یہ سوشل میڈیا کی خرابی ہے یا اُن لوگوں کی جن کے پاس اب ایک سہولت ہے کہ جو چاہو دنیا کو دکھا دو؟ اب چاہے وہ صحیح ہے یا غلط بس اس کے Viewersزیادہ ہونے چاہئیں، جس سے مالی منفعت ہوتی ہے۔ اس مال کے وبال کی وجہ سے لوگ اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ نہ سچائی دیکھ سکتے ہیں اور نہ ضمیر کی آواز سُن سکتے ہیں۔ کسی کے بھی متعلق کوئی افواہ پھیلانا معمول ہے۔
معزز قارئین کرام، آداب!
ایک عرصہ بعدآپ سے مخاطب ہیں۔ جب تک کینیڈا میں تھے وہاں کا احوال لکھ کر بھیجتے تھے اب جب کہ مستقل وطن واپسی ہو چکی،حالات کے گرداب میں ایسا پھنسے کہ لکھنے لکھانے کا وقت نہ مل سکا اور ویسے بھی دل سے بتائیں تو کچھ خوشگوار یا اُمید افزا بھی کوئی ایسی بات نہیں جو قلمبند کرسکیں۔شہرکی ثقافتی اور علمی و ادبی سرگرمیاں وقتی طور پر شگفتگی پیدا کردیتی ہیں مگر مجموعی طور پر جو افسردگی اور غیریقینی کی صورتحال ہے وہ کسی بھی حساس یا تخلیقی ذہن کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔ درجن بھر اخبارات پہلے ہم پڑھا کرتے تھے، اب انٹر نیٹ کے ذریعے خبریں مل جاتی ہیں۔روزانہ صبح اُٹھ کر شہ سرخیاںدیکھتے ہیں، ہر دوسرے دن کسی نہ کسی اہم شخصیت کے وصال کی خبر پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ گزشتہ برس بھی یہی صورت حال تھی اور اب جب کہ نیاسال شروع ہوا ہے، شوبزنس کے ستاروں کے ڈوبنے کی اطلاعات ہی ملتی ہیں۔
بہر طور اُمید کی شمع دل میں روشن ہو تو زندگی بہتر کٹ جاتی ہے۔پھر اگر کبھی حالات کی آندھی اسے بجھانے کی کوشش کرے تو اُسے بچانے کے لیے استقامت اور صبر ضروری ہے۔ چھوٹا سافلسفہ ہے، اگرسمجھ میں آجائے تو آسانی ہے ورنہ بے چینی اور بے سکونی ،صحت اور فکر دونوں برباد کرتے ہیں۔ معاف کیجیے گا قارئین کرام! ہم شاید زیادہ ہی فلسفہ بگھار رہے ہیں مگر کیا کریں مجبور ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ماجدجہانگیر کے انتقال کی خبر ملی ۔ ماجد جہانگیر عرصہ دراز سے بیمار اور مشکلات کا شکار تھے۔ انہوںنے ٹیلی ویژن کی مشہور سیریز ففٹی ففٹی سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ ففٹی ففٹی شعیب منصور کا شاہکار تھا جس میں چھوٹے چھوٹے خاکے پیش کیے جاتے تھے، طنز و مزاح سے بھرپور خاکے عوام میں پسندیدگی اور پذیرائی کے حوالے سے بے مثال تھے۔ ففٹی ففٹی میں اسمٰعیل تارا، ماجد جہانگیر، زیبا شہناز، فوزیہ(آرزو)، اشرف خان، تہمینہ، رئوف سانوریاسٹار کیریکٹرز میں شامل تھے، ان کے علاوہ لطیف کپاڈیا، بشریٰ انصاری، عادل واڈیا، انور مقصود بھی اس خوبصورت پروگرام کی زینت تھے، ہم نے بھی بچپن میں ففٹی ففٹی کے بہت سے خاکوں میں کام کیا۔ اس کی یادیں ہمارے ذہن و دل پہ ثبت ہیں۔
پہلے اسمٰعیل تارا کا انتقال ہوا اور پھر ماجد جہانگیر کے گزرجانے کی اطلاع ملی۔ اس بار یہ اطلاع درست تھی، جی ہاں ہمارے ہاں ہر ایک کے پاس میڈیا ہے، اپنا فون، اپنا میڈیا، اس کے لیے اپنی مرضی کی کوئی بھی خبر، جھوٹی یا سچی لوگ پھیلاتے ہیں، اسمٰعیل تاراکے انتقال کے فوراً بعد کسی نے ماجد جہانگیر کے وصال کی خبرپھیلادی۔ پھر بس کیا تھا افسوس، اظہارِ تعزیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر اُن کے بیٹے کی جانب سے جھوٹی خبر کی تردید ہوئی۔ پرستاروں نے اطمینان کا سانس لیا۔اب ایک ہفتہ کے بعد ماجدجہانگیر سچ مچ رخصت ہوگئے۔ وہ متعدد بیماریوں کا شکار تھے، معاشی پریشانیوں نے انہیں توڑ کے رکھ دیا تھا۔ ہم نے ماجد جہانگیر، اسمٰعیل تارا کے عروج کا زمانہ دیکھا ہے۔ لوگ دیوانہ وار ان کے آٹو گراف لینے یا تصویر کھچوانے کے لیے ان کے پیچھے بھاگتے تھے۔ایک بار ہم امریکا گئے تو دیکھا کہ ماجد جہانگیر خوبصورت سوٹ زیب تن کیے بڑی سی سفید رنگ کی گاڑی میں اپنی بیگم کے ساتھ فنکاروں سے ملنے آئے ہیں۔ ہم امریکا شوز کرنے گئے تھے، ہمارے ساتھ بہت سے فنکار تھے۔ ماجد جہانگیر ہماری ٹیم سے ملنے جب ہوٹل آئے تو ہم نے دیکھا کہ ہوٹل کی لابی میں رونق لگی ہے، ماجد جہانگیر کسی پرنس کی مانند فنکاروں کے جھرمٹ میں بیٹھے تھے۔ اُن کی گاڑی بھی بڑی شان و شوکت والی تھی۔جس کی نمبر پلیٹ PTV 5050تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ماجد جہانگیر پریس کلب کے باہر فریاد کررہے تھے کہ کوئی ان کی داد رسی کرے۔ عروج و زوال کا یہ المیہ ناقابلِ برداشت ہے۔ جانے کتنے بڑے بڑے مشہور اسٹار اس کرب سے گزرے ہیں۔
اونچائی تک پہنچنا مشکل ہے لیکن ایک دم زوال انسان کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔کچھ ایسی ہی تکلیف سے عامر لیاقت حسین بھی گزرے۔ ہم نے اُن کے ساتھ مارننگ شو کی کمپیئرنگ کی تھی۔مرحوم بہت باصلاحیت تھے، تقریر کا فن جانتے تھے۔ الفاظ کا وسیع ذخیرہ تھا ان کے پاس۔ ذہین تھے۔نعت خوانی اور کمپیٔرنگ بہت عمدگی سے کرتے تھے۔ شہرت کی بلندیوں کو چھوا، گیم شوز سے عروج ملا اور پھر یکدم حالات نے پلٹا کھایا۔ کبھی سپنے میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ان کی نجی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں نے ان کے کیریئر کو بھی بدل دیا، کہاں وہ بلندی کہ بس ہر کوئی ان کا گرویدہ اور کہاں وہ پستی کہ خود عامر لیاقت ہرطرف سے مایوس ہوگئے اور پھر ان کے انتقال کی خبر آگئی۔ بس یہی زندگی ہے۔کب کیا ہو جائے کسی کو نہیں خبر، تاہم ایک بات تو طے ہے کہ سوشل میڈیا ایک بڑی وجہ ثابت ہوا عامر لیاقت کی تباہی میں۔
یہ سوشل میڈیا کی خرابی ہے یا اُن لوگوں کی جن کے پاس اب ایک سہولت ہے کہ جو چاہو دنیا کو دکھا دو؟ اب چاہے وہ صحیح ہے یا غلط بس اس کے Viewersزیادہ ہونے چاہئیں، جس سے مالی منفعت ہوتی ہے۔ اس مال کے وبال کی وجہ سے لوگ اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ نہ سچائی دیکھ سکتے ہیں اور نہ ضمیر کی آواز سُن سکتے ہیں۔ کسی کے بھی متعلق کوئی افواہ پھیلانا معمول ہے۔
خلیج، کسک اور دیگر بہت سے ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھلانے والے جہانزیب گورچانی نے کچھ عرصہ قبل ہمیں واٹس اپ پہ ایک خبر شیئر کی جس میں کسی ناہنجار نے اُن کی موت کی جھوٹی تفصیلات گھڑی تھیں۔
مرد فنکاروں کی موت کی خبر اور خواتین فنکاروں کی کردار کشی اس وقت افواہ سازوں کا ٹاپ ٹرینڈ ہے۔لوگ اپنے پسندیدہ فنکاروں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، اس لیے خبر پر کلک کرتے ہیں، اب خبر جھوٹی ہے یا سچی اس کی کوئی سند نہیں۔ افواہیں پھیلانا مذہبی اعتبار سے تو سخت گناہ ہے ہی لیکن اس کا معاشرتی رُخ بھی بہت بھیانک ہے۔ عابد علی بیمار ہوئے تو موت کی افواہ پھیلائی گئی۔ پھر اُن کی بیٹی نے ہاتھ جوڑ کے اپیل کی کہ ابھی ابو ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں خدا کے لیے ابھی نہ مارو ظالمو! پھر کچھ ہی عرصہ بعد عابدعلی سچ مچ چل بسے۔ ماجد جہانگیر افواہ کا شکار ہوئے۔ کاش ظالم یہ جان سکیں کہ اپنے کسی پیارے کی موت کی خبر گھر والوں کے لیے قیامت سے کم نہیں۔ کاش وہ یہ جان سکیں کہ کسی معصوم پہ تہمت لگانا کتنا بدترین عمل ہے۔
ہماری فلم انڈسٹری کے نامور اداکار شفقت چیمہ جو فلموں میں ولن کے کردار میں بہت جچتے ہیں، ان کے ساتھ بھی کسی نے یہ بھونڈی حرکت کی کہ اُن کے بچوں کے حوالے سے ایک ایسی خبر پھیلا دی جس کا حقیقت سے دور دُور تک واسطہ نہ تھا۔ بعد میں جب اُنہوں نے گھر فون کرکے بچوں کی خیریت دریافت کی تو اطمینان ہوا کہ الحمدﷲ سب سلامت ہیں۔
عابد علی بیمار ہوئے تو موت کی افواہ پھیلائی گئی۔ پھر اُن کی بیٹی نے ہاتھ جوڑ کے اپیل کی کہ ابھی ابو ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں خدا کے لیے ابھی نہ مارو ظالمو! پھر کچھ ہی عرصہ بعد عابدعلی سچ مچ چل بسے۔ ماجد جہانگیر افواہ کا شکار ہوئے۔ کاش ظالم یہ جان سکیں کہ اپنے کسی پیارے کی موت کی خبر گھر والوں کے لیے قیامت سے کم نہیں۔ کاش وہ یہ جان سکیں کہ کسی معصوم پہ تہمت لگانا کتنا بدترین عمل ہے۔
بسا اوقات مشہور شخصیات کو بہت کرب جھیلنے پڑتے ہیں، ان کے گھر والوں کو بھی یہ عذاب بھگتنا ہوتا ہے۔ غلط خبر، سکینڈل، طعنہ، منفی کمنٹس ، لعنتیں یہ سب کچھ فنکاروں کے ساتھ ساتھ ان کے اہلِ خانہ کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پستی کی عمیق گہرائیوں میں اُترتے لوگ اب اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اُن کے کس عمل سے کون متاثر ہوسکتا ہے۔ بس ایک مشغلہ ہے سوشل میڈیا جس کا جو چاہے،جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔
ہم نے بہت لوگوںکو پچھلے برس کھویا۔ کون جانتا ہے کہ کس اعصابی تنائو سے کون گزرا اور کیسے اس کا مقابلہ کیا، تاہم یہ بات تو ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال زہرِ قاتل ہے۔ کتنی ہی معصوم لڑکیاں اس کا شکار ہوئیں اور ان کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ صرف اسٹارز ہی نہیں، عام لوگ بھی اس کے غلط استعمال سے متاثر ہوئے ہیں۔
یوں تو سائبر کرائم کے حوالے سے قانون موجود ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کرنی ہوگی۔پہلے پی ٹی وی پر جو ڈرامے یا پروگرام چلتے تھے ان کا واضح مقصد اصلاحِ معاشرہ ہوتا تھا۔ یعنی کوئی ایسا پیغام جس سے سماج میں بھلائی آئے۔اب جو بعض چینلز پر ہو رہا ہے عوام پر اس کے کیا اثرات ہوںگے کسی کو پروا نہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں اپنے بچوں کی گھروں میں ہی ایسی تربیت کرنی پڑے گی کہ وہ انسان کی عزت و توقیر کی اہمیت کو سمجھیں۔ تعلیمی ادارے یا میڈیا تو اب کسی کی بھی کردار سازی نہیں کررہا، ہمیں خود یہ کام کرنا پڑے گا اور ابتداء اپنی ذات سے کرنا ہوگی۔
مضمون نگار معروف ادا کارہ' کمپیئر اور مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے