پا کستان میں ریٹائرمنٹ کی اوسط عمر 60 برس ہوتی ہے اور عمومی رائے کے مطابق، ریٹائرڈ لائف کو اکثر زندگی کی تمام تر خوشیوں اور رعنائیوں کا آخری باب سمجھا جاتا ہے۔شاید اس لیے کہ ان کی زندگی کا محور زندگیوں کو پالنا ہو تا ہے یعنی 5- 9 والی جاب ہوتی ہے۔ساری زندگی یہ گھر سے آفس اور آفس سے گھر تک کا سفر طے کرنے میں گزار دیتے ہیں اور اسی کو زندگی مانتے ہیں۔حالانکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔اللہ سبحان وتعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات کا رتبہ عطا کیا تاکہ ہم دنیا مسخر کریں نہ کہ لکیر کے فقیر بن کر رہ جائیں۔حرکت ہی میں ہماری بقا ہے اور جہاں رکے وہیں ختم۔معاشرے میں ان کاکردار ایک تناور درخت کی مانند ہوتا ہے جو اگر پھلدار ہو تو پھل دیتا ہے اور اگر نہ ہو تو بھی ٹھنڈ ی چھائوں ضرور دیتا ہے۔گھر میں یہ ایک نسل کو پروان چڑھانے کی تگ و دو میں سرگرم رہتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ زندگی گزار تو رہے ہوتے ہیں، پر جینا بھول جاتے ہیں۔جی ہاں دوستوں، ہم بات کر رہے ہیں عمر رسیدہ لوگوں کی۔ ہم ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چند مثبت اقدامات پر غورکریں گے جو ان کی ریٹائرڈ لائف کو مثبت اور بھر پور بنا دیں۔
جدت اپنائیں، خود کو بدلیں:
انسان زندگی میں کئی ادوار سے گزرتا ہے۔ہر دور کا ایک تقاضا ہوتا ہے۔باشعور لوگ اپنے آپ کو اسی تقاضے کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔یہی قدرت کا نظام بھی ہے چونکہ ریٹائرڈ لائف زندگی کا ایک نیا دور ہوتا ہے، اس کو پرانے طرز عمل پہ گزارنے میں دشواریاں پیش آئیں گی۔ہمیں اپنی سوچ، طرز زندگی اور شخصیت میں رونما تبدیلیاں لانا پڑیں گی تبھی جا کر ہم زندگی کو انجوائے کر سکیں گے۔سب سے پہلے ہمیں اپنیغذا اور روٹین کو بدلنا ہے،چونکہ بڑھتی عمر جسم کے ہر عضو پر اثر انداز ہوتی ہے ایسے میں ہمیں بدہضمی سے، دل کے امراض سے، کمزور یاداشت سے اور جوڑوں کے درد سے محفوظ رہنا ہے۔ہری سبزیاں، پھل، خشک میوہ جات، مچھلی ،دودھ، دہی اور انڈے ہر عمر کے افرادکے لیے صحت افزا غذا میں شمار ہوتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ عمر رسیدہ لوگ اعتدال پسندی اپنا ئیں اور فرائیڈ کی جگہ سٹیمڈ فوڈ کو ترجیح دیں۔ ان میں کیلوریز کم ہوتی ہیں۔صحت مند غذا کے ساتھ پرانی روٹین کا پیوند لگانے سے بات نہیں بنے گی، یہ ایک نیا دور ہے، پرانا کوئی فارمولا کام نہیں آئے گا۔ہمیں نئی روٹین سیٹ کرنا ہو گی۔
جدید تحقیق کے مطابق، صبح سویرے جاگنے والے ہائے اچیورز ہوتے ہیں۔آپ بل گیٹس ، ایلان ماسک یا مارک زاکربرگ کی سوانح حیات پڑھ کر دیکھیں، ان سب کی ترقی کے عناصر میں ایک عنصر، صبح اٹھنا بھی ہے۔دن ہر ایک کے لیے 24 گھنٹے کا ہی ہوتا ہے لیکن با مقصد ، مثبت سوچ اور زندگی میں کچھ کر گزرنے کے خواہشمند لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں اور آسانی سے زندگی کے سنگ میل طے کرتے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہے، صبح جلدی اٹھنا ہے، واک یا ورزش کی عادت اپنانی ہے۔واک یا ورزش کے بعد ہمارا جسم اینڈوفیرن ہارمونز جنہیں ہیپی ہارمونز بھی کہا جاتا ہے، ریلیز کرتا ہے جو ہم میں ایک خوشی کی لہر پھونک دیتا ہے اور سارا دن ہمیں ایکٹو بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں نئی اور مثبت عادتوں کو اپنائیں۔چاہے وہ کتب بینی ہو، باغبانی ہو یا نئے ممالک کی سیر کرنا ہو، یہ آپکے ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہترین ہیں اور شخصیت میں خود اعتمادی کو کئی گنا بڑھا دے گا۔
ٹوٹی کڑیوں کو جوڑنا:
ٹوٹی کڑیاں ہمیشہ ادھورے پن کا احساس دلاتی ہیں اورایک اضافی سامان کی مانند بوجھ بن کر تھکا دیتی ہیں۔وہ ادھورے رشتے ہوں، ادھورے خواب یا ادھورے مقصد،انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے ہی سکون ملتا ہے اور ریٹائرڑ لائف یہ سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔یہ انسان کی زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جب وہ تمام ترذمہ داریوں اور فرائض سے سبکدوش ہو چکا ہوتا ہے۔فراغت کے اس دور کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔انٹرنیٹ نے جہاں دنیا کو کوزے میں بند کر لیا ہے وہیں حقیقی رشتوں میں میلوں فاصلے پیدا کر دییہیں۔آج رابطے انسٹاگرام اور فیس بک پہ تصویروں کو لائیک کرکے اور واٹس ایپ پہ میسج کرکے رکھے جاتے ہیں۔تیز رفتار زندگی اور وقت کی کمی کی وجہ سے گھروں میں ملنے ملانے کا رواج بھی آہستہ آہستہ ختم ہو تا جا رہا ہے۔بہن بھائی، دوست احباب اور عزیزواقارب سب دنیا کی بے ہنگم بھیڑ میں اپنا اپنا کردار نبھاتے ہوئے کہیں کھو گئے۔اگرچہ اب موزوں وقت ہے ان رشتوں میں آنے والی دوریوں کو ختم کرنے کا۔ایک ہی شہر میں رہنے والوں کو وقتاً فوقتاً ملتے رہیں۔ اگر دوسرے شہر میں ہیں تو ان کے ساتھ وقت گزاریں، ساتھ ایک نیا شہربھی دیکھیں۔پردیس میں رہنے والوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے میں رہیں۔یہ رشتے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کی نگہداشت کے لیے وٹامن کی افادیت رکھتے ہیں۔یہ رشتے ہماری خوشیوں کے امین ہوتے ہیں۔
مقصد سے جُڑیں
البرٹ آئین سٹائن کہتے ہیں :''اگر آپ خوشگوار زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اسے لوگوں یا چیزوں سے نہیں، بلکہ کسی مقصد سے جوڑیں''بیشک بامقصد زندگی وہی ہوتی ہے جو دوسروں کی خدمت کرتے گزرے۔مقصد چھوٹا ہو یا بڑا، اسکول بنانا ہو یا محض چند کتابیں قریبی لائبریری کے لیے مختص کرنا، وہ زندگی میں جینے کی امنگ بھر دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم دوسروں کے مسائل سلجھانے میں مصروف ہوتے ہیں قدرت بڑ ی خاموشی سے ہمارے دکھوں کی گرہ کھولتی رہتی ہے۔مقصد کو پا لینے کے سفر میں ہر مرحلہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اسے پار کرنے پہ خوشی کا جو احساس ہوتا ہے وہ قابل بیان بھی نہیں۔اپنے آپ کو کسی بھی مقصد کے ساتھ جوڑ لینا اپنے آپ کو ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو تحفہ دینے کے مترادف ہے۔قائد اعظم ، علامہ محمد اقبال اور عبدالستار ایدھی چند روشن مثالیں ہیں۔
اپنی کہانی سنائیں :
ہر انسان کی ایک کہانی ہوتی ہے جو سب سے مختلف اور شاید اسی لیے دلچسپ بھی ہوتی ہے۔بعض اوقات تو ہم اپنے قریب ترین لوگوں کی بھی کہانی جانے بغیر انہیں کھو بیٹھتے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ ان کی کہانی بھی ان سنی رہ جاتی ہے. آپ نے ہرگز ایسا نہیں کرنا۔ زندگی بھر کی تلخ حقیقتیں، تجربات اور سنہرے باب سب قلمبند کرنا ہے۔آپ کو اپنی کہانی آنے والی نسل کو سنانی ہے۔اپنا علم اوروں میں بانٹ کر جانا ہے۔
یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ عمر رسیدہ لوگ اپنی زندگی کا سفر شیئر کرنے میں بڑی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ان کے پاس بانٹنے کو خزانہ ہوتا ہے، ایسے میں لکھائی کے ذریعے محض چند لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس خزانے سے مستفید کریں۔ نیورولوجسٹ کہتے ہیں لکھائی دماغ کا یوگا ہوتی ہے۔ یہ یادداشت پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔جہاں بھر کی معلومات جو دماغ میں بے ترتیبی سے پڑی رہتی ہیں، انھیں تر تیب دینے میں مدد دیتی ہے۔ایک مقصد سے جوڑے رکھتی ہے اور ہر دن کچھ نیا لکھنا خوشی اور کامیابی کا احساس دلاتی ہے۔سب سے بڑھ کر لکھائی احساس تنہائی کو ختم کر دیتی ہے۔
پودا ہو یا قد آور درخت ،وہ جڑوں سے الگ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔کوشش کریں کہ عمر کے اس حصے کو اپنے ملک، اپنے رشتہ داروں میں گزاریں۔اپنے دیس کی گلیاں، پرانا محلہ اور دوستوں کا ساتھ جہاں طبیعت کو تازہ دم کرتے ہیں وہیں ہماری آسودگی کے ضامن بھی ہوتے ہیں۔اپنی جڑوں سے جڑے رہیں اور پھلتے پھولتے رہیں۔
مضمون نگار مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے