ضمن میں 1958میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت واپڈا (واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کے قیا م کا منشو ر بجلی و پانی کے انتظامات کو ممکن بنانا تھا۔بجلی کی پیداوار کو بڑھانا، ترسیل کرنا اور تقسیم کرنے کے علاوہ پا نی کی فراہمی ، نکا سی، سیلاب کی روک تھا م کے ساتھ ساتھ واپڈا کے ابتد ئی اقدامات میں ہائیڈل اور تھرمل پروجیکٹس کا آغاز کرنا شامل تھا تا کہ بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ ان ہی کاوشوں کے تحت پیداوار 636میگا واٹ ہوگئی جو کہ پانچ سال پہلے 119میگا واٹ تھی۔اسی ابتدئی دور میں وارسک ڈیم 240 میگا واٹ اور منگلا ڈیم 1000میگا واٹ اہلیت کے سا تھ تعمیر کیے گئے۔
توسیع و ترقی کادور(1970-1990):
توانا ئی کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور 1971میں کراچی میں KANUPP1(کراچی نیو کلئیر پاور پلانٹ1-) کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کی پیداواری صلاحیت 137میگا واٹ تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین فیصلہ ایک بڑے ڈیم کا قائم کرنا تھا ۔ 1976میں تربیلا ڈیم تعمیر کیا گیا جو کہ زمینی لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور والیوم کے اعتبار سے پانچواں بڑا ڈیم ہے۔ اسّی کے دہائی کے آغاز تک اس سے چار ہزار میگا واٹ بجلی پید ا کرنے کی صلاحیت تھی جسے بعد میں بڑھا کر تقریباًسات ہزار میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے قابل بنا دیا گیا جو کہ پاکستان کے لیے پن بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔
ساقط اور زوال کادور(1990-2010):
نوے کی دہائی کے شروع سے انڈسٹریل اور کمرشل صارفین شدید شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ملک کی برآمدات اور معیشت پر گہرا اثر پڑا۔ جس کی وجہ سے دوبارہ سے نئی اصطلاحات اور بحالی کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس کے پیش نظر 1992میں حکومت پاکستان نے واپڈا کے پاور ونگ کو پرائیوٹ کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی جس کے تین اہم نکات میں پہلاپاور سیکٹر میں سرمایہ کاری میں اضافہ دوسرا بجلی کے نرخوں میں بہتری لانا اور آخری بجلی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر جہاں تک ممکن ہو سکے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا شامل تھا۔ علاوہ ازیں 1994میں پاور پالیسی وضع کی گئی تا کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ کی شدید صورت حال سے نبردآزما ہوا جا سکے۔ واپڈا کے منصوبے کی منظوری کے ساتھ ہی ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی جو کہ تمام پاور سپلائی کی کمپنیوں کو کنٹرول کرسکے اوران کی دیکھ بھال کرسکے ۔مزید عوام الناس تک بجلی کی فراہمی کو ممکن بنا سکے۔ اس ضمن میں 1997میں پاکستان کے گزٹ میں الیکٹرک پاور ایکٹ کے تحت نیپرا (نیشنل الیکٹرک پاورریگولیٹری اتھارٹی) کا ادارہ قائم کیا گیا جس کے اولین مقاصد میںالیکٹرک پاور جنریشن ، ترسیل و تقسیم کی کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنا،ایسے اصول مرتب کرنا کہ صارفین تک بجلی کی سپلائی ممکن ہو سکے اورتیسرا مقصد بنیادی ٹیرف کو وضع کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کا حصول اور پاور جنریشن پروگرامز آرگنائز کرناشامل ہے۔اسی سال ذمہ داران اتھارٹی کی محنت سے آئی پی پی (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کا بھی آغاز ہوا۔ جیسا کہ حب پاور اسٹیشن جس سے 2581میگا واٹ کو تھرمل پاور جنریشن میں ضم کیا گیا تا کہ سالانہ بجلی کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ پیداواری صلاحیت کے علاوہ بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری وقت کی ضرورت بن گئی کیونکہ اس وقت موجودہ ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن طلب کو پورا نہیں کر پا رہے تھے۔آبادی کے بڑھنے کے ساتھ واپڈا کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو رہاتھا۔ جس کے نتیجہ میں1998 میںکمپنیز آرڈینس ایکٹ 1984 (موجودہ 2017) کے تحت این ٹی ڈی سی (نیشنل ٹرانسمشن اور ڈسپیچ کمپنی ) کا قیام عمل میں آیا جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں ٹرانسمشن نیٹ ورک آپریٹ کرنا ، ٹرانسمشن کی ڈیزائنگ اور منصوبہ بندی کرنا اور پاورسسٹم کو کنٹرول کرنا شامل ہیں۔ موجودہ دورمیں یہ ادارہ سترہ 500KV اور سنتالیس 220KV گریڈ سٹیشنز کو آپریٹ اور کنٹرول کر رہا ہے۔
ابتدائی دور میں کراچی الیکٹرک کو پاکستان نے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کنٹرول کیا تھا مگر 2005میں اسے پرائیویٹائزکردیا گیا تا کہ پاور سپلائی میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور لوگوں کو مسلسل بجلی کی فراہمی حاصل ہو اور لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔
ان تمام اداروں کے قیام اور اقدامات کے باوجود بجلی کی طلب چارفیصد سالانہ سے بڑھ کر سات فیصد ہو گئی اور پھر 2010میں مزید بڑھ کر دس فیصد تک ہو گئی۔ بجلی کی مسلسل فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے کثیر تعداد میں سرمایہ کاری درکار تھی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی ایک فیصد بڑھوتری کے لیے 1.25فیصد بجلی کی فراہمی درکار تھی۔ اس کے مطابق جی ڈی پی کی سات فیصد بڑھوتر ی کے لئے 8.8فیصد بجلی کی فراہمی ضروری تھی۔اس کمی کے باعث پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوئی اور لوڈشیڈنگ روزمرہ زندگی کا معمول بن گئی۔ نہ صرف پیداواری اہلیت میں کمی واقع ہوئی بلکہ انسٹال پاور پلانٹس کی اپ گریڈیشن سے بھی ذمہ داران کی توجہ ہٹ گئی۔مزید آپریشنل پاور پلانٹس کا بھی ضروری وقتی معائنہ اور مرمت بھی نظر انداز ہونے لگی جس سے پاور پلانٹس زبوں حالی کا شکار ہوگئے۔ اس دور میں پاکستان نہ ہی اپنے موجودہ پاورپلانٹس کو مکمل طور پر استعمال کر رہاتھا اور نہ نئے پروجیکٹس کی منصوبہ بند ی کر رہا تھا۔
اصطلاحات اور بحالی کادور(حاضر2010-) :
اس دور میں حکومت پاکستان نے اپنی عوام کے لیے بجلی کی فراہمی کو ممکن بنانے اور معیشت کو بہتر بنانے کے لئے پاور جنریشن پالیسز کو وقتاً فوقتاً متعارف کروایا۔ سب سے پہلے نیشنل پاور پالیسی 2013میں پیش کی گئی جس کے بنیادی مقاصد میں لوڈ شیڈنگ کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا، بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لانا، ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن کے دوران بجلی کے ضیاع کو کم کرنا ، آمدنی میں اضافہ اور منسٹری لیول کے فیصلہ سازی کے عمل کو تیز کرنا شامل تھا۔ اس کے نتیجہ میں ملک میں توانا ئی کے بحران کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا۔
اس کے بعد 2015میں متعارف کروائی جانے والی پالیسی کے مطابق نجی اداروں کو پاور سیکٹر میں شامل کرنا ، ان کی حکو مت کی جانب سے سہولیات فراہم کرنا تاکہ وہ پاور جنریشن پلانٹس کے پروجیکٹس لگا سکیں اور پبلک سیکٹر میں بھی سر مایہ کاری کر سکیں۔ اس کے علاوہ اس پا لیسی کی توجہ کا مرکز ملک کے لیے کم سے کم لاگت والی بجلی کی پیداوار کو یقینی بنانا، ملکی و مقامی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا اور ان تمام پاور سے متعلق افراد کی حمایت کرنا شامل تھا۔اسی سال قائد اعظم سولر پارک بہاولپور کی بنیاد رکھی گئی تا کہ قابل تجدید توانائی کو فروغ ملے۔
2019میں اے آرای (آلٹرنیٹ اور قابل تجدید انرجی ) پالیسی کو پیش کیا گیا جو کہ تاحال رائج ہے۔ اس پا لیسی کے تحت حکومت نے اپنے ایس ڈی جی(پائیدار ترقی کے اہداف) کے ہدف نمبر سات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قابل تجدید پاور پروجیکٹس کی تائید کرنا شروع کی اور گرین انرجی کی صلاحیت کو 2025تک بیس فیصد اور 2030تک تیس فیصد کرنے کا ارادہ کیا۔ اس ضمن میں حکومت نے نجی سرمایہ داروں کے لیے پر کشش پیکج ٹیکس میں کمی اور چھوٹ کی صور ت میں فراہم کیا تا کہ کاربن کے اخراج میں کمی واقع ہو سکے جو کہ تھرمل اور نیوکلئیر پاور پلانٹس کی وجہ سے رونما ہوتی ہے۔
پاکستان اپنی توائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بہت ہی کم مقدارمیں آئل پیدا کررہا ہے جس سے درآمداتی آئل پر گزارا کرنے پر مجبور ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ پاکستان اکنامک سروے کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں 17.03بلین ڈالز کا آئل درآمد کیا گیا جو کہ گزشتہ سال سے پچانوے فیصد زیادہ تھا۔ اسی طرح ایل این جی تراسی فیصد اور ایل این پی میں تقریباً چالیس فیصد اضافہ ہوا۔
ان ادوار میں پیش آنے والے مسائل کو مجموعی طور پر پرکھا جائے تو سرکلر قرضہ اور پاور جنریشن کے پیداواری ذرائع سامنے آتے ہیں۔ ان میں اول ترجیح گردشی قرضہ کو ہے جس کے سا تھ معیشت جڑی ہوئی ہے ۔ پاکستان اکنامک سروے کی 2021-22کی رپورٹ کے مطابق شماریاتی لحاظ سے 2013میں اسے 450بلین روپے تک لایا گیا جو کہ 2018میں 1148ملین روپے تک پہنچ گیا۔ سنٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی کے مطابق 2022میں یہ 2467بلین ہو گیا ہے جو پاکستان کے ٹوٹل جی ڈی پی کا 3.8فیصد ہے اور حکومت کے مجموعی قرضے کا 5.6فیصد ہے۔ اگر اسی طرح یہ شتر بے مہارہا تو 2025 میں تقریباً چار ٹریلین روپے ہو جائے گا جس کو قابو کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اصطلاحات کرنا پڑیں گی۔
گردشی قرضے کو ایک مثال کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے۔پاکستان میں تین جینکوز کمپنیاں(Generation Company) موجو د ہیں جن کا کام پورے ملک میں بجلی کوپیدا کرنا ہے۔ یہ کمپنیاںدس ڈسکوز کمپنیوں(Distribution Company) کوبجلی فروخت کرتی ہیں اور ڈسکوز آگے صارفین کو بجلی مہیا کرتی ہیں۔ ڈسکوز کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے بلز سے حاصل ہونے والی رقم کو جینکوز کوادا کرے تاکہ وہ اس سے تیل، گیس، کوئلہ یا ڈیزل پاور پلانٹس کو آپریشنل رکھنے کے لیے استعمال کرسکیں۔لیکن چند وجوہات بلز کی نامکمل ادائیگیاںاور ٹرانسمشن میں بجلی کے ضا ئع ہونے سے مکمل طور پر جینکوز کو ادائیگی نہیں ہوتی۔ جس سے جینکوز بھی پلانٹس کو آپریشنل نہیں رکھ سکتے اور صارفین کو بھی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسی صورت حال میں نامکمل ادائیگیوں کا گردش شروع ہو جاتا ہے جو کہ گردشی قرضے کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
دوسرے مسائل ذرائع سے متعلق ہیں جن میں تیل،گیس اور کوئلہ شامل ہیں۔ پاکستان اپنی توائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بہت ہی کم مقدارمیں آئل پیدا کررہا ہے جس سے درآمداتی آئل پر گزارا کرنے پر مجبور ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ پاکستان اکنامک سروے کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں 17.03بلین ڈالز کا آئل درآمد کیا گیا جو کہ گزشتہ سال سے پچانوے فیصد زیادہ تھا۔ اسی طرح ایل این جی تراسی فیصد اور ایل این پی میں تقریباً چالیس فیصد اضافہ ہوا۔
ملک میں گیس کی پیداوارمیں بھی طلب کے مقابلے میں کافی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے حکومت نے مزید نئے ذخائر کی تلاش تیز کر دی ہے۔ نئے ذخائر کو کارآمد بنانے کے لیے گیس پائپ لائنز کی کھپت کو پورا کرنے کے لیے درآمد کرنے پڑرہے ہیں۔ملکی گیس کی کمی کے باعث غیر ملکی گیس پر بھی انحصار بڑھتا جا رہاہے۔ پاکستان پاور جنریشن کے لیے اپنی 75فیصدملکی گیس استعمال کرتا ہے اور باقی درآمد کرتا ہے۔تھرمل پاور میں کوئلے کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ تھر میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ پہلا تھر پاور پلانٹ 2020میں 660میگا واٹ کی صلاحیت کا لگایا گیا۔ اس کے علاوہ ساہیوال تھرمل پاور پلانٹ 1320میگا واٹ کی صلاحیت کا 2017میں قائم کیا گیا۔ مجموعی طور پر کوئلے سے پیداواری صلاحیت 5280میگا واٹ ہے۔
پاکستان ہائیڈل پاور میں خود کفیل ہے اور ان پلانٹس سے اجتماعی طور پر 10251 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جن میں تربیلا ، غازی بروتھا، منگلا، وارسک، چشمہ اور نیلم جہلم ڈیمزمشہورہیں۔ صرف ہائیڈل پاور سے ہی تمام ملک کی توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری ، لانگ ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن لائنز اور اس جگہکے لوگو ں کو نئی جگہ پر آباد کرناجیسے مشکل عوامل کارفرما ہیں۔دوسرے ذریعوں میں پاکستان نیوکلئیر پاور پلانٹس میں کراچی نیو کلئیر پاور پلانٹ 1، چشمہ نیوکلئیر پاور پلانٹ4,3,2,1 سے 1430میگا واٹ پیداکر رہا ہے۔ قا بل تجدید انرجی ذرائع میں ہوا سے 1985میگا واٹ اور سولر سے 600میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
اسی اکنامک سروے کے مطابق پاکستان کی موجو دہ پاور جنریشن کی صلاحیت 41,557میگا واٹ ہے جبکہ اس کی کھپت 31,000میگا واٹ ہے جبکہ ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن کی صلاحیت 22,000میگا واٹ ہے۔
اس فرق کی وجہ ملک میں ٹرانسمشن و ڈسٹری بیوشن کے بنیادی ڈھانچے کی کمی اور ترسیل کے دوران ضیاع ہے۔ اس صورت حال کا تجزیہ سپلائی اور ڈیمانڈ کے پیرامیٹرز میں کیا جائے تو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اگر سپلائی ، ڈیمانڈ کے مقابلے میں کم ہے تو لوڈشیڈنگ معمول بن جائے گا ، اگر سپلائی،ڈیمانڈ کی نسبت زیادہ ہے تو وسائل بے جا استعمال سے ضائع ہورہے ہیں۔ اگر سپلائی کو ڈیمانڈ کے تقریباً برابررکھا جائے تو یہ وہ ساز گار صورت حال ہے جو مطلوب ہے۔جس کا حصول ،ریسرچ و ڈیویلپمنٹ پر مبنی منصوبہ بندی اور گریڈ اسٹیشنزکے انتظامی ڈھانچے کو بہتر طور پر تشکیل دینا ممکن ہے۔ علاوہ ازیں ایچ وی ڈی سی (ہائی ولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ) کو بھی لمبے فاصلے والی ٹرانسمشن لائنز میں استعما ل کیا جا سکتا ہے۔
اس سفر کا اختتام گرین انرجی پرکرتے ہیں جو کہ منزل نہیں ہے اور ترقی کا یہ سفر جاری و ساری ہے۔ ابھی وقت کی ضرورت کے مطابق ہمیں اپنے قدرتی ذخائر کے استعمال میں احتیاط برتنا ہوگی ورنہ درآمدی ذرائع پر انحصار کرنا پڑے گا۔ گرین انرجی میں بڑھوتری کے لیے سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ لینا ہو گا تا کہ قابل تجدید توانائی سے موجودہ اور بڑھتی ہوئی ضرورت کو پو را کیا جا سکے۔ ||
مضمون نگار الیکٹرونک انجینیئر ہیں اور ٹیکنالوجی سے متعلق موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے