ماحولیاتی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے پیش نظر دنیا بھر میںیوم الارض یعنیEarth Dayمنایاجاتاہے۔ امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے 60 کی دہائی میں دُہائی دینا شروع کی کہ ہم اندھا دھند کنزیومر ازم کی کلہاڑی سے کرہ ٔ ارض کی ماحولیاتی جڑیں اور بنی نوع انسان کا مستقبل کاٹ رہے ہیں۔ دیگر آوازیں بھی اس میں شامل ہوئیں تو بالآخر 1970 میں 22 ستمبرکو ہر سال یوم الارض منانے کی ابتداء ہوئی۔
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو شدید ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلوں کا شکار ہیں۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں سے بارشوں، سیلابوں، زلزلوں سمیت کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان چیلنجز میں تازہ ترین چیلنج بڑھتی ہو ئی شہری آبادی کے سبب ہر روز جمع ہونے والا کچرا یا سالڈ ویسٹ (Solid Waste) ہے۔
دنیا کے وسائل پر سب سے زیادہ اور تیزی سے ہاتھ صاف کرنے والے ملک امریکہ میں اس تحریک کے نتیجے میں ادارئہ تحفظ ماحولیات (Environment Protection Agency) قائم کیا گیا۔ اس ادارے کی اجازت بڑے بڑے تعمیراتی پروجیکٹس، صنعتی، کان کنی یا ماحول پر اثرانداز ہونے والے پروجیکٹس کی منظوری لازم ٹھہری۔ ماحول پرپے در پے پڑنے والے تباہ کن اثرات کا احساس اجاگر ہوا تو امریکہ میں کلین ایئر ایکٹ، کلین واٹر ایکٹ، آکوپیشنل ہیلتھ ایند سیفٹی یعنی پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران صحت اور تحفظ ایکٹ اور ماحولیاتی ایجوکیشن ایکٹ جیسے قوانین بنائے گئے۔ یوں پہلی بار صاف ہوا اور صاف پانی بنیادی انسانی حقوق کی فہرست میں شامل ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات اور جانوروں کا تحفظ بھی ماحول دوست پالیسیوں کا حصہ بنا ۔ دیکھا دیکھی دنیا کے دیگر ممالک نے بھی ان قوانین کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بنایا، کسی نے کم اور کسی ملک نے زیادہ لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے ہر سال نئے جھکڑ ملکوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ وقت کم اور مقابل سخت ہے۔
سالڈ ویسٹ اور پاکستان
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو شدید ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلوں کا شکار ہیں۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں سے بارشوں، سیلابوں، زلزلوں سمیت کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان چیلنجز میں تازہ ترین چیلنج بڑھتی ہو ئی شہری آبادی کے سبب ہر روز جمع ہونے والا کچرا یا سالڈ ویسٹ (Solid Waste) ہے۔ پاکستان کی آبادی میں پچھلی کئی دِہائیوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بہت تیزی سے رونما ہوا ہے۔ صنعتوں کے ارتکاز اور شہروں کے بے تحاشا پھیلائو نے پاکستان کو جن ماحولیاتی مسائل سے دوچار کیا ہے ان میں ایک اہم ترین مسئلہ سالڈ ویسٹ ٹھکانے لگانے کا بھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو سا لانہ 49.6 ملین ٹن سالڈ ویسٹ کا سامنا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ صنعتی اور گھریلو ویسٹ واٹر یعنی آلودہ پانی کا حجم4.36 ملین کیوبک میٹر سالانہ کا دوہرا چیلنج ہے۔ سالڈ ویسٹ اور آلودہ پانی کے حجم میں سالانہ 2.4% ، اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی آبادی میں اضافے کے لگ بھگ۔ المیہ یہ ہے کہ دیگر ترقی مذیر ممالک کی طرح بمشکل 60-70% سالڈ ویسٹ اور محض 1% آلودہ پانی ٹھکانے لگانے سے پہلے صاف یا مناسب انداز میں ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سالڈ ویسٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا انفرا سٹرکچر ناکافی ہے۔ زیادہ تر سالڈ ویسٹ جلا دیا جاتا ہے، خالی اور نشیبی جگہوں پر ڈھیر کر دیا جاتا ہے یا گڑھوں میں پھینک کر زمین ہموار کرنے کے کام آجاتا ہے۔ ہر صورت میں یہ سالڈ ویسٹ صحت ، صفائی اور تحفظ کے لیے تباہ کن اثرات کا باعث بنتا ہے۔
شہر جتنا بڑا ہے، سالد ویسٹ کا مسئلہ بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی روزانہ 16,500 ٹن میونسپل ویسٹ پیدا کرتا ہے جبکہ لاہور میں یہ مقدار روزانہ 7,700 ٹن، فیصل آباد 5,017 ٹن، راولپنڈی 4,500 ٹن، پشاور 2,048 اور کوئٹہ 716 ٹن ہے۔ یہ صرف چند بڑے شہروں کی داستان ہے جبکہ دیگر تمام شہروں میں یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ سنگین سے سنگین تر ہو تا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ واضح ہے کہ شہروں میں مقامی حکومتوں یا میونسپل کارپوریشنز کی انتظامی صلاحیتیں اور مالی وسائل محدود تر ہیں۔
سالڈ ویسٹ کو محفوظ اور کارآمد انداز میں ٹھکانے لگانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں مربوط میونسپل ویسٹ ڈسپوزل سسٹم وضع کیا جائے اور سختی سے عمل کیا جائے۔ اس عمل میں عوامی آگہی اور میونسپل اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور رابطے کی ضرورت ہے جس کے بغیر سالڈ ویسٹ کو میٹیریل کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ سٹور کرنے، میونسپل اداروں کے حوالے کرنے اور اسی مناسب انداز میں تلفی یا ری سائکلنگ ممکن نہیں۔
مزید ستم یہ کہ سالڈ ویسٹ جیسا سنگین مسئلہ بظاہر صوبائی اور مرکزی حکومت کی ترجیحات کی فہرست میں شاذ ہی اہمیت پا سکا ہے۔ پانی جب سر سے گزر جاتا ہے تو چند دن شور شرابا ہوتا ہے اور بس، کچھ عرصہ قبل کراچی میں کچرے کے ڈھیروں اور غلاظت و تعفن کا شہرہ رہا ، چند مال قبل یہی شور شرابا لاہور کے بارے میں بھی رہا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ انتظامی صلاحیتوں، اداراتی ڈھانچے، مشینری، مالی وسائل کی فراہمی ، سالڈ ویسٹ کو چھوٹے بڑے شہروں میں مربوط اور تسلسل کے ساتھ ٹھکانے لگانے اورسالڈ ویسٹ کے نظم و نسق کو حکومتی ، عوامی اور گھریلو سطح پر منظم کرنے کی نوبت نہیں آ سکی۔
سالڈ ویسٹ کی عمومی اقسام کچھ یوں ہیں:
1۔ میونسپل سالڈ ویسٹ
2۔صنعتی ویسٹ
3۔ زرعی ویسٹ
4۔ ہلاکت خیز یا نقصان دہ ویسٹ یعنی Hazardous waste
چیلنجز کیا ہیں؟
سالڈ ویسٹ کو محفوظ اوربہتر انداز میں ٹھکانے لگانے کے عمل میں حائل چند دشواریاں کچھ یوں ہیں:
اول: چند ایک شہروں میں کچے پکے سسٹم کے سوا بالعموم سالڈ ویسٹ کو محفوظ اور کارآمد انداز میں ٹھکانے لگانے کا مربوط نظام موجود نہیں۔
دوم: آج بھی بالعموم سالڈ گھریلو ویسٹ گلیوں میں کوڑا کرکٹ کی صورت میں ایک فالتو بوجھ سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔
سوم: مجموعی شعور اور آگہی کے فقدان کی وجہ سے بالعموم سالڈ ویسٹ کومیٹیریل کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ سٹور نہیں کیا جاتا۔ کچرا چننے والے یا کارآمدمیٹیریل کی تلاش میں مزدور کارآمدمیٹیریل چن کر باقی کچرا مکس ہی چھوڑ دیتے ہیں
چہارم: شہروں اور قصبوں کے قرب و جوار میں مخصوص اور زیر ِ نگرانی لینڈ فل سائیٹس نہیں یعنی گہری زمین کو بھرنے کی جگہیںبہت کم ہیں یا سرے سے دستیاب ہی نہیں۔
پنجم: شہریوں کو عموما اس امر کا ادراک ہی نہیں کہ سالڈ ویسٹ کومیٹیریل کے اعتبار سے علیحدہ کرنے کا سالڈ ویسٹ کی تلفی، اسے محفوظ اور کارآمد انداز میں ٹھکانے لگانے کے عمل پر کیا اور کیسے اثر پڑتا ہے۔
لائحہ عمل کیا ہو؟
اول: سالڈ ویسٹ کو محفوظ اور کارآمد انداز میں ٹھکانے لگانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں مربوط میونسپل ویسٹ ڈسپوزل سسٹم وضع کیا جائے اور سختی سے عمل کیا جائے۔ اس عمل میں عوامی آگہی اور میونسپل اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور رابطے کی ضرورت ہے جس کے بغیر سالڈ ویسٹ کو میٹیریل کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ سٹور کرنے، میونسپل اداروں کے حوالے کرنے اور اسی مناسب انداز میں تلفی یا ری سائکلنگ ممکن نہیں۔
دوم: پاکستان نے قوانین کی حد تک عالمی سطح پر مروج بہت سے قوانین کو اپنایا ہے مگر ان قوانین کو رو بہ عمل لانے اور اداروں کی صورت میں ان قوانین کو روزمرہ انجام دہی کے لئے اداراتی انتظامی بندو بست میں خاطر خواہ سرگرمی نہیں دکھائی۔ شاذ ہی ان قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل کی صورت نظر آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کاغذی خانہ پری سے ہٹ کر ان قوانین پر عمل کا مربوط نظم وضع کرنے اور عمل پیرا ہونے کی عملی صورت پیدا کی جائے ۔گو ماحولیاتی تحفظ کے ادارے قائم ہو چکے ہیں لیکن قومی سطح پر ابھی تک سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نیشنل کوالٹی سٹینڈرز وضع نہیں کئے جاسکے۔
سوم؛ سالڈ ویسٹ کو آگ لگا کر تلف کرنے یا گہری زمینوں کو پُر کرنے یا خالی جگہوں پر سالڈ ویسٹ کے پہاڑ کھڑے کرنے کے بجائے مخصوص سائٹس پر ہی ٹھکانے لگایا جائے۔ جو ویسٹ کارآمد یا دوبارہ قابل استعمال ہو سکتی ہے اس کے لئے مناسب پراسس، مشینری اور انتظامی بند و بست کی ضرورت ہے جیسے ویسٹ سے بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹس وغیرہ۔
چہارم: سالڈ ویسٹ کم کرنے کے لئے ضروری اقدام میں سے چند ایک یہ بھی ہیں کہ سالڈ ویسٹ کم سے کم پیدا ہوا یعنی اشیائے ضروریہ کے استعمال میں کفایت اور ایسے میٹیریل استعمال کرنے کی ترغیب جن سے سالڈ ویسٹ کم سے کم پیدا ہو۔ مزید یہ کہ سالڈ ویسٹ کا باعث بننے والے بہت سے ویسٹ کو دوبارہ استعمال یعنی Reuse کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ پیکیجنگ کو دوبار استعمال کرنے کا عمل کفایت اور ذمہ داری کا مظہر ہو سکے جیسے شیشے کے جارز، پلاسٹک جارز، پلاسٹک پیکیجنگ، شاپنگ بیگز وغیرہ ۔ اسی طرح ایسے پیکیجنگ میٹیریل کو فروغ دیا جائے جو دوبار کارآمد اور قابل استعمال ہوں۔ مثلاً کاغذ یا گتے کی پیکیجنگ کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کئی طرح کا پلاسٹک یا لکڑی کی پیکنگ اور شیشے کی پیکنگ کو بھی دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔
ان تینوں اقدامات کو پیکیجنگ اور پراڈکٹس کے استعما ل میں کفایت، دوبارہ استعمال اور بار بار استعمال کی صورتوں میں ہمارے روزمرہ کے طریقہ ہائے استعمال کا بنیادی جزو بنانے سے بہت سے سالڈ ویسٹ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان اقدامات کو Reduce, Reuse and Recycle کے نام سے لاگو کرنے اور عام کرنے کی کوششیں نہایت وسیع البنیاد ہو چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھی دقیانوسی سوچ ترک کرکے نئی سوچ اپنائیں جہاں سالڈ ویسٹ کی بہ حفاطت تلفی ایک معاشرتی فریضہ بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔
سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ایک انتہائی دقیق اور وسیع الاثر موضوع ہے۔ صاف ماحول، صاف ہوا، صاف پانی اور محفوظ زندگی ہم سب کا بنیادی انسانی حق ہے۔ اس حق کو حاصل کرنے کے لئے اجتماعی ذمہ داری اور انتظامی ڈھانچہ اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوامی شعور اور آگہی بھی ضروری ہے، ورنہ جس تیزی سے شہروں اور قصبوں کا پھیلائو ہو رہا ہے ، اسی تیزی سے ماحولیاتی بگاڑ بھی ہماری روزمرہ کی زندگی کو عذاب بنا سکتا ہے۔
یوم الارض منانے والے ترقی یافتہ ممالک نے دو صدیوں سے زائد اپنے قدرتی وسائل اور ماحول کی تباہ کاری کے بعد یہ حقیقت سمجھی کہ اب قدرتی وسائل کے استعمال میں کفایت اور ماحولیاتی ایکو سسٹم کو بحال کئے بغیر زندگی بجائے خود خطرے میں ہے۔ ہم دوسروں کی غلطیوں اور اچھی باتوں سے اپنا نقصان کئے بغیر سیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ سیکھنے پر آمادہ ہوں! ||
مضمون نگار ایک قومی اخبارمیں سیاسی ' سماجی اور معاشی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے