سائنسی برادری متفق ہے کہ پاکستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں اسے دو بڑے موسمی نظاموں کے شدید ترین اور منفی اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی کا ہے جو رواں سیزن میں شدید ترین گرمی کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے جو اب بے تحاشا سیلاب کا باعث بن رہا ہے ۔ 2010 کے شدید ترین سیلاب کے بعد سے سائنسی بنیادوں پر یہ پیشگوئیاں کر دی گئی تھیں کہ پاکستان کو ماضی سے زیادہ تباہ کن سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا ۔ خاص طور پر گذشتہ سال آنے والا سیلاب پاکستان کے معاشی بحران میں مزید اضافے کا باعث بنا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کے علاقوں خیبرپختونخوا ، سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں مون سون کی شدید بارشوں کے باعث جولائی 2010 کے آخر میں سیلاب آیا تھا جس نے دریائے سندھ کے طاس کو متاثر کیا تھا۔ اس سیلاب سے پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا ًپانچواں حصہ متاثر ہوا تھا جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کو بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس سیلاب کے باعث ملک بھر میں 1985 اموات ہوئیں تھیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے زیادہ تر املاک، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے تقریباً دو کروڑ افراد براہ راست متاثر ہوئے تھے۔جبکہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے 2010 میں آنے والے سیلاب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں کو پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کے پھیلائو اور صحت کے دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔
پاکستان براہ راست اس تباہی کا مرکز نہیں ہے مگر اہم ترین متاثرین میں ضرور شامل ہے۔ یاد رکھیے کہ پاکستان کو عالمی حدت کا گرائونڈ زیرو قرار دیا گیا تھا کیونکہ مضر صحت گیسوں کے اخراج کے حوالے سے پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے تاہم پاکستان ان ممالک میں ضرور شامل ہے جو ان مضر صحت گیسوں کے عالمی اخراج کے تناظر میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تباہ کاریوں کی تیز رفتار اور متعلقہ ہولناکیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔عالمی حدت دنیا کے وجود کو درپیش ایک بحران ہے جبکہ گرین ہائوس گیس کے اخراج کے ضمن میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
عالمی سطح پر غیر محسوس طور پر قدرتی آفات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ، جسے نظر انداز کر دیا گیا مگر اب یہ گلوبل وارمنگ کی شکل اختیار کر کے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں زمین پر درجہ حرارت میں قابل قدر اضافے کے سبب جنگل میں آگ ، صحرائوں میں خشک سالی اور قحط، گلیشیئرز کا پگھلنا ، پانی کی مقدار میں اضافہ ، ضرورت سے زیادہ اور بے موسمی بارشیں جو مسلسل سیلاب کی وجہ اور ضرورت سے زیادہ کٹا ؤکا باعث بنتی ہیں۔ بنیادی طور پر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہونے والی قدرتی آفات آب و ہوا کے نظام میں تبدیلی کا سبب بنتی ہیں جبکہ بنی نوع انسان کے لیے مسائل کا۔ تاریخی حقائق کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کرہ ارض پر برفانی اور بین الاضلاع ادوار میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں ، جس کے ردعمل میں کچھ حیاتیاتی نسخے غائب ہو چکے ہیں اور کچھ وقوع پذیر ہو چکے ہیں اور کچھ ہو رہے ہیں اور صورت حال یہی رہی تو مستقبل میں مزید غیر معمولی تبدیلیاں ہماری منتظر ہیں ۔ یہ مظاہر مکمل طور پر نظام فطرت کے چکر اور حالات سے پوری طرح متاثر ہیں۔ ایک تحقیقی مطالعہ کے مطابق میسولیتھک کے آخری ادوار میں طے شدہ ترتیب میں منتقلی کے بعد ، آب و ہوا اس حالت میں اپنا سفر برقرار نہیں رکھ سکی ۔ جبکہ ، اس میں تقریباً 30 سے چالیس سال پہلے بڑی تیزی سے تبدیلی کا عمل رونما ہونا شروع ہوا۔ پیلیوکولوجیکل سائنس کے ساتھ حاصل کردہ اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ آب و ہوا کا نظام مستقل سطح پر نہیں ہے۔ یہ کوئی مکمل طور پر فطری عمل نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار پوری طرح سے انسانی سرگرمیوں پر منحصر ہوتا ہے۔عالمی سطح پر ماحولیات و جنگلات کے تحقیقی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ توانائی کے استعمال میں ، صنعت ، جنگلات جلانے اور تباہی ، غیر معمولی زرعی سرگرمیاں عالمی حرارت میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں ۔
ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے مشکلات لا رہی ہیں جبکہ ہمسایہ ممالک کے برعکس پاکستان میں ڈیمز پر بالکل توجہ نہیں دی گئی جس سے ملک کو پینے کے صاف پانی کی قلت کے باعث کئی مسائل درپیش ہیں۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آنے والے وقت میں یہ مسائل زیادہ شدید ہو سکتے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کے اہم ترین مسائل میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ جس کی وجہ سے پچھلے 20 سالوں میں سمندر کی سطح میں 20 سینٹی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ الٹرا وائلٹ شعاعوں کے مضر اثرات اوزون کی تہہ کے ذریعے ختم ہو جاتے ہیں۔ تاہم سی ایف سی جیسی گیسیں اوزون کی کمی کا سبب بنتی ہیں۔عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہر دوسری ریاست کو ہے جس سے بہت سارے ممالک میں سیلاب ، کٹاؤ، لینڈ سلائیڈنگ جیسی قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔جیسے کہ پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ماہرین ماحولیات انسانی سرگرمیوں کو اس کا اہم محرک گردانتے ہیں کہ انسان کے لالچ نے زمین کو نسل انسانی کی بقا کے لیے غیر محفوظ بنا دیا ہے ۔ ہر گزرتا ہوا دن زمین اور اس پر موجود انسانوں کے لیے ایک نئی آزمائش لے کر آ رہا ہے ۔ جیسے کہ پینے کے لیے قابلِ استعمال یعنی صاف پانی یا آبی ذخائر میں ریزرو اور صلاحیت میں کمی واقع ہو رہی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت پوری نہ ہونے کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح درجہ حرارت میں ضرورت سے زیادہ اضافے کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچے گا یا ضرورت سے زیادہ اور بے موسمی بارشوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہوں گی۔ جنگلات میں آگ لگنے کی شرح میں اضافہ ہو جائے گا ۔ حتیٰ کہ وبائی امراض کئی گنا بڑھ جائیں گے ، کرونا وائرس اس کی اہم ترین مثال ہے اور ڈینگی بھی۔ ان عالمی ماحول تبدیلیوں سے جو ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے پاکستان کے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ اور کمی جیسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے بارشوں کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ ماہرین بھی اس ضمن میں ماحولیاتی خطرے سے بچائو کی آخری وارننگ جاری کرچکے ہیں۔پاکستان بھی موحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے مثلاً رواں سال مارچ میں منڈی بہائوالدین میں شدید ژالہ باری ریکارڈ کی گئی۔ پنجاب کے اس علاقہ کی تاریخ میں اس نوعیت کی ژالہ باری وہ بھی مارچ کے مہینے میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ژالہ باری کے باعث سڑکوں نے برف کی سفید چادر اوڑھ لی۔ گندم کی کٹائی کے وقت ملک میں بارشیں اور اولے پڑ رہے ہیں۔بارشیں ستمبر اور اگست کے آس پاس ہوتی تھیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے مشکلات لا رہی ہیں جبکہ ہمسایہ ممالک کے برعکس پاکستان میں ڈیمز پر بالکل توجہ نہیں دی گئی جس سے ملک کو پینے کے صاف پانی کی قلت کے باعث کئی مسائل درپیش ہیں۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آنے والے وقت میں یہ مسائل زیادہ شدید ہو سکتے ہیں۔
پاکستان براہ راست اس تباہی کا مرکز نہیں ہے مگر اہم ترین متاثرین میں ضرور شامل ہے۔ یاد رکھیے کہ پاکستان کو عالمی حدت کا گرائونڈ زیرو قرار دیا گیا تھا کیونکہ مضر صحت گیسوں کے اخراج کے حوالے سے پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے تاہم پاکستان ان ممالک میں ضرور شامل ہے جو ان مضر صحت گیسوں کے عالمی اخراج کے تناظر میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تباہ کاریوں کی تیز رفتار اور متعلقہ ہولناکیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔
گو ہمارے ہاں موسمی تبدیلی سے متعلق کافی ادارے قائم کیے گئے ہیں جبکہ نجی سطح پر بھی کام جاری ہیمگراب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپائے۔ موسمی تبدیلی اور اس سے متعلقہ مسائل پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط منصوبے کا آغاز کریں۔ بین الاقوامی اداروں کی مدد لینے کے لیے خارجہ پالیسی اور اس ادارے کا کردار بہت اہم ہے۔میڈیا کے ذریعے اس اہم موضوع پر ریگولر بنیادوں پر مکالمہ ہونا چاہیے اور دفتر خارجہ کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے ان تمام عوامل کو بین الاقوامی سطح پراجاگر کرے اور یہ موضوعات ہماری سفارتکاری میں شامل ہونے چاہیے اور پاکستان کے سفیروں اور سفارتی عملے کو اس حوالے سے آگاہی ہونی چاہیے تاکہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑ سکیں۔ کیونکہ حاصل کردہ حقائق کے مطابق پاکستان کی کسی بھی حکومت یا دفتر خارجہ نے گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک بار بھی موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کو اس سے لاحق خطرات کو ملک کی سفارتکاری کا مرکز و محور نہیں بنایا۔اس غیرفعالیت کی وجوہات ہم سب پر عیاں ہیں جس میں کرپشن کے بعد اہم ترین وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس موسمیات سے متعلق سفارت کاری یا عوامی سفارت کاری کی استعداد نہیں ہے۔
پاکستان کو اس اہم ترین بلکہ گھمبیر صورتحال کے مناسب حل کے لیے عالمی سطح پر بہترین لکھاریوں اور تربیت یافتہ سفارتی عملے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی اور عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے عملی سفارت کاری کر کے ان پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اداروں سے تعاون حاصل کیا جائے اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مقامی سطح پر لکھاریوں کو استعمال کیا جائے ۔
ماحول کو اپنی حد تک صاف کرنے میں ہر شہری اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ہر معاملے میں صرف ریاست ذمہ دار نہیں ہے بلکہ شہریوں کو بھی ایک مہذب شہری کا کردار ادا کرنا بہت ضروری ہے ۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل قومی اور عالمی سطح پر معاونت سے ہی حل ہو سکتے ہیں وگر نہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو شدید نقصانات کا احتمال ہے۔ ||
مضمون نگار شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور ایک اخبار میں کالم بھی لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے