''میر احید ر شیر ہے ، شیروں کی طرح لڑا ہے میرا بیٹا ۔ ۔۔''جب کیپٹن سید حیدر عباس جعفری کو قبر میں اتارا جارہا تھا ، تو یہ وہ الفاظ تھے جو شہید کی ماں کے لبوں پر تھے۔ کیپٹن حیدر کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تو تھے لیکن ان آنسوئوں میں دکھ اور غم سے کہیں زیادہ فخر جھلکتا دکھائی دیتا تھا ۔اس ماں کے چہرے پر دکھ و کرب کے اثرات تو صاف نظر آ تے تھے لیکن ان کے پیچھے ایک سکون و طمانیت کا بھی احساس تھا۔ ماں کی جھکی کمر میں اردگرد کھڑے لوگوں کو ایک تفاخر نظر آ رہا تھا ،جو شہیدوں کی مائوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر موجود لوگوں کے لبوں سے بے ساختہ بس ایک ہی جملہ نکلتا ہے ، خدا ایسا بیٹا ہر ماں کو عطا کرے۔بے شک خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے حوصلے اور صبرآزما ئے جاتے ہیں اور وہ ان آزمائشوں پر پورا اترتے ہیں۔
21 اکتوبر 1996 کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہونے والے حیدر عباس جعفری پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان کی عادتیں بہت مختلف تھیں۔ وہ عمر جس میں نہ فکر فردا، نہ غم روزگار، بس ہنسنے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں ، اس عمرمیں بھی حیدر عباس کی آنکھوں میں ایک فوجی بننے کا خواب تھا ۔ بچپن میں جب کوئی ان سے پوچھتا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے تو ہمیشہ ان کا ایک ہی جواب ہو تا، فوجی ۔۔۔سکول میں جب کبھی کوئی فنکشن ہوتا تو وہ فوجی کردار میں نظر آتے ۔۔۔ اور تو اور ان کی شرارتوں سے بھی ان کے رجحان کا اندازہ ہوتا تھا ، شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ ایک شام جب سب گھر والے سو رہے تھے ، تو حیدر عبا س نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کرگھر میں پڑے ایک رسے کو چھت پر باندھا اور پھر فوجی کمانڈو کی طرح نیچے لان سے رسے کے ذریعے چھت پر چڑھنے کی کوشش کی ۔ جس پر ان کو اپنے والدین سے خوب ڈانٹ بھی پڑی ۔
آٹھویں جماعت کے بعد گھر والوں سے کیڈٹ کالج جانے کی ضد کی ۔ پانچ سال کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں گزارے اور کالج میں رہتے ہوئے ہی کمیشن کے لیے اپلائی کیا ۔ پڑھائی میں اتنے اچھے تھے کہ میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔ ہر ماں باپ کی طرح حیدر عباس کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بنے ۔ مگر حیدر عباس تو اپنے مقصد حیات میں واضح تھے ۔ انہوں نے نومبر2014 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی جوائن کی۔ عسکری تربیت مکمل کرکے 17اپریل2016کو ائیر ڈیفنس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنے بنیادی کورسز کی تکمیل کے بعدانہوں نے جذبہ شہادت کے تحت 15 اپریل 2019میں سپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی اورملک کی مایہ ناز بٹالین سکس کمانڈو کاحصہ بنے۔ ان کا دوسرا کوئی جنون تھا تو وہ مطالعے کی عادت تھی ۔ ان کی لائبریری میں مختلف موضوعات پر منفرد کتابوں کا بیش بہا خزانہ تھا ۔فوجی مصروفیات کے باوجود ان کے مطالعے کی عادت جاری رہی اور بحیثیت ایس ایس جی کمانڈو بھی انہوں نے کتب بینی ترک نہ کی بلکہ شہادت کے بعد ان کے مخصوص باکس سے بھی کتابیں ملیں ۔وہ ہاکی اورسکواش کے بھی بہترین کھلاڑی تھی اور انہوں نے مختلف اسپورٹس ایونٹس پر اپنی یونٹ کی نمائندگی بھی کی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان کو اپنی منزل قریب نظر آنے لگتی ہے تو جذبہ اور بڑھ جاتا ہے ۔حیدر عباس نے دوران تربیت انتہائی محنت و لگن سے اپنی تربیت مکمل کی۔ ایک دفعہ دوران تربیت وہ شدید انجری کا شکار ہوئے ، لیکن جس طرح انہوں نے ان زخموں کی وجہ سے دردیں برداشت کیں ، اس کی بھی نظیر نہیں ملتی ۔ اس پر نہ صرف ان کے سینئرز نے ان کی خوب حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے جذبے کی تعریف بھی کی ۔
پاکستان کا صوبہ بلوچستان جو کافی عرصے سے دہشتگردوں کے نشانے پر تھا ، حیدر عباس کو وہاں امن و امان بحال کرنے اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کا ٹاسک دے کر بھیجا گیا ۔فوج میں بھرتی ہونے والے ہر جوان کی طرح حیدر عباس نے بھی اس عہد کی قسم کھائی تھی کہ وطن عزیز کے دفاع کی خاطر اگر جان کی بازی بھی لگانا پڑی تو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچیں گے۔ حیدر عباس کو بلوچستان کے ضلع کوہلو میں تعینات کیا گیا ان کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ ملک میں امن قائم ہو اور دہشتگردی کا ناسور جو اس ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے اس کا خاتمہ کیا جا سکے اور اسی عظیم مقصد کی خاطر وہ شبانہ روز اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل رہتے ۔۔۔ جب کبھی والدین اور بہن بھائی ان سے فون پر رابطہ کرتے تو وہ بھی یہ ہی شکایت کرتے کہ اپنی ذمہ داریوں میں سے کچھ وقت نکال کر خاندان کے ساتھ بھی وقت گزار لیا کریں لیکن ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جیسے ہی حالات کچھ بہتر ہوں گے وہ گھر ضرور آ ئیں گے ۔۔۔
21فروری2022 کے روزسکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی ان کے ایک ٹھکانے پر موجودگی کی خفیہ اطلاع پر ضلع کوہلو میں کلیئرنس آپریشن کیا ، فورسز نے علا قے کو گھیر ے میں لیا تو دہشتگردوں نے شدید مزاحمت کی اور دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔۔۔ سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کئی دہشگرد موقع پر ہلاک ہو گئے جب کہ کچھ دہشتگردوں نے فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی کیپٹن حیدر عباس کا تو ایک ہی جنون تھا کہ کسی طرح دہشتگردوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر وہ اپنی جان کی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ اس روز بھی اسی مقصد حیات کی خاطر وہ انتہائی بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے ان کا پیچھا کرتے رہے ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ایک دہشتگرد بھی زندہ بچ کر نکلنے پائے۔ دوسری طرف دہشتگردوں کی جانب سے بھی شدید فائرنگ ہو رہی تھی۔ اسی اثنا میں کیپٹن حیدر عباس فرار ہوتے ہوئے دہشتگردوں کی گولیوں کی زد میں آ کر موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے ۔۔۔
شہادت ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہو ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شہید کو بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔
قرآن کریم میں اس بات کا ذکر ہے ، شہید کبھی نہیں مرتا، بلکہ وہ زندہ رہتا ہے، وہ اپنے پروردگار کا مقرب ہے، اسے اپنے رب کے پاس سے رزق عطا کیا جاتا ہے ، شہید وہ ہے جو جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے ۔
کیپٹن حیدر عباس کی شہادت کی خبر جیسے ہی گھر پہنچی توہر آنکھ اشکبار تھی، ہر لب پر یہی کلمہ تھا کہ حیدر کو جو چاہیے تھا خدا نے اسے عطا کر دیا۔ ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو شہادت نصیب ہو اور اللہ نے اپنے اس مومن کی خواہش کو پورا کر دیا تھا اسے ایک عظیم مرتبہ عطا کیا تھا ۔ کیپٹن حیدر عباس تو اپنے امتحان میں کامیاب ہو گیا لیکن اب ایک امتحان والد کو بھی دینا تھا کسی بھی باپ کے لیے جوان کی میت کو کاندھا دینا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور اب حیدر کے والد پر یہ کڑا امتحان آن پہنچا تھا ۔۔۔ ایک عظیم فوج کا عظیم جوان تابوت میں چمکتے دمکتے چہرے پر مسکراہٹ سجائے سکون کی نیند سو رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو بابا میں نے اپنا فرض پورا کر دیا، آپ کا سر فخر سے بلند کر دیا، موت میرے لیے شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے ۔ باپ نے آخری بار اپنے بیٹے کا بوسہ لیا، دو آنسو ان کے چہرے پر ڈھلک گئے جن کو صاف کر کے انہوں نے اپنے شہید بیٹے کا جنازہ اٹھا لیا ۔ ||
مضون نگار ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پرقلم آزمائی کرتی ہیں
[email protected]
تبصرے