بلوچستان ایک وسیع وعریض صوبہ ہے جس کی آبادی مختلف جگہوں پر بکھری ہوئی ہے۔ زیادہ تر حصہ دیہی علاقوں پرمشتمل ہے۔جس میں صوبے کا ستر فیصد حصہ شامل ہے۔پاکستان آرمی کی جانب سے بلوچستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے سکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اس وقت بلوچستان میں فرنٹیئر کور کی زیر نگرانی تقریباً 113 سکول چل رہے ہیںاور بلوچستان بھر میں تقریباً 40ہزار طلباء ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔دوسری جانب بلوچستان میں دس کیڈٹ کالج ہیں جو سوئی، پشین، مستونگ، پنجگور، جعفرآباد، کوہلو، تربت، نوشکی ، اورماڑہ اور آواران میں قائم کیے گئے ہیں۔ان کیڈٹ کالجوں میں تین ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں، ان میں پروفیشنل تعلیم کے لیے جدید ترین تعلیمی منصوبے شروع کیے گئے ہیں،جن میں کوئٹہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، ملٹری کالج سوئی، سوئی ایجوکیشن سٹی، بلوچستان پبلک سکول سوئی، بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن،گوادر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور آرمی انسٹی ٹیوٹ آف معدنیات شامل ہیں۔اس کے علاوہ چمالنگ بلوچستان ایجوکیشن پروگرام (سی بی ای پی) سے ہزاروں طلباء فارغ التحصیل ہوچکے ہیں جبکہ چارہزار سے زیادہ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ملٹری کالج سوئی میں یوم دفاع، یوم والدین اور دیگر قومی دنوں کے موقع پر پاک آرمی کے سپہ سالار بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف نے اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اپنے دورہ بلوچستان کے موقع پر پاک فوج کے حوالے سے یہ یقین دہانی کرائی کہ پاک فوج بلوچستان کے روشن مستقبل کے لیے پرعزم ہے۔ بلوچستان کی سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی زندگی میں بھی بہتری لانے کی امید دلائی گئی۔یہی وجہ ہے کہ پاک فوج صوبے کے روشن مستقبل میں حکومت اور عوام کی معاونت کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتی ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو آرمی پبلک سکول اینڈ کالج اے ایس اینڈ سی، سیون سٹریمز کوئٹہ کو پورے پاکستان میں آرمی پبلک سکولز اینڈ کالجز سیکرٹریٹ اے پی ایس اینڈ سی ایس کے تحت کام کرنے والے معروف اور متحرک تعلیمی اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اے پی ایس اینڈ سی بلوچستان میں ایک بہترین جگہ ہے جہاں طلباء پاکستان آرمی اور مسلح افواج کی دیگر شاخوں میں شمولیت کے لیے داخلہ لے سکتے ہیں۔ اے پی ایس اینڈ سی سیون اسٹریمز ایک ایسی جگہ ہے جہاں فوجی جوانوں اور سویلینز کے بچے مساوی سہولت پر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔آرمی پبلک سکولز اینڈ کالجز سسٹم کی پورے ملک میں کل 168 برانچیں ہیں۔یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اس کی شاخیں بلوچستان میں بھی موجود ہیں ۔
اسی طرح پاک آرمی کی جانب سے بلوچستان کے دور افتادہ علاقو ں میں دہائیوں قبل کیڈٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ تعلیمی حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ کیڈٹ کالج تعلیمی میدان میں نوجوانوں کے روشن مستقبل کی تعمیر کی بنیاد ثابت ہوتے ہیں، صوبے میں کیڈ ٹ کالجوں کے قیام پر خوشی کا اظہار کر تے ہوئے صوبے کے عوام خاص طور پر نوجوان مطمئن نظر آتے ہیں۔ آواران،پنجگور ، کوہلو ودیگر دور افتادہ علاقوں میں کیڈٹ کالجز کا قیام ایک اہم پیش رفت ہے۔کیڈٹ کالج کے قیام میں ملک کی فوجی قیادت کا اہم کردار ہے کہ جس کی بدولت نوجوان نسل کو کیڈٹ کالج اور ملٹری کالج کی صورت میں عظیم تعلیمی تحفے ملے ہیں۔ پاک آرمی کے زیر اہتمام کیڈٹ کالجز صوبے کے نوجوانوں کے روشن مستقبل کی تعمیر کی بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔مذکورہ تعلیمی اداروں میں تجربہ کار اساتذہ کی زیر نگرانی جونیئر لیول سے انٹرمیڈیٹ لیول تک تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔یہ انسٹی ٹیوٹ بہترین سہولیات فراہم کررہے ہیں۔یہاںسائنس لیب، لائبریری، کمپیوٹر لیب، پلے ایریا، کینٹین، آڈیٹوریم، ہاسٹل ، میس اوردیگر سہولیات میسر ہیں۔اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ طلباء کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی نشوونما پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔ کالج کے روزمرہ معمولات میں ڈرل اور پی ٹی کے ساتھ ساتھ طلباء کی اخلاقی تربیت خاص اہمیت کی حامل ہے تاکہ طلباء عصر ِحاضر کے جدید تقاضوں اور معیار پر پورے اتر سکیں اور یہی تربیت آگے جا کر پیشہ ورانہ اداروں میں ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکے۔ اس سلسلے میں فوج کے حاضر سروس ڈرل اور پی ٹی انسٹرکٹر ز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ کالجوں میں مقابلوں کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مختلف مسابقتی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں جن میں کیڈٹ بھر پور شرکت کرتے ہیں۔ کیڈٹ کی مکمل رہنمائی اور انہیں حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گئے ہیں تاکہ کیڈٹس کی ذہنی اور فکری نشوونما کا عمل جاری رہ سکے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں ایک کیڈٹ کالج کے قیام کا منصوبہ مارچ 1976 میں سوچا گیا تھا۔ صدر پاکستان نے 1979 میں اس کی منظوری دی اس کاپی سی ون 1981 میں منظور ہوا۔ موجودہ جگہ کا انتخاب 1982 میں کیا گیا۔ یہ کیڈٹ کالج مستونگ آر سی ڈی ہائی وے پر ہے جو شمال میں کوئٹہ اور جنوب میں کراچی کی طرف جاتا ہے۔ یہ کراچی سے 630 کلومیٹر اور کوئٹہ سے 54 کلومیٹر پر واقع ہے۔ یہ تقریباً 120 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ کیڈٹ کالج مستونگ میں بلوچستان کے ہونہار اور ذہین طلباء کو یکساں مواقع فراہم کیے گئے۔بلوچستان کے طلباء کے لیے کیڈٹ کالج کی بہترین کارکردگی ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہاں کے طلبا بلوچستان سمیت پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا کردارادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح ملٹری کالج سوئی کی جانب سے طلبا کی بہترین تربیت کی جارہی ہے۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے۔ پاک فوج بلوچستان کی ترقی کے لیے ہرممکن تعاون کر رہی ہے۔پاکستان نیوی کیڈٹ کالج بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کیڈٹ کالج اورماڑہ کا کردار بھی اہم ہے۔ کیڈٹ کالج اورماڑہ بلوچستان کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے پاک بحریہ کے عزم کا مظہر ہے۔ یہاںپاکستان بحریہ اور رائل نیوی آف اومان کے مابین بحری مشق ثمر الطیب کا انعقادبھی ہوا ہے۔اسی طرح کیڈٹ کالج پنجگورکا صوبے کی تعلیم میں بڑا اہم رول ہے۔یہاں کے طالب علموں نے بلوچستان بورڈمیں مڈل کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے۔ادھر کیڈٹ کالج جعفرآباد ،ان تین کیڈٹ کالجوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئے تھے۔ کالج معیاری تعلیم فراہم کرنے سمیت کردار سازی اور نوجوانوں کے مستقبل کو متحرک رہنما بننے کے لیے ہمہ وقت کام کرنے میں مصروف عمل ہے۔جعفرآباد کیڈٹ کالج ڈیرہ اللہ یار ، اوستہ محمد کی سڑک پر واقع ہے، جو سندھ اور بلوچستان کی سرحدوں پر واقعہے۔کوئٹہ سے مذکورہ مقام تک تقریباً تین سو کلومیٹرکا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔کیڈٹ کالج پشین 2009 میں پشین میں معرضِ وجود میں آیا۔ ابتدائی طور پر کالج ہٰذا کو ایک عارضی عمارت میں شروع کیا گیا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی توسیع ہوتی ہے۔ عہد حاضر میں اس میں بہت سی سہولیات متعارف کروائی گئی ہیں جوگزشتہ ایک دہائی سے کالج میں ناپید تھیں۔ گزشتہ دہائی میں سیکڑوں کی تعداد میں کیڈٹس مذکورہ کالج سے فارغ التحصیل ہو کر پروفیشنل اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان اداروں میں مسلح افواج، میڈیکل کالجز، نیشنل کالج فار آرٹس و دیگر اہم ادارے شامل ہیں۔بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں کیڈٹ کالج کا قیام تعلیمی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔شیخ فاطمہ بنت المبارک گرلز کیڈٹ کالج تربت پاک آرمی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کی مشترکہ کوششوں سے مکمل کرلیاگیا ہے۔ کالج کانام شیخ زیدکی اہلیہ شیخہ فاطمہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔پاک فوج کے زیر اہتمام بلوچستان کے کیڈٹ کالجوں میں اکثر داخلے ساتویں جماعت میں دیے جاتے ہیں لیکن اگر گنجائش ہو تو گیارہویں جماعت میں محدود نشستوں پر داخلے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ ساتویں جماعت کے داخلے بھی میرٹ کی بنیاد پر علاقائی مختص کوٹہ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ بعض کالجز میں کسی بھی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ داخلے کے اس عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔
صوبے میں پاک فوج کے زیر اہتمام تعلیمی ادارے اپنے طلباء کو بہترین سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ جس میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے علاوہ فیلڈ ٹرپس و دیگر کالجوں کے ساتھ سپورٹس کے مقابلوں سمیت دیگر طلباء کی ضروریات کے مطابق انہیں سہولیتیں فراہم کرنا شامل ہے۔آرمی کے تعلیمی اداروں میں میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے ۔ دوسری جانب بلوچستان میں کیڈٹ گرلز کالج کوئٹہ کے قیام کا خیر مقدم کیا گیا ہے،لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایسے اقدام کو گہرے اعتماد کا مظہر قرار دیا گیا ہے کیونکہ معاشرے میں خواتین کی علمی صلاحیتوں پر قطعی شک نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ایسی روایت کو دور رس اور دیر پا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی لڑکیوں کے تعلیمی مستقبل کے ایجوکیشنل سسٹم کو مزید فعال کیا جائے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ بلوچستان کی ترقی اور اس جانب توجہ مبذول کرانے میں پاک فوج کا کرداراہم رہا ہے۔ صوبے میں تعلیم، صحت،اسپورٹس فیسٹیول سمیت سیلاب میں مددا وردیگر قدرتی آفتوں میں پاک فوج نے ہمیشہ لبیک کہہ کر پہنچی ہے اور اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔اسی طرح ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں بھی پاک فوج نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے۔ پاک فوج کا کردار لائق تحسین ہے کہ اس نے غیر معمولی حالات میں نہ صرف ملکی سالمیت کو یقینی بنانے میں بے شمار قربانیاں دیں بلکہ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سڑکوں کا جال بچھایا، طبی مراکز بنائے ۔ درسگاہیں ،تکنیکی اور فنی علوم کے انسٹیٹیوٹ بھی کھولے،تعلیم کے لحاظ سے نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے ملٹری کالج سوئی جیسا ادارہ بلوچستان میں قائم کرکے صوبے کے نوجوانوں کو پاک فوج میں آفیسررینک میں شمولیت کا موقع فراہم کیاگیا۔ مذکورہ کالج سے فارغ ہوکر بلوچستان کے اکثر نوجوان پاک فوج میں بطور افسر شامل ہو رہے ہیں۔ چمالنگ کے غریب پسماندہ علاقوں کے طالب علموں کو سکالر شپ کے ذریعے مفت تعلیم دلانے کے مواقع پیدا کیے جار ہے ہیں۔اسی طرح فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی کیاجاتا ہے۔یہ امر حقیقی ہے کہ عصر حاضر میں تعلیمی اداروں کی حیثیت مسلمہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ان کے وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں سے ہر سال ہزاروں طلباء فارغ التحصیل ہو کر مختلف شعبہ جات میں اپنی گرانقدر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک بھی اپنے محدود وسائل کے باوجود ان اداروں کے قیام اور ان کی بھر پور فعالیت کے لیے ہمیشہ برسرِپیکار نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان بھی ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میںبہت سے تعلیمی ادارے علمی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔
تبصرے