میں ایک فوجی ہوں ۔اس وقت بطور میجر پاکستان آرمی میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔ میں نے بطور کیپٹن پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید اپنے والد سے متاثر ہوکر میں فوج میں آیا کیونکہ وہ ایک (ریٹائرڈ سپاہی)فوجی تھے لیکن درحقیقت میں اپنی ماں سے متاثر ہو کے فوج میں آیا کیونکہ وہ ایک فوجی(پرائمری پاس)تھی۔
ایسا نہیں ہے کہ میں کبھی فوجی نہیں بننا چاہتا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں آرکیٹیکٹ بننا چاہتا تھا جس میں مجھے ڈگری کے رعب کے ساتھ اس شعبے سے لاکھوں روپے بھی ملتے مگر میری ماں چاہتی تھی کہ اس کا اکلوتا بیٹا فوج میں جائے۔ یوں میں فوجی نہیں تھا لیکن مجھے فوجی بنایا گیا کیونکہ'میری ماں فوجی تھی۔ فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو میری ماں نے کہا تم کوشش کرو، نہ ہوا تو اپنی مرضی کی ڈگری کر لینا ۔ میرے لیے مشکل نہیں تھا اس بھولی عورت کو بیوقوف بنانا اور آرام سے فوج سے آرکیٹیکچر کی طرف سفر کرنا مگر میں نے سوچا کہ جب میرا دل کہیں اور ہے تو اس میں سلیکیشن ہو گی ہی نہیں تو بھلا کیا ضرورت ہے ماں کو دھوکہ دینے کی، مگر میں بھول گیا جب میں چھوٹا تھا تو میرے باپ نے گولی کھا کے اس زمین کی مٹی میں اپنا خون ملایا تھا تو بھلا مٹی نے وہ خون بھلا دیا ہوگا؟ میں نے پوری ایمانداری اور محنت سے سارے طریقے پہ عمل کیا اور میری فوج میں سلیکشن ہوگئی ۔ میری والدہ پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن جانتی تھی کہ خواب سنائے نہیں دکھائے جاتے ہیں۔اس لیے کہنے لگی جب تک پکا فوجی بننے والا لفافہ نہ آئے کسی سے کچھ نہیں کہنا ، ورنہ نظر لگ جاتی ہے ۔ میرے لیے یہ بات نہ اتنی دکھ والی تھی اور نہ ہی اتنی خوشی والی، اس لیے مجھ سمیت میری چار بہنوں نے بھی خاموش اختیار کیے رکھی ۔ بہر حال فیصلہ یہ ہوا کے ٹریننگ پہ جانے سے دو دن پہلے سب کو بتایا جائے گا۔
جس دن میں نے فوج کی ٹریننگ کے لیے گھر سے نکلنا تھا اس سے ایک ہفتہ پہلے ہمارے گھر ہماری محلے دار امام بی بی آئیں ۔ جن کے ماشااللہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک بیٹا سکول ٹیچر، تین سائوتھ افریقہ اور ایک امام بی بی کے مطابق "سولھویں سے آگے کی کوئی کلاس" پڑھ رہا تھا ۔ جب کہ بیٹیاں اپنے اپنے گھر کی ہوچکی تھیں ۔
وہ میری والدہ سے باتیں کرنے میں مشغول تھی، میری والدہ نے انہیں میرے بارے بتایا تو نہیں مگر تھی تو عورت، بات نہ بھی کرے تو اس بات کے بارے میں تین چار باتیں ضرور کر لیتی ہے ۔بات چلتے چلتے فوج پہ گئی تو امام بی بی نے تو وہ کہانی کہہ ڈالی جو اکثر ہماری عوام کی برین واشنگ کے لیے بنائی جاتی ہے۔لو بھلا فوج کی نوکری بھی کوئی نوکری ہے۔بہن برا مت ماننا تمہارا شوہر تھا تو فوج میں لیکن چلو تمہارا میاں اچھا تھا، چپ چاپ نوکری کی اور گھر آگیا لیکن حالات دیکھو ذرا اپنے ۔۔میں تو کہتی ہوں تم اپنے تیمور کو بھی باہر ہی بھجوا دو، اس ملک میں تو کچھ نہیں رکھا، نہ یہاں کی تعلیم اچھی، نہ زندگی محفوظ، نہ کوئی سکھ نہ چین ، باہر جائے گا چار پیسے کمائے گا ،تمہارا بڑھاپا بھی سنبھلے گا اور جوان بہنیں ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی تو ہیں " ۔
میں اپنی ماں کی طرف دیکھ کر ہنسا گویا جتانا چاہا کہ دیکھو ان لوگوں کے لیے بھیج رہی ہو مجھے۔
میری ماں نے میری طرف دیکھا اور پھر امام بی بی سے کہنے لگی ۔ "گھڑی بھر بیٹھنا مجھے تم سے ایک کام ہے اچھا کیا تم خود ہی آگئی ہو". ماں اندر گئی اور اندر سے تولے تولے کے دو سونے کے سیٹ (جو میری بڑی بہنوں کے لیے بنوا رکھے تھے) لے آئی اور امام بی بی سے کہنے لگی ۔ یہ تم رکھ لو اور یہ بھی ، ساتھ ہی اپنی کلائی سے دو سونے کی چوڑیاں بھی اتار کے دے دیں ۔
" اور تیمور کے ابا کل اپنے بھائی سے چند لاکھ روپے لائے تھے، ہم نے سوچا تمہیں دے دیں" ۔ امام بی بی سمیت ہم سب ہکا بکا رہ گئے ۔
'' یہ سب مجھے کیوں دے رہی ہو ؟''امام بی بی بالآخر پوچھے بنا نہ رہ سکی ۔
" کیونکہ مجھے بدلے میں تمہاری ایک قیمتی چیز چاہیے " ۔ امام بی بی تو حیراں پریشان بس ماں کے چہرے کو دیکھتی جارہی تھی ۔
"یہ اب لے لو اور اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو مجھے دے دو، اس کو گولی مروانی ہے". ماں اتنی مطمئن نظر آرہی تھی جیسے کوئی نمک چینی جیسی معمولی چیزمانگ رہی ہو۔ ادھر امام بی بی کے کانوں میں جیسے ہی الفاظ گئے ان کا بس نہ چلاکے وہ ماں کو کیا کچھ نہ کر جاتی ۔
"سٹھیا گئی ہو کیا ،بی بی یہ کیا اول فول بک رہی ہو؟" امام بی بی تو غصے سے لال چنگاری ہو رہی تھی ۔ مگر ماں کا سکون ویسے کا ویسا۔
" لو بھلا اتنے پیسے دے رہے ہیں، زیور سب کچھ دے رہے ہیں اور تمہارے تو اور بھی بیٹے ہیں اور آخر ایک نہ ایک دن جانا توسب نے ہی ہے نا اس دنیا سے" ۔ ماں کو دیکھ کے میرے اندر تک خاموشی اتری ۔ اتنے مضبوط الفاظ "ماں" کیسے بول سکتی ہے وہ بھی اولاد بیٹا ہو تو ۔
یہ فوج نہ ہو تو امام بی بی اردگرد کے ملکوں والوں نے ہمیں بالکل یوں ہی سمجھنا تھا جیسے تمہاری بہن کی ساس نے بے اولاد ہونے کی وجہ سے طلاق دلوا دی تھی۔ مائیں بیٹوں کو ترس جاتی ہیں دیکھنے کے لیے ،کسی کی شادی کی خریداری ہو رہی ہوتی ہے تو اس کی شہادت کی خبر آجاتی ہے ،باپ آخری عمر کا سہارا پالتا ہے تو وہ ہم جیسے ناشکروں پہ قربان ہو جاتا ہے، میں پیدا بھی نہ ہوئی تھی تو سقوط ڈھاکہ میں میرا باپ شہید ہوگیا ۔
" میں نے باپ اس لیے نہیں کھویا کہ اب بزدل بن کے اس قربانی کو ضائع جانے دوں، اب جو بیج میرے باپ نے بویا ہے اسے درخت بنائوں گی، چاہے اس کی کھاد میں اکلوتا بیٹا بھی کیوں نہ وارنا پڑے " ۔ میں نے اتنی نڈر عورت یا شاید اتنی نڈر ماں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں اور امام بی بی ایک جیسے ہی تھے ہم دونوں اپنی اپنی زندگی کا سکون تلاش کررہے تھے۔
"امام بی کبھی اپنے بیٹے کو بھیجنا وہاں اور اسے کہنا دیکھ کے آئیں فوجیوں کی عیش عشرت، زمین بچھونا اور چھت آسماں ہو تو کیسا لگتا ہے؟ پوچھنا ماں کے لاڈلے پانی اٹھ کے نہیں پیتے مگر وہاں بھاری بھاری گولیاں سینے پہ کھا لیتے ہیں تو کیسا لگتا ہے؟ یا تم خود ماں ہو جانتی ہو بچے باہر کے ملک میں سکون سے ہیں پھر بھی آنکھوں سے اوجھل ہیں تو راتوں کو اٹھ بیٹھتی ہو تو وہ مائیں سو جاتیں ؟ جو جانتی نہیں ہیں کہ خدا جانے کب لال ہمیشہ کے لیے سو جائے؟ امام بی بی قدر کرنے والوں میں سے نہ بن سکوتو نا شکری کرنے والوں میں بھی نہ بنو ". ماں چپ ہوئی تو امام بی بی بھی کچھ کہے بنا نظر جھکائے چلی گئی شاید کچھ کہنے کو نہ تھا ان کے پاس ۔
ماں میری طرف مڑی اور کہنے لگی ۔
"پتر یہاں چاہنے والے گرانے والوں سے زیادہ ہیں اس لیے گرانے والوں کی پروا نہ کرنا، بس چاہنے والوں کی چاہت کا خیال کرنا" ۔ میں کچھ کہہ نہ پایا۔ مگر میں اس روز سمجھ گیا کہ "امر" ہو جانا "مر"جانے سے کتنا اہم ہے۔ اس دن سمجھ آئی کے اجالے کو چراغ ضروری ہے اور مجھے چراغ کا سہارا بننا ہے ۔
آج میری ماں کی برسی ہے اور میں اس "عظیم فوجی " کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو مجھے فوجی بنا گئی ۔ پہلی بار وردی پہن کے میں نے بڑے ناز سے کہا " کیسا لگ رہا ہے فوجی؟" تو ماں کا فخر سے اِترانا کمال تھا " پتر سارا کمال تو ماں کا ہوتا ہے ". آج سوچتا ہوں کہ سارا کمال ماں کا ہی تھا ، جو میرے اندر سے عارضی سکون کا لالچ مٹا گئی ، جو مجھے حقیقت سے روشناس کرا گئی ،جو مجھے بتا گئی کہ وطن سے اہم کوئی محبوب نہیں۔
میرا ایک جونئیر ہے ایک روز کہنے لگا "سر جی شیروں کے بچے ہی شیر ہوتے ہیں" اور مجھے وہ پرائمری پاس شیرنی یاد آگئی جو مجھے فوجی بنا گئی کیونکہ وہ خود ایک فوجی تھی۔ پاکستان زندہ باد ||
مضمون نگار عسکری موضوعات سے متعلق کہانیاں اور افسانے لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے