امر واقعہ یہ ہے کہ اسلامی مملکت خداداد پاکستان اپنے ابتدائی قیام ہی سے مختلف النوع عوامل و تعامل کے سبب اپنی بقا کی جنگ میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ اہل فکرو نظر سے کب یہ بات پوشیدہ ہے کہ اپنی مخصوص جیو اسٹریٹیجک پوزیشن کے باعث عالمی استعماری قوتوں کے عہد بہ عہد مختلف طویل المدتی ورلڈ آرڈرز کی براہ راست زد میں اگر کوئی ملک ہے تو وہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہی ہے۔
ملکی سالمیت اور پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے ملکی دفاع کا ناقابل تسخیر بنایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مملکت خدادادپاکستان ہمیشہ عالمی امن کی داعی ہے اور افواج پاکستان وطن عزیز کی سالمیت اور دفاع کا مشکل ترین فریضہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے یقینی بنا رہی ہیں۔ اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام تک صحیح حقائق پہنچائے جائیںتاکہ ملکی دفاعی اخراجات کے حوالے سے کسی بھی غلط مکتبہ فکرکے حامل افراد کو غبار اڑانے کی جگہ نہ مل سکے-
پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔ پاکستان کے مشرق میں بھارت، شمال مشرق میں چین اور مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں واقع ایک تنگ واخان راہداری پاکستان کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کی سمندری حدود سے بھی ملتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ آشکار کرنا مقصود ہے کہ پاکستان کی اس قدرتی خاص جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اس خطے میں بڑی عالمی طاقتوں کے واضح مفادات موجود ہیں۔ ان مفادات کے حصول کے لیے یہ بڑی طاقتیں ہمہ قسم اقدامات اٹھائے رکھتی ہیں۔ خلیج اور سنیٹرل ایشیا کے قدرتی وسائل نے بھی اس علاقے کی اہمیت مزید بڑھا دی ہے۔تین نمایاں خطوں جن میں مشرق وسطیٰ اور خلیجی علاقہ، سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا شامل ہیں، کو ملانے والے سارے راستے پاکستان ہی سے گزرتے ہیں۔ سینٹرل ایشیا اور ایران سے گیس کی پائپ لائن پاکستان سے گزرے گی۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے لیے کس قدر اہم ہیں،یہ بات صاحبان نظر سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں اور سڑکیں اہم ہیں۔ سینٹرل ایشیا کے ممالک کے لیے بھی روس اور ایران کی بہ نسبت پاکستان کی بندر گاہیں زیادہ موزونیت کی حامل ہیں۔
بہر طور اقتصادیاتی عوامل نے ہمیشہ کسی بھی ملک کی بہتری یا ابتری میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ عالمی ممالک کو اپنے تجارتی روابط بڑھانے کے لیے کسی بھی ملک کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی ساکھ اور امن و امان کی صورت حال کی جانچ ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان بد قسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح حالت جنگ میں رہا ہے جس کے سبب دہشت گردی نے اس ملک کا امن و امان مخدوش کرکے رکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے افواج پاکستان ہی وہ واحد منظم قوت ہیں جنھوںنے اپنے جوانوں کی شہادت کے عوض وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے اور اس پر قابو پانے کی مربوط کوششیں کی ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت پر غلبہ پانے کے لیے بلاشبہ افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مسلسل تربیت و ترقی کی اہمیت سے کسی کوتاہ عقل کو ہی انکار ہوسکتا ہے ورنہ ہر ذی شعور اور محب وطن انسان یہ تسلیم کرے گا کہ پاکستان کو درپیش سنگین حالات کے باعث بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرانے کی خاطر یہاں امن و امان اور سلامتی کا ماحول بے حد ضروری ہے جس کے لیے افواج پاکستان کی خدمات سے کسی صورت انکار ممکن نہیں۔بلاشبہ جہاں غلطیوں سے پاک ملکی دفاع کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے وہیں یہ امر بھی روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت کے حصول میں دفاعی اخراجات کی مد میں مختص فنڈز کس قدر ضروری ہیں۔اس لیے دفاعی بجٹ اخراجات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تینوں مسلح افواج کے لیے کل بجٹ کا صرف12.5فیصد مختص کیاگیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کا مجموعی حجم14.46 کھرب روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں سے حکومت آئندہ مالی سال کے لیے دفاع پر6.3بلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ پاکستان کے جی ڈی پی کا1.7 فیصد ہے۔ تجویز کردہ دفاعی بجٹ کو مفروضوں اور حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تاہم عوام الناس کے ساتھ ساتھ صاحبان فکر و نظر کو بھی دفاعی بجٹ کے حوالے سے سیر حاصل معلومات میسر آسکیں۔
دفاعی خدمات کے اس تخمینے میں فوجیوں کو وردی اور سویلین ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہیں اور الائونسز بھی شامل ہیں۔ انتظامی اخراجات میں ٹرانسپورٹ، پیٹرولیم، تیل اور لیوبریکینٹس، راشن، علاج، ٹریننگ وغیرہ، اسلحہ اور گولہ بارود کی درآمد اور متعلقہ خریداریاں، سول ورکس (موجودہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے فنڈز) شامل ہیں۔
آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کا مجموعی حجم14.46 کھرب روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں سے حکومت آئندہ مالی سال کے لیے دفاع پر6.3بلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ پاکستان کے جی ڈی پی کا1.7 فیصد ہے۔ تجویز کردہ دفاعی بجٹ کو مفروضوں اور حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تاہم عوام الناس کے ساتھ ساتھ صاحبان فکر و نظر کو بھی دفاعی بجٹ کے حوالے سے سیر حاصل معلومات میسر آسکیں۔
مضمون ہذٰا کا عنوان ایک اور زاویے سے بھی جائزہ لیے جانے کا متقاضی ہے۔ ہم کسی الگ تھلگ جہان میں نہیں رہتے ہیں۔ معروضی حالات اس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ ہمارے آس پاس پڑوس میں موجود ہمارا ازلی دشمن ملک اپنی فوجی سرگرمیوں کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔ اور اس نے بجٹ 2023-24ء میں بھی فوجی اخراجات کی مد میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔ ان کی بجٹ تجاویز کے مطابق بھارتی فوجی بجٹ کے لیے رواں مالی سال کے دوران قریب قریب6000 ارب بھارتی روپے رکھے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ زیر نظر تحریر کے وقت ایک امریکی ڈالر82 بھارتی روپوں کے برابر ہے جبکہ یہی ڈالر 287.16 پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ اگر بھارتی فوجی بجٹ کو پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ6000 ارب(چھ ہزار ارب) بھارتی روپے تقریباً 20970.24 ارب (بیس ہزار نو سو ستر ارب) پاکستانی روپے بنتے ہیں۔پاکستانی دفاعی بجٹ کا تخمینہ صرف1804 ارب (اٹھارہ سو چار ارب) ہے۔اٹھارہ سو چار ارب روپے کہاں اور بیس ہزار نوسو ستر ارب کہاں۔دوسری بات یہ ہے کہ بھارتی جنگی جنون میں اس زبردست اضافے کے باوجود بھارت کے اندر کسی ناقد نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک ارب سے زائد افراد پر مشتمل بہت بڑا ملک جہاں کروڑوں لوگ کوغربت کی اتھاہ پستیوں کا شکار ہیں۔ جہاں کروڑوں لوگ روز بھوکے سوتے ہیں۔ جہاں کروڑوں لوگوں کو پینے کو صاف تو درکنار، کوئی پانی میسر نہیں۔ جہاں کروڑوں لوگ بے گھر ہیں۔ جہاں کروڑوں لوگ جینے کی تمنا میں روز ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ جہاں کروڑوں لوگ روٹی، کپڑا اور مکان سے محروم ہیں،وہاں اس جنگی جنون کا کیا جواز ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت چین جیسی عالمی طاقت سے توکسی پنجہ آزمائی سے رہا کیونکہ اقوام عالم دیکھ چکی ہیں کہ جب کبھی بھارت نے چین کے ساتھ زور آزمائی کرنے کی کوشش کی تو ہمیشہ منہ کی کھائی اور چین نے ہمیشہ اس کے دانت کھٹے کیے ۔ لا محالہ بھارتی جنگی جنون مملکت پاکستان کے خلاف ہی ہے۔ جہاں بھارت نے مظلوم کشمیری عوام اور ان کے زمین پر ظالمانہ اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ وہاں 5 اگست2019ء سے کرفیو کا نفاذ کیے ہوئے ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو زندہ درگور کیے اپنی بے شرمی پر جشن طرب مناتا ہے۔ جہاں مظلوم کشمیریوں کو ان کا ازلی حق خود ارادیت دینے کے بجائے ان پر روز ظلم و ستم کے کوہ گراں گرائے جاتے ہیں۔ وہاں اس بد طینت دشمن ہمسائے کے طرف سے جنگی بجٹ میں یہ زبردست اضافہ پاکستان ہی کے خلاف شمار ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ یہ اندازے صاف ظاہر کرتے ہیں کہ بھارتی فوجی اخراجات کے مقابل پاکستانی دفاعی بجٹ کس قدر کم ہے۔ اگر بھارتی جنگی جنون کی کچھ مزید تفصیل پیش کی جائے تو اس کے مطابق اگلے مالی سال میں آرمی کے لیے گاڑیوں، مشینوں، ائیر کرافٹ، ایرو انجن، اگنی پتھ سکیم، بحریہ کے سازوسامان کی خریداری کے لیے فنڈز میں بے حد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بھارتی جنگی جنون میں بجٹ کے اعتبار سے 13 فیصد اضافہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا فوجی بجٹ جو صرف اور صرف اپنے دفاع کی خاطر ہے وہ فی الحقیقت ہر گزرتے مالی سال کے بجٹ تخمینے کی حقیقی روح کے مطابق کم سے کم ہو رہا ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے دفاعی اخراجات گزشتہ پانچ دہائیوں میں 6.5 فیصد سے کم ہو کر 1.7 فیصدتک گر گئے ہیں۔ اگر2017ء کے بجٹ کا حوالہ دیا جائے تو پاکستان کا دفاعی بجٹ کل قومی بجٹ کا 19.5 فیصد تھا مگر2023کے مالی سال کے لیے یہ دفاعی اخراجات سکڑ کر محض 12.5 فیصد رہ گئے ہیں۔یہ اعداد و شمار یہ امر واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ملکی دفاعی بجٹ میں جس اضافہ کی بابت ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں وہ حقائق کی رو سے نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ حقیقی معلومات کے اعتبار سے بھی ناقص ہے۔ملکی سالمیت اور پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے ملکی دفاع کا ناقابل تسخیر بنایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مملکت خدادادپاکستان ہمیشہ عالمی امن کی داعی ہے اور افواج پاکستان وطن عزیز کی سالمیت اور دفاع کا مشکل ترین فریضہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے یقینی بنا رہی ہیں۔ اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام تک صحیح حقائق پہنچائے جائیںتاکہ ملکی دفاعی اخراجات کے حوالے سے کسی بھی غلط مکتبہ فکرکے حامل افراد کو غبار اڑانے کی جگہ نہ مل سکے اور عوام الناس کے اذہان اور ان کی فکر پراگندگی سے محفوظ رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس پاک دھرتی کو ہمیشہ بد نظروں کی بد نظری سے محفوظ فرمائے۔آمین! ||
مضمون نگارمختلف قومی وملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے