ہر دور کے سخن وروں نے نسلِ نو کو اپنا موضوع ِ سخن بنایا ہے۔ کبھی اس موضوع کے لیے نظم کا سہارا لیتے ہیں، کبھی غزل کے ذریعے سے اپنے موضوع کی وضاحت کی، کبھی مضمون، کبھی خطبات، کبھی ناول ،کبھی ڈرامہ اور کبھی افسانے کو اس مقصد کے لیے اپنا ذریعہ بنایا ۔غرض کہ نسلِ نو کی تعمیرو تربیت ہر دور کے ادباء اور شعراء کا پسندید ہ موضوع رہا ہے۔
علامہ محمد اقبال بڑے دیدہ ور اور تیز نگا ہ شاعرتھے۔ ان کے افکار ہر زمانے اور عمر کے لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔اقبال جانتے تھے کہ کسی بھی تحریک کو چلانے، انقلاب کو لانے یا زمانے کو نئی راہ پر ڈالنے میں اگر نوجوان حرکتِ عمل ہوں تو پھر تاریخ کو بدلنے اور انقلاب کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں علامہ اقبال نے بھی اپنے خیالات و احساسات کے ذریعے نوجوانوں کے اذہان کو ایک ایسی جلا بخشی جس نے اس تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی۔ پھر زمانے نے دیکھا کہ علامہ اقبال کے افکار کی پروردہ نسل نے ایک ایسی مشعل روشن کردی جس کی روشنی میں آنے والے نو جوانوں نے ایک نئے دور اور ایک نئے سماج کی بنیاد رکھی۔اقبال نسلِ نو کی تعمیرو ترقی سے کبھی نا امید نہیں ہوئے۔ وہ ان کے اذہان و قلوب پر نہ صرف دستک دیتے ہیں بلکہ ایک ماہرِ نفسیات کی طرح ان کے اذہان کو اپنے سحر میں جکڑنے کا فن بھی جانتے ہیں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقبال نے نوجوانوں کے کردار کی تعمیر کے لیے شاہین جیسے پرندے کا انتخاب کیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال جیسے نابغہ روزگار اور انقلاب آفریں شاعر کی نظرِ انتخاب آخر شاہین پر ہی کیوں ٹھہری اور شاہین میں وہ کون سی صفات تھیں جن کو اقبال امتِ مسلمہ کے جوانوں میں دیکھنے کے متمنی تھے۔ اس سوال کا جواب اقبال ہی کے ایک خط سے ملتا ہے جس میں وہ شاہین کی درج ذیل صفات کا ذکر کرتے ہیں۔
بلند پرواز ہے۔ دور اندیش ہے۔ تیز نگاہ ہے۔مردار نہیں کھاتا۔آشیانہ نہیں بناتا۔
اقبال اپنے جوانوں میں شاہینی صفات دیکھنے کے متمنی تھے ایسے شاہین صفت نوجوان جو آسمانوں کی وسعتوں کو چیر کر مشرق و مغرب کے افق پر اپنی سلطنت قائم کریں اور بلند مقاصد ، دور اندیشی اور تیز نگاہی کی بدولت اپنے لیے جہانِ تازہ تلاش کریں ۔
اقبال نے نوجوانوں کو خودی کے تصور سے آشنا کرایا اور بتایا کہ خود شناسی ہی دراصل خدا شناسی ہے۔ جب انسان اپنی پہچان کر لیتا ہے تو وہ خدا تک پہنچ جا تا ہے۔اقبال کے تصورِ خودی نے دنیائے ادب میں ایک ہلچل اور نوجوانوں میں ایک ہیجان برپا کر دیا۔
اقبال نے اپنا پیغام ِ حیات جن طبقوں تک پہنچایا ہے ان میں اقبال کا مخاطب طبقہ نوجوان ہے۔' بانگِ درا' کی نظم 'خطاب بہ جوانانِ اسلام'پہلی نظم ہے جس میں اقبال نے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر اپنے دل کی بات کہی ہے۔اس نظم کا آغاز جس خوبصورت شعر سے ہوتا ہے، وہ یہ ہے :
کبھی اے نوجواں مسلم ! تدبر بھی کیا تونے ؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
یہ نظم نوجوانوں کے لیے ایک پورا ضابطہ حیات ہے وہ مسلمان جنہوں نے تاجِ سردارا کو پاؤں تلے روند ڈالا، وہ مسلمان جو گدائی میں بھی اتنے غیور تھے کہ جہاں گیری،جہاں داری، جہاں بانی اور جہاں آرائی ان کے حسنِ عمل کے ادنیٰ سے کرشمے تھے۔
اقبال کہتے ہیں کہ جب خودی عشق و محبت اور فقرو استغنا سے مستحکم ہوجاتی ہے تو کائنات کی ساری قوتیں انسان کے قبضے میں آجاتی ہیں اور پھر ایک عقابی روح بیدار ہوتی ہے جس سے جوانوں میں ایسی بلند نظری، بلند ہمتی پیدا ہوتی ہے جو ہر روز نئی ایجاد و اختراع کا موجب بنتی ہے ۔
علامہ محمد اقبال کے خطبات اور شاعری میں نسلِ نو کے لیے مروجہ تعلیمی نظام کو بہتر بنا نے کے متعدد پہلوؤں کا احاطہ ہے۔تعلیمی مسائل پر اقبال کے اردو اور فارسی کے اشعار جا بجا ملتے ہیں۔یہ بات سچ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا لیکن تیسرے دور میں انہوں نے واضح طور پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں (ضربِ کلیم میں تعلیم و تربیت کا ایک مستقل عنوان ہے ) نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں انہوں نے جا بجا اشارے کیے ہیں اور نئی اور پرانی تعلیم کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ہے ان اشارات اور خاکوں کی مدد سے ان کے فلسفہ تعلیم کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
اقبال کے ہاں تعلیم کے حوالے سے دونظریات ملتے ہیں ایک انگریزی نظامِ تعلیم اور دوسرا قدیم دینی مدارس کی تعلیم ،اقبال ان دونوں سے ہی نالاں تھے۔
اقبال کو اساتذہ سے یہ گلہ ہے کہ وہ نصاب پڑھاتے رہتے ہیں مگر نسلِ نو کے اذہان کی تربیت نہیں کرتے ، مشاہیر کے نصاب رٹ کر امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں مگر صداقت کی تلاش ان کا مطمع نظر نہیں بنتی۔ اقبال کے نزدیک نسلِ نو کی تعلیم و تربیت اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن ان کے خیال میں اساتذہ نہ صرف تعلیمی مقاصد سے بیگانہ ہو چکے ہیں بلکہ علوم پر گہری نظر سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
علامہ اقبال ایک انقلاب آفرین شاعر ہیں انقلاب آفرین ہستی وہ ہوتی ہے جو زمانے کو نئی سوچ دیتی ہے اور پرانے الفاظ اور خیالات کو مفاہیم کے نئے جہان عطا کرتی ہے۔جب تک ہمارے کردار کے اندر اقبال کی فکر نہیں آئے گی، اس وقت تک ہم مقصد سے آشنا نہیں ہوسکتے۔ اساتذہ خود طلبہ کے لیے باعمل اور قابلِ تقلید نمونہ بنیں اور پھر اپنے فکر و عمل کی روشنی سے نوجوان کے اندر اقبال کے افکار اور نظریات کی جوت جگا دیں ۔
علامہ اقبال کا تصورِ تعلیم ،جب عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا انسان وجود میں آتا ہے جس کا نام اقبال کے اپنے الفاظ میں '' مردِ مومن ''ہے جو چار صفات الٰہی، قہاری ،غفاری، قدوسی اور جبروت کا پیکر ہے اور جو اسلامی تعلیمات کا نتیجہ اور اقبال کے تصورِ تعلیم کا مقصود ہے۔مردِ مومن کی صفات ،خودی ،عشق،فقر، عدل، حیا،خوفِ خدا،قلبِ سلیم،قوت، فقر و استغنا ،صدق، بلند پروازی ،پاک ضمیری، بے نیازی ،مقاصدِآفرینی ،دل آویزی ،دل نوازی ،نرمیِ گفتگو، گرمیِ جستجو، ایمان کی پختگی اور جوشِ عمل کو اقبال اپنے ہر نوجوان میں دیکھنا چاہتے تھے اور اسی لیے اپنا فلسفہ تعلیم میں ان صفات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال مردِ مومن کی تمام خصوصیات اپنے نوجوان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل مایوسی ، تاریکی اور گھٹن زدہ فضا میں سانس لے رہی ہے۔ ان میں یقین و اعتماد کی کمی کے ساتھ ساتھ اخلاقی پستی بھی پائی جاتی ہے اگر یہ نوجوان طبقہ علامہ اقبال کی فکر اور فلسفے سے راہ نمائی حاصل کرے تو پوری دنیا میں بحیثیت قوم اور انفرادی طور پر اک عمدہ مثال بن کر ابھر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام میں آفاقیتاور عالم گیریت پائی جاتی ہے۔
آج پاکستان اور امت مسلمہ جن مسائل کا شکار ہے ان سے نکلنے کے لیے اقبال کے شاہینوں کو ایک بار پھر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ اداس فضائیں اقبال کے ایسے شاہین اور مردِ مومن کی منتظر ہیں جو ان فضاؤں میں اپنے عمل سے ایک نئی روح پھونک دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج کے نوجوانوں میں شاہینی صفات کیسے بیدار کریں؟ کیسے ان کو اخلاقی پستی و دلدل سے نکالیں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کو اپنا نکتہ نظر تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے نونہالوں کی تعلیم وتربیت اس انداز میں کرنی ہو گی کہ ان کی فکر ،ان کی سوچ، ان کا خیال ،اقبال کی فکر،خیال اور سوچ کے تابع ہو جائے ،زمانہ انھیں دیکھے تو ان پر رشک کرے ،اسمان کی وسعتیں ان پر ناز کریں اور کامیابیاں ان کا طواف کرتے ہوئے خود ان کی آغوش میں گرنے کی خواہش کریں۔ ہمیں اپنی تعلیم میں اقبال کے نظریات و تصورات کو اہمیت دینی چاہیے کیوں کہ ان کے افکار ان کے اشعار کے ذریعے سے نوجوانوں کی سوچ اور عمل میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہی تبدیلی مسلمانوں کو کھویا ہوا مقام و مرتبہ عطا کرے گی۔ ||
مضمون نگارنومیزہ مختار ایپسیکس سیکریٹیریٹ میں اردو کوارڈینیٹر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ۔
[email protected]
تبصرے