علامہ محمد اقبال ہمارے قومی شاعر، عظیم رہبر و رہنما، مفکراسلام، مصور پاکستان، دانائے راز، ترجمان حقیقت اور حکیم الامت ہیں۔ان کی اردو اور فارسی شاعری علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ اور امت مسلمہ کے لیے راہ نمائی کا ایک روشن اور مستقل ذریعہ ہے۔ جس طرح غلامی کے دور میں فکر اقبال نے ہماری رہنمائی کی اور اس فکر کی روشنی میں ہم نے آزادی کے راستے کا تعین کیا اور غلامی کی زنجیریں توڑنے میں کامیاب ہوئے بالکل اسی طرح آج بھی علامہ کی فکر اپنی دلکش فلسفیانہ شاعری کی صورت میں ہمارے تمام تر قومی مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر علامہ اقبال ہی ہیں۔ اہل وطن ان کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ایمانی حرارت، سوز و گداز، فلاحِ قوم کا درس،جہد مسلسل کا پیغام، اتحاد و اتفاق کا سبق اور تعمیر وطن کا جوش و جذبہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ہماری قوم اپنے قومی شاعر کے کلام کو عزیز رکھتی ہے اور ان کی کتابوں کو حرزجاں بنائے ہوئے ہے۔یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ ہم چھوٹی جماعتوں ہی سے علامہ اقبال کی اکثر کتابوں کے ناموں سے واقف ہوجاتے ہیں مگر یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ان کتابوں کے ناموں کے معنی سے زیادہ تر لوگ واقف نہیں اور نہ ہی اس ضمن میں اب تک کوئی باقاعد اور مرتب کوشش کی گئی ہے۔زیر نظر مضمون میں یہی کمی پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور علامہ اقبال کے شعری مجموعوں کے ناموں کے معنی پہلی بار مرتب انداز میں پیش کیے جا رہے ہیں۔شاعر مشرق کے شعری مجموعوں کے ناموں کے معنی جان لینے سے نہ صرف علامہ کے کلام کا لطف دوبالا ہو گا بلکہ علامہ کے پیغام کا حقیقی مقصد و مدعا بھی سمجھ میں آئے گا اور استفادے کی بہتر صورت پیدا ہوگئی۔
بانگ درا
بانگ" کے معنی آواز کے ہیں جبکہ "درا" گھنٹی کو کہتے ہیں،وہ گھنٹی جو قافلے کے کوچ یعنی روانگی کا اعلان کرنے کے لیے بجائی جاتی ہے تاکہ سوئے ہوئے اور غافل لوگ بیدار ہوں اور قافلے کے ساتھ مل کر منزل کی جانب روانہ ہو جائیں۔لہٰذا "بانگ درا" کے معنی ہوئے قافلے کے سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے والی گھنٹی کی آواز۔علامہ اقبال نے اپنے پہلے شعری مجموعے کا نام "بانگ درا" رکھا تو اس سے ان کی یہی مراد ہے کہ اس کتاب کی شاعری قوم کے سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنے، انہیں ان کا مقصد یاد دلانے اور قوم کے ساتھ مل کر آگے سے آگے بڑھنے پر تیار کرنے والی شاعری ہے۔اقبال نے اس بات کا اظہار اسی کتاب کے ایک شعر میں یوں کیا ہے
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
"جادہ پیما" کے معنی ہیں چلنا یا روانہ ہونا یعنی اقبال کی شاعری نے بانگ درا کا کام کیا ہے اور اس کی وجہ سے قوم کا قافلہ بیدار ہو کر اپنی منزل کی جانب چل پڑا ہے۔بانگ درا علامہ اقبال کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جو 1924 میں شائع ہوا۔علامہ اقبال نے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے
حصہ اول ابتداسے 1905 تک کا کلام
حصہ دوم 1905 سے 1908 تک کا کلام
حصہ سوم 1908سے 1924 تک کا کلام
''بانگ درا'' بہت سے ادارے چھاپ رہے ہیں مگر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور اور اقبال اکادمی لاہور سے چھپے ہوئے مجموعے مستند اور کافی حد تک اغلاط سے مبرا سمجھے جاتے ہیں۔
بال جبریل
جبریل( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب فرشتے کا نام ہے۔انبیا پر وحی لانا ان کے ذمہ ہے۔انہیں فرشتوں کا سردار کہا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار قوتوں اور طاقتوں سے نوازا ہے۔وہ پلک جھپکنے میں آسمان سے زمین پر اور زمین سے آسمان پر جا سکتے ہیں۔قرآن پاک میں انہیں "زبردست قوت/ توانائی والا" "امین" اور "روح القدس" کہا گیا ہے۔
"بال" کے معنی "پر" یعنی(Wing)کے ہیں۔اس طرح "بال جبریل" کے معنی ہوئے جبریل کے پر۔لہٰذا علامہ اقبال نے جو اپنی کتاب کا نام "بال جبریل" رکھا تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کتاب میں ایسی شاعری ہے کہ جس پر عمل کر کے افرادِ قوم جبریل کے پر یعنی جبریل کی سی قوتیں حاصل کر سکتے ہیں۔علامہ خود فرماتے ہیں
جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
'انگارہ خاک'سے مراد ہے مٹی سے بنا ہوا انسان یعنی جب انسان اپنی خودی بیدار کر کے اللہ کی دی ہوئی طاقت پر کامل یقین رکھتا ہے تو بندے کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے اور پھر کائنات اس کے اشاروں پر چلنے لگتی ہے اور وہ ہمسایہ جبریل امیں بن جاتا ہے۔ بال جبریل 1935 میں شائع ہوئی علامہ اقبال کا فکر و فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے
اس مجموعے میں اقبال کی بہترین طویل نظمیں موجود ہیں۔ جن میں "مسجد قرطبہ"۔ "ذوق و شوق" اور "ساقی نامہ" شامل ہیں۔اس مجموعے میں زیادہ تر اقبال کی غزلیات شامل ہیں جو اقبال کے اردو کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔
ضرب کلیم
ضرب کے معنی چوٹ کے ہیں جب کہ کلیم اللہ تعالیٰ کے اوالعزم پیغمبر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو عصا کا معجزہ عطا کیا تھا۔آپ نے اپنا عصا دریا نیل پر مارا تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور راستہ بن گیا، اسے چٹان پر مارا تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔یہی عصا اژدھا بن کر فرعون کے جادوگروں کے سانپوں کو کھا گیا۔
لہٰذا 'ضرب کلیم' کا مطلب ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چوٹ جوانہوں نے اپنے زمانے کے ظالم بادشاہ فرعون ،جو اپنے آپ کو رب کہلاتا تھا،"اور اس کے لشکر پر لگائی تھی۔ "ضرب کلیم دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی روحانی قوت کی علامت ہے۔اس نام سے علامہ اقبال کی مراد یہی ہے کہ یہ کتاب امت مسلمہ کو دور حاضر کے فتنوں کے خلاف روحانی قوت عطا کرے گی اور مسلمان اس کے ذریعے اپنی خودی بیدار کر کے اس دور کی فرعونی طاقتوں پر کاری ضرب لگائیں گے۔
' دورِحاضر' دراصل اقبال کی ایک مخصوص اصطلاح ہے جس سے مراد وہ خرابیاں اور گمراہیاں ہیں جو مغرب نے روحانیت کے مقابلے میں مادیت پر مبنی فکر کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائی ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا روزبروز اخلاقی اور روحانی پستی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ یہ کتاب امت مسلمہ کو اسی الحادی اور لادینی تہذیب کے خلاف ضرب کلیم حاصل کرنے کے طریقے بتاتی ہے۔
علامہ اقبال نے کتاب کے سرورق پر خود یہ الفاظ لکھے ہیں۔
"اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف"
کتاب کے پہلے ہی صفحے پر موجود یہ شعر بھی کتاب کے نام اور مقصد کو واضح کرتا ہے
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
ضرب کلیم پہلی بار 1936میں چھپی تھی۔
اسرارِ خودِی
اسرار خودی علامہ اقبال کا پہلا فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1915 میں شائع ہوا۔"اسرار" کے لغوی معنی ہیں راز،بھید اور پوشیدہ بات اور خودی کے لغوی معنی ہیں انا پرستی،خود پرستی،خودمختاری، خودسری،خودغرضی،نخوت اور تکبر کے ہیں جب کہ علامہ اقبال نے اس لفظ کو غرور و تکبر کے بجائے بالکل نئے معنوں یعنی احساسِ نفس تعینِ ذات،احساس غیرت مندی،جذبہ خودداری،اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور انہیں استعمال میں لاتے ہوئے آگے سے آگے بڑھنے کے معنی میں استعمال کیاہے۔اس طرح "اسرار خودی" کا مطلب ہوا "اپنے آپ کو پہچاننے اور اپنی ذات میں چھپی صلاحیتوں کو دریافت کرنے کے راز" علامہ اقبال نے اس کتاب میں اپنا فلسفہ خودی تفصیلاً بیان کیا ہے اور ان رازوں سے پردہ اٹھایا کہ جن کے ذریعے انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر، انہیں استعمال میں لاتے ہوئے قرب الہٰی کی اس منزل تک پہنچ سکتا ہے کہ جہاں ساری کائنات اس کی دسترس میں آ کر اس کے اشاروں پر رقص کرنے لگتی ہے۔
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
رموز بے خودی
" رموز بے خودی" علامہ اقبال کا دوسرا فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1918 میں شائع ہوا۔
رموز" رمز کی جمع ہے جس کے معنی پوشیدہ بات، اشارے اور بھید کے ہیں جبکہ "بے خودی" کے لفظی معنی تو بے خود ہونے یعنی اپنے آپ کو بھول جانے کی کیفیت، اپنے آپ میں نہ رہنا، عالم بے خبری،بے ہوشی، از خود رفتگی اور اپنے فرائض و مقاصد سے بے خبری کے ہیں مگر حکیم الامت نے اس لفظ کو بھی نئے معانی عطا کئے ہیں اور فرد کے جماعت کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے اپنی تربیت یافتہ خودی کی صلاحیتوں کو قوم کے
لیے وقف کر دینے کو "بے خودی" کا نام دیا ہے۔
اس طرح رموز بے خودی کا مطلب ہوا: "افراد کے ذریعے قوم کی مضبوطی فلاح و بقا اور تعمیر و ترقی کے رازیہ کتاب "اسرار خودی" کا تسلسل ہے۔اس میں علامہ اقبال نے بتایا ہے کہ افراد کی بقا قوم سے اور قوم کا وجود اور مقدر افراد سے وابستہ ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اور
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
رموز بے خودی فارسی زبان میں انہی اردو اشعار کی بے مثال اور شاندار تفسیر ہے۔
اسرار و رموز
1923 میں اسرار خودی اور رموز بے خودی کو "اسرار و رموز"کے نام سے یکجا شائع کیا گیا۔
اس کے بعد سے یہ اسی نام سے یکجا ہی شائع ہو رہی ہیں۔
پیامِ مشرق
"پیام مشرق" شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1923 میں شائع ہوا۔یہ دراصل معروف جرمن شاعر گوئٹے کے "دیوان مغرب" کا جواب ہے۔گوئٹے عظیم دانشور اور بلند پایہ شاعر تھا۔وہ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور بے معنی ہلچل اور ہنگامہ خیزی سے بیزار اور یورپ میں "تحریک مشرقی" کے زیر اثر مشرقی علم وادب بالخصوص حافظ شیرازی سے بہت متاثر تھا اور مشرق کی پر سکون فضاؤں کا دلدادہ تھا۔چنانچہ اس نے یورپی شاعری میں، مشرقی اندازِ فکر متعارف کروانے کی کوشش کی اور دیوان مغرب کے نام سے اپنا دیوان شائع کیا۔
علامہ اقبال،خواجہ حافظ کے اسلوب اور گوئٹے کے فکر وفن سے متاثر تھے۔ چنانچہ انہوں نے"دیوان مغرب"کے سو سال بعد اس کا جواب لکھا اور "پیام مشرق" کے نام سے مغرب کو مشرق کا پیغام دیا۔لہٰذا "پیام مشرق" کے معنی ہوئے "مشرق کا پیغام:اہل مغرب کے نام"۔دیباچے میں علامہ اقبال نے خود اسے مشرقی دنیا کی طرف سے جہانِ مغرب کے لیے ایک تحفہ قرار دیا۔اس کتاب میں علامہ اقبال کا فکر و فن اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔یہ کتاب دراصل مادہ پرست مغرب کو مشرقی (اسلامی) روحانیت کا پیغام یا یوں کہیے کہ یہ مغرب کے الحاد اور لادینیت کو رب واحد کے سامنے جھک جانے اور دین کی طرف آنے کا پیغام ہے۔
زبور عجم
زبورِ عجم علامہ اقبال کا چوتھا فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1927 میں شائع ہوا۔"زبور" کے لغوی معنی ٹکڑے،کتاب یا مکتوب کے ہیں جبکہ اصطلاح میں یہ اس الہامی کتاب کا نام ہے جو حضرت دائود علیہ السلام پر نازل ہوئی۔"عجم" سے مراد غیر عربی علاقے مثلاً برصغیر اور ایران وغیرہ ہیں۔عام طور پر یہ لفظ ایران کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی زبان فارسی ہے۔زبور میں شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، عظمت اور بڑائی بیان ہوئی ہے اور علامہ اقبال کی اس کتاب کا بھی یہی رنگ ہے،اس میں عارفانہ اور حکیمانہ انداز میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی گئی ہے اور عارفانہ یا حکیمانہ کلام کو بھی مجازی معنوں میں الہامی کلام کہہ دیا جاتا ہے۔لہٰذا زبور عجم کے معنی ہوئے عجم کی زبور یا فارسی زبان کی زبور یا یوں کہیے کہ فارسی زبان کی الہامی یعنی عارفانہ و حکیمانہ کتاب جس میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور کبریائی کے نغمے پیش کیے گئے ہیں۔ یہ علامہ اقبال کی اہم ترین کتاب ہے جس کے بارے میں انہوں نے خود فرمایا ہے کہ
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم
فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں
جاوید نامہ
جاوید نامہ علامہ اقبال کا پانچواں فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1932 میں شائع ہوا۔اس کا شمار علامہ اقبال کی بہترین، سب سے بلند پایہ اور عالمانہ کتابوں میں ہوتا ہے۔وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔ یہ دراصل ان کا خیالی سفر نامہ ہے جس میں ان کے رہبر و رہنما،مولانا روم انہیں مختلف سیاروں اور افلاک کی دوسری جانب کی سیر کرواتے ہیں۔اس سفر میں علامہ اقبال نے اپنا نام زندہ رود(یعنی ہمیشہ بہنے/قائم رہنے والا دریا)رکھا ہے۔اس سفر میں علامہ مختلف مشاہیر اور بعض خیالی کرداروں سے ملتے اور گفتگو کرتے ہیں اور حقائق ومعارف کے دریا بہاتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے حقائق و معارف کہ جن کا تعلق عالم بالا یا "جہانِ دیگر" سے ہے۔اس کتاب میں حکیم الامت نے مومن کو عشقِ حقیقی کے ذریعے قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنے اور سلطان یعنی اللہ کی عطا کی ہوئی قوت حاصل کر کے زمان و مکان پر غالب آ جانے اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلینے کے طریقے بتائے ہیں۔اسی لیے اس کا نام"جاوید نامہ" رکھا۔ "جاوید"کے معنی دائم یعنی ہمیشہ رہنے والے کے ہیں جب کہ "نامہ" تحریر کے معنوں میں آتا ہے۔لہٰذا "جاوید نامہ" کے معنی ہوئے: "ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے طریقے بتانے والی تحریر، کلام یا کتاب"۔ سرسری نظر سے دیکھنے والے اس نام کا ماخذ علامہ اقبال کے فرزند، جاوید اقبال کا نام بتاتے ہیں۔اس طرح ان کے نزدیک "جاوید نامہ" کے معنی ہیں"جاوید کے لیے لکھا ہوا کلام۔"
مسافر
"مسافر" علامہ اقبال کا چھٹا فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1934 میں شائع ہوا۔ علامہ اقبال نے 1933 میں افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کی دعوت پر،تعلیمی اصلاحات پر مشورے کے لیے،مولانا سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کی معیت میں افغانستان کا دورہ کیا۔واپسی پر علامہ اقبال نے اپنے اس دورے کے تاثرات مثنوی "مسافر" کی شکل میں قلم بند کیے۔پہلے پہل یہ مثنوی 1934 میں شائع ہوئی مگر 1936 میں اسے علامہ اقبال کی ایک اور مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوام شرق" کے ساتھ شائع کیا گیا اور اس کے بعد سے یہ دونوں مثنویاں یکجا شائع ہورہی ہیں۔"مسافر" کے معنی "سفر کرنے والا" کے ہیں اور یہاں اس سے مراد آزاد اسلامی ملک افغانستان کا سفر کرنے والے مسافر علامہ اقبال ہیں جو ہمیں حریت، خودداری اور قوم کی پاسبانی کا سبق دے رہے ہیں۔علامہ اقبال اس مثنوی میں ایک ایسے مسافر کے طور پر سامنے آتے ہیں کہ جو خود مسافر ہے مگر قوم کی رہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔وہ اپنے سفر کے حالات و واقعات اور مقامات کی تفصیل بیان کرنے کی بجائے مختلف مقامات اور واقعات کو اپنے فلسفہ زندگی سے مربوط کرتے ہیں۔وہ ہر مقام، ہر موقعے اور ہر واقعے سے،مسلمان کے لیے،خودی کی بیداری، ملت سے رابطے کی استواری،ملت کی تشکیلِ نو اور عظمت رفتہ کی بازیافت کا سبق کشید کرتے ہیں۔اس طرح یہ شاہکار اور معرکةا لآرا مثنوی،اپنے قاری کے لیے خودی اور اس کی بے پناہ صلاحیتوں کی دریافت اور ملت کی آزادی اور فلاح و بقا کے جوش و جذبے کی بیداری کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
پس چہ باید کرد ای اقوام شرق
پس چہ باید کرد اے اقوام شرق" علامہ اقبال کا ساتواں فارسی مجموعہ کلام ہے جو 1936 میں شائع ہوا۔اس مجموعے میں علامہ اقبال کی دو مثنویاں،ایک تو یہی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق اور دوسری "مسافر"شامل ہیں۔ "شرق" یعنی مشرق علامہ اقبال کی ایک خاص اصطلاح ہے جسے وہ اپنے کلام میں اسلام یا امت مسلمہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس طرح اس عنوان کے معنی یہ ہوئے کہ "تو اے اقوام مشرق (امت مسلمہ)اب کیا کرنا چاہیے"۔ یہ کتاب علامہ اقبال کی آخری عمر کے پختہ افکار اور گہری بصیرت کی حامل ہے۔ اس میں علامہ نے امت مسلمہ کو یورپ کی مکاری اور ظلم و استبداد کے مقابلے اور غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر روشن مستقبل حاصل کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا ہے اور اس کے مسائل کا حل بتایا ہے۔
پس چہ باید کرد اے اقوام شرق
باز روشن می شود ایام شرق
ترجمہ: "تو اے اقوام شرق اب کیا کرنا چاہیے؟ تاکہ مشرق کے ایام پھر سے روشن ہو جائیں"۔
اس کتاب میں علامہ اقبال کے تمام افکار و نظریات کا خلاصہ آ گیا ہے اور یہ ایسی روشن تعلیمات سے مالامال ہے کہ جن پر عمل پیرا ہوکر آج بھی مسلمان ذلت کی پستیوں سے نکل کر ایک روشن مستقبل کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔
ارمغان حجاز
''ارمغان حجاز''علامہ اقبال کا آخری شعری مجموعہ ہے جو ان کی زندگی میں ترتیب پا چکا تھا مگر ان کی وفات کے بعد نومبر 1938 میں شائع ہوا۔یہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے کلام پر مشتمل ہے۔"ارمغان" تحفے کو کہتے ہیں جبکہ "حجاز" عرب کے اس حصے کا نام ہے جس میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں،جہاں سے حضورۖ کے نور نبوت نے اللہ تعالیٰ کے آخری دین،اسلام سے سارے عالم کو روشن کیا۔اس طرح "ارمغان حجاز" کا مطلب ہوا "حجاز کا تحفہ" یعنی اس اسلام (قرآن اور اسوہ حسنہ)کا تحفہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے آقا و مولا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو دیا تھا۔اقبال بانگ درا میں خود فرماتے ہیں کہ :
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری
یعنی میری شاعری اگر اردو اور فارسی زبان میں ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں پیغام تو حجازی یعنی اسلام کا دے رہا ہوں۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآں مضمر است
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پاکن مرا
یعنی اگر میں نے اپنے کلام میں قرآن کے سوا کچھ اور پیش کیا ہو تو اے میرے آقا ۖ قیامت کے دن مجھے رسوا ہونے دیجیے اور اپنے پا مبارک کے بوسے سے بے نصیب رکھیے۔
ارمغان حجاز"قوم کے لیے حکیم الامت کا آخری تحفہ ہے جو اسلام کے حقیقی پیغام،حجاز کے پرفضا نغموں اور ہمارے ہادی و رہنما حضورۖ کی بے پایاں محبت کے سوز و گداز سے مملو ہے۔
آیئے اس تحفے کی قدر کریں اسے حرزِجاں بنائیں اور اس کے اس پیغام کو عام کریں کہ :
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا ||
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے