آر ایس ایس کے بھارت میں مسلمان ہونا جرم بن چکا ہے۔ ہندو دہشتگردوں کا جب دل کرتا ہے، وہ مسلمانوں کیخلاف قتل و غارت گری شروع کردیتے ہیں۔ کبھی ماہ رمضان میں مسلمانوں کو تراویح کی نماز پڑھنے پر جیل جانا پڑتا ہے تو کبھی انتہا پسندہندو مسلمانوں کی بستیوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور ان انتہا پسندوں کو بھلا ڈر بھی کس کا ہے؟ کیونکہ مسلمانوں کے خلاف قبیح جرائم میں ملوث ہندوئوں کو اعلیٰ اعزازات اور انعامات سے نوازنا بی جے پی کی گویا پالیسی بن چکی ہے۔ستم ظریفی یہ کہ مسلمانوں کیخلاف اس استبدادیت میں تمام بھارتی ادارے یکساں کردار ادا کر رہے ہیں۔ تازہ ترین مثال کے طور پر بھارتی عدالت نے 2002 میں گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام اور اجتماعی زیادتی کے تمام مجرمان کو شواہد کے باوجود رہا کر دیا تو دوسری طرف ہندو تہوار رام نومی کے موقع پر مہاراشٹر، بہار، گجرات، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش و دیگر ریاستوں میں ہندو انتہا پسندوں نے ہزاری باغ، ہوگلی، ہوارا، بہار شریف ، احمد نگر میں مسلم اکثریتی علاقوں پر دھاوا بول دیا۔ مساجد اور مدارس جلا دیے گئے، گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی گئی، مسلمانوں کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر مسلمانوں کو ہی جیلوں میں بھر دیا گیا۔
بھارت میں 2014 سے آر ایس ایس برسراقتدار ہے۔ بالفرضِ محال اگر پاکستان میں کوئی مذہبی جماعت کبھی انتخابات میں جیت جاتی تو دنیا بھر کا میڈیا اور سبھی تجزیہ نگار قیاس کے ایسے ایسے گھوڑے دوڑا رہے ہوتے جنہیں دیکھ اور سن کر یوں لگتا گویا زمین پھٹ گئی ہو یا آسمان گر پڑا ہو اور اس صورتحال میں عالمی امن کو درپیش بے شمار خطرات کی نشان دہی سامنے آ چکی ہوتی مگر اسے عالمی رائے عامہ کی چشم پوشی کہیں یا تجاہلِ عارفانہ کا نام دیا جائے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت اتنی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر برسرِاقتدار آ رہی ہے مگر عالمی امن کے ٹھیکیدار حلقوں نے اس حوالے سے ذرا سی بھی تشویش ظاہر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
اس بھارتی ظلم کے نتیجے میں سیکڑوں مسلمان شدید زخمی جبکہ متعدد شہید ہوئے ۔ حالات کی کشیدگی کے بعد انٹرنیٹ تک بند کر دیا گیا اور کئی مقامات فوجی چھائونیوں کا منظر پیش کرنے لگے ۔ کیا انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی عالمی برادری کو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے یہ حالات نظر نہیں آتے ؟
مبصرین کے مطابق 15 اگست 1947 اپنی آزادی کے بعد سے بھارت نے خاصے طویل عرصے تک بڑی کامیابی سے دنیا کو یہ تاثر دیے رکھا کہ اس کے ہاں تمام طبقات اور شہریوں کو مساوی انسانی حقوق میسر ہیں اور اگر کہیں کسی اقلیت کیخلاف امتیازی سلوک کا کوئی واقعہ پیش آتا بھی ہے تو اس کی نوعیت سراسر انفرادی ہوتی ہے اور ایسے متشدد ہندو عناصر کو حکومت یا اداروں کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔ عالمی برادری کا ایک حلقہ ان بھارتی دعوؤں پر آنکھیں بند کر کے بڑی حد تک یقین بھی کرتا رہا مگر یہ امر خوش آئند ہے کہ اب دنیا بھر میںبھارتی اقلیتوں کی حالت زار پر کھل کر بات کی جانے لگی ہے۔ 4 اپریل کو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی اس صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کی اور اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھی بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
اس معاملے کے دیگر پہلوئوں پر بات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس امر کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے کہ بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں انتخابی عمل کا کامیابی سے انعقاد اور اس کی تکمیل کو اگر دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔مگر اس معاملے کا یہ پہلو شاید اس سے بھی زیادہ توجہ کا حامل ہے کہ بھارت میں جس انداز سے انتہا پسند ہندو نظریات کے تحت مذہبی دہشتگردی کو فروغ دیا جا رہا ہے ، اس نے اس معاملے کی دیگر جہتوں کو بھی بڑی حد تک اجاگر کر دیا ہے۔ یوں بھارت میں محض وقت پر الیکشن کے انعقاد کو اگر جمہوریت اور سیکولرازم قرار دیا جائے تو یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کیونکہ ایک جانب مودی تمام انتخابات میں ہندو انتہا پسندی کا وہ بھیانک چہرہ پیش کرتے ہیں جس کا اعتراف ٹائم میگزین، گارڈین، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ سمیت دنیا بھر کا عالمی میڈیا کر رہا ہے تو دوسری جانب سیکولرازم کی دعویدار کانگرس بھی گزشتہ کافی عرصے سے سافٹ ہندوتوا کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ یوں یہ سیکولرازم اور جمہوری قدروں کی باتیں محض جملے ہیں ، یوں بھی جس طور مقبوضہ کشمیر میں انسانی قدروں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، اپنے آپ میں ایسے المیے ہیں جن کا تصور بھی کوئی مہذب معاشرہ شاید ہی کر سکے۔
سنجیدہ حلقوں کی رائے میں یہ عین ممکن ہے کہ بھارت کی آزادی کے ابتدائی برسوں میں شاید دہلی کے حکمرانوں نے ان انتہا پسند عناصر کی سرکاری سطح پر سرپرستی نہ کی ہو لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو یہ کانگرس نے انسانیت سے محبت میں نہیں بلکہ سراسر اپنے سیاسی مفادات کے لیے کیا۔ اب تو بھارت میں گزشتہ 9 برسوں سے ہندو نیشنل ازم کا عفریت ہر چیز کو نگلنے پر آمادہ نظر آتا ہے اور خود بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کے اعتدال پسند عناصر بھی اس ''نیشنل ازم'' بلکہ الٹرا نیشنل ازم کو '' زعفرانی انتہا پسندی'' قرار دینے لگے ہیں۔ 2014 کے بعد سے تو نریندر مودی اور موہن بھاگوت کی سربراہی میں ''رام راجیہ'' کے قیام کی علمبردار راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی دنیا کی 17.7 فیصد آبادی پر بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہیں۔
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے اپنے قیام کے فوراً بعد اپنا منشور جاری کیا جس میں یہ نکات سر فہرست تھے ، غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ، بھارتی مسلمانوں کے عائلی قوانین کا خاتمہ کر کے مشترکہ سول کوڈ کا نفاذ ، بابری مسجد کا انہدام اور اسکی جگہ رام مندر کی تعمیر اور دہلی اقلیتی کمیشن ختم کر کے نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن کا قیام۔ 5 اگست 2019 کو زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سنگھ پریوار نے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے بعد اپنی توجہ ایجنڈے کے دیگر نکات پر مرکوز کر لی۔ متنازع شہریت ترمیمی بل ، لو جہاد ایکٹ ، گئو رکھشا ایکٹ اور تین طلاق بل کو مودی سرکار نے بھارتی پارلیمان سے منظور کرا لیا، یوں ان اقدامات سے زعفرانی انتہا پسند حلقوں کو یہ گمان ہونا شروع ہو گیا ہے کہ واقعی '' رام راجیہ'' اور '' اکھنڈ بھارت'' کا قیام ممکن ہے ، اور اب سنگھ پریوار کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ اپنے قیام کی 100 ویں سالگرہ یعنی 2025 تک کسی طور بھارت کی برائے نام سیکولر حیثیت بھی ختم کر کے انڈیا کو ہندو ریاست قرار دے دیں اور اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آر ایس ایس بھارت کو انتہا پسندی کی آگ میں جھونکنے پر بھی تیار ہے۔
بھارت میں 2014 سے آر ایس ایس برسراقتدار ہے۔ بالفرضِ محال اگر پاکستان میں کوئی مذہبی جماعت کبھی انتخابات میں جیت جاتی تو دنیا بھر کا میڈیا اور سبھی تجزیہ نگار قیاس کے ایسے ایسے گھوڑے دوڑا رہے ہوتے جنہیں دیکھ اور سن کر یوں لگتا گویا زمین پھٹ گئی ہو یا آسمان گر پڑا ہو اور اس صورتحال میں عالمی امن کو درپیش بے شمار خطرات کی نشان دہی سامنے آ چکی ہوتی مگر اسے عالمی رائے عامہ کی چشم پوشی کہیں یا تجاہلِ عارفانہ کا نام دیا جائے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت اتنی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر برسرِاقتدار آ رہی ہے مگر عالمی امن کے ٹھیکیدار حلقوں نے اس حوالے سے ذرا سی بھی تشویش ظاہر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔اس صورتحال کو بین الاقوامی موثر قوتوں اور عالمی رائے عامہ کے دوہرے معیاروں کے علاوہ غالباً کوئی بھی نام نہیں دیا جا سکتا ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ RSS نے 1925 میں اپنے قیام سے لے کر آج تلک اس مؤقف کو کبھی راز نہیں رکھا کہ اس کا ہدف برِصغیر جنوبی ایشیاء کو اکھنڈ بھارت میں تبدیل کرنا اور یہاں رام راجیہ قائم کرنا ہے۔ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے بھی خود کو کبھی ہندو انتہا پسندی کے نظریات سے لا تعلق قرار نہیں دیا بلکہ اس کا ہمیشہ سے ہی علانیہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت کی تقسیم اور پاکستان کا قیام ایک سیاسی حادثہ تھا جسے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ RSS نے 1925 میں اپنے قیام سے لے کر آج تلک اس مؤقف کو کبھی راز نہیں رکھا کہ اس کا ہدف برِصغیر جنوبی ایشیاء کو اکھنڈ بھارت میں تبدیل کرنا اور یہاں رام راجیہ قائم کرنا ہے۔ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے بھی خود کو کبھی ہندو انتہا پسندی کے نظریات سے لا تعلق قرار نہیں دیا بلکہ اس کا ہمیشہ سے ہی علانیہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت کی تقسیم اور پاکستان کا قیام ایک سیاسی حادثہ تھا جسے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔
BJP اور RSS کے بعض حلقے تو وقتاً فوقتاً کہتے رہے ہیں کہ حکومت ملنے کی صورت میں غیر ہندوئوں کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے یا تو وہ ہندو بن کر رہنا قبول کریں ۔ دوسری صورت میں پاکستان یا بنگلہ دیش کی طرف کوچ کر جائیں۔غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ مودی اور RSS کو بھی بخوبی احساس ہے کہ ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے بھارت کا مستقبل زیادہ روشن نہیں، لہٰذا RSS کے سو سالہ قیام کا جشن ( 2025 ) مکمل انتہا پسندی کے ماحول میں منا لیا جائے، وگرنہ بعد میں صورتحال نجانے کیا رخ اختیار کرے۔ یہ بات بھی توجہ کی حامل ہے کہ سنجیدہ حلقے مصر ہیں کہ بھارت میں بڑھتی ہندو انتہا پسندی پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کیوں ہزاروں سال تک دوسروں کا غلام رہا۔ اسی سلسلے میں ایک ہندو دانشور موہن گرو سوامی نے کافی عرصہ پہلے '' 1000 شیم فل ایئر آف انڈین ہسٹری '' میں اس امر پر افسوس جتایا تھا کہ بر صغیر کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ہندو ہمیشہ سے بھاری اکثریت میں رہے ہیں، مگر اسے کیا نام دیا جائے کہ شہاب الدین غوری اور قطب الدین ایبک سے لے کر بھارت میں مختلف مسلم خاندان اور شخصیات حکمران رہیں۔ اس دوران حکمران اور خاندان بدلتے رہے مثلاً غیاث الدین بلبن، شمس الدین التمش، رضیہ سلطانہ، ناصر الدین محمود (خاندان غلاماں)، فیروز شاہ تغلق ، خاندانِ خلجی، لودھی اور پھر 300 سال تک مغل حکمران۔ یاد رہے کہبے شک بہادر شاہ ظفر کے پاس زیادہ اختیارات نہیں تھے مگر 1857 تک بہرحال برصغیر میں مسلم سلطنت قائم رہی۔ یوں برطانوی حکومت کا عرصہ اقتدار 1857 سے 1947 تک محض نوے سال بنتا ہے۔ ایسے میں یہ نتیجہ نکالنا کہ موجودہ بھارتی آزادی لا محدود عرصے تک برقرار رہے گی؟ اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے جس پر خود بھارت کے حکمرانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یوں وہ اپنے طرز عمل پر نگاہ ڈالیں تو شاید وہ تاریخ سے کچھ سبق حاصل کر پائیں۔ یہ بات بھی خصوصی طور پر پیش نظر رہے کہ جنوبی بھارتی ریاستیں تامل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور یونین ٹیرٹریز پانڈی چری، لکش دیپ اور انڈیمان نکوبار برطانوی عہد اقتدار سے قبل کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہے۔ دوسری جانب مشرقی بھارت کو دیکھیں تو مغربی و مشرقی بنگال، اڑیسہ، آسام و سیون سسٹرز کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایسے میں دہلی کے حکمرانوں کو زمینی حقائق بہرطور مدنظر رکھنا ہوں گے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کے بعض نام نہاد دانشور آئے روز قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف قسم کے منفی ریمارکس دیتے رہتے ہیں جس سے بعض ناپختہ ذہنوں میں منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال بہر کیف موجود رہتا ہے۔ غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ناقدین کے ذہنوں میں بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی حالتِ زار کا سرسری سا احوال بھی پیشِ نظر رہے تو شاید کفرانِ نعمت کے مرتکب ان افراد اور گروہوں کی روش میں قدرے مثبت تبدیلی رونما ہو سکے کیونکہ کسے نہیں معلوم کہ بھارت کے جمہوریت اور سیکولر ازم کے تمام دعووں کے باوجود 23 کروڑ کے لگ بھگبھارتی مسلمان آج بھی تیسرے درجے کے شہری ہیں۔مبصرین نے بھارتی مسلمانوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بھارت میں ڈاکٹر ذاکر حسین،فخر الدین علی احمد اور عبدالکلام کو صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا اور ممبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی چند مسلمان اداکار اہم کردار کے حامل رہے ہیں۔مگر اس سے آگے بھارتی مسلمانوں کے ضمن میں کوئی اچھی خبر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
بھارتی مسلمانوں کو اس عجیب صورتحال سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہم نوا کہتے ہیں کانگرس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ کانگرس سمیت تمام سیکولر پارٹیاں، انڈین آرمی،خفیہ ادارے،پولیس ،میڈیا اور عدلیہ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا ہے ۔بنکوں سے قرضہ ملنا تو دور کی بات اپنے آبائی علاقوں کے باہر کرائے پر دکان یا مکان دیا جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل بظاہر معمولی لیکن در حقیقت انتہائی اہم فرق ملحوظ رکھا جائے کہ با شعور اور زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات،سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ ||
مضمون نگار ایک اخبار کے ساتھ بطور کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے