حریت پسندی اور دہشت گردی دو مختلف اصطلاحات ہیں جن کے مابین فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ انسان اپنی آزادی کے لیے آخری حد تک جاتا ہے اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا اور لڑنا بالکل جائز اور ہر لحاظ سے قانونی دائرے میں آتا ہے۔ دہشت گردی کا مقصد انسانوں کو زک پہنچا کر اپنے برے مقاصد کی تکمیل کرنا ہوتا ہے۔ دہشت گرد کسی دوسری طاقت کے عموماً پراکسی ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی صرف ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ وہ زیرِ زمین اور پوشیدہ رہ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا سامان کرتی ہے۔ جبکہ جدوجہد آزادی کی شمع سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتی ہے۔ بری نیت سے برے مقاصد کے حصول کے لیے کی جانے والی مذموم کوششیں دہشت گردی کہلاتی ہیں جبکہ اچھی نیت سے اچھا مقصد کے حصول یعنی اپنی آزادی اور انسانی حقوق کے حصول کے لیے لڑنا اور کارزارِ حیات میں معرکہ برپا کرنا حریت پسندی قرار پاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے چند ضروری حوالے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ زیر نظر عنوان کے زیادہ سے زیادہ پہلوئوں کو سامنے لایا جا سکے۔
آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ انسان اپنی آزادی کے لیے آخری حد تک جاتا ہے اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا اور لڑنا بالکل جائز اور ہر لحاظ سے قانونی دائرے میں آتا ہے۔ دہشت گردی کا مقصد انسانوں کو زک پہنچا کر اپنے برے مقاصد کی تکمیل کرنا ہوتا ہے۔ دہشت گرد کسی دوسری طاقت کے عموماً پراکسی ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی صرف ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ وہ زیرِ زمین اور پوشیدہ رہ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا سامان کرتی ہے۔ جبکہ جدوجہد آزادی کی شمع سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتی ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ تاحال دہشت گردی کی اصطلاح جو کہ مغرب کی وضع کردہ ہے ، کی کوئی جامع تعریف ممکن نہیں ہو پائی ہے۔دہشت کے معنی ڈر، خوف اور خطرہ کے ہیں اسی طرح دہشت گردی کے معنی ہیں: ''خوف و ہراس پھیلانا''(1)۔ انگریزی زبان میں دہشت کے لیے لفظ Terror موجود ہے اور دہشت گردی کے لیے Terrorismبولا جاتا ہے۔11ستمبر2001ء کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی بحث بھی دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس سلسلہ میں Oxford Concise Dictionary of Politics کی رو سے:
''دہشت گردی۔۔۔۔حکومتوں اور اہل علم تجزیہ نگاروں کے درمیان اس کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں۔بالعموم جانی نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کے بیان کرنے کے لیے یہ بلا استثنا برے مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے جو خود ساختہ نیم سرکاری گروہ سیاسی مقاصد کی خاطر انجام دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سرگرمیاں کسی مقبول عام مقصد کے حصول کے لیے کی جائیں۔۔۔ مثال کے طور پر فرانس کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مارکولیس کی کوشش۔۔۔۔تو پھر لفظ دہشت گردی کے استعمال سے عام طور پر احتراز کیا جاتا ہے اور اس کی جگہ زیادہ دوستانہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مختصراًیہ کہ ایک شخص کسی کے خیال میں دہشت گرد اور دوسرے فرد کے نزدیک آزادی کا سپاہی ہوتا ہے۔۔۔۔''(2)
افسوس کی بات ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے الفاظ کو دین اسلام اور اس کے ماننے والے سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کو بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے مسلمانوں کے سر پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے رحمت کا مذہب ہے۔ اسلام ہر قسم کے جبر و تشدد اور دہشت گردی کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ اس کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ یہ ظلم و جبر، دھوکہ دہی، فتنہ وفساد اور قتل و غارت گری کو بدترین گناہوں اور جرائم میں شمار کرتا ہے۔ اسلام بے گناہوں کو قتل کرنے سے منع کرتاہے۔ قرآن مجید میں دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر32میں آتا ہے:
''جس نے ایک انسان کو (نا حق) قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔''(9)
نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ ان کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کہا جاتا تھا۔ لیکن تاریخ کی نگاہوں میں یہ منظر محفوظ ہے کہ پھر وہی نیلسن منڈیلا روشنی اور آزادی کا استعارہ قرار دیا گیا اور امن کے نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرا۔ آج وہی دنیا جو کبھی ان کو دہشت گردا ورخداجانے کیا کیا کہتی تھی ، ان کی عزت کرتی ہے اور وہی نیلسن منڈیلا اپنے ملک کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ جب اقوام متحدہ تقریر کرنے آیا تو پورے ہال نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔اسی سبب ایک مرتبہ نیلسن منڈیلا نے اقوام متحدہ میں یہ بات کہی تھی کہ '' میں ایک زمانے میں دہشت گرد تھا اور اس کے بعد سربراہِ مملکت۔۔۔کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں۔۔ کسی کو معلوم نہیں!''(3)
انہیں وجوہات کے سبب عالمی رائے عامہ رکھنے والے رہنمائوں نے مسلسل یہ مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی کی واضح تعریف متعین کر دی جائے اور اس کی حدود وقیود کا بھی تعین کر دیا جائے تاکہ آزادی کی تحریکوں اور جبر و تشدد کے خلاف اپنے دفاع کی خاطر اٹھ کھڑے ہونے والوں کو دہشت گردی کے گھنائونے الزام سے علیحدہ کیا جا سکے۔ مگر ابھی تک اس طرف کوئی مربوط کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ مغرب نے دہشت گردی کے الزامات کے تحت اب تک جتنی جنگیں لڑی ہیں اور دوسرے ملکوں کی مدد کی ہے وہ بنیادی عوامل کو طے کیے بغیر اقدامات پر مبنی ہیں۔ نیلسن منڈیلا کے الفاظ سے آشکار ہے کہ جب افغانستا ن میں روسی جارحیت کے خلاف افغان قوم اٹھ کھڑی ہوئی تو اسے امریکہ اور دیگر اقوام مغرب نے مکمل طور پر سپورٹ کیا اور اسے جہادِ آزادی کے سنہری الفاظ سے نوازا۔ لیکن جب بے گناہ اور معصوم کشمیری اقوامِ متحدہ کے قراردادوں کے عین مطابق پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے انسانی حقوق کی خاطر بھارت جیسی غاصب ریاست کے خلاف بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنے پیدائشی حق یعنی حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں تو اقوام عالم کے لب سلے ہوئے ہیں اور وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہیں۔کشمیری عوام اپنے حقوق اور کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور استبدادی بھارتی فوج کے سامنے فقید المثال بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اب تک ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کے ظلم کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہزاروں کشمیری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہو چکی ہیں۔ہزاروں معصوم نہتے کشمیری بھارتی ظالم فوج کی پیلٹ گنوں کی گولیوں کی زد پر آ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود غاصب بھارت کشمیر پر رائے شماری تو ایک طرف وہ تو پورے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر بیٹھا ہے۔ اور اقوام عالم نے مجرمانہ حد تک چپ سادھ رکھی ہے۔ اس صورت میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی حریت پسندی کہلائے گی نہ کہ دہشت گردی۔ اسی طرح فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور وہ آئے روز بے گناہ فلسطینیوں پر نہایت بے دردی کے ساتھ خوفناک بمباری کرتا رہتا ہے اور بے گناہ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا رہتا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کی اپنی آزادی اور حقوق کے لیے کی جانے والی یہ جدوجہد کسی بھی صورت دہشت گردی قرار نہیں دی جا سکتی۔
تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی طویل عرصے تک حریت پسند مزاحمتی تحریکات کو دبانے کی کوششیں کی گئیں ، ان مزاحمتی تحریکات میں طول پکڑنے کے ساتھ ساتھ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو بھی فروغ ملا۔ فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی مثالیں سامنے کی بات ہے۔ دہشت گردی اور حق خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد جو عموماً بیرونی سامرانی طاقت یا نسل پرست حکومتوں کے خلاف برپا کی جاتی ہے، دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان کو خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ اس بارے میں خود اقوام متحدہ کی مقرر کردہ اپنی ایک کمیٹی کی سفارشات میں درج ہے اور اس کا اعتراف خود عالمی ادارے کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ (4)
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر1948ء کو'' انسانی حقوق کا عالمی منشور'' منظورکرکے اس کا اعلان عام کیا۔ چارٹر کے تمہیدی اولین پیراگراف کے مطابق:
''چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حریت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابل انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی ، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔''(5)
قرار دیا گیا کہ دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد صرف اور صرف انسانوں کی ذاتی عزت اور حریت کو تسلیم کیے جانے پر ہے۔ یعنی امن و امان اور انصاف و آزادی کی واحد کسوٹی صرف اور صرف انسانوں کی ذاتی عزت اور حریت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیے جانے پر ہوگی۔ اگر کسی قوم کی ذاتی عزت اور حریت کو پامال کیا جائے گا تو لامحالہ اپنی تذلیل پر وہ انسان اور قوم اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس بات کا ادراک بھی اقوام متحدہ کے عالمی چارٹرکے تمہیدی پیراگرافوں میں بھی موجود ہے اور اس کے مختلف آرٹیکلز میں بھی۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود غاصب بھارت کشمیر پر رائے شماری تو ایک طرف وہ تو پورے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر بیٹھا ہے۔ اور اقوام عالم نے مجرمانہ حد تک چپ سادھ رکھی ہے۔ اس صورت میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی حریت پسندی کہلائے گی نہ کہ دہشت گردی۔ اسی طرح فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور وہ آئے روز بے گناہ فلسطینیوں پر نہایت بے دردی کے ساتھ خوفناک بمباری کرتا رہتا ہے اور بے گناہ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا رہتا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کی اپنی آزادی اور حقوق کے لیے کی جانے والی یہ جدوجہد کسی بھی صورت دہشت گردی قرار نہیں دی جا سکتی۔
تمہید کے دوسرے پیراگراف کی رو سے:
''چونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثرایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں اور عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں۔''(6)
یہاں بھی اظہر من الشمس ہے کہ انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچنے کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ انسانی حقوق کو سلب کیا گیا اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔ ظاہر ہے کہ انسانی حقوق کی بے حرمتی اور ان کا سلب کیا جانا انسانوں کو بے حرمت کرنا اور ان کو غلام بنایا جانا ہے۔ کوئی بھی باضمیر انسان اپنے بے حرمت کیے جانے پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ ضمیر اور عقل جیسی صفات کا تذکرہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں درج ہے:
''تمام انسان آزاد اور حقوق وعزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے۔ اس لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔''(7)
یہی ودیعت شدہ ضمیر اور عقل انسان کو وہ ہمت اور قوت بخشتے ہیں جس سے وہ حریت پسندی کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ وہ عملی میدان میں بھی اپنی جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتے۔اقوام متحدہ کے عالمی منشور کی شق 2 اس امر کا ببانگ دہل اعلان کرتی ہے :
''ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلان میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے ، قوم، معاشرے، دولت، یاخاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہ پڑے گا۔''(8)
یعنی ہر قوم استحقاق رکھتی ہے کہ وہ ان تمام آزادیوں اور حقوق کو حاصل کرے جو اقوام متحدہ کے عالمی منشور میں درج ہیںاور اس ضمن میں کسی طرح کا نسلی، جنسی، زبان و مذہب وغیرہ کا فرق روا نہ رکھا جائے گا۔ بدقسمتی سے زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے الفاظ کو دین اسلام اور اس کے ماننے والے سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کو بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے مسلمانوں کے سر پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے رحمت کا مذہب ہے۔ اسلام ہر قسم کے جبر و تشدد اور دہشت گردی کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ اس کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ یہ ظلم و جبر، دھوکہ دہی، فتنہ وفساد اور قتل و غارت گری کو بدترین گناہوں اور جرائم میں شمار کرتا ہے۔ اسلام بے گناہوں کو قتل کرنے سے منع کرتاہے۔ قرآن مجید میں دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر32میں آتا ہے:
''جس نے ایک انسان کو (نا حق) قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔''(9)
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی نظر میں ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ ایسا مذہب جو ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے وہ کس طرح دہشت گردی کی حمایت کر سکتا ہے۔ بالکل نہیں کر سکتا بلکہ اسلام تو سارے جہان کے لیے ہدایت کا سامان رکھتا ہے اور بانی اسلام ۖ تو رحمت العالمین ہیں۔ انہوں نے تو جانوروں، پودوں ، درختوں وغیرہ تک کے حقوق کا تعین فرما کر اپنے ماننے والوں کو ان کی پاسداری کی تلقین فرمائی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اہل مغرب نے ہمیشہ دہرے معیار اپنائے ہیں۔ اور اسی سبب وہ جنوبی سوڈان جہاں عیسائیت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، کی حمایت میں بیک زبان اور عملی طور پر کمر بستہ ہوکر میدان میں اتر آتے ہیں اور دنیا بھر میں جہاں جہاں غیر مسلم اقوام کے مسائل کی بات آتی ہے وہ بلا تامل ان کی مدد کو فوری تیار ہوجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف دنیا میں مسلمان جہاں کہیں کسی استعماری طاقت کے ظلم و استبداد کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے پرچارک عالمی ادارے کا ریکارڈ دستیاب ہے جس کا تھوڑا سا مطالعہ اس دہرے معیار کے چہرے سے پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔
حوالہ جات:
١۔فیروزالغات، بذیل 'مادہ '''دہشت''، لاہور
٢۔Oxford Concise Dictionary of Politics, P:492-493
٣۔خورشید احمد، پروفیسر،امریکہ مسلم دنیا کی بے اطمینانی 11ستمبر سے پہلے اور بعد، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد،ص244
٤۔یواین رپورٹ، اے42832،اے19739028
٥۔ اقوام متحدہ، ''انسانی حقوق کا عالمی منشور''،تمہید، پہلا پیراگراف
٦۔ایضاً، دوسرا پیراگراف
٧۔ایضاً، آرٹیکل1
٨۔ایضاً، آرٹیکل2
٩۔قرآن مجید، سورة مائدہ، آیت نمبر32
مضمون نگارمختلف قومی وملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے