زکوٰة کے لغوی معنی'طہارت اور نمو' جب کہ ایک اور جگہ 'پاکیزہ کرنا یا پروان چڑھانا'کے آتے ہیں۔ انہی صفتوں کے لحاظ سے اصطلاح میں 'زکوٰة' اس مالی عبادت کو کہتے ہیں؛جو ہر صاحب نصاب مسلمان پر اس لیے فرض کی گئی ہے کہ خدا اور بندوں کا حق ادا کرکے اس کا مال پاک ہوجائے اور اس کا نفس، نیز وہ سوسائٹی جس میں وہ رہتا ہے، بخل، خود غرضی، بغض کے جذبات اور رویوں سے پاک ہو اور اس میں محبت واحسان، فراخ دلی اور باہمی تعاون و مساوات کے اوصاف نشوونما پائیں۔
زکوٰة اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔
زکوٰة کا بنیادی مقصد غریبوں کی مدد، معاشرتی فلاح و بہبود میں صاحب ثروت لوگوں کا حصہ ملانا اور مستحق لوگوں تک زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچانا ہے۔
زکوٰة کی اقسام:
زکوٰة کی بنیادی طور پر 2قسمیں ہیں۔
(١)مال کی زکوٰة (٢)اَفراد کی زکوٰة(یعنی صدقہ فطر)
مال کی زکوٰة کی مزید دو قسمیں ہیں:
(1) سونے، چاندی کی زکوٰة۔
(2) مالِ تجارت اور مویشیوں، زراعت اور پھلوں کی زکوٰة(یعنی عشر)۔
زکوٰة کی فرضیت:
زکوٰة کا حکم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا، البتہ نصاب اور مقدارِ زکوٰة کا بیان ہجرت کے بعد سن دو ہجری میں مدینہ طیبہ میں آیاجبکہ زکوٰة کی وصولی کا نظام فتحِ مکہ کے بعد عمل میں آیا۔
زکوٰة کی اہمیت
زکوٰة کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکوٰة کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے۔
زکوٰة چار چیزوں پر فرض ہے۔
سونا چاندی، زمین کی پیداوار،مال تجارت، جانور
زکوٰةکے مستحق لوگ
مساکین ، غریب، مقروض، قیدی،اﷲ کی راہ میں لڑنے والے،مسافر
زکوٰةوصول کرنیوالے (سورہ التوبہ :60)
دینِ اسلا م درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کے ادا کرنے کادوسرا نام ہے۔ نماز اور زکوٰة ہمیں انہی دو قسموں کے حقوق کی یاد دلاتے ہیں۔ مولانا حمیدالدین فراہی جو کتابِ الٰہی کی حکمتوں پر گہری نظر رکھتے تھے، فرماتے ہیں:نماز کی حقیقت بندے کا اپنے رب کی طرف محبت اور خشیت سے مائل ہونا ہے، اور زکوٰة کی حقیقت بندے کا بندے کی طرف محبت اور شفقت سے مائل ہونا ہے۔
(تفسیر نظام القرآن، ص9)
زکوٰة ادا کرنے سے انسان کا نفس بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ اتنا خود غرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی دولت میں سے اللہ کا حق ادا نہیں کرتا، تو اس کا مال بھی ناپاک رہتا ہے اور اس کا نفس بھی ناپاک رہتا ہے۔ نفسِ انسانی کے لیے تنگ دلی، احسان فراموشی اور خود غرضی سے بڑھ کر گھٹن اور ناپاکی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ زکوٰة ان لوگوں کے مسئلے کا حل ہے جو غریب اور محتاج ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کریں اور کوئی بھائی بھوکا ننگا اور ذلیل و خوار نہ ہونے پائے۔
رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، نہ صرف یہ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارے کی ایک منفرد فضا قائم ہو جاتی ہے۔ یہ فیضان اس ماہ مبارک کی ایک خاص نعمت الٰہی ہے۔چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر امراء کا اپنے اموال کی زکوٰة نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکوٰة کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکوٰة کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ: رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس لیے اس موقع پر مناسب معلوم ہوا کہ اس ماہ میں جہاں رمضان، روزہ اور ان سے متعلق ہر ہر عبادت پر لکھا جاتا ہے اور خوب لکھا جاتا ہے،وہاں اسی مہینے میںزکوٰة پر بھی لکھا جائے، تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے اپنے اس فریضے کو ادا کریں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریںجو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکوٰة رمضان میں نکالنی ہے۔
بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ: ''زکوٰة نکالنے والا اپنی زکوٰة کی ادائیگی میں زکوٰة کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھے اور وقت پر زکوٰة نکالے اور اس کے لیے رمضان کا انتظار نہ کرے۔''
زکوٰة نکالنے کے اجرات و ثمرات
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر فعل میں انسان اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے، بس اپنی نیت کی تصحیح ضروری ہوتی ہے۔ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے، تو درجات میں وہ سب سے بدتر بندہ ہے۔ اسی طرح جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے، پس اس کا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
(ترمذی شریف کتاب الزہد رقم الحدیث:4,5232/265)
زکوٰة کی فرضیت کے متعلق قرآن کیا کہتا ہے؟
کائنات کے خالق نے زکوٰة کا فرض فقیر ومسکین اور ان جیسے بندوں کے لیے متعین کیا۔ زکوٰة اسلام کا وہ خوب صورت اقتصادی ومعاشی نظام ہے جو اقتصادی و معاشی سطح پر کمزور اور مجبور لوگوں کو مضبوط کرتا ہے۔ایک صاحب نصاب عاقل بالغ مسلمان پر زکوٰة کی ادائیگی فرض ہے۔ اس کی فرضیت قرآن کریم، احادیث شریفہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں اس کی فرضیت کا ذکر ہے، مثلا:
وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ. (بقرة: 43) ترجمہ: ''اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو۔''
اسی طرح متعدد حدیثیں زکوٰة کی فرضیت پر دلالت کرتی ہیں، مثلا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ہدایت دی تھی۔ترجمہ: ''انھیں بتادیں کہ اللہ تعالی نے ان کے مال میں صدقہ (زکوٰة) فرض کیا، جو ان کے اہل ثروت سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء کے درمیان بانٹا جائے گا۔'' (صحیح البخاری: 1395)
نصاب کیا ہے؟
زکوٰة کے فرض ہونے کے لیے مال کا'نصاب' کے برابر ہونا ضروری ہے۔ مال کا نصاب کیا ہے؟'نصاب' مال کی ایک معین مقدار ہے۔ وہ معین مقدار موجودہ اوزان کے اعتبار سے 87 گرام، 480 ملی گرام سونا ہے۔ اسی طرح موجودہ اوزان کے اعتبار سے 612 گرام، 360 ملی گرام چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد روپے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی تاجر کے پاس اس قدر وقیمت کے برابر کا سامان تجارت ہے۔ اگر کوئی شخص مال کی مذکورہ معین مقدار کا مالک ہے تو اس کے مال میں زکوٰة فرض ہے۔اب اسے چاہیے کہ بطور ِزکوٰة اس مال کااڑھائی فیصد زکوٰة کے مصارف میں سے کسی کو دے کر اس کا مالک بنادے۔
اللہ تعالیٰ نے اگر ایک مسلمان کو مال ودولت سے نواز کر'نصاب' کا مالک بنا دیا ہے تو اب اس شخص کی یہ ذمے داری ہے کہ فقیروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو زکوٰة دے۔
زکوٰة دینے والے کو زکوٰة لینے والوں سے اس زکوٰة کے عوض کسی طرح کے دنیاوی منافع یا احسان وشکریہ کی امید نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالی زکوٰة دینے والوں کو نہ صرف آخرت میں اجر وثواب عطا فرمائیں گے،بلکہ دنیا میں بھی ان کو بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات دیں گے۔
زکوٰة دینے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰة کو مستحقین تک بحسن وخوبی پہنچانے کی پوری کوشش کریں۔ اگر زکوٰة دینے والے لوگ منظم طریقے سے اپنی زکوٰة مستحقین تک پہنچانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں، تو امید واثق ہے کہ سماج کا کوئی بھی فقیر ومسکین اور ضرورت مند شخص بھوکا نہیں سوئے گا اور بہت جلد معاشرے کے فقراء ومساکین کی معاشی صورت حال کو سدھارا جاسکتا ہے۔
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ''جو بھی سونے اور چاندی والا اپنے سونے اور چاندی کی زکوٰة (بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے)نہیں دیتا تو قیامت کے دن اس کے سونے اور چاندی کی تختیاں بنا کر جہنم میں انہیں تپا کر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ (پشت)کو داغا جائے گا۔ جب جب تختیاں سردہوں گی انہیں گرم کیاجائے گا اور وہ بھی ایسا گرم کہ تختیوں پر جہنم کی آگ رکھی جائے گی تاکہ تختیاں اور زیادہ تپ جائیں، کیوں کہ جس چیز پر آگ رکھی جاتی ہے وہ چیز زیادہ تپ جاتی ہے۔ان گرم تختیوں سے مسلسل عذاب دیا جاتا رہے گا، ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے، تو وہ اپنا راستہ دیکھے کہ جنت کی طرف ہے یاجہنم کی طرف؟
مال میں بخل سے کام لینے والوں کے لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ:''جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے، وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق میں ڈالے جائیں گے۔''
(سورةآل عمران: 180)
آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک صحیح حدیث بھی وارد ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: ''جسے اللہ تعالی ٰ نے مال دے رکھا ہے اور وہ اس کی زکوٰة ادا نہیں کرتا، تو وہ مال اس کے لیے نہایت خطرناک ڈراؤنے، زہریلے، گنجے سانپ کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس پر دو سیاہ نقطے ہوں گے (جو خطرناک ہونے کی علامت ہوں گے) یا اس کے منہ سے زہریلی جھاگ نکل رہی ہوگی، وہ اس کے گلے میں قیامت کے دن مثل طوق ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اس کے دونوں گلپھڑوں کو پکڑلے گا اور کہے گا: ''میں تیرا مال ہوں، میں تیرا کنز ،خزانہ ہوں''
العیاذ باللہ! اتنا خطر ناک عذاب، وہ بھی گھنٹہ دو گھنٹے کا نہیں پورے پچاس ہزار سال تک کا۔
پس! ان وعیدوں کو سنتے اور پڑھتے ہوئے ہمیں نصیحت پکڑنی چاہیے اور اگر ہم صاحب نصاب ہیں تو اپنے مال کی بروقت زکوٰة ادا کرکے عذاب الٰہی سے دنیاوی اور اخروی گلو خلاصی کروانی چاہیے۔
رمضان سے زکوٰة کو منسلک کرکے تاخیر نہیں کرنی چاہیے،بلکہ حتمی تاریخ یاد رکھ کر زکوٰة کی رقم اپنے مال سے منہا کرکے مستحقین تک پہنچانی چاہیے۔
مضمون نگار متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے