خالق کائنات نے اس کرئہ ارض کو صاف و شفاف اور حسن و فطرت سے ہم آہنگ تخلیق کیا اور انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور دیگر تمام مخلوق کو ابنِ آ دم کے فائدے کے لیے پیدا کیا۔ یہ چرند و پرند، گلیشیئر شجر وحجر، حسین و جمیل وادیاں، فلک بوس پہاڑ، در یا، ند ی نا لے تا حدِ نگاہ نیلگو ں سمند ر، وسیع و عریض ریگستان لیکن اسی انسان نے اس کرئہ ارض کے قدرتی حسن کو اپنے غیر ضروری فعل و کردار سے گہنا کر رکھ دیا ہے۔ نام نہاد صنعتی ترقی اور کثیف گاڑیوں سے اٹھتے دھوؤں نے ماحول کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
ماحول ذہنوں اور صحت ِ انسانی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور انسانی زندگی کو توانائی یا مایوسی فراہم کرتاہے۔ اگر ماحول انسان دوست ہوگا تو اس کے فوری اثرات ذہنوں پر مرتب ہوتے ہیں اور یہ نہ صرف انسانی زندگی میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ جنگلی حیات ودیگر عوامل پر بھی براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچوں پر تو اس کا تعلق براہ ِ راست ہوتا ہے ۔ اگر انسان ذہنی طور پر صحت مند ہو گا تو مثبت کام کرے گا اور اس میں سوچ و فکر کا ذخیرہ موجزن ہوگا ۔
گاڑیوں اور فیکٹریوں سے اٹھنے والے کثیف اور زہر آ لود دھوئیں نے اس خوبصورت دنیا کو کثیف سیاہ چادر میں لپیٹ دیا ہے اور رہی سہی کسر موبائل فون کی انسان دشمن لہروں نے پوری کردی اور آ ج اس دھرتی کو طرح طرح کی بیماریوں اور ماحولیاتی مسا ئل کا سامنا ہے ۔
محکمہ موسمیات کے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس زہر آلود ماحول کی وجہ سے اس کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے قیمتی برفانی گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سمندر کے سطح میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔عالمی ماحولیاتی رپورٹ کے مطابق2050ء میں اس عفریت کی وجہ سے مالدیپ کے جزیرے سمندر بر د ہوجا ئیںگے جو نسل انسانی کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ سرحدوں کی قید سے آزاد عفریت تمام انسانی زندگی کا مسئلہ ہے ۔ اس کے تدارک کے لیے ہمیں ہمہ وقت سوج و بچار اور کو ششیں کرنی چاہیئے تاکہ اس منفی تبدیلی کو مثبت تبدیلی کی طرف موڑ دیا جائے ۔
انسان ہی نہیں بلکہ اس تباہی نے جنگلی حیات اور آبی مخلوقات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس غیر فطری عمل کی وجہ سے جنگلی حیات اور آبی مسکن سنسان ہورہے ہیں۔ چنانچہ کرئہ ارض پر کئی جاندار اپنی بقا ء کی جنگ لڑرہے ہیں اور کئی جانداروں کی نسل اب قصہ پارنیہ بن چکیہے ۔ اگر ہم نے اپنے ماحول کو انسان دوست نہ بنایا اور اس کے لیے عالمی سطح پر جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ لیے تو ہماری یہ خوبصورت زمین اپنی رعنائی کھو دے گی ۔
اس ماحولیاتی تباہی کی 90فیصد ذمہ دار نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں کی وہ صنعتی ترقی ہے جس نے ساری دنیا کو کثیف بنا کر رکھ دیا ہے ۔ صاف و شفاف ماحول کو گٹھن زدہ کردیا ہے اور اس تباہی کے اثرات زیادہ تر غریب ممالک پر پڑتے ہیں۔ اب یہ ان ملکوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جانب سے کی جانے والی غلطیوں کا جلد از جلد تدارک کریں تاکہ بنی نوع انسان اور دیگر حیات کوپھر سے خوش و خرم زندگی میسر آسکے۔
ماہر ارضیات کی تحقیق کے مطابق کرئہ ارض پر موسمیاتی تبدیلی کا ایک خطرناک عمل شروع ہوچکا ہے جس کی زد میںآنے والوں میں ہمارا پیارا وطن پاکستان سرفہرست ہے۔جب ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں تو وطن عزیز کو بھی شدید موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے۔ چنانچہ قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے گلیشئیرز کے قیمتی خزانے جو شمالی علاقہ جات میں موجود ہیں، جنہیں دنیا کا واٹر ٹاور کہا جاتا ہے، درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق2030ء تک تقریباً 75 فیصد ختم ہو جائیںگے جو نہ صرف پاکستان بلکہ اقوام عالم کے لیے تباہ کن ثابت ہوںگے ۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اس کے کل رقبے کا تقریباً 25 فیصد جنگلات پرمشتمل ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ درختوں کی تیزی سے کٹائی کی وجہ سے پاکستان میں جنگلات کا تناسب روز بروز کم ہوتا جلا جارہا ہے ۔
ورلڈ بینک کے شماریات کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ تقریباً 2.13 فیصد ہے اور اس میں بتدریج کمی بھی واقع ہو رہی ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔
ماحول کی کثافت کی وجہ سے ہمارے بیشتر شہر شدید دھند سے دوچار ہیں خاص طور پر کراچی اور لاہور تو دنیا بھر میں آلودہ شہروں کی فہرست میں موجود ہیں ۔ درختوں میں اضافہ تو درکنار لوگ قیمتی درختوں کا بے دردی سے قتل عام کررہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کا ماحول دشمن عنصر غالب آتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے ملک میں اس خطرناک ترین تبدیلی کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کام کا بیڑا حکومت کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اٹھانا چاہیے ۔
پاکستانی قوم کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جاسکتا ہے جو کم لاگت اور کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے اور پاکستانی قوم کو اس گھٹن زدہ اور تشویشناک ماحول سے خوشگوار تبدیلی میں تبدیل کرسکتا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں ایک پروجیکٹ کے ذریعے جس میں پاکستان بھر میں کراچی سے خیبر تک اور راولپنڈی سے کوئٹہ ۔ چمن تک تقریباً تمام ریلوے لائنوں کے اردگرد ایک خوشگوار اور ماحول دوست فضا کی تبدیلی کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کم قیمت جنگلات بآسانی لگائے جاسکتے ہیں ۔
پہاڑی اور سنگلاخ علاقوں میں ایسے درخت لگائیں جائیں جو کم پانی میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں میں قائم غیر سرکاری تنظیموں کے توسط سے اس پروجیکٹ کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ ریلوے لائن کے دونوں اطراف تقریباً100 فٹ کی حدود میں کچرے کے ڈھیر کو سبزے میں تبدیل کردیا جائے جو خوشنما اور خوشگوار ماحول فراہم کریںگے۔ آگاہی مہم کے لیے خوبصورت ایڈورٹائزنگ بورڈ نصب کیے جائیں اور ڈیجیٹل میڈیا، شوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اس کی تشہیر کی جائے ۔
اگر اس منصوبے پر عمل کرلیا جائے تو نہ صرف ریل میں سفر کرنے والے مسافروں کو خوشنما اور خوشگوار ماحول فراہم ہوگا بلکہ یہ مجموی طور پر ہمارے ماحولیاتی آلودگی کو بھی کافی حد تک کم کرنے میں مددگار و معاون ثابت ہوسکتا ہے جو اطراف کی آبادیوں کے لیے بھی صحت بخش ماحول فراہم کرے گا ۔
اگر زیتون ودیگر درخت کثیر تعداد میں لگائیں جائیں تو یہ نہ صرف ماحول دوست ثابت ہوں گے بلکہ کثیر زرمبادلہ کے حصول کا باعث بھی بن سکتے ہیں ۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے انسان دوست پرندے اور حشرات تیزی سے نا پید ہورہے ہیں اور قدرتی توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جس کی وجہسے ہمارے شہر اور گائوں طرح طرح کی وبا اور بیماریوں کا شکار ہیں اور خاص کر بچے اور بوڑھے افراد اس کا شکار ہورہے ہیں ۔
ہمارے ملک کے بالائی علاقے جو سرد تصور کیے جاتے ہیں اور جہاں ہمارے ملک کے بیشتر جنگلات پائے جاتے ہیں، موسم سرما میں سرکاری سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی درخت موسم کی شدت کو کم کرنے کے لیے آگ کی نذر کیے جارہے ہیں جو جنگلات میں کمی کاباعث بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں متعلقہ حکام کو چاہیے کہ موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں تاکہ ہمارے یہ قیمتی جنگلات جو پہلے ہی خطرناک حدتک کم ہیں مزید کمی کا شکار نہ ہو مزید یہ کہ سخت جان ماحول دوست درخت لگانے کا عمل ہنگامی بنیادوں پر شروع کیاجائے۔
کھیتوں کے چاروں طرف زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور زمین کی پیمائش کے تناسب سے درختوں کی ایک خاص تعداد مقرر کی جائے اور ایسا نہ کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے جائیں۔ شہروں میں بھی ندی نالوں کے دونوں اطراف زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا عمل شروع کیاجائے تاکہ ماحول کو یکسر تبدیل کیا جاسکے ۔
یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن علاقوں میں درخت اور سبزہ ہوتا ہے وہاں پرندوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔بہتر ماحول میں انسان دوست حشرات افزائش پاتے ہیں جو مختلف بیماریوں اور جراثیم کا قلع قمع کرکے ہمارے ماحول کو صحت افزاء بناتے ہیں ۔
پاکستان میں جنگلات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کے منصوبے نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ اس سے ہمارا وطن اقوام عالم میں ایک مثال بھی بن سکتا ہے ہماری غفلتوں کی وجہ سے اب یہ حسین دنیا آلودہ ہوچکی ہے اسے اپنی اصل حالت میں واپس لانے کے لیے ہمیں اپنی تمام توانائی بروئے کار لانے کی اشد ضرورت ہے ۔ ||
تبصرے