دنیا کی ہرقوم اور جماعت کی ایک الگ اور خصوصی شناخت ہوتی ہے جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کا تعلق فلاں مذہب،قوم یا نسل سے ہے۔جس طرح مختلف عسکری اور تعلیمی اداروں کی پہچان ان کے لباس سے ہی ہو جاتی ہے اسی طرح بعض عمارتوں اور یادگاروں سے اس قوم کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔اسلام دنیا کا مہذب اور منظّم ترین مذہب ہے۔ یہ بھی اپنی الگ پہچان اور دل کش شعائر کا حامل ہے۔ اس کے ماننے والے خاص طریقے سے عبادت کرتے اور خاص قسم کا طرز زندگی اختیار کرتے ہیں۔مسلمانوں کی اصطلاح میں ان خاص امور کو شعائرِ اسلام کہا جاتا ہے، یعنی ''اسلام کی علامات''۔اسی طرح اگر کچھ علامات کو قومی اور ملی عمارات کے ساتھ منسلک کر دیا جاے تو انہیں ''قومی شعائر''کہا جاتا ہے
یہ پاک وطن کسی نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا بلکہ اس کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں پیش کیں۔اس کی بنیادوں میں لاکھوں افراد کا خون شامل ہے۔اس سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھنے کے لیے ہزاروں جوانوں نے اپنی جوانیاں لٹائی ہیں۔دھرتی ماں کی مانگ میں سیندور بھرنے کے لیے خون کی ندیاں بہائی گئی ہیں۔کیا یہ سب قربانیاں اس وجہ سے تھیں کہ اس پاک دھرتی کے شعائر کی بے حرمتی ہو؟
قرآن مجید،احادیث رسول ِمقبول (ۖ) اور ائمہ دین کی کتب میں شعائر اللہ کا ذکر اور اہمیت بالتفصیل ملتاہے جس سے آشنائی کیے بغیر اسلام کی کامل تفہیم مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے اور اس سے یہ چیز بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح اسلام میں اسلامی شعائر کی حرمت کا ایک واضح تصور موجود ہے اسی طرح قومی زندگی میں قومی شعائر کی حفاظت اور ان کی حرمت کا اہتمام کرنا بھی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔اب ہم ذیل میں شعائرِ اسلام کی تعریفیں و احکام بیان کریں گے اور پھر ان کی روشنی میں قومی شعائر کی تعظیم اور موجودہ حالات میں ان کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے۔
شعائر کے معنی علامت کے ہیں۔ ہمارے دین میں جن چیزوں کو شعائراللہ کہاگیاہے،ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ واقعی اللہ رب العزت کی طرف رغبت دلانے والی اور دین کی طرف مائل کرنے والی ہیں۔یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یہ شعائر بذات خود کوئی ذاتی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ انکا حقیقی مقصد یہ ہے کہ ان میں پوشیدہ حقائق سے اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرنے کا موقع ملتا ہے اور اسی وجہ سے شعائر اللہ کی تعظیم و توقیر لازم ہے۔
یہاں میں قرآن کریم سے صرف دو مثالیں پیش کر کے آگے بڑھوں گا ارشاد ہوا
ترجمہ: بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (سورة بقرہ آیت نمبر 158)
مختلف مفسرین نے اس آیت کی تفسیر اپنے اپنے ذوق کے مطابق کی ہے لیکن قدرے عام فہم انداز میں اس کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہوں
''دینی شعائر یعنی علامتوں کا برقرار رکھنا اللہ کی سنت ہے جیسے صفا اورمروہ کو اللہ رب العزت نے باقی رکھا کیونکہ یہ اسکے برگزیدہ بندوں کی نشانی ہے۔لہٰذا بزرگانِ دین،ملک و ملت کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینے والے محسنین،مادر وطن کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا ء کی یادگاریں بنانا ،انہیں محفوظ رکھنا اور ان کا اکرام کرنا اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔کسی بھی شخص یا ادارے سے ذاتی پرخاش کے باوجود ان کی طرف سے تعمیر کی گئی یادگاروں کا احترام ترک کرنا کسی طور بھی قابل تحسین عمل نہیں۔
قرآن میں سورة حج میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ۔ ترجمہ: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔ ( سورت حج آیت نمبر 32)
امام المفسرین امام رازی فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ کسی ایک چیز کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو اللہ کے قریب کرے یا اس کی یاد دلائے وہ شعائر اللہ ہے۔
شعائر کی دینی توضیح کے بعد اب ہم وطن عزیز کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ پاک وطن کسی نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا بلکہ اس کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں پیش کیں۔اس کی بنیادوں میں لاکھوں افراد کا خون شامل ہے۔اس سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھنے کے لیے ہزاروں جوانوں نے اپنی جوانیاں لٹائی ہیں۔دھرتی ماں کی مانگ میں سیندور بھرنے کے لیے خون کی ندیاں بہائی گئی ہیں۔کیا یہ سب قربانیاں اس وجہ سے تھیں کہ اس پاک دھرتی کے شعائر کی بے حرمتی ہو؟
ہمیں یہ حقیقت ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ حکومتوں کا آنا جانا معمول کی بات ہے۔ایوان اقتدار کے مکینوں کی تبدیلی ایک جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن ریاست کے کچھ قومی و ملی شعائر ناگزیر اور اٹل ہوتے ہیں جن کا تقدس وقتی جذبات،سیاسی نظریات، ذاتی پسند نا پسند،انفرادی عقیدت و محبت یا ذاتی و جماعتی مفادات سے کہیں بلند و بالا ہوتا ہے۔ یہ ملی شعائر ملک و ملت کے اتحاد اور بقا کی علامت ہوتے ہیں جن کا احترام تمام ذاتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سب پر لازم ہے۔ان ملی شعائر کی توہین کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کسی بھی ریاست کا آئین وہ مقدس دستاویز ہے جس کا مقام و مرتبہ الہامی و مذہبی کتب کے بعد سمجھا جاتاہے۔ ہر پاکستانی بچہ جب سن شعور میں قدم رکھتا ہے تو قومی شعائر مثلاً قومی پرچم اور قومی ترانے کا تقدس اور اہمیت محسوس کرنے لگتا ہے۔قومی ترانہ اسے ماں کی لوری کی مانند معلوم ہوتا ہے۔ پاک سر زمین شادباد'' کے لفظوں میں ولولہ انگیز مفہوم ہوتا ہے کہ بیٹھے ہو تو کھڑے ہو جاؤ، کھڑے ہو تو ساکت ہوجاؤ۔ کام میں مصروف ہو تو احتراماً ہاتھ سیدھے چھوڑ کر ساکت و صامت ہو جاؤ۔، ہاں اگر لبوں کو جنبش مطلوب ہے تو ان پر ملی ترانے کے مقدس لفظوں کا ورد ضروری ہے۔ اس دوران اگر کوئی بولتا، ہنستا یا کسی اور کام میں مصروف ہوتا ہے تو گویا وہ شعار قومی اور آداب ملّی کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسی لیے قومی پرچم یا قومی ترانے کی بے حرمتی کے مرتکب کے واسطے تعزیرات پاکستان میں باقاعدہ سزا درج ہے اور اس بے ادبی کو جرم کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔اسی طرح پاکستان کی تمام سول اور فوجی تنصیبات ہمارے ملی شعائر ہیں۔پاکستان کی پارلیمان،سپریم کورٹ،جی ایچ کیو،ایون صدر،ایوان وزیراعظم، مختلف شہدا کی یادگاریں اور عظیم شخصیات سے منسوب تمام نشانیاں ہمارے لیے محترم ہونی چاہئیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی اشرافیہ نے ان یادگاروں کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے اور اس ایک نکتہ پر پوری قوم متحد نظر آئی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وجوہات کا بروقت ادراک کر کے ان کے تدارک کا فوری بندوبست کیا جاے۔ ||
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے