اسلام میں سن ہجری کا آغاز نبی کریم ۖ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی مناسبت سے ہوا۔ اسی مناسبت سے ماہ محرم کو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔
محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے اسے محرم یعنی حرمت والا کہتے ہیں۔ اس مہینے سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ یقینا محرم الحرام کا مہینہ عظمت والا اور بابرکت مہینہ ہے، اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کی ابتدا ہوتی ہے۔
یوں تو تمام ماہ و سال اللہ تبارک وتعالیٰ کے تخلیق کردہ ہیں۔اسی نسبت سے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر ان کا ذکر بھی آیا ہے، لیکن اللہ رب العزت نے اِن ماہ و ایام اور لیل ونہار میں بعض کو بعض پر فضیلت و برتری بخشی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ستر مائوں سے زیادہ مہربان ہیں اسی وجہ وہ اپنے بندوں خصوصاً نبی کریم ۖ کے امتیّوں پر خصوصیت سے زیادہ مہربان ہیں۔ اسی پس منظر کے تحت اللہ تعالیٰ نے ایسے ماہ و ایام عطا کیے جن کو حاصل کرکے مسلمان انعامات و احسانات اور فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹ سکیں اور اس کی تاکید خود قرآن مجید میں بھی فرما دی ہے:
''یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اوریہ تعداد اسی دن سے قائم ہے جب سے آسمان وزمین کو اللہ نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چارحرمت و ادب والے مہینے ہیں،یہی درست اور صحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔''(التوبہ:36)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا: "سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں ، تین تو مسلسل ہیں، ذوالقعدہ ، ذوالحج، محرم ،جمادی الثانی اورشعبان کے مابین رجب کا مہینہ ہے ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر (2958 :
ماہ محرم الحرام کے نام میں حرام لگانے کی وجہ میں بھی ایک خاص نکتہ ہے۔دراصل یہ سال کے چار مقدس مہینوں میں سے ایک ہے۔
زمانہ قدیم میں چار مہینوں میں "جنگ حرام" قرار دی گئی تھی یہ انہی میں سے ایک ہے۔ ماہ محرم کو رمضان کے بعد دوسرا مقدس ترین مہینہ مانا جاتا ہے۔
محرم الحرام ویسے تو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہونے کی وجہ سے اہمیت اور فضیلت رکھتا ہی ہے ساتھ ہی اس ماہ کی دسویں تاریخ کو ''یوم عاشور''کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جس سے اس کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
''یوم عاشور کیا ہے؟''
عاشور'عشر'کی جمع ہے۔ محرم کی دسویں تاریخ کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوم عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کے سلسلے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس دن بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق یوم عاشورہ کو ہی نوح علیہ السلام کی کشتی ''جودی پہاڑ'' پر لنگر انداز ہوئی اور اسی روز حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی پیش آیا۔
مزید برآں اللہ تعالیٰ نے یوم عاشورہ کو ہی آسمانوں، زمینوں، پہاڑوں اور سمندروں کو پیدا فرمایا، لوح وقلم کو یوم عاشورہ میں پیدا فرمایا، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق عاشورہ کے دن ہوئی اور عاشورہ کے دن ان کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل فرمایا۔ حضرت ابراہیم عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی تکلیف اور بیماری سے عاشورہ کے دن نجات عطا فرمائی، حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ عاشورہ کے دن قبول ہوئی، حضرت عیسی علیہ السلام یوم عاشورہ کو پیدا ہوئے،حتی کہ قیامت کے بارے میں بھی روایت ہے کہ عاشورہ کے دن ہی قائم ہوگی۔"
یوم عاشورہ قبل ازاسلام قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا۔ اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی اور رسول اللہ ۖ کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت جو اچھے کام کرتے تھے۔ ان میں آپۖ ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے۔ پس اپنے اس اصول کی بنا پر آپۖ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ۖ بھی جاہلیت کے زمانے میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپۖ مدینہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپۖ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے آپۖ کو معلوم ہوا کہ یہود کے ہاں یہ دن انتہائی مبارک و محترم ہے تو آپۖ نے اس دن روزے کا اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھیں۔ بلکہ آنحضرتۖ نے عاشورہ کے دن کے روزے کا حکم دیتے وقت فرمایا کہ:" یہود چوں کہ دسویں محرم کو عید مناتے ہیں اور وہ شکرانے کا روزہ رکھتے ہیں اس لیے تم نویں یا گیارہویں محرم کا روزہ بھی ساتھ رکھو اور فرمایا : اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے، نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا۔"
اس کی تائید حضرت ابن عباس والی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ الحکم بن الاعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کے پاس گیا جبکہ وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے اور میں نے پوچھا کہ مجھے یوم عاشورہ کے بارے میں بتائیے؟ کیوں میں اس کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ابن عباس کہنے لگے کہ:" جب محرم الحرام کا چاند نظر آئے تو دن گننا شروع کر دو اور پھر نو تاریخ کی صبح کو روزہ رکھو۔ تو میں نے پوچھا کیا حضرت محمدۖ بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے؟ ابن عباس کی روایت کی بنیاد آنحضرتۖ کا یہی ارشاد ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو ملا کر عاشورہ کا روزہ رکھوں گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس نے ایک موقع پر کہا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرتے رہو، نویں اور دسویں محرم کو دونوں دن کا روزہ رکھو۔
یوم عاشورہ کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:" رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ افضل روزہ محرم کا ہے۔" حضرت ابو ہریرہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ:" یوم عاشورہ کا روزہ رکھو، کیوں کہ اس دن کا روزہ انبیا کرام رکھا کرتے تھے۔"
ایک موقع پر آنحضرتۖ نے حضرت علی سے فرمایا:" اگر ماہ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہو تو پھر محرم کا روزہ رکھا کرو۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے پچھلے لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور اسی دن آئندہ بھی لوگوں کی توبہ قبول فرمائیں گے۔ یوم عاشورہ کے موقع پر لوگوں کو سچی توبہ کی تجدید پر ابھارا کرو اور توبہ کی قبولیت کی امید دلاؤ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس دن پہلے لوگوں کی توبہ قبول کر چکے ہیں۔ اسی طرح آنے والوں کی بھی توبہ قبول فرمائیں گے۔" (ترمذی،بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ جلد12)
اسی طرح حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ:" میں نے نہیں دیکھا کہ آپۖ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے ہوں اور بہت زیادہ فکر کرتے ہوں سوائے اس دن یعنی یوم عاشورہ کے سوائے اس ماہ مبارک رمضان کی۔"(بخاری مسلم)
پس ثابت ہوا کہ یوم عاشورہ کو ایک اہم فضیلت حاصل ہے اس دن روزے کے ساتھ ساتھ ،نوافل استغفار اور صلہ رحمی کی بھی متعدد احادیث میں ترغیب آئی ہے۔
اہل وعیال پر فراخی کی روایت:
ایک روایت عوام میں معروف ہے کہ:
"جو عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت برتے اللہ تعالیٰ انہیں پورے سال وسعت میں رکھیں گے۔"
حضرت قتادہ رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛
بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کو اختیار کرکے اسے چن لیا ہے : فرشتوں میں سے بھی پیغمبر چنے اورانسانوں میں سے بھی رسول بنائے، اورکلام سے اپنا ذکر چنا اورزمین سے مساجد کو اختیار کیا، اور مہینوں میں سے رمضان المبارک اور حرمت والے مہینے چنے ، اور ایام میں سے جمعہ کا دن اختیارکیا، اور راتوں میں سے لیلة القدر کو چنا، لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ نے تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو، کیونکہ اہل علم وفہم اور ارباب حل وعقد کے ہاں امور کی تعظیم بھی اسی چیز کیساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تعظیم دی ہے۔" (تفسیر ابن کثیر)
الغرض محرم الحرام جہاں اسلامی سال کی ابتدا کا عندیہ دیتا ہے وہاں یکم محرم الحرام خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت، تاریخ اسلامی کے ایک بہت بڑے نقصان کی بھی یاد دلاتا ہے، ایک عشرہ آگے جائیں تو یوم عاشورہ جیسے عظیم دن جس کو اللہ تعالیٰ نے قیام کائنات کے ساتھ ہی ایک اہم دن کی حیثیت دی وہیں یہ دن امام الکائنات حضرت محمد مصطفیۖ کے پیارے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جام شہادت نوش کرنے کا دن بھی بنا۔
مختصراً ماہ محرم الحرام کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس ماہ میں کثرت سے استغفار اور رب کی رضا جوئی کی کوششیں کرنی چاہیے۔ ||
مضمون نگار متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے