لاہور شہر کو پاکستان کا دل کہاجاتا ہے۔ یہ قدیم شہر دنیا بھر میں اپنے ثقافتی ورثے اور تہذیب و تمدن کے لیے مشہور ہے۔ آپ نے یہ بات ضرور سنی ہوگی جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہ دیکھا۔ ہم نے اپنے فنی کیریئر میں لاہور سے بہت سے ڈرامے کیے جن میں مسافتیں، کامیڈین تھیٹر، مون سون اور خواب عذاب خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لاہوری بہت خوش مزاج اور زندہ دل ہوتے ہیں، کھانے کے شوقین اور دوستوں کے دوست۔ ہمارا لاہور میں ٹی وی ڈراما کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ ٹیلی وژن ڈرامے تو ہم نے بہت کیے لیکن لاہور میں کبھی تھیٹر یا اسٹیج ڈراما نہیں کیا۔
اگرچہ احباب نے ماضی میں ہمیں بہت مشورے دیے کہ لاہور کا تھیٹر بہت مقبول اور کامیاب ہوتا ہے اور ہمیں ضرور کرنا چاہئے تاہم ہمیں اندازہ تھا کہ ہمارامختلف لب و لہجہ اور انداز لاہور کے رنگارنگ اسٹیج ڈرامے کے لیے موزوں نہیں اس لیے ہم اس سے باز رہے۔بہر طور ہم نے لاہور میں ایوارڈز شو اور دیگراہم تقاریب کی نظامت ضرور کی جو کامیاب رہی۔ یوں تو جب ہم ڈراموں میں کام کرتے تھے تو پاکستان کے مختلف شہروں میں شوٹنگ کے لیے اکثر جاناہوتا تھا، مگر کافی عرصے سے ہم لاہور نہیں گئے تھے اور جی کرتا تھا کہ جائیں، گھومیں، پھریں، کھائیں پیئیں، تاریخی مقامات دیکھیں اور عظیم شخصیات مثلاً مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، میر علی داد، ناہید صدیقی سے ملاقات بھی کریں۔امجد اسلام امجد اور ناہید صدیقی سے تو اردو کانفرنس کے حوالے سے کراچی میں ملاقات ہوجاتی تھی لیکن تارڑ صاحب علالت کے باعث کئی برسوں سے کراچی نہیں آپارہے تھے۔
خیر صاحبوPLF کا احوال سنا رہے تھے آپ کو۔۔ شاندار فیسٹیول رہا، جس دن واپسی تھی صبح صبح ضیاء محی الدین کے انتقال کی خبر آگئی۔ عجیب ہی کیفیت ہوگئی، یعنی جب PLFکے لیے لاہور آئے تو امجد اسلام امجد کے گزرنے کی اطلاع ملی اور جب لاہور سے واپس کراچی جانے لگے تو ضیا محی الدین کے انتقال کا صدمہ اُٹھانا پڑا۔ تین دن میں دو بڑی شخصیات دنیا سے چلی گئیں۔ دونوں ہی با کمال شخصیات تھیں، اپنے اپنے فن میں یکتا اور بے مثال۔ ہائے رہے دنیا کی بے ثباتی۔
معروف معمار نیئر علی دادا کے شاہکار دیکھ کے ان سے ملنے کا بہت جی تھا اور ہماری خواہش تھی کہ ان سے ملاقات کریں۔پھر یوں ہوا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے پاکستان لٹریچر فیسٹیول (PLF)کا اعلان ہوا اور طے ہوا کہ علم و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں فیسٹیول ہوںگے جس سے لوگوں کے دلوں کو خلوص اور محبت سے جوڑا جائے گا۔ اس کے لیے پہلا شہر جو چنا گیا وہ لاہورتھا۔ ہمارے ذمہ افتتاحی اور اختتامی اجلاس کی نظامت تھی، ہم خوش تھے، کراچی سے نکلنے والے ادبی قافلے کا پہلا پڑائو لاہور تھا۔ فروری کا مہینہ لاہور میں بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ ہم نے بہت ساری جیکٹ اور شالیں سامان میں پیک کرلیں کہ کراچی میں تو انہیں پہننے کا موقع نہیں ملتا۔ لاہور کے موسم میں شاید یہ کام آئیں۔ جس روز PLFکا افتتاح تھا ہم اس صبح لاہور پہنچے۔ ایئرپورٹ سے لے کر ہوٹل تک کا راستہ ہم نے کھڑکی کے باہر نظارے دیکھتے گزارا۔ لاہور شہر سرسبزو شاداب اور کُھلاکُھلا نظر آیا۔ ہرے بھرے درخت، میدان، خوشنما عمارتیں اور حسین موسم ، ان سب چیزوں نے ہمارے اوپر بہت خوشگوار اثر ڈالا۔ جمعہ کا دن تھا، روشن اور چمکدار۔۔۔ ہمارا ہوٹل الحمرا سے دومنٹ کے فاصلے پر تھا۔ افتتاحی اجلاس سہ پہر تین بجے ہونا تھا۔ سب تیاری مکمل تھی، ہمارے پاس مجلس صدارت میں جہاں افتخار عارف، کشور ناہید، انور مقصود تھے، وہیں امجد اسلام امجد کا بھی نام تھا۔ اسٹیج پر ان کے نام کی کرسی موجود تھی۔جس پر صرف ان کی تصویر لگانی پڑی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اچانک یہ سب ہوجائے گا۔ بعض نے تجویز دی فیسٹیول ملتوی کردیا جائے مگر سب کا خیال تھا کہ امجد اسلام امجد نے پوری زندگی ادب کی خدمت کی ۔ شاعری میں نام کمایا،یادگار ڈرامے لکھے ، ان کے خواب کی تعبیر فیسٹیول کا ملتوی ہونا نہیں بلکہ جاری رہنا ہوگا۔ پس جب متفقہ فیصلہ ہوگیا تو PLFبھی امجد اسلام امجد کے نام ہوگیا۔
ابتداء ہوئی تو پہلی بات جو زبان سے نکلی وہ امجد اسلام امجد کے انتقال کی خبر تھی۔ ظاہر ہے اتنا بڑآدمی چلا گیا ، کوئی ادبی محفل ہو ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی، ان کے بغیر تو جیسے سب ادھوارا تھا۔ افتتاحی اجلاس میں امجد اسلام امجد کا تذکرہ رہا۔ افتخار عارف نے ان پر گفتگو کی ، انور مقصود بھی مائیک پر آئے، اہلِ لاہور نے گرمجوشی سے انور مقصود کا استقبال کیا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد کئی سیشن ہوئے۔ تین دن PLFجاری رہا اور ہر دن امجد اسلام امجد ہی چھائے رہے کہ ہر کوئی انہیں یاد کرتا رہا۔ ایک سیشن ان کے ساتھ پلان تھاجو ان کے انتقال کے باعث ان کی یاد کا سیشن بن گیا۔ اس کی نظامتعنبرین حسیبعنبر نے کی ، وہ سیاہ ساڑھی میں ملبوس تھی، امجد اسلام امجد کا ذکر کرتی جارہی تھیں، ماحول سوگوار تھا۔ ناہید صدیقی کا رقص بھی فیسٹیول کا حصہ تھا۔ ناہید صدیقی نے امجد اسلام امجد کی ایک نظم پر پرفارم کیا۔ ہمیں احساس ہوا کہ امجد اسلام امجد نہ ہوتے ہوئے بھی بھرپور طریقے سے PLFمیں شریک ہوئے۔
الحمرا میں تین دن بہت رونق تھی، مختلف گوشوں میں مختلف پروگرام ہوتے رہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے ایونٹ کو رونق بخشی،یاسر حسین، بشریٰ انصاری، اسما عباس، نیلم بشیر، زارا نور عباس، علی ظفر، ساحر علی بگا، نتاشا بیگ بھی PLFکی زینت بنے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ، ڈاکٹر جعفر احمد، نور الہدیٰ شاہ ، کشور ناہید، مستنصر حسین تارڑ، عرفان صدیقی، افتخار عارف ، فاطمہ حسن، صغریٰ صدف، ناصرہ زبیری، سہیل احمد(عزیزی) بی گل، شان، بھی مندوبین میں شامل تھے۔
ہم نے فیسٹیول کے ساتھ ساتھ لاہور کے روایتی پکوانوں کا بھی لطف اُٹھایا۔نان چنے کا سالن، پائے، مزنگ کی مچھلی، پیڑے والی لسی، نے بہت مزا دیا۔
ہمیں احساس ہوا کہ آب و ہوا کا خوراک سے براہ راست تعلق ہے۔ لاہور کا پانی ایسا ہے کہ بھوک خوب چمکتی ہے اور کھانے کا اصل مزا ہی اُس وقت ہے جب زوروں سے بھوک لگی ہو۔ یقین جانیے ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لاہوری کھانوں کے شوقین کیوں ہیں؟ دراصل وہاں کی آب و ہوا ہی ایسی ہے اور پھر کھانے بھی لاجواب۔ ہم تین دن لاہور میں رہے اور تینوں دن ہمارے ذہن و دل میں سوائے کھانے کے کچھ نہ تھا۔ کراچی میں ہم آدھے سے زیادہ دن چائے کی ایک پیالی اور دو بسکٹ میں نکال دیتے ہیں، چینی کم، چکنا کم، چاول کم، بس کراچی میں یہ مسائل زیادہ ہیں۔ بندہ لاہور جائے تو رج رج کھائے۔
ہمارے پاس مجلس صدارت میں جہاں افتخار عارف، کشور ناہید، انور مقصود تھے، وہیں امجد اسلام امجد کا بھی نام تھا۔ اسٹیج پر ان کے نام کی کرسی موجود تھی۔جس پر صرف ان کی تصویر لگانی پڑی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اچانک یہ سب ہوجائے گا۔ بعض نے تجویز دی فیسٹیول ملتوی کردیا جائے مگر سب کا خیال تھا کہ امجد اسلام امجد نے پوری زندگی ادب کی خدمت کی ۔ شاعری میں نام کمایا،یادگار ڈرامے لکھے ، ان کے خواب کی تعبیر فیسٹیول کا ملتوی ہونا نہیں بلکہ جاری رہنا ہوگا۔ پس جب متفقہ فیصلہ ہوگیا تو PLFبھی امجد اسلام امجد کے نام ہوگیا۔
خیر صاحبوPLF کا احوال سنا رہے تھے آپ کو۔۔ شاندار فیسٹیول رہا، جس دن واپسی تھی صبح صبح ضیاء محی الدین کے انتقال کی خبر آگئی۔ عجیب ہی کیفیت ہوگئی، یعنی جب PLFکے لیے لاہور آئے تو امجد اسلام امجد کے گزرنے کی اطلاع ملی اور جب لاہور سے واپس کراچی جانے لگے تو ضیا محی الدین کے انتقال کا صدمہ اُٹھانا پڑا۔ تین دن میں دو بڑی شخصیات دنیا سے چلی گئیں۔ دونوں ہی با کمال شخصیات تھیں، اپنے اپنے فن میں یکتا اور بے مثال۔ ہائے رے دنیا کی بے ثباتی۔
کراچی واپس آتے ہی آرٹس کونسل میں امجد اسلام امجد اور ضیا صاحب کا تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ ضیامحی الدین کی اہلیہ عذرا محی الدین بھی اس میں شریک تھیں۔ لوگ دونوں بڑی شخصیات کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔ یادوں کے دریچے کھلتے رہے۔ ایک بات کا احساس ہوا کہ ضیا محی الدین کو لوگوں نے یاد کیا تو بہت طمانیت کے ساتھ کہ انہوںنے ایک بھرپور اور کامیاب زندگی گزاری۔وہ 90سے کچھ برس اوپر جیئے اور خوب جیئے، آخری سانس تک ان کی شہرت ، ان کی طلسمانی شخصیت کی کشش اور مقبولیت قائم رہی۔ کم ہی لوگ ہوں گے دنیا میں جو ایسی زندگی جی کے گئے ہوں۔ ہم ہمیشہ اردو کانفرنس میں ضیا محی الدین کا سیشن خاص طور پر اٹینڈ کرتے تھے۔ گزشتہ دو برسوں سے ہم ہال میں حاضرین کے درمیان بیٹھ کر ضیا محی الدین کی گفتگو سننے کے بجائے بیک سٹیج ایک کونے میں بیٹھ کر بس ان کی مسحور کن شخصیت کو دیکھتے رہتے، سوچتے ایسی نابغۂ روزگارہستی اور دوسری کوئی نہیں، واقعی وہ ایک ہی تھے، ان جیسا تو کوئی نہیں۔
کیا کیجیے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
پیارے پیارے لوگ جارہے ہیں۔ محمد قوی خان بھی گزر گئے ، قوی کینیڈا میں اپنے صاحبزادے کے پاس کچھ عرصہ سے مقیم تھے۔ وہ ٹورنٹو میں چل بسے اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔ان کے ساتھ ہم نے ڈراما سیریل خواب عذاب میں کام کیا تھا۔ مذکورہ ڈرامے میں وہ ہمارے والد کے کردار میں جلوہ گر تھے۔ ایک شفیق استاد، نفیس اور ایماندار جو بوٹی مافیا کے ظلم کا شکار بن جاتا ہے۔ڈرامے میں ہمارا کردار بھی ایک غریب مظلوم لڑکی کا تھا۔ ریحانہ صدیقی، فیصل رحمان، سلیم شیخ، سعدیہ امام، غیور اختر، سہیل احمد، فریحہ جبین بھی اس ڈرامے کے اہم کردار تھے۔ اس ڈرامے کے مصنف یونس جاوید تھے جنہوں نے اندھیرا اجالا جیسا معرکة الآرا ڈراما تحریر کیا تھا۔
قوی خان کا بھی تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ سوشل میڈیا پہ آہ و پکار مچانے والے ان کے ساتھ اپنی تصویر فیس بک پر لگانے والے، واٹس ایپ پر رونے دھونے والے emojiبنانے والے فیک لوگ ، کوئی نہ پہنچا ان کے تعزیتی اجلاس میں۔ شوبزنس کی دنیا کتنی دلفریب ہے، یہ محض ایک مفروضہ ہے، سچائی یہ ہے کہ کئی دہائیاں فلم ،ٹی وی، سٹیج پہ راج کرنے والے قوی خان کو خراج عقیدت پیش کرنے سوائے چار فنکاروں کے کوئی نہ پہنچا۔ یہ چار فنکار بھی وہ تھے جو پچھلے پچاس برسوں سے انہیں ذاتی طور پر جانتے تھے۔البتہ کینیڈا میں ان کی تدفین کے موقع پر اہل خانہ کے ہمراہ پرستاروں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اللہ تعالیٰ قوی خان ، ضیاء محی الدین اور امجد اسلام امجد کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔ ||
مضمون نگار مشہور ادا کارہ' کمپیئر اور مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے