اسلام آباد اور راولپنڈی کے مکین عمار شہید چوک سے تو بخوبی واقف ہون گے اور میرا گھر جس جگہ واقع ہے وہاں سے اس چوک کو میں صبح شام دیکھتی ہوں -سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی جاتے ہوئے اکثر مجھے شوق رہتا تھا کہ کیپٹن عمار شہید کے بارے میں معلومات اکٹھی کروں۔ پھر میرا یہ اشتیاق اتنا بڑھا کہ میں کیپٹن عمار شہید کے گھر جا پہنچی۔ کیپٹن عمار شہید کی والدہ کو چٹان کی طرح اپنے سامنے کھڑا دیکھ کردل میں خیال آیا کہ کیپٹن عمار جیسے عظیم سپوتوں کی مائیں شاید ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ اپنے دو بیٹوں بلال اور محمد علی کے ہمراہ وہ گھر کے عقبی دروازے پر میرے استقبال کے لیے کھڑی تھیں۔ مجھے بیٹیوں کی طرح پیار کرتے ہوئے گھر کے اندر لے گئیں ۔رسمی گفتگو کے بعد کیپٹن عمار شہید کی والدہ نے اپنے لختِ جگر کے بارے میں بتانا شروع کیا کہ ان کے تین بیٹے تھے اور عمار سب سے بڑا بیٹا تھا ۔میں نے بڑے پیار اور شوق سے اس کا نام محمد عمار حسین رکھا تھا مگر گھر میں سب اس کو پیار سے مون کہتے تھے ۔میرا بیٹا 25مئی 1974 کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں پیدا ہوا ۔اس کے برج سے تعلق رکھنے والے لوگ عقل مند، متحمل مزاج ،دور اندیش ، صابر، بہادر او ر دنیا میں نام روشن کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے بڑے اٹل اور ٹھوس ہوتے ہیں ۔انہوں نے بتایاکہ عمار کا بچپن عام بچوں سے بہت مختلف تھا۔ وہ بہت ذہین اور محنتی تھا ۔بچپن میں عمار کو کہانیاں پڑھنے جن میں عمران سیریز قابل ذکر ہیں اور ڈرائنگ کا شوق تھاوہ اکثر کاغذ پر توپوں اور بندوقوں کے نقشے بناتا اور جنگیں لڑتا تھا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی جنگ جنگ کھیلتا تھا۔ والدہ کا کہنا ہے کہ چونکہ عمار کے والد آرمی میں میجر تھے جس کی وجہ سے عمار کی تعلیم پاکستان کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے سکولوں اور کالجوں میں مکمل ہوئی ۔
آغاز ایف جی سکول سیالکوٹ ہے ہوا اور تیسری جماعت تک سینٹ پیٹرک کراچی میں پڑھا۔چہارم گیریژن پبلک رحیم یار خان میں پانچویں گیریژن پبلک سکول لاہور سے اور چھٹی ساتویں ایف جی پبلک سکول راولپنڈی میں اور آٹھویں کلاس ایف جی پبلک سکول گوجرانوالہ میں پڑھی۔آٹھویں کا بورڈ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد اپنے شوق سے ملٹری کا لج جہلم میں داخلہ لیا ۔ ایف ایس سی پری انجینئرنگ کرنے کے بعد 1992 میں انہیں پی ایم اے میں کمیشن ملا۔ اکتوبر 1994 میں پاس آؤٹ ہوکر63 ایف ایف میں شمولیت اختیار کی۔ 1997 میں یہاں سے ہی ایس ایس جی کے لیے منتخب ہوئے ۔1998 میں اٹک میں پوسٹ ہوئے اور پھر یہیں سے سولہ جون 1999 کو پچیس سال کی عمر میں کارگل آپریشن میں شامل ہوئے ۔
والدہ کا مزید کہنا تھا کہ عمار کو پچپن سے ہی مذہب سے لگاؤ تھا۔ خودبخود نماز پڑھتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے ۔ٹائم ٹیبل بناکر پڑھتے ،کھیلتے اور جاگتے سوتے تھے ۔ ایک دفعہ جو بات میں عمار کو سمجھا دیتی تھی وہ مجھے دوبارہ سمجھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بلکہ ہر بات بغیر کہے خود بخود کرتے تھے ۔بہت کم شرارتی تھے اور عمار نے باقی دونوں بچوں کی نسبت مجھ سے بہت کم ڈانٹ کھائی ہے ۔کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی سادگی پسند تھے۔عمار کو پچپن سے ہی سائیکل چلانے ہاکی اور کرکٹ کھیلنے اور سوئمنگ کا شو ق تھا۔ملٹری کالج میں بھی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔والدہ نے مزید بتایا کہ عمار دوڑ میں بھی ماہر تھے۔ بے شمار مواقع پر انعام بھی لیا ۔سوئمنگ میں بھی ایوارڈ ملا ۔
والدہ نے مزید بتایا کہ ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے دونوں خاندانوں میں بہت پیارا تھا اور اس نے اپنی عادات، سیرت و کردار، لیاقت و ذہانت کی وجہ سے اپنے پرائے ہر ایک کا پیا ر سمیٹا۔یہ باتیں سننے کے دوران میں نے ان کی والدہ سے سوال کیا کہ کیپٹن عمار کے دل میں جہاد کا جذبہ کیسے پیدا ہوا؟ جس کے جواب میں انہوں نے بتا یا کہ کیپٹن محمد عمار حسین شہید میر اجگر گوشہ تھا۔ مجھے فخر ہے کہ عمار نے میری گود میں پرورش پائی ۔انہوں نے اپنے خاندان کے بارے میں بتایا کہ عمار میرے گھرانے میں وطن عزیز کی حرمت پر کٹ مرنے کاجذبہ رکھنے والا پہلا فرد نہ تھا۔اس خانوادے میں جذبہ جہاد کی پرورش بہت پہلے سے ہوتی رہی ہے ۔ کیپٹن عمار شہید کے والد میجر محبوب حسین مرحوم جو 18 دسمبر 2018کو ایک کار حادثے میں وفات پا چکے ہیں،1990 میں پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ہوئے تھے اور کیپٹن عمار شہید کے دادا کیپٹن انور 1969میں پاک آرمی میں شاندار خدمات سر انجام دے کر سبکدوش ہوئے ۔عمار کے والد مرحوم پاک آرمی کے توپخانے سے منسلک رہے وہ 1971 کی جنگ میں پونچھ سیکٹر میں تھے اور 1994 میں ان کی یونٹ کارگل میں تھی۔ اسی طرح عمار حسین کے ننھیال میں بھی سر فروش مجاہدوں کی کمی نہیں رہی۔کیپٹن عمار شہید کے والد اور دادا کے علاوہ نانا بھی فوج سے منسلک رہے۔ عمار شہید کی والدہ نے مزید اپنے خاندان کے بارے میں بتایاکہ میرے اپنے دادا صوبیدار امیر علی اور نانا صوبیدار فضل داد جنگ عظیم کے بہادر سرداروں میں شامل تھے اور میرے چچا یعنی (عمار کے نانا کے بھائی) بریگیڈیئر ممتاز علی راجہ 1994 میں پاک آرمی سے ریٹائر ہوئے ۔کیپٹن کی والدہ کا کہنا ہے کہ میں عمار کو اس کےآباء واجداد کی بہادری کے قصے سنایا کرتی تھی جس سے اس کے دماغ پر اپنے خاندان کے جانبازوں کا بہت گہرا اثر ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عمار نے اپنے کیرئیر کا سفر تیزی سے مکمل کیا اور اکتوبر 1997 میں جب وہ سپیشل سروسز گروپ کا کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد یلدرم بٹالین میں شامل ہوئے تو عمار کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ یہا ں سے ان کے جنوں کی شورش کے برپا ہونے کا وقت آگیا تھا۔
والدہ کا مزید کہنا تھا کہ عمار کو پچپن سے ہی مذہب سے لگاؤ تھا۔ خودبخود نماز پڑھتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے ۔ٹائم ٹیبل بناکر پڑھتے ،کھیلتے اور جاگتے سوتے تھے۔ ایک دفعہ جو بات میں عمار کو سمجھا دیتی تھی وہ مجھے دوبارہ سمجھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بلکہ ہر بات بغیر کہے خود بخود کرتے تھے ۔بہت کم شرارتی تھے اور عمار نے باقی دونوں بچوں کی نسبت مجھ سے بہت کم ڈانٹ کھائی ہے ۔کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی سادگی پسند تھے۔عمار کو پچپن سے ہی سائیکل چلانے ہاکی اور کرکٹ کھیلنے اور سوئمنگ کا شو ق تھا۔ملٹری کالج میں بھی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔والدہ نے مزید بتایا کہ عمار دوڑ میں بھی ماہر تھے۔ بے شمار مواقع پر انعام بھی لیا۔ سوئمنگ میں بھی ایوارڈ ملا ۔
وہ اپنے بیٹے کی تعریف میں کہتی ہیں کہ کون سا بیٹا ایسا ہوگا جو اپنی ساری تنخواہ اپنی ماں کے اکائونٹ میں رکھتا ہو ؟عمار روزِ اول سے ہی یہی روش اپنائے ہوئے تھے۔ ان کی پوری تنخواہ میرے اکاؤنٹ میں آتی تھی اور میں خود اس کو جیب خرچ دیا کرتی تھی اور جن دنوں عمار ڈیوٹی سے گھر چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے اور اچانک جب ان کی تعطیلات ختم کرکے ان کو واپس بلایا گیا تو عمار نے اپنے سارے اکاؤنٹس کی چیک بکس پر خود ہی دستخط کر دیے تھے۔ میں ماں ہوں سمجھ تو گئی تھی کہ میرے بیٹے کی منزل قریب ہے لیکن اپنے بیٹے پر اس بات کو عیاں نہ ہونے دیاکہ کہیں عمار پریشان نہ ہو جائے۔ والدہ نے نم آنکھوں سے بتایا کہ شہادت سے ایک رات قبل جب عمار تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے اور اپنے سپاہیوں کو صبح دشمن سے جنگ لڑنے کے لیے حکمتِ عملی بنا رہے تھے تو اس رات انہوں نے سورہ النساء کی یہ آیات مبارکہ تلاوت کیں۔
ترجمہ'':تمھیں کیا ہو گیا ہے تم ان لوگوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کمزور ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی اور مددگار بھیج۔''تو گویا اللہ نے میرے عمار کو اس مشن کی تکمیل کے لیے چن لیا تھا ۔
والدہ نے نم آنکھوں سے بتایا کہ شہادت سے ایک رات قبل جب عمار تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے اور اپنے سپاہیوں کو صبح دشمن سے جنگ لڑنے کے لیے حکمتِ عملی بنا رہے تھے تو اس رات انہوں نے سورہ النساء کی یہ آیات مبارکہ تلاوت کیں۔
ترجمہ:''تمھیں کیا ہو گیا ہے تم ان لوگوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کمزور ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی اور مددگار بھیج۔''تو گویا اللہ نے میرے عمار کو اس مشن کی تکمیل کے لیے چن لیا تھا ۔
ان کی والدہ نے بتایا کہ کیپٹن کرنل شیر خان عمار کے کورس میٹ اور قریبی ساتھی بھی تھے۔ آخری معرکے میں بھی دونوں ساتھ ساتھ رہے اور دونوں نے ایک ساتھ ہی شہادت پائی ۔عمار اور کرنل شیر جیسے جوان جس فوج کو نصیب ہوں اس فوج کو دشمن کبھی زیر نہیں کر سکتا ۔ساتھ ہی عمار شہید کی والدہ آبدیدہ ہو گئیں۔ میں نے بھی کچھ لمحوں کے لیے سوال جواب کا سلسلہ ترک کیا اور خود کو جنگ کی حالت میں پایا جب تھوڑا سکون طاری ہوا تو دوبارہ کیپٹن عمار کی والدہ سے سلسلہ کلام شروع کیا ۔
ان کی والدہ نے بتایا کہ کیپٹن کرنل شیر خان عمار کے کورس میٹ اور قریبی ساتھی بھی تھے۔ آخری معرکے میں بھی دونوں ساتھ ساتھ رہے اور دونوں نے ایک ساتھ ہی شہادت پائی ۔عمار اور کرنل شیر جیسے جوان جس فوج کو نصیب ہوں اس فوج کو دشمن کبھی زیر نہیں کر سکتا ۔ساتھ ہی عمار شہید کی والدہ آبدیدہ ہو گئیں۔ میں نے بھی کچھ لمحوں کے لیے سوال جواب کا سلسلہ ترک کیا اور خود کو جنگ کی حالت میں پایا جب تھوڑا سکون طاری ہوا تو دوبارہ کیپٹن عمار کی والدہ سے سلسلہ کلام شروع کیا ۔
ان کی والدہ نے نم آنکھوں سے بتایا کہ کیپٹن عمار کی شہادت کی اطلاع ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر کے ذریعے ہمیں ملی ۔ شہادت کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اپنی بیگم کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے اور اس کے علاوہ اس کی یونٹ 63ایف ایف کے افسران بھی اپنی بیگمات کے ہمراہ آئے اور ہمارے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ ہمارے لیے یہ بات بہت حوصلہ مند ہے کہ صدر مملکت نے ستارہ جرأت سے نوازا۔
کیپٹن عمارکی والدہ نے کہا کہ میں نے اپنے پوتے کانام بھی اپنے شہید بیٹے کے نام پہ رکھا ہے اور اپنے پوتے کو بھی اپنے چچا عمار کی بہادری کے قصے سناتی ہوں تاکہ یہ بھی آگے چل کر اپنے وطن کا نا م روشن کرے ۔ والدہ نے مزید کہا کہ مجھے اس وقت پاک فوج پر اور بھی فخر ہوا جب شہادت کے 23 سال بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمار چوک کے ری ما ڈلنگ کے افتتاح کے موقع پر مجھے بلایا اور اس چوک کا افتتاح میرے ہاتھوں سے کروایا۔ عمار اور کارگل کے دیگر شہداجنہوں نے راہ حق میں اپنی جانیں قربان کیں بلاشبہ یہ نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
کیپٹن عمار کی والدہ نے کہا کہ 5 جولائی کو میرے عمار کی برسی ہے اور میں اس دن آرمی قبرستان میں جاکر تمام شہدا کے لیے دعا کرتی ہوں اور مجھے دلی سکون ملتا ہے۔ میں یہاں یہ بات بتانا چاہتی ہوں کہ اس آخری مشن میں عمار شہید کا جسدِ خاکی واپس نہ لایا جا سکالیکن عمار شہید میرے اور میرے ہم وطنوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ||
تبصرے