سبز جھیل کا پانی ہوا کے ساتھ ہلکورے لے رہا تھا ۔جھیل کے کنارے کچھ بچے اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے ۔ قریب کہیں سیبوں کے باغات تھے ،جب ہوا کا جھونکا آتا تو سیبوں کی خوشبو سے فضا مہک جاتی ۔نیلگوں آسماں پر پرندوں کی ڈاریں اڑانیں بھر رہی تھیں۔ چمکیلی دھوپ میں بھیڑ بکریاں بھی مزے سے خراماں خراماں چلتی جارہی تھیں اور انھیں ہانکنے والے بچے اپنے مقررہ راستے پہ رواں دواں تھے ،انھیں شام سے پہلے واپس گھر پہنچنا تھا۔اچانک ایک آواز نے انھیں چونکادیا۔
''گل نبی ! گل نبی !''زرمینے بھاگی چلی آرہی تھی اور اپنے بھائی کو آوازیں دے رہی تھی۔کیا بات ہے ؟ سیب جیسے سرخ گالوں والا ایک بچہ بھیڑوں کے پیچھے سے نکل کے آگے آگیا ۔ گل نبی سات سالہ پیارا بچہ تھا جو اپنی چار بہنوں کے بعد ہوا تھا ،وہ زرمینے سے فقط ایک سال چھوٹا تھا ،زرمینے اپنی بڑی بہنوں کے ساتھ سکول جاتی تھی جب کہ گل نبی کوابھی سکول داخل نہیں کروایا گیا تھا۔
جلدی چلو ،بھاگو ! زرمینے اپنی پھولی سانسوں کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔
بھارتی فوجیوں کی گاڑیاں اس طرف آرہی ہیں ،سامنے والی پہاڑی کے بیچ راستے سے گھر چلتے ہیں ،یہ کہتے ہی وہ بھی دوسرے بچوں کے ساتھ بھیڑوں کو تیز چلانے کے لیے ہا آآ کی آوازیں نکالنے لگی۔ جلد ہی یہ چھوٹا سا قافلہ پہاڑی درے تک پہنچ چکا تھا۔
بھارتی فوجیوں کی گاڑیاں ،چند کشمیری نوجوانوں کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھیں ۔کل ایک معرکے میں پانچ کشمیری نوجوانوں نے درجنوں بھارتی فوجیوں کو ہزیمت کا مزہ چکھایا تھا اور ان کے دس فوجیوں کو جہنم واصل کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔اب بھارتی فوجی غصے سے پاگل ہوکے انھیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔ان میں سے ایک نوجوان احمد قمر کی تین دن بعد شادی تھی لیکن وہ کئی روز ہوئے گھر نہیں جاسکا تھا۔
اب رات ہورہی تھی ،جلد ہی چاند نکل آیا ،یوں لگ رہا تھا کہ چاند اور پانی باہم مل گئے ہیں ۔نور کی کرنیں پانیوں میں روشنی بکھیر رہی تھیں۔ جھیل میں چند کشتیاں تیرتی ہوئی آرہی تھیں ،ملاحوں نے کشتیوں کے اندر دیے جلائے ہوئے تھے ،یوں جھیل میں جیسے ستارے بھی اتر آئے تھے۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر احمد قمر کا گھر تھا ،جس کی شادی میں شرکت کے لیئے عزیز رشتے دار کشتیوں میں پہنچ رہے تھے۔ جلد ہی احمد کے والد قمر بٹ کا دومنزلہ مکان مہمانوں سے بھر گیا اور پھر کشمیری چائے کی خوشبو بھی اس خوشی کے موقع میں شامل ہوگئی۔ہر کوئی احمد قمر کی غیر موجودگی کو محسوس کر رہا تھا اور اس خوشی میں ایک ڈر کا ڈنگ بھی دلوں کو ڈس رہا تھا ۔
اس گھر سے پرے ،پہاڑ کی دوسری جانب لکڑی کے بنے گھر کے تہہ خانے میں احمد قمر اپنے ساتھی مجاہدین کے ہمراہ اگلے معرکے کا منصوبہ بنارہا تھا۔اس نے اپنی شال کے اندر سے رول کیا ہوا کاغذ نکالا اور سامنے موجود بوسیدہ میز پر رکھ دیا۔ وہ ایک اسلحہ ڈپو کا نقشہ تھا جہاں سے بھارتی فوجیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے کمک ملتی تھی۔احمد کے ساتھ صرف بارہ مجاہدین تھے۔ وہ سب اس نقشے کو سمجھنے کے لیے میز پر جھکے ہوئے تھے۔کمانڈر احمد قمر سمجھا رہا تھا:کل رات ،ہندوئوں کا ایک تہوار ہے ،اس رات وہ شراب ضرور پئیں گے اور جب وہ دھت ہوجائیں گے تب ہم اپنی کارروائی کا آغاز کریں گے ،دو ساتھی ڈپو کے باہر پہرہ دیں گے ،باقی میرے ساتھ اندر جائیں گے۔جدوجہد ہماری اور فتح اللہ کی جانب سے!
احمد قمر ساتھیوں کے ہمراہ مشن کی کامیابی کے لییپر عزم تھا ،پھر ایک مجاہد نے دلسوز آواز میں ترانہ شروع کردیا
یہ جنگ ہے ،جنگ۔۔آزادی
آزاد۔ رہے اپنی وادی
ہم اپنے لہو سے بھر دیں گے
کشمیر میں رنگ۔۔آزادی !
رفتہ رفتہ دوسرے مجاہدین کی آوازیں بھی اس لے میں شامل ہوگئیں۔یہ کئی نسلوں کا عزم تھا ،کتنے شہداء اس عزم پہ قربان ہوچکے تھے، کتنے قبرستان آباد ہوگئے لیکن ہنوز صبحِ آزادی طلوع نہیں ہوئی تھی۔ابھی ترانے کی لے ختم نہیں ہوئی تھی کہ فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی۔قمر بٹ کا خوشی والا گھر بھارتی فوجیوں کا نشانہ بن چکا تھا۔سب کو شہید کرنے کے بعد بھارتی فوجی اپنے کمانڈر کو رپورٹ دے رہے تھے کہ آج ایک ''اگروادی کا کریا کرم کر آئے ہیں۔''ایک لمبی سی میز کے دونوں جانب فوجیوں کی قطاریں آپریشن کی تفصیل سن رہی تھیں۔ پھر کمانڈر نے اگلے آپریشن کا منصوبہ بتانا شروع کیا ۔اس آپریشن میں بھارت سرکار کے ساتھ ہمارے دوست اسرائیل نے خصوصی تعاون کیا ہے۔نیا خطرناک اسلحہ ،ٹارچر کے مہلک ہتھیار اور اندھیرے میں دیکھنے والے سپیشل گاگلز کی نئی کھیپ بھی ملے گی۔ پیلٹ گنز سے انھیں اندھا کر دیں گے ہم ۔سمجھتے کیا ہیں یہ کشمیری ؟ ہم ان کی جان ایسے ہی چھوڑ دیں گے؟ کتنی درگھٹنائوں کے بعد ہم یہاں قابض ہوئے ہیں ، اس وقت ہم Roof of the world پر بیٹھے ہیں، ابھی ورلڈ پاورز کی اگلی گیم باقی ہے۔گریٹر انڈیا کی باؤنڈریز،، پاکستان توکیا چائنہ سے بھی آگے جائیں گی۔اکھنڈ بھارت ہمارے پرکھوں کا سپنا ہے جو ضرور پورا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
بات جاری تھی کہ سائرن بج اٹھے،پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی، افراتفری مچ گئی، مجاہدین نے اسلحہ کا ڈپو تباہ کردیا تھا ۔بھارتی کمانڈر اپنے ہیڈ کوارٹر سے مزید نفری طلب کررہا تھا اور اس کی اڑی رنگت بتارہی تھی کہ اسے آفیسر سے ڈانٹ بھی پڑ رہی ہے ۔آج رات ان پر بہت بھاری تھی۔
دوسری طرف احمد قمر اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں خفیہ ٹھکانے پر واپس پہنچ چکا تھا۔ مشن کی تکمیل کے بعد انھوں نے ڈرائی فروٹس اور قہوے کا اہتمام کیا اور وضو کے بعد صفیں بچھا کر نماز با جماعت ادا کی ۔امام کی انتہائی خوب صورت تلاوت ان کے دلوں کو طمانیت سے لبریز بھی کر رہی تھی اور تقویت بھی دے رہی تھی۔ مجاہدین کے باریش ،معصوم چہرے آنسوئوںسے ترتھے، پھر شکرانے کے نوافل ادا ہونے لگے۔اگلے دن کمانڈر احمد قمر کے نکاح کی سادہ سی تقریب ہونا تھی ،ایک گھر بسنا تھا،حریت کی فکر اور آزادی کا پرچم اگلی نسل تک پہنچنا باقی تھا،رات کے اندھیرے، اُجالے کی منزل تک ضرور پہنچیں گے ،فضا کہہ رہی تھی۔ ||
مضمون نگار مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے