پاکستان کے بہت سے چیلنجز یا مسائل ایسے ہیں جو مجموعی طور پر ہماری ریاستی کمزوری کا سبب بن رہے ہیں ۔ان مسائل کی وجہ سے ہمارا داخلی اور خارجی بحران سنگین بھی ہوگیا ہے اور ہمیں بہت سے معاملات پر ان مسائل کی روشنی میں ان مسائل کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے ۔ ایک سیاسی اور جمہوری معاشرہ جہاں رواداری او رایک دوسرے کے مختلف نظریات کے باوجود لوگوں میں ایک دوسرے کی قبولیت ہی ہماری ضرورت ہے ۔ایک ایسا معاشرہ جو مختلف نوعیت جس میں سیاسی ، لسانی ، علاقائی ، مذہبی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم ہو وہاں ایک دوسرے کی سوچ، فکر، خیالات کے درمیان سماجی و سیاسی او رمذہبی ہم آہنگی ہی معاشرے میں موجود مختلف تضادات کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے ۔یہ جو سوچ ہے کہ ہم سب کو اپنی سوچ اور خیالات کے تابع کرلیں او راگر اس کے لیے ہمیں کوئی طاقت یا زبردستی کی حکمت عملی بھی اختیار کرنا پڑے تو وہ کی جانی چاہیے ، خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے ۔
سیاست، جمہوریت اور آئین یا قانون کے دائرے کار میں رہتے ہوئے ہم اپنی آواز کو کیوں نہیں اٹھاسکتے ۔ کیا ہمیں اپنی آوازوں کو اٹھانے کے لیے طاقت کا استعمال یا ریاستی یا حکومتی یا ادارہ جاتی رٹ کو چیلنج کرنا ہی ضروری امر ہوتا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ایک پرامن اور جمہوری فکر کے انداز میں ہم اپنا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہورہے ہیں او راس کے مقابلے میں انتہا پسندانہ رجحانات کو فوقیت دی جارہی ہے ۔
پاکستان نے مذہبی اور فرقہ واریت سمیت لسانی بنیادوں پر تقسیم کے منفی اثرات دیکھے ہیں او راس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پرتشدد یا جھتہ برداری کے واقعات نے ریاستی عمل کو کمزور کیا ہے ۔ لیکن اب ایک نئی جنگ ہمیں سیاسی بنیادوں پر تقسیم کی صورت میں نظر آرہی ہے ۔ اگرچہ 70سے 90کی دہائی میں بھی ہم نے سیاسی فریقوں میں ایک بڑی تقسیم دیکھی تھی، مگر وہ ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کی دنیا نہیں تھی۔ اس لیے اگر ہم دیکھیں تو آج کی سیاسی تقسیم ماضی کی سیاسی تقسیم سے بہت زیادہ گہری ہے ۔اس تقسیم نے سیاسی جماعتوں سمیت معاشرے کے تمام اہم یا غیر اہم طبقات سمیت حکومتی یا ریاستی اداروں میں بھی اس کے اثرات چھوڑے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج اہل دانش کی سطح پر ایک بنیادی نوعیت کا سوال '' معاشرے میں پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم '' کے تناظر میں اٹھایا جارہا ہے ۔یہ تقسیم انفرادی سطح سے اٹھ کر اجتماعی سطح تک یا یہ کہہ لیں کہ ہماری معاشرتی زندگی یا گھر میں بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔
بنیادی طور پر انتہا پسندی پر مبنی رجحانات ہی پرتشدد رجحانات یا تشدد سمیت دہشت گردی کی طرف لوگوں کو مائل کرتے ہیں ۔کیونکہ ہم عملی طور پر اپنی سوچ اور فکر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں او راس کے نتیجہ میں علمی یا فکری ٹکراؤ سمیت سیاسی ٹکراؤ بھی پیدا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ایک سیاسی بحران ہے اور ہمیں اس بحران کو محض سیاسی تناظر میں ہی دیکھنا ہوگا یا اس کے پیچھے اور بھی بہت سے محرکات ہیں جن کا تجزیہ کیا جانا ضرور ی ہے ۔کیونکہ سیاست میں بھی جو عدم برداشت کا کلچر بڑھ رہا ہے اس کے پیچھے بھی ہمارا سماجی پس منظر ہے ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا مجموعی تعلیمی نظام اور گھریلو یا خاندانی نظام میں ہی کچھ ایسے مسائل ہیں جو لوگوں کو تربیت کے عمل سے باہر نکال رہے ہیں ۔تعلیم اور تربیت یا خاندان یا تربیت کا جو باہمی تعلق ہے اس میں ہی ہمیں ایسے مسائل کا سامنا ہے جو ابتدا ہی میں بچوں اور بچیوں میں مختلف تقسیم کو ابھارتے ہیں یا ہم ان پر بڑ ے ہونے کے ناطے بہت سی سوچ اور فکر کو مسلط کرتے ہیں ۔
عدم برداشت یا عدم رواداری کے مقابلے میں ہمیں قومی سطح پر تمام طبقات میں ''مکالمہ کے کلچر'' کو فوقیت دینی تھی ۔ کیونکہ مسائل کی نوعیت جو بھی ہو او رمعاملہ جتنا بھی حساس یا سنگین ہو اس کا علمی اور فکری علاج مکالمہ ہی کی صورت میں ممکن ہوتا ہے ۔ مکالمہ کا مقصد محض اپنی سوچ وفکر کو منوانا ہی نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے مختلف خیالات کے باوجود ا ن کی قبولیت یا باہمی احترا م ہوتا ہے ۔مجموعی طور پر ہمیں قومی سطح پر اوپر سے لے کر نیچے تک مکالمہ کا کلچر درکار ہے ۔اسی طرح نہ صرف مکالمہ کا کلچر بلکہ مکالمہ کی تہذیب اور طور طریقے بھی سیکھنے ہونگے کہ کیسے مکالمہ قومی سطح پر مثبت نتائج کا سبب بنتا ہے۔ اول تو یہاں مکالمہ کے کلچر کا فقدان ہے اور اگر کہیں مکالمہ ہو بھی رہا ہے تو اس پر یہ تنقید بھی موجود ہے کہ یہ واقعی مکالمہ ہے یا مکالمہ کے نام پر لوگوں میں مزید تقسیم کو پیدا کرنا ہے ۔
عدم برداشت یا عدم رواداری کے مقابلے میں ہمیں قومی سطح پر تمام طبقات میں ''مکالمہ کے کلچر'' کو فوقیت دینی تھی ۔ کیونکہ مسائل کی نوعیت جو بھی ہو او رمعاملہ جتنا بھی حساس یا سنگین ہو اس کا علمی اور فکری علاج مکالمہ ہی کی صورت میں ممکن ہوتا ہے ۔ مکالمہ کا مقصد محض اپنی سوچ وفکر کو منوانا ہی نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے مختلف خیالات کے باوجود ا ن کی قبولیت یا باہمی احترا م ہوتا ہے ۔مجموعی طور پر ہمیں قومی سطح پر اوپر سے لے کر نیچے تک مکالمہ کا کلچر درکار ہے ۔
یہ جو ہمیں مختلف واقعات میں لوگوں کی جانب سے بالخصوص نوجوانوں کی سطح پر ایک خاص ردعمل کی سیاسی جھلک دیکھنے کو ملتی ہیں وہ واقعی قومی سطح پر ایک سنجیدہ پہلو اوراس پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔کیا کسی بھی واقعہ پر ہمارا ردعمل انتہا پسندانہ بنیادوں پر ہی ہونا چاہیے او رہمیں و ہ ہی کچھ کرنا چاہیے جو پرتشدد رجحانات کی عکاسی کرے ۔ سیاست، جمہوریت اور آئین یا قانون کے دائرے کار میں رہتے ہوئے ہم اپنی آواز کو کیوں نہیں اٹھاسکتے ۔ کیا ہمیں اپنی آوازوں کو اٹھانے کے لیے طاقت کا استعمال یا ریاستی یا حکومتی یا ادارہ جاتی رٹ کو چیلنج کرنا ہی ضروری امر ہوتا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ایک پرامن اور جمہوری فکر کے انداز میں ہم اپنا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہورہے ہیں اور اس کے مقابلے میں انتہا پسندانہ رجحانات کو فوقیت دی جارہی ہے ۔احتجاج میں توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ،سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا ، ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا، قتل و غارت٫ تشدد ہی کیوں ہماری سیاست کا مجموعی کلچر بنتا جارہا ہے ۔ایک سوال خود ہمارے ریاستی اور حکومتی نظام سے جڑا ہوا ہے کہ اگر کوئی فرد یا ادارہ پرامن انداز میں احتجاج کرتا ہے تو کیا ہم اسے اہمیت دیتے ہیں او رکیا میڈیا اسے اجاگر کرتا ہے ، کیونکہ جب تک کوئی بڑا واقعہ احتجاج کی صور ت میں نہ ہو یا توڑ پھوڑ نہ ہو تو نہ ریاست کو کوئی فکر ہوتی ہے او رنہ ہی حکومت کوئی توجہ دیتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ احتجاج میں تشد دکو بطور ہتھیار اختیار کرکے ریاست او رحکومت پر اپنے مطالبات کے حق میں دباؤ ڈالتے ہیں ۔ اسی طرح مجموی طور پر سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سیاسی کارکنوں کی تربیت وہ نہیں کرسکے جو ہمیں کرنی چاہیے تھی ۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید خود سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی اپنی وقتی سیاسی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ لوگوں کی جذباتیت کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیں ۔ویسے بھی ہماری سیاسی جماعتوں کا داخلی جمہوری اور جوابدہی کا نظام کافی کمزور ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا اپنے ہی کارکنوں یا حمایتیوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی دنیا میں جو کچھ ہم یہاں کررہے ہوتے ہیں وہ دنیا بھی دیکھ رہی ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری سیاسی طور پر جو شناخت منفی بنیادوں پر ملکی یا عالمی سطح پربنتی ہے اس پر سوالیہ نشانات اٹھائے جاتے ہیں ۔اسی طرح آج کی دنیا سوشل میڈیا کی دنیاہے جہاں نوجوانوں کے پاس اپنے اظہار کے لیے بے پناہ مواقع ہیں ۔لیکن ہم ان نوجوانوں کی وہ تربیت بھی نہیں کرسکے کہ وہ کیسے خود کو ایک ''ذمہ دارانہ آزادی اظہار''کے طور پر پیش کریں ۔ ہمارے لفظوں میں یا اظہار میں تنقید کم اور تضحیک کا پہلو نمایاں ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے اندر موجود تعصب ، نفرت، غصہ ہے ۔ ہمارے نزدیک سچ وہی ہوتا ہے جو محض ہمارا ہوتا ہے اور باقی سب جھوٹ کی بنیاد پر کھڑے ہیں ۔یہ ایک خطرناک سوچ یا فکر کا رجحان ہے جو معاشرے میں خود کو بالادست اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کا سبب بنتا ہے او راسی بنیاد پر جب ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ انتہا پسند رجحانات کی صورت میں ہمیں دیکھنا پڑتا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نوجوانوں کے بنیادی حقوق اور ضرورتوں پر بھی بطور ریاست و حکومت توجہ نہیں دی ۔ ان میں موجودہ محرومی کی سیاست کا نتیجہ بھی انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
قومی سیاست کی ایک نئی جھلک ہمیں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر سیاسی دشمنی میں نظر آتی ہے ۔سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی مخالفانہ تقریریں ، جلسے ، جلوس کی سیاست ، ٹی وی ٹاک شوز، پریس کانفرنس سب ہی جگہ پر درست ، مناسب اور مہذہب الفاظ کی جگہ جارحانہ ، سخت گیر اور بدتمیزی پر مبنی گفتگو غالب ہوچکی ہے ۔ہم اپنے سیاسی مخالفین کو ملک دشمن ، غدار، مذہب بیزار، مذہب کارڈ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا ، چور، ڈاکو جیسے الفاظ کا کثرت سے استعمال بھی نئی نسل میں سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے ۔ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما کا انداز گفتگو او رسیاست کو ہی ہر سطح پر چیلنج کیا جانا چاہیے کیونکہ جب تک اوپر کی قیادت کی جانب سے ان کا اپنا طرز عمل درست نہیں ہوگا تو کیسے تبدیلی ممکن ہوگی ۔ یہ بحران محض سیاست دانوں یا مذہبی رہنماؤں تک ہی محدود نہیں بلکہ علمی او رفکری مجالس یا وہ اہم افراد یا ادارے جو رائے عامہ تشکیل دیتے ہیں، ان کا اپنا انداز فکر بھی نہ صرف الجھن کا شکار ہے، بلکہ ا ن کا اپنا مزاج بھی برداشت یا قبولیت کی سوچ اور فکر کے خلاف ہے ۔
ہم نے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس میں سے بیشتر نکات انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف بیانیہ کی جنگ تھی جن میں میڈیا ٫ دینی مدارس رسمی تعلیم اور نصاب، فرقہ وارانہ، نفرت انگیز اشاعتی مواد، اداروں کو مستحکم کرنا شامل تھا۔ اسی طرح سے فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے '' پیغام پاکستان کی دستاویز '' اور عورتوں کی پرامن پاکستان میں مؤثر شمولیت کے لیے ''دختران پاکستان '' سمیت قومی نیشنل سکیورٹی پالیسی جیسی دستاویز بھی شامل ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان تمام دستاویز کے انتظامی امور پر تو کچھ توجہ دی لیکن سیاسی اور علمی و فکری بنیادوں پر ہم ان اہم دستاویز کی کوئی قومی قیادت نہیں کرسکے ۔ سیاسی جماعتوں اور علمی و فکری اداروں سمیت ہمارے رسمی یا دینی تعلیمی اداروں کی ترجیحات میں ان اہم دستاویز کا نہ ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے ۔سائبر پالیسی، قانون اور تربیت کے عمل پر کوئی خاص توجہ نہ دینا اور محض خود کو منفی واقعات کی بنیاد پرردعمل کی سیاست یا حکمت عملی تک محدود کرنے سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جو ہمیں کرنے چاہیے تھے ۔عدم برداشت اور عدم رواداری جیسے مسائل مجموعی طور پر ہمارے قومی نصاب کا حصہ نہیں بن سکے او راس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ ہم سب فریق ہی اس ناکامی کے زمرے میں آتے ہیں ۔
جو لوگ بھی عدم برداشت اور عدم رواداری کے خود بھی مرتکب ہورہے ہیں اور دوسروں کو بھی ان ہی منفی طرز عمل کی ترغیب دے رہے ہیں ان کے خلاف ضرور قانون حرکت میں آئے او راس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ بالخصوص پسند و ناپسند کی بنیاد پر افراد یا گروہوں کو ٹارگٹ کرنا درست حکمت عملی نہیں ۔اسی طرح محض طاقت کے انداز میں بھی ان مسائل کا حل نہیں بلکہ اس حکمت عملی کا منفی اثر بھی ہوسکتا ہے ۔
جو لوگ بھی عدم برداشت اور عدم رواداری کے خود بھی مرتکب ہورہے ہیں اور دوسروں کو بھی ان ہی منفی طرز عمل کی ترغیب دے رہے ہیں ان کے خلاف ضرور قانون حرکت میں آئے او راس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ بالخصوص پسند و ناپسند کی بنیاد پر افراد یا گروہوں کو ٹارگٹ کرنا درست حکمت عملی نہیں ۔اسی طرح محض طاقت کے انداز میں بھی ان مسائل کا حل نہیں بلکہ اس حکمت عملی کا منفی اثر بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے لیے ریاست کی رٹ کو مضبوط بنانے ، اداروں کی فعالیت او ربغیر کسی تفریق کے لوگوں کو جوابدہ بنانا سمیت اہم کام نئی نسل کے لوگوں کی علمی اور فکری آبیاری بھی ہے ۔ ہمیں لوگوں میں سیاسی ،سماجی اور مذہبی شعور دینا ہوگا کہ وہ انتہا پسندی کو اپنی طاقت بنانے کے بجائے مکالمہ ، بات چیت او رمفاہمت سمیت پرامن طرز عمل کو اپنی سیاسی طاقت بنائیں ۔ہر وہ مواد جو ریاست سے لے کر حکومت او رحکومت سے لے کر معاشرے کے دیگر معاملات میں نفرت انگیز، تعصب اور تفرقہ سمیت تنازعات کو ابھارنے والا مواد ہے تو اس کو ختم کرنا ہوگا۔میڈیا میں جو انتہا پسندی پر مبنی رجحانات ہیں یا جو ریٹنگ کی سیاست ہے جس کا مقصد محض بحرانوں کو دکھانا ہے، اس کا کوئی متبادل حل بھی تلاش کرنا ہوگا ۔ ہم کو ایک ایسے بڑے مکالمے کی ضرورت ہے جہاں ہم ان اہم اور سنگین نوعیت کے مسائل پر تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کوئی حل نکالیں اور ایک ایسے روڈ میپ کو فوقیت دیں جو ہمیں چند برسوں میں انتہا پسندانہ اور پر تشدد جحانات سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرسکے ۔ ہمیں بنیادی طور پر اپنی حکمرانی کے نظام کی فعالیت، شفافیت سمیت لوگوں اور بالخصوص نئی نسل کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے او رجو لوگ بھی ان کو تقسیم کرنے کے کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں، ان کے مقابلے میں ایک مستحکم ، پرامن اورمہذہب بنیادوں پرمعاشرے کی تشکیل نو کرنا ہے ۔ یہ کام سیاسی سطح پر کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اس کے لیے سب کو ذمہ دارانہ کردار سمیت ایک مجموعی مشترکہ حکمت عملی ، تدبر، فہم وفراست اور مؤثر عملدرآمد سے جڑا نظا م درکا رہے ۔لیکن کیا ہم اس پر کچھ مؤثر کردار ادا کرسکیں گے یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے اور اس کا جواب ریاست او رحکومت کی درست حکمت عملی سے جڑا ہوا ہے ۔ ||
مضمون نگار معروف تجزیہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ایک معروف روزنامہ میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے