میرا کشمیر ہے ایسا
برف کے گالوں سے
وادی جھلملاتی ہے
پھولوں کی خوشبو بھی
کو بہ کو مہکتی ہے
جہاں پہاڑوں کے دامن سے
جھرنے کھنکھناتے ہیں
اور
کوہساروں کی بانہوں میں
جنت مسکراتی ہے
جہاں جنت کی پری آکر
گنگناتی ہے
میرا کشمیر ہے ایسا
میرا کشمیر ہے ایسا۔۔
زمین پر جنت کا نظارہ آنکھوں میں مقید کرنے کا ہر خواہشمند کشمیر کو چلنا چاہتا ہے۔ بہتے جھرنے، برف پوش پہاڑ ،ہرے بھرے جنگلات میں گھری حسین وادی میں امن کو رخصت ہوئے طویل وقت بیت چکاہے ۔اب تو موجودہ کشمیر کے تصور سے دل دہلتا اور روح کانپتی ہے۔ گولیوں کی تڑ تڑاہت سے جنت جیسی سوہنی دھرتی چھلنی ہے، بارود کی بو سے وادی میں کھلتے پھول سہم چکے ہیں، ایک خوف ہے، وحشت ہے،جارحیت ہے اور دنیا خاموش ہے۔ میرے پاکستان کا جنت نظیر ٹکڑا بھارتی دہشت گردی سہتا ہے، میرے جوانوں کے لاشے ہر روز مٹی کے سپرد کیے جاتے ہیں۔ میری بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہیں۔ میرے بچوں کے خواب ریزہ ریزہ ہیں، انسانی حقوق کو پیروں تلے روندتے اس بدمست ہاتھی کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جس نے کشمیریوں سے آزادی کا حق چھین کر جمہوریت کے بادشاہ ہونے کا کھوکھلا دعویٰ کر رکھا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار ہر سال دسمبر کی دس تاریخ کو وہ دن مناتے ہیں جس کی رو سے زمین پر بسنے والے ہر شخص کو سکھ اورچین سے جینے کا حق حاصل ہوگا لیکن یہ دن فقط رسمی وعدے وعید،تقاریر اور بیانات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مقبوضہ کشمیر میں موجود لاکھوں بے بس نگاہیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب تکتے تکتے سات دہائیاں گزار چکیں جہاں بڑوں کی بیٹھک میں یہ طے ہوا تھا کہ کشمیر میں بسنے والے اپنے مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے قراردادیں منظوری کے بعد بھی فقط کورے ورق ہی ثابت ہوئیں ۔لفاظی سے عمل کا فاصلہ بڑھتا چلا گیا اور نتیجتاً آج حالات تشدد سے جبر تک آن پہنچے۔تین دہائیاں تقریباً ایک لاکھ شہدا کو نگل چکیں، ہزاروں لوگوں کو بھارتی فوجی گرفتار کرکے لے گئے، پھر حقِ آزادی مانگتے جوانوں کو دوران حراست لاپتہ کر دیا گیا اور انکے اپنوں کی نگاہیں واپسی کی راہیں تکتے تکتے پتھرا گئیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں کی طرف سے 1947 سے لے کر اب تک اڑھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں 11 ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کر چکی، 7ہزار سے زائد ماورائے عدالت قتل بھی انہی کے سر ہیں۔23 ہزار خواتین بیوہ اور ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔1990 میں زکورہ، ہنڈواڑہ اور تینج پورہ، 1993میں سوپور، لال چوک اور بیجی بہارہ جبکہ 1994 میں کپواڑہ میں ہزاروں کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔6 جنوری 1993 کو سوپور میں 43 کشمیریوں کو شہید، 300دکانوں کو نذرِ آتش اور 100سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا گیا، 27جنوری 1994کو کپواڑہ میں 27کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔ 06 جولائی 2016 کو برہان وانی کی شہادت کے بعد 200 سے زائد لوگوں کو احتجاج کے دوران شہید کیا گیا۔
ظلم کا یہ سلسلہ مزید پر تشدد بنانے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال شروع کر دیا گیا جس سے اب تک کئی ہزار بچے اور بڑے بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ پہلے گن کے چھرے جسم میں پیوست ہوتے ہیں اور پھر سانسیں حیات و اجل کے بیچ کہیں اٹک کے رہ جاتی ہیں۔
سکولز ،کالجز اور جامعات پر قفل پڑے ہیں۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ ہزاروں افراد بے روز گار ہوچکے ہیں۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے نہ مسجدیں محفوظ ہیں نہ مدارس، حتیٰ کہ مزارات پر بھی بھارتی فوج قابض ہے۔ جان بوجھ کر وہاں شراب نوشی کی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں۔ آر ایس ایس کے غنڈے جب چاہتے ہیں کسی بھی گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ خواتین کی عزتیں تار تار کرنے کے بعد ان کے مردوں کو گرفتار کرکے لے جاتے ہیں، پھر بے دردی سے مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے تاکہ وادی میں خوف و ہراس کی فضا قائم رہے۔
غاصبوں کی حد یہیں تک نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے حریت رہنمائوں پر تو ظالموں کے وحشیانہ تشدد کی داستانیں خود ہی ماتم اور خود ہی مرثیے ہیں۔ یہ نہتے لوگ جب بھی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، احتجاج کرنے کو اکھٹے ہوتے ہیں تو اسلحے سے لیس بھارتی فوجی ان پر چڑھ دوڑتے ہیں، لوگوں کو گھروں میں قید رکھا جاتا ہے۔ پوری وادی میں ہڑتال کا سا ماحول بنایا جاتا ہے، مواصلاتی نظام معطل کر دیا جاتا ہے، میڈیا کو کنٹرول کر لیا جاتا ہے تاکہ دنیا کی نظروں سے جمہوریت کے دعویداروں کی وحشیانہ حقیقت اوجھل رہے۔ حریت رہنمائوں کو آزادی کا نعرہ لگانے کے جرم میں قید کیا جارہا ہے
مقبوضہ کشمیر کی جِدو جہدِ آزادی کو اپنے خون سے نیا رنگ دینے والے حریت کمانڈر برہان مظفر وانی اور اس کے ساتھیوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا، وہ بھارتی مظالم کی سیاہ تاریخ کا سر ورق ہے۔ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور اب یٰسین ملک کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار رکھا گیا، عدالتوں سے اپنی مرضی کی سزائیں دلوا کر آزادی کے ان پروانوں سے زندہ رہنے کا حق چھینا جارہا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ جو میڈیا کے کیمروں کے ذریعے دنیا کے ضمیر جھنجھوڑنے کی کوششوں میں جتی ہوئی ہیں، کہتی ہیں''ہم پر ہر رات بھاری ہے، ہر دن اذیت سے گزرتا ہے، آخر دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے پر کیوں مجبور ہے، وقت کے سفاک مودی کو کوئی کیوں لگام ڈالنے کو تیار نہیں۔'' ان کے شوہر یاسین ملک کے حوالے سے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ان کی دو بار کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کردینے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔
بھارت میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے ، اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں سے ناروا سلوک کی کہانیاں آئے روز ہم سنتے ہیں۔ کبھی سِکھ پریشان، کبھی بھارتی مسلمانوں کی زندگی اجیرن، کبھی گائے ذبح کرنے پر دنگا فساد تو کبھی اذان کی آواز پر قتل و غارت۔ تبھی بھارت میں خالصتان تحریک بھی زور پکڑنے لگی ہے فسطائیت کے اس دور میں مودی حکومت نے بھارت کے زیر کنٹرول جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت اور چند خصوصی اختیارات کے خاتمے کے لیے انڈین آئین کی شق 370 کا ہی خاتمہ کر ڈالا۔مودی حکومت کے اس اقدام نے کشمیریوں سے ان کے رہے سہے ریاستی حقوق بھی چھین لیے ۔
ظلم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب دنیا کو بھی تشویش لاحق ہونے لگی ہے، جنت نظیر وادی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر دنیا بھی چونکنے لگی ہے۔ کشمیریوں کی درد اور بے بسی میں لپٹی صدائیں کرتوں دھرتوں تک پہنچنے لگی ہیں۔ عالمی مبصرین کو وہاں جانے سے روکنا بھارت کے جابر اور مشکوک ہونے پر مہر ہے۔ عالمی میڈیا کی خبروں میں یہ موضوع آہستہ آہستہ جگہ بنانے لگا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اب پوری دنیا میں بھارتی مظالم کے واقعات پر آواز اٹھا رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکا کی غیر سرکاری تنظیم جینوسائیڈ واچ نے کشمیریوں کی نسل کشی سے متعلق الرٹ جاری کردیا۔عالمی تنظیم نے اقوام متحدہ سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی سے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "مودی سرکار کشمیر میں ہندوتوا پالیسی پر عمل پیرا ہے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پر اکسایا جاتا ہے، سوشل میڈیا اور بھارتی چینلز پر جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، وادی کشمیر میں لاکھوں بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن وہاں بھارتی اقلیتی فوج تعینات ہے۔ یہ حالات قتل و غارت کو مزید ہوا دیں گے"
2019 میں اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں مقبوضہ وادی کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ تسلیم کیا گیا کہ اس وقت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ حالات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بھی کشمیریوں کے قتل عام کی بارہا مذمت کر چکے ہیں۔ جو اس طرف اشارہ ہیں کہ بھارت کی وحشیانہ کارروائیاں اب مزید چھپانے سے نہیں چھپنے والیں، سچ کیا ہے ایک دن ساری دنیا جان لے گی ۔
پاکستان نے ہمیشہ اس مسئلے (مسئلہ کشمیر )کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی پیش کش کا بھارت نے ہمیشہ منفی جواب دیا ہے ۔یہ بات اٹل ہے کہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے وہاں کے لوگوں کا رہن سہن،مذہب،ثقافت اور جذبات پاکستان کے عکاس ہیں۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کے ہمیشہ سے حق میں ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں آزادی سے جینے کا حق حاصل ہوگا اور یہی خواہش بھارت کو قبول نہیں۔
استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا کشمیریوں کا حق ہے۔ بھارت نے زبردستی علاقے کو اپنی ملکیت بنا کر یہاں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ لاکھوں لوگ جانوں سے جا رہے ہیں، خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں، بچوں پر مظالم جاری ہیں۔ پاکستان نے ہر عالمی فورم کو کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ بھارت سے بھی بار بار اس مسئلے کے تصفیہ طلب حل کی درخواست کی۔ دونوں ممالک کے بیچ کشیدہ تعلقات کی وجہ بھی یہی مسئلہ ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر وہاں کے لوگوں کو خون میں نہلانے پر تلا ہوا ہے، ہر بار مذاکرات کی ٹیبل سے دور بھاگنے والے انڈیا پر اب عالمی برادری کو زور ڈالنا پڑے گا ورنہ وادی کشمیر میں ظلمکے یہ مہیب سائے اس قدر اندھیرا کر دیں گے کہ انسانیت کی ہر امید مایوسی کی گود میں دم توڑنے لگے گی۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے پڑوسی ملک سے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر پھر کسی اور موضوع پر بات ہوگی۔ پاکستان کبھی بھی ظلم سہتے اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ایک دن اس وادی میں آزادی کا سورج کبھی نہ غروب ہونے کے لیے ضرور طلوع ہوگا ۔ ||
مضمون نگار صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی اور بعض اخبارات کے لیے بھی لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے