پانڈو کی عظیم فتح ہمارے جانبازوں کی عدیم المثال قربانی، جہادی جذبے ، بہترین عسکری پلاننگ اور محدود وسائل کے عمدگی سے استعمال کی اعلیٰ مثال تھی۔یہ نہ صرف تدبیراتی لحاظ سے بلکہ تزویراتی لحاظ سے بھی ایک بڑی مثال تھی۔ اس کی وجہ سے اوڑی (اب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہے) سے چناری تک تقریباً 25 کلو میٹر کا علاقہ جس میں سے 16 کلومیٹر کا علاقہ جو دشمن کے پاس ہے براہِ راست ہماری آبزرویشن میں آگئے تھے۔ پانڈو میں دشمن کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بہت بڑے علاقے سے اُس کو ہاتھ دھونا پڑے۔ جنگ کشمیر کے بارے میں بھارتی کتابDefending Kashmirمیں پورے پانڈو آپریشن کو صرف ایک فقرے میں بیان کیاگیا ہے : .Pakistan launched a counter attack at Pandu and re-captured it
جہاد کشمیر(1947-48) کے دوران لڑے گئے معرکوں میں دو کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ایک چُنج پہاڑی کی فتح (بلندی9444فٹ(جو ٹیٹوال سیکٹر میں دریائے نیلم کے کنارے واقع ہے اوردوسری پانڈو (بلندی9300فٹ)کی عظیم فتح جو چکوٹھی اوڑ ی سیکٹر میں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے۔
پانڈو پہاڑی چکوٹھی کے بالکل سامنے شمال میں مظفرآباد سے تقریباً55 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یہ تین پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جو پانڈو کے مقام پر آپس میں ملتی ہیں اور اس جگہ کی بلندی 9300 فٹ ہے۔ جون 1948 کے آخر میں اس جگہ بھارتی فوج کی دفاعی تعداد مندرجہ ذیل تھی۔
انفنٹری :
• دو بہار رجمنٹ (ہیڈکوارٹر اور ایک کمپنی۔ پانڈو گائوں اور بوما میں)
• بہار رجمنٹ۔ دوکمپنیاں۔پوائنٹ6873اور جنوب مغربی ڈھلوان پر
• بہار رجمنٹ ایک کمپنی۔ چھوٹا قاضی ناگ اور سفیدہ جنگل میں۔
• ہیڈکوارٹر ڈوگرہ رجمنٹ اور دو کمپنیاں۔سنگ پہاڑی(10490فٹ)
• ایک کمپنی۔ کتھائی نالہ کے مغرب میں۔
• سکھ رجمنٹ۔ کنڈرکوزی جنگل میں ۔
• دو کمپنیاں۔خان موہڑی اور ڈنہ(پانڈو کے مشرق میں) کھتڑنار۔
آرٹلری
ایک مائونٹین رجمنٹ ۔ دو فیلڈ بیٹریاں اور ایک میڈیم بیٹری
دشمن کو ائر فورس کی مدد بھی حاصل تھی اور پوزیشنوں کے سامنے بارودی سرنگیں بھی تھیں۔
اپنی سپاہ کی یہ پوزیشن تھی۔
• گیارہ بلوچ۔ کتھائی نالہ کے مغرب میں بب ڈوری ایریا میں۔
• آزاد رجمنٹ کتھائی نالہ کے مغرب میں۔
• دو پلاٹون خیبر رائفلز۔ نانگا ٹک۔ کتھائی نالہ کے شمال مغرب میں
• تین لشکر۔ (200قبائلی فی لشکر)نانگا ٹک کتھائی نالہ کے شمال مغرب میں
• ایک کمپنی۔ 19بلوچ ۔
• دو کمپنیاں۔ مظفرآباد بٹالین۔
• نو پنجاب۔ مشین گن پلاٹون
آرٹلری
1مائوٹین بیٹری۔ ایک سیکشن 3فیلڈ رجمنٹ ۔ ایک سیکشن 8میڈیم رجمنٹ ۔
حملے کے لیے تمام ابتدائی تیاریاں جون کے آخر ی ہفتے اور جولائی کے شروع میں مکمل کرلی گئی تھیں۔
ابتدائی آپریشن
پانڈو پر بڑے حملے سے پہلے ''آپریشن سَنتاسنگھ'' (Santa Sinngh)کے کوڈ نام سے مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کے لیے جون48 میں ایک چھوٹا آپریشن شروع کیاگیا جو 15-16 جولائی تک جاری رہا۔
(ا) دشمن کی سپاہ اور ہتھیاروں کی زمین پر پوزیشن ۔
(ب) جارحانہ پٹرولنگ اور اچانک حملوں کے ذریعے دشمن کی سپاہ کے پہلوئوں کی سامنے والی پوسٹوں اور پچھلے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرنا۔
اس تدبیراتی ایکشن کے ذریعے دشمن اپنے دفاعی مورچوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ اس آپریشن کے لیے پاکستانی کمانڈر نے تقریباً 400 آزاد رجمنٹ کے فوجی، کچھ قبائلی لشکر اور خیبر رائفلز کی دو پلاٹونوں کو استعمال کیاتھا۔ اُن کے ساتھ آرٹلری کی ایک گن بھی براہِ راست مدد کے لیے موجود تھی۔ اس فورس نے دشمن کے 580 فوجیوں کو نقصان پہنچایا جن میں سے 230 واصل جہنم ہوئے تھے۔ دشمن کے 2 جہاز بھی مشین گن اور چھوٹے ہتھیاروں سے گرائے گئے تھے۔ دشمن کا موسم ِ گرما کا بڑا حملہ جو اوڑی اور ٹیٹوال سیکٹر میں اُس نے کرنا تھا، وہ بھی قریباً 6/7 ہفتے کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ ہمارے اس آپریشن میں30آدمی شہید اور70 زخمی ہوئے ۔ یہ بنیادی طور پرHit and Runقسم کا آپریشن تھا۔
حملے کا منصوبہ
بریگیڈ کمانڈر101 بریگیڈیر اکبر خان نے حملے کی مکمل پلاننگ کے بعد17 جولائی 1948 کو پانڈو پر حملے کے لیے احکامات جاری کیے۔
حملہ20/21 جولائی کی رات کو کیا جائے گا۔ اُس سے ایک دن پہلے تمام حملہ آور سپاہ اپنے اپنے اسمبلی ایریاز میں پہنچ جائے گی۔
حملے کے لیے 11 بلوچ ، ایک کمپنی19 بلوچ ۔ دو کمپنیاں آزاد مظفرآباد بٹالین، 2پلاٹون خیبر رائفلز،3 لشکر (300 آدمی) مشین گن پلاٹون 9پنجاب ، آرٹلری ایک مائونٹین بیٹری۔2 گنز3فیلڈ رجمنٹ۔2 گنز 8میڈیم رجمنٹ۔ ایک انجینئرز پلاٹون۔ ریزرو۔4FF-رجمنٹ کی دو کمپنیاں ہیڈکوارٹرکے ساتھ بب ڈوری میں۔6عدد فارورڈ آبزرویشن آفیسرز(FOO) آرٹلری سے ۔
مندرجہ ذیل وجوہ کی بنیاد پر ناگہانیت(اچانک پن)اور حملے کا خفیہ رکھنا اس آپریشن کا ایک لازمی جزو تھا۔اول: حملے کا ایک بڑا وسیع علاقے میں پھیلائو۔ دوم:بہت اونچے پہاڑ جہاں دشمن موجود تھا۔ سوم:عمودی چڑھائیاں۔ چہارم:ہدف تک لمبے اور مشکل ترین راستے ۔ پنجم:حملے کی جگہ کی طرف جانے والے راستوں کا براہِ راست دشمن کی آبزرویشن اور فائرکی زد میں ہونا۔
اس لیے پانڈو پہاڑ کے اطراف میں دشمن کی تمام پوزیشنوں اور پانڈو کی چوٹی کے درمیان اپنی سپاہ کو اس طریقے پر Deploy کیا گیا تھا کہ دشمن مختلف اطراف سے پانڈو پر ہمارے حملے میں رخنہ نہ ڈال سکے۔ اس مقصد کے لیے پوائنٹ 6873 کنڈر کوزی جنگل۔ سنگ(1040فٹ) اور کھترنار پوزیشنوں پر چھوٹے پیمانے کے حملے بھی منصوبے کا حصہ تھے۔ آرٹلری فائر سپورٹ کو یقینی بنانے کے لیے ہر حملہ آور دستے کے ساتھ ایک فارورڈ آبزرویشن آفیسرمنسلک کیاگیا تھا۔ مقامی سویلین گائیڈز بھی استعمال کیے گئے تھے تاکہ حملے کی اجتماع گاہوں تک بخیر و خوبی پہنچا جاسکے۔
lایک کمپنی آزاد رجمنٹ اور ایک لشکر دشمن کی سپاہ جو سنگ(Sing) پوزیشن میں مورچہ زن تھی، کو اپنے فائر سے اس طرح مشغو ل رکھے کہ وہ پانڈو پر بڑے حملے میں دخل اندازی نہ کرسکے۔
lمحسود لشکر کیپٹن خالد کی کمانڈ میں پوائنٹ6873پر مغرب کی طرف سے حملہ کرے گا تاکہ دشمن کی توجہ ہمارے بڑے حملے سے ہٹ یا بٹ جائے
lبڑا حملہ 11بلوچ اور4 بلوچ کی ایک کمپنی کے ذریعے کیا جائے گا۔ جس میں ایک کالم دو کمپنیوں کے ساتھ دریائے جہلم کے ساتھ میرا گائوں کی طرف سے تقریباً70-80 ڈگری کے زاویے پر تھی، چڑھنے کے بعد پانڈو ٹاپ پر پوائنٹ 9300 پر حملہ کرنا تھا۔ یہ نہایت مشکل چڑھائی تھی اسی لیے اس طرف سے حملہ کرنے کا کوئی کمانڈر سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ عسکری زبان میں یہ Least Expected اپروچ تھی۔ دشمن نے اسی لیے اُس طرف اپنی کوئی فوج نہیں رکھی تھی۔ اندازہ کریں کہ ہماری اس طرف اوپر چڑھنے والی سپاہ نے تین گھنٹے میں ایک میل کا فاصلہ طے کیا تھا اور پوری رات چڑھنے کے بعد صبح 4 بجے پانڈو ٹاپ پر پہنچے تھے اور اس دوران دریائے جہلم سے پانڈو ٹاپ تک تقریباً 6 ہزار فٹ کی بلندی طے کی تھی۔ دوسرے کالم نے دو کمپنیوں کے ساتھ کرنل شیر بہادر کی قیادت میں بوما گائوں سے پانڈو گائوں پر مغرب کی طرف سے حملہ کرنا تھا۔
پانڈو پر حملہ
حملہ منصوبے کے مطابق عمل میں لایاگیا۔ رات بارش شروع ہوگئی۔ ٹیلی فون لائن بھی ساتھ ساتھ بچھائی جارہی تھی۔ وائرلیس کی خاموشی تھی۔ بارش کا یہ فائدہ ہوا کہ دشمن کو کسی بھی حرکت کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جوانوں نے برساتیاں پہن لی تھیں۔ کچھ مقامی لوگوں نے فالتو ایمونیشن، گینتی، بیلچے اور تاروں کے ڈرم اٹھائے ہوئے تھے۔ دو دن کے لیے پکا ہوا کھانا بھی سب کے پاس تھا۔ مقامی لوگ علاقے کی اونچ نیچ سے واقف تھے ۔اپنے فوجی مجاہدین اگر کہیں لڑھک جاتے تو یہ رضاکار اُن کی مدد کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ دشمن سے بڑے ٹکرائو سے پہلے اپنی حرکات یا ارادے دشمن کومعلوم نہ ہوں۔ اﷲ کے فضل و کرم سے پیش قدمی کرنے والے تمام دستے بروقت اپنی اجتماع والی جگہوں پر پہنچ گئے۔ حملہ21 جولائی صبح 4 بجے کیاگیا جو پوائنٹ 9300 اور پوائنٹ9178 پر تھا اور ساتھ ہی مغرب سے پانڈو گائوں پر کیاگیا۔ بھارتی بھی پوری قوت سے مقابلہ کررہے تھے۔ گھمسان کے رن میں ہمارا کچھ نقصان ہوا اور کچھ کامیابی بھی ملی۔ پانڈوگائوں پر قبضہ نہ ہوسکا۔ ہمارا وہ کالم جو جنوب کی طرف سے پانڈو ٹاپ حملہ آور ہوا تھا، نے اسی اثناء میں پوائنٹ 9300 اور پوائنٹ 9178 پر قبضہ کرلیا۔ دشمن نے اس جگہ ایک جوابی حملہ کیا جو پسپا کردیاگیا۔
کیپٹن خالد کے محسود قبائلی لشکر نے پوائنٹ 6873 پر22جولائی شام کے وقت حملہ کیا اور23 جولائی رات ہونے تک اُس جگہ پر قبضہ کرلیا۔ قبضے کے دوران کیپٹن خالد شہید ہوگئے تھے لیکن اُس وقت دشمن پسپا ہو کر پانڈو گائوں کی طرف راہِ فرار اختیار کرچکا تھا۔
کنڈر کوزی جنگل اور سفیدہ جنگل کے شمال میں دشمن کے کافی مضبوط دفاعی مورچے تھے۔دشمن کو حملہ کرکے ادھر سے نکالنا تھا یا اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ پانڈو گائوں کے علاقے میں ہمارے حملے کے دوران دخل اندازی نہ کرسکے۔ اپنی سپاہ کو اس علاقے سے غینم کے بنکروں سے لگاتار فائر کی وجہ سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا حملہ رُک گیا۔ خان گل جمال جس کا تعلق قمبر خیال قبیلہ سے تھا ،نے رضاکارانہ طور پر دشمن کے دو مشین گن مورچوں کو چند گز کے فاصلے سے ہینڈگرینیڈ سے تباہ کردیا۔ دشمن جلد ہی حوصلہ چھوڑ بیٹھا اور پوزیشن کو خالی کردیا۔ اس جگہ سے کافی ہتھیار اور گولہ بارود ہمارے ہاتھ لگا۔
اسی اثناء میں لیفٹیننٹ کرنل شیر بہادر (11 بلوچ) اپنی سپاہ کے ساتھ21/22 جولائی کی رات مغرب کی طرف سے پانڈو گائوں میں بہاررجمنٹ کی دفاعی پوزیشن کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ لیکن سخت مزاحمت کی وجہ سے فوراً حملہ نہ کرسکے اور پوزیشن لے لی۔ بریگیڈ کمانڈر نے 21/22 جولائی کی رات کو ہی4.FF کی دو کمپنیوں کو جوبطورِ ریزرو بب ڈوری میں موجود تھیں ، کو پانڈو ٹاپ پر پہنچنے کا حکم دیا تاکہ وہ11 بلوچ کی پہلے سے ادھر پہنچی ہوئی کمپنیوں سے ملاپ کریں اور پانڈو گائوں پر حملے میں ان کی مدد کریں۔4FF کی کمپنیاں23جولائی کی شام کو ادھر پہنچ گئیں۔4FF کی کمپنیوں کے پانڈو ٹاپ پر پہنچنے سے24 گھنٹے جارحانہ پٹرولنگ اور Harassing Fireکے ذریعے لگاتار دشمن کو زبردست ذہنی اورجسمانی دبائو میں رکھا گیا۔ کچھ جگہوں پر ہمارے لڑاکا پٹرول دشمن کی دفاعی پوزیشن کے اندر تک چلے گئے اور دست بدست حملے بھی کیے۔ ساتھ ہی ہماری آرٹلری کی طرف سے وقفے وقفے سے صحیح صحیح گولہ باری بھی کی گئی۔ جب کبھی بھی دشمن حملے کے لیے یا بھاگنے کے لیے اپنے مورچوں سے باہر آتا تو اس پر توپ خانے کا فائر کیاجاتا تھا۔
ہماری سپاہ چونکہ کھلے جنگل میں جو9000 فٹ کی بلندی پر تھا، میں پھیلی ہوئی تھی اور اس بلندی پر سخت سردی تھی۔ اس لیے پہلے پہل تو لشکریوں نے اور بعد ازاں ریگولر سپاہ نے بھی اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے جگہ جگہ آگ جلائی۔ جلد ہی دشمن نے دیکھا کہ تقریباًاُن کے تین اطراف میں آگ ایک دائرے کی صورت میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ منظر اُن کے اعصاب کے لیے ایک تازیانے سے کم نہ تھا۔
اسی دوران پانڈو گائوں پوزیشن پر لگاتار مارٹرز اور توپ خانے کی گولہ باری جاری رہی۔ مقامی لوگوں میں کچھ افراد جو اس وقت گائوں میں موجود تھے، کے مطابق دشمن کی صفوں میں مایوسی اور کھلبلی تھی اور وہ اس خیال میں تھے کہ اُن کو ہماری سپاہ نے قریباً تین اطراف سے گھیر لیا ہے اور انہوںنے وہ رات اُمید و بیم کی کیفیت میں گزاری۔ دشمن کے ساتھ پچھلے تین چار دنوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ افرادی قوت، ہتھیاروں ، توپ خانے اور ہوائی فوج کے لحاظ سے دشمن ایک برتر پوزیشن میں تھا۔ اُن کی زیادہ تر دفاعی پوزیشنیں بھی مضبوط اور اُن کے قبضے میں تھیں۔ دراصل اُن پر ہماری سپاہ کی طرف سے ناگہانیت اور تذبذب کی کیفیت نے منفی اثر ڈالا جس میں بڑا حصہ اُس ایکشن کا تھا جس میں ہماری سپاہ نے جنوب کی طرف سے ناممکن اپروچ کو سر کرکے پانڈو ٹاپ کی سب سے اونچی پہاڑی پر قبضہ کرلیا تھااور یہ اُن کے اعصاب کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ جس نے اُن کی لڑنے کی صلاحیت اور ہمت کو بری طرح متاثر کیاتھا۔ دشمن نے23 جولائی سے ہی اپنی پوزیشن کے سامنے اور جنوب کے علاقے میں توپ خانے کی زبردست گولہ باری شروع کرادی اورر ات گئے تک تقریباً دوہزار گولے فائر کیے۔ اس گولہ باری کی آڑ میں دشمن پانڈو گائوں سے نکل کر بغیر کسی بڑے نقصان کے مشرق میں خان موہڑی، سفیدہ، گندی گراں اور ڈنہ کی طرف پسپا ہوگیا۔ اس طرح ہمارے پانڈو گائوں پر حملے سے چند گھنٹے پہلے دشمن بڑی صفائی سے پانڈوپہاڑی اور گائوں سے فرار ہوگیا۔ اُن کی پسپائی کا اُس وقت پتہ چلا جب 24 جولائی صبح بریگیڈ کمانڈر کی ہدایات کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل سعید(4FF)، میجر حمید آفریدی11)بلوچ( اور کیپٹن سید غفار (4 بلوچ) پوائنٹ9178کے علاقے میں دشمن پر حملے کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے گئے۔
ہمارے پٹرولز، آرٹلری دیدبان اور11 بلوچ کے آگے والے دستے جو دشمن سے ملاپ میں تھے، نے بتایا کہ دشمن کے علاقے میں رات ہی سے کوئی حرکت یا فائر وغیرہ نہیں ہو رہا اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دشمن یہ علاقہ چھوڑ کر مشرق کی طرف پسپا ہوگیا ہے۔ اس پر کرنل سعید ایک پلاٹون کے ساتھ پانڈو گائوں میں گئے اور وہاں جا کر معلوم ہوا کہ انڈین فوج نے پانڈو گائوں میں تمام پوزیشن خالی کردی ہیں۔4FF نے آگے بڑھ کر گائوں میں دفاعی پوزیشن سنبھال لی۔ میجر آفریدی کی کمپنی پانڈو ٹاپ پر ہی رہی صرف اپنی دفاعی پوزیشن کو دشمن کے لحاظ سے ری ایڈجسٹ کرلیا۔
دشمن کی شکست کا نقطۂ عروج اس وقت منظر عام پر آیا جب دشمن کے کچھ فوجی اپنی دفاعی پوزیشن خالی کرکے سفیدہ جنگل کی طرف بھاگے تو محسود قبائل کے تقریباً100 لشکری اور آزاد یونٹ کے کچھ سپاہ نے اُن کا پیچھا کیا اور پھر اگلے 24 گھنٹے زیادہ تر خنجروں کے ساتھ دست بدست لڑائی میں اُن کا بہت زیادہ جانی نقصان کیا۔ جب یہ لوگ واپس آئے تو بہت سے ہتھیار ایمونیشن اور دوسرا جنگی سامان لائے۔ 24 جولائی شام تک پانڈو ٹاپ، پانڈو گائوں آس پاس کے تمام ایریا اور کتھائی نالہ کے مغرب کا تمام علاقہ دشمن سے پاک ہو چکا تھا۔ اسی دن دوڈوگرہ کمپنیاں جو سنگ سے پانًڈو کی طرف مدد کے لیے آرہی تھیں، کندر کوزی جنگل کے راستے مشرق کی طرف فرار ہوگئیں۔
اختتامیہ
اس معرکے (جہاد )میں ہمارا جانی نقصان تقریباً100 شہید اور زخمی تھے جن میں ایک آفیسر بھی شہید ہوا۔
دشمن کے ایک وائرلیس پیغام کے مطابق اُن کے 9 آفیسرز سمیت تقریباً300 سپاہی مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ سامانِ جنگ جو ہمارے ہاتھ لگا اُس میں125 رائفلز11- سٹین گنز7- لائٹ اورمیڈیم مشین گنز ، 2 مارٹرز ،1500 مارٹر بم اور 3,12000 چھوٹے ہتھیاروں کا ایمونیشن شامل ہے۔
پانڈو کی عظیم فتح ہمارے جانبازوں کی عدیم المثال قربانی، جہادی جذبے ، بہترین عسکری پلاننگ اور محدود وسائل کے عمدگی سے استعمال کی اعلیٰ مثال تھی۔یہ نہ صرف تدبیراتی لحاظ سے بلکہ تزویراتی لحاظ سے بھی ایک بڑی مثال تھی۔ اس کی وجہ سے اوڑی (اب بھارتی مقبوضہ کشمیر میںہے) سے چناری تک تقریباً 25 کلو میٹر کا علاقہ جس میں سے 16 کلومیٹر کا علاقہ جو دشمن کے پاس ہے براہِ راست ہماری آبزرویشن میں آگئے تھے۔ پانڈو میں دشمن کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بہت بڑے علاقے سے اُس کو ہاتھ دھونا پڑے۔ جنگ کشمیر کے بارے میں بھارتی کتابDefending Kashmirمیں پورے پانڈو آپریشن کو صرف ایک فقرے میں بیان کیاگیا ہے : Pakistan launched a counter attack at Pandu and re-captured it.
تبصرے