سید ضمیر جعفری اور جنرل آغا محمد یحیٰ خان دو ایسے نام ہیں جن کا ہمارے خطے پر کمال احسان ہے ۔ جنرل آغا محمد یحیٰ خان نے موجودہ اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت کے لیے موزوں ترین قراردیا اور سید ضمیر جعفری نے قلمی، تاریخی اور صحافتی محاذ پر اسلام آباد کی تشہیر اور دفاع کیا۔ وہ بھی دن تھے جب ہمارے یہاں چار پرائمری اور ایک مڈل سکول تھا ، اب چالیس سے زیادہ یونیورسٹیز ہیں ، ہم یہاں خرگوش پکڑا کرتے، کوکن بیر چنتے، گرنڈے کھاتے اور کچے پکے راستوں پر بھاگتے دوڑتے رہتے تھے۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہمارے اس پس ماندہ و بارانی خطے سے علم و نور ، سیاست و دفاع کے چشمے پھوٹے ۔ تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو وہ کھیت کھلیان جہاں ہل پنجالی نظر آتی تھی وہاں فلک بوس شاپنگ مال کھڑے ہیں ، تاریک رستے ریڈ زون بن گئے ہیں ۔
21 جنوری 1959 کی بات ہے۔ اس وقت کے سربراہ مملکت محمد ایوب خان نے پاکستان کا نیا وفاقی دارالحکومت بنانے کے لیے نیا شہر بسانے کی خاطر ایک کمیشن مقرر کیا جس کی سربراہی اس وقت کے چیف آف سٹاف میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کرتے ہوئے چھ مہینے کا وقت ، چند ہیلی کاپٹر نیا شہر بسانے کے لیے جن جن محکموں اور ماہر افراد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سارے اور خصوصی عملہ وفاقی کمیشن کے حوالے کیا ۔ یعنی اس ایک بڑے کمیشن میں ڈیڑھ درجن کے قریب ذیلی کمشن تھے ، ضرورت کا بجٹ دے کر کمیشن کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں یا جس جگہ کا بھی انتخاب کریں تو وہ اپنے مشن میں آزاد ہیں ۔
جنرل آغا محمد یحیٰ خان نے تمام تر حکمت عملی ، بحث مباحثے ، اور صلاح و مشورے کے بعد پوٹھوہار کے موجودہ قطعہ اراضی کا انتخاب کیا ، جو بعد میں اسلام آبادکہلایا ۔
جنرل آغا محمد یحیٰ خان نے 12 جون 1959 کو جنرل ایوب خان کو اپنے چھ ماہ کی کار گزاری کمیشن رپورٹ پیش کر دی ، جس میں اسلام آباد کے موجودہ علاقے کو انتہائی موزوں قرار دیا گیا تھا ۔
سید ضمیر جعفری ، پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہیں ، جنہوں نے اسلام آباد کی تعمیر کا سب سے پہلا سروے کیا تھا ۔12 جون 1959 بروز جمعرات نتھیا گلی میں وفاقی کابینہ کی میٹنگ ہوئی تھی جس کے بعد حکومت پاکستان نے نیا وفاقی دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا ۔
پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جس نے اپنا دارالحکومت تبدیل کیا تھا ، اس سے پہلے روس نے 1918 میں اور برازیل نے 1950 میں دارالحکومت تبدیل کیے تھے۔ اسلام آباد کی پہلی تعمیر چھ سو مکانوں پر مشتمل سیکٹر جی سکس ون تھی۔ 'آب پارہ' نامی یہ بستی 3 جون 1962 کو مکمل ہو گئی تھی ۔
کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کا پرانا نام راج شاہی تھا ، ایسا تب ہوتا اگر اسلام آباد پہلے سے دنیا کے نقشے پر موجود ہوتا ، یہ تو راولپنڈی تحصیل کے شمالی مضافاتی دیہات تھے جن کی تعداد 160 کے لگ بھگ تھی، ہر گائوں کا الگ ایک نام تھا تو راج شاہی کیسے ہو گیا؟ گکھڑوں سے زیادہ تو گجر آبادیاں تھیں۔پھر راج شاہی کیونکر ہو سکتا ہے؟ راولپنڈی تحصیل کے علاوہ خیبر پختونخوا جو ، ان دنوں صوبہ سرحد کہلاتا تھا کے ہزارہ ڈویژن کے بھی کچھ گائوں اسلام آباد میں شامل ہیں۔
اسلام آباد میں شامل سید پور گائوں کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، خطے میں ہندوؤں کے تین تیرتھ تاریخ کا حصہ ہیں ، چکوال میں راج کٹاس ، جہلم میں ٹلہ جوگیاں اور اسلام آباد میں سید پور ، مار گلہ کے پہاڑی سلسلے میں موجودہ سید پور کو 1530 میں مغل شہزادہ مرزا فتح علی نے آباد کیا تھا ، جس کی نسبت سے وہ گائوں فتح علی بالی تھا ، لیکن مشکل وقت میں مقامی گکھڑوں کے شہنشاہ ہند نصیرالدین ہمایوں کا ساتھ دینے پر اس کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر نے شکر گزاری کے طور سلطان سید خان گکھڑ کو تحفہ کر دیا تھا۔ یوں فتح پور بالی سے سید پور ہو گیا تھا۔
اسلام آباد کا نام ساہیوال کی تحصیل عارف والا کے ہیڈ ماسٹر قاضی عبدالرحمن امرتسری کا تجویز کردہ ہے۔کچھ اور نام بھی سامنے آئے تھے، مثلاً ایوب آباد، جناح پور، جناح آباد ، مسلم آباد ، مگر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ، ایوب آباد تو فوری مسترد کر دیا اور دوسرے دو تین ناموں کے مقابلے میں اسلام آباد کی منظوری دے دی۔23 مارچ 1964 کو عراق کے صدر عبدالسلام محمد عارف نے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کیے اور اسلام آباد کو صحیح معنوں میں اسلام کی روح کا مظہر قرار دیااور لکھا کہ اس اعتبار سے اسلام آباد نہائت صحیح نام ہے ۔
اسلام آباد کی خوش نصیبی یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے بیٹی پیدا ہوئی تھی جس کا نام آب پارہ رکھا گیا تھا ، سب سے پہلے جس سیکٹر کی تعمیر ہوئی وہ موضع باغ کلاں تھا ، جسے پوٹھوہاری میں باگاں کہتے تھے۔ باگاں نامی گائوں 698 ایکڑ پر محیط اور کل آبادی 663 افراد تھی ، جسے جدید تقسیم میں سیکٹر جی سکس کا نام دیا گیا ہے ، یہاں سب سے پہلے ملازمین کے رہائشی کوارٹر بنائے گئے تھے ، جو کراچی سے آنے والے ملازمین کو الاٹ ہوئے تھے ، جن میں اکثریت مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی ان میں ایک وزارت تجارت کے سرکاری ملازم کلرک عبدالمطلب تھے ، جسے غلطی سے کسی نے عبدالواحد بھی لکھا ۔ اس کے ہاں 20 اکتوبر 1963 بروز اتوار کو بیٹی پیدا ہوئی تو ، سارے علاقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ملازمین نے ایک تہوار کی صورت جشن منایا ، نئے شہر کی پہلی ولادت تھی ، ملک بھر میں خبر پھیل گئی ، روز نامہ جنگ نے دونوں ماں بیٹی کی تصویر بھی شائع کی تھی ، ان دنوں اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے CDA (کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی)کے چیئر مین وزیر علی شیخ تھے ۔ چیئر مین کی بیگم سید ضمیر جعفری کے ہمراہ 21 اکتوبر کو نومولودہ کی ماں سے ملنے گئی۔ تحائف دئیے، سید ضمیر جعفری نے تصویریں بنوائیں، اخبارات کو خبریں بھجوائیں ۔ والدین نے بچی کا نام 'آب پارہ ' رکھا تھا۔ سید ضمیر جعفری نے بیگم وزیر علی سے کہاکہ میں بھی چیئر مین صاحب کو تجویز پیش کرتا ہوں ، آپ بھی انہیں کہیں ، یوں CDA انتظامیہ نے اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ کا نام ' آب پارہ ' نامی اس بنگالی بچی سے منسوب کر دیا۔یوں جی سکس یا موضع 'باگاں' 'آب پارہ' ہو گیا۔' آب پارہ یا باگاں 'کی برکت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاں نورپور شاہاں والے صوفی بزرگ بری شاہ عبداللطیف مشہدی کاظمی کے والدین کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔
سید ضمیر جعفری کم و بیش پندرہ برس CDA سے وابستہ رہے، انہوں نے اس عرصے میں جی بھر کے اسلام آباد کی پاسداری کی۔ ایک وہ شخص کہ مشاعرہ جس کی کمزوری تھا ، کچھ بھی ہو کہیں بھی ہو، سید ضمیر جعفری مشاعرے کے لیے لمبے لمبے اور پہاڑی سفر بھی بخوشی کر گزرتے تھے لیکن 18 فروری 1964 کو انہوں نے اسلام آباد کی خاطر کراچی کا ایک بین الاقوامی مشاعرہ یہ کہہ کے چھوڑ دیا تھا:
'' چین کے وزیر اعظم چواین لائی نے جس روز آنا ہے ، اسی روز مشاعرہ ہے ، میرے لیے فرائض کے علاوہ اخلاقاً بھی اسلام آباد سے اس روز نکلنا گوارہ نہیں، ممکن بھی نہیں کیونکہ CDA کے چیئر مین سے چپڑاسی تک اس نئے شہر کی آباد کاری کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے، ہمیں تو اتوار کی چھٹی بھی اب یاد نہیں رہتی۔''
ضمیر جعفری صاحب مجھ سے بہت سی باتیں کیا کرتے تھے ، کبھی کبھار ایسے ہی بیٹھے بٹھائے کچھ باتیں بتانا شروع کر دیتے ۔ سوچتا ہوں اس فقیر کو اندازہ تھا کہ مجھے کبھی رب تعالیٰ توفیق دیں گے اور میں سید ضمیر جعفری کے بارے میں لکھوںگا ، آج جب واقعات اور گزرا کل سامنے گھومتا ہے تو مجھے سید ضمیر جعفری کی دور بینی ، وہ باتیں تاریخ کی صورت دکھائی دیتی ہیں ۔ ایک بار جعفری صاحب نے مجھ سے کہا ''جب میں برطانوی ، مرد اول ، ڈیوک آف ایڈنبرا کو اسلام آباد دکھانے نکلا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ ، اسلام آباد کا ترقیاتی منصوبہ کتنے عرصے کا رکھا ہے ۔''جواب دیا 25 سال کا ، ڈیوک نے کہا ''25 سال تو اس کے رنگ روغن میں گزر جائیں گے جب یہاں زندگی آئے گی تو تب مشکلات ہونگی ، دو سو سال کا منصوبہ رکھیں !''
ضمیر جعفری صاحب نے جواب دیا '' ہمارے پانچ سو سال کے وسائل آپ اٹھا کے برطانیہ لے گئے اور خطے کا مسلمان ہزار سال پیچھے چلا گیا ہے ، ڈیوک صاحب ہم کہاں دو سو سال افورڈ کر سکتے ہیں۔ ''
اس پر ڈیوک نے نیم جاں سا قہقہہ لگایا مگر بد مزہ نہ ہوا
میں نے جعفری صاحب سے کہا: اس جواب پر ڈیوک نے آپ کی شکایت نہیں کی ؟ سرزنش نہ ہوئی ؟ سی ڈی اے سے نہ نکلوایا ؟ ''
جعفری صاحب نے کہا وہ سی ڈی اے سے نکلواتا تو میں نے واپس فوج میں چلا جانا تھا ، لیکن نہیں وہ حقیقت پسند قوم ہے ، تنقید سنتے ہیں ، میں نے جو کہا وہ حقائق تھے ، ڈیوک کو بھی معلوم تھا۔
سید ضمیر جعفری چونکہ تاریخ جغرافیے سے آگاہ تھے، زبانوں پر بھی عبور تھا، ترجمان کمال کے تھے، ترجمہ بھی خوب کرتے تھے، بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی رکھتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ ادارے اور افراد ان سے مل کے اطمینان میں رہتے تھے، اکتوبر 1962 میں ڈنمارک کا ماہر تعمیرات پروفیسرجیک سن ،لاہور کے سرکاری دورے پر آیا تو بطور گائیڈ سید ضمیر جعفری کی رفاقت کی خواہش کی۔
راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان گورنمنٹ کی اربن ٹرانسپورٹ کا آغاز تو ہوا مگر
اس میں سفر کا رجحان دیکھنے میں کم کم ہی آتا۔ 15دسمبر 1963 کو اتوار والے روز ، سید ضمیر جعفری سارا دن اربن ٹرانسپورٹ میں بیٹھے گھومتے رہے اور عام شہریوں کو سفر کی ترغیب دیتے رہے ۔کئی سٹاپ ایسے آئے جہاں وہ میگا فون کے ذریعے راہ چلتے لوگوں کو کہتے آئو اسلام کی سیر کو چلیں، اسلام آباد دیکھیں۔بعض قلم کاروں کی فیملیز سے گزارش کر کے اسلام آباد دکھانے کے لیے لے جایا جاتا۔ 12 جنوری 1964 کو بھی اتوار تھا اس روز شوکت واسطی اور ایوب محسن کے گھر والوں کے ہمراہ اپنی بیگم جہاں آرا کو بھی ہمراہ لے کے اسلام آباد دکھاتے رہے ۔ 30 جنوری 1963 لبنان کے وزیر اعظم رشید کرامی اسلام آباد کے دورے پر آئے تو ان کی والدہ مادام کرامی بھی وفد میں شامل تھیں ، جنہیں اسلام آباد دکھانے کی ذمہ داری ضمیر جعفری کے ذمے تھی۔ سیاحت کے دوران جعفری صاحب نے مادام مادام کہتے کہتے ایک بار انہیں 'ماں جی ' کہہ دیا، پھر لفظ ' ماں جی ' کی وضاحت کی تو مادام کرامی بہت متاثر ہوئیں ، جب لبنانی وزیر اعظم دورہ مکمل کر کے جانے لگے تو ان کی والدہ نے سید ضمیر جعفری کو باآواز بلند مخاطب کر کے کہا ' ' ماں جی گڈبائی''
اس سے ایک دن پہلے 29 جنوری 1963 کو محکمہ خوراک و زراعت کے وفاقی وزیر اسلام آباد دیکھنے اپنی انگریز بیگم کے ہمراہ آئے تو ان کی بیگم نے برطانیہ سے اپنی چھوٹی بہن کو خاص طور سے اسلام آباد دکھانے کے لیے پاکستان بلا رکھا تھا۔جب کہ 14 مارچ 1966 کو تمام مقامی اخبار نویسوں کو سرکاری طور سے اسلام آباد دکھا کر سید ضمیر جعفری اپنے مشن کی تکمیل کر چکے تھے، مگر افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ وہ آخری شخص تھے جنہوں نے اسلام آباد دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور 7 فروری 1967 کو تشریف بھی لائے ۔طے ہوا تھا کہ ، شکر پڑیاں پر پودا لگوا کر صدر پاکستان ایوب خان واپس اپنے آفس چلے جائیں گے، شہنشاہ کو اسلام آباد کا پھیرا ضمیر جعفری لگوا دیں گے اور یہ بات سید ضمیر جعفری نے ایوب خان کو یاد بھی کرائی، مگر ایوب خان نے کہا '' ضمیر ! میرا ضمیر نہیں مانتا کہ میں مہمان کو چھوڑ کے چلا جائوں،
آپ کا ضمیر کیا کہتا ہے ؟ ''
سید ضمیر جعفری نے بتایا تھا کہ اسلام آباد میں سب سے چھوٹی سڑک جو تین چار فرلانگ پر محیط ہے اس کا نام ' شاہراہ دستور ' ہے اور جو سب سے بڑی سڑک ہے جس پر ٹرک ، ٹریکٹر اور ٹرالے چلتے ہیں وہ پندرہ میل لمبی ہے! پوچھا یہ بھی اسلام آباد کی طرح منصوبہ بندی کا حصہ ہے ؟ یا بے خیالی میں ہو گیا ، جواب دیا: اسے لا اُبالی میں شمار کریں۔ شاہراہ دستور ہو، شاہراہ اسلام آباد یا شاہراہ کشمیر یہ سب نام سید ضمیر جعفری کے دیے ہوئے ہیں۔ 21دسمبر 1966 کو اسلام آباد کے محلوں کے ناموں کے سلسلے کی ایک کمیٹی وفاقی سیکریٹری اطلاعات ، الطاف گوہر کی سرکردگی میں قائم کی گئی تھی، امتیاز علی تاج اور صوفی غلام مصطفٰے تبسم کمیٹی کے ممبر تھے۔ CDA بورڈ نے6 میں سے پانچ نام سید ضمیر جعفری کے منتخب کیے ایک ایف ایٹ کا نام ،، پھلواری ،، وزارت تجارت کے جوائنٹ سیکریٹری مسٹر امتیازی نے تجویز کیا تھا، جب کہ سید ضمیر جعفری نے سیکٹر جی سیکس کو ' سنبل ' ایف سیکس کو ' کوہسار ' جی سیون کو ' ایمن ' ایف سیون کو ' روپا ' اور جی ایٹ کو ' گلبن 'نام دیا جو منظور ہوئے۔
سوچتا ہوں سید ضمیر جعفری نے پندرہ سال تک رات دن اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے میں گزارے۔ ابتدائی سروے سے آخری مہمان تک پیش پیش رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسلام آباد کی ادبی، علمی اور ثقافتی ماحول پر حکمرانی کرنے والے سید ضمیر جعفری نصف صدی کے لگ بھگ گزار کے جب 6 اپریل 1996 کو اسلام آباد سے رخصت ہوئے تو وہ خالی ہاتھ تھے۔ اسلام آباد کے محلوں ، سیکٹروں، سڑکوں اور شاہراہوں کا نام رکھنے والے کے نام نہ کوئی سڑک نہ سیکٹر ، گزشتہ دنوں کراچی میں ایک آواز کی دنیا کا صداکار فوت ہوا تو فوری مطالبوں نے سر اٹھایا، آوازیں آئیں کہ اسلام آباد کی کوئی سڑک اس کے نام منسوب کی جائے ، لاہورمیں وفات ہوئی تو وہی مطالبہ دہرایا گیا ، لیکن آج تک سید ضمیر جعفری کے لیے کوئی آواز نہیں سنی کہ اسلام آباد کی کسی سڑک کو ان سے منسوب کیا جائے ، جب کہ سید ضمیر جعفری تو اسلام آباد سے جاتے جاتے بھی ایک خوبصوت نظم کا تحفہ دے کے گئے تھے :
بزم یاراں الوداع ، شہر نگاراں الوداع
اے سواد مہرباناں۔دوست داراں الوداع
میری رومانوں کیشبھ اشلوک کہتا جائوںگا
تیرے دریائے سواں کے ساتھ بہتا جائوںگا
علم و حکمت کی چمکتی انجمن میرا سلام
قائدین شعر ، سرخیلان فن میرا سلام
شام رخصت آگئی اس شہر خوش اوقات سے
میںنے رکھی جس کی پہلی اینٹ اپنے ہاتھ سے
ساتھ کتنی تابش ایام لے جائوں گا میں
کتنے چہرے کتنے خواب اور نام لے جائوں گا میں
پھر نہ جو آئیں گے وہ ایام یاد آئے بہت
وقت جب کم رہ گیا تو کام یاد آئے بہت
ختم درویشان جولاں کا سفر ہوتا نہیں
ساری دنیا ان کا گھر ہے جن کا گھر ہوتا نہیں
چپکے چپکے اس نگر میں گھومنے آئوں گا میں
گل تو گل ہیں ، پتھروں کو چومنے آئوں گا میں
جانا مشکل تھا پر اک منظر بلاتا ہے مجھے
ماں کا آنگن ، ایک کچا گھر بلاتا ہے مجھے
اک مقدس ' سانولے ' سادہ سلونے گائوں میں
جس میں پہلا شعر لکھا بیریوں کی چھائوں میں
نغم گویان خوش الفاظ و خوش افکاراں ، سلام
میرے خوابوں پر برستے موسم باراں ، سلام ||
مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے