دنیا کی تاریخ میں ایسی مثالیں جابجا ملتی ہیں کہ جو قوم معاشی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔قریب تاریخ میں سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ معاشی عدم استحکام نے سوویت یونین جیسی طاقت کو افغانستان میں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا؟ اسی نوعیت کی تشویشناک صورتحال وطن عزیز میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔جب سے پاکستان میں معاشی عدم استحکام کی صورتحال سامنے آئی ہے تب سے اچانک دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہوگیا ہے۔گزشتہ سال کے اختتامی مہینوں میں دہشت گردوں نے پاکستان پر متعدد حملے کیے۔بلوچستان جو پہلے ہی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، وہاں پر ان کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا۔جب کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی سرحد غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اب تک پاکستان کے اندر قریب 420 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران ٹی ٹی پی نے 141 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔طویل عرصے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی خودکش دھماکہ ہوا۔میری دانست میں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں،جہاں وہ نہ صرف بھارت کے ایماء پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں بلکہ وہ دیگر پاکستان دشمن عناصر کے آلہ کار بن کر کام کر رہے ہیں۔حکومت پاکستان نے ان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیالیکن بدقسمتی سے اس جنگ بندی کے باوجود پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر سے نہ صرف علاقائی امن کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے بڑی سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔کالعدم تحریک طالبان نے مسلح دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کی وجہ سے شہری آبادیوں میں خوف و ہراس کی کیفیت بن سکتی ہے۔بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت پر قبضہ ایک بہت بڑی دہشت گردی کی کارروائی تھی جہاں پر 25 سے 30 دہشت پسندوں نے پوری عمارت پر قبضہ کرکے وہاں پر اسلحہ استعمال کیا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا۔ اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔بعد میں پاکستان کی مسلح افواج نے ان کا گھیراؤ کیا، اس طرح نہ صرف اس حملے کو ناکام بنایا گیا بلکہ وہاں پر محبوس اہلکاروں کو رہا کرایا گیا۔اسی طرح ساہیوال میں دہشتگردوں نے حساس اداروں کے ذمہ داران پر حملہ کیا جس سے شہادتیں بھی ہوئی۔ان سارے معاملات پر افغانستان کی حکومت نے تاحال کوئی دو ٹوک مؤقف نہیں دیا۔افغان طالبان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔پاکستان کی مسلح افواج نے اربوں روپے خرچ کرکے اور جانوں کی قربانیاں دے کر جو باڑ لگائی تھی، اس کو اکھیڑنے کی کوشش کی گئی۔پاکستان کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی حکومت اور مسلح افواج کی طرف سے بارہا افغان حکومت کو اس بابت مطلع بھی کیا گیامگر کوئی خاطر خواہ فرق نہ پڑا۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میدان جنگ بنا رہا ہمارے ہزاروں فوجی اور عام شہری اس جنگ میں شہید ہوئے۔اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان نے یہ زخم سہے تھے وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں بھارت کی مدد سے قائم کیے گئے دہشت گردی کے مراکز آج بھی کام کر رہے ہیں۔بھارت کی تو پاکستان کے ساتھ دشمنی ایک تاریخی حقیقت ہے مگر افغانستان کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔یہ صورتحال پاکستان کی مسلح افواج کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج نے ماضی قریب میں دہشت گردوں کو شکست دے کر ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔تمام عالمی اداروں نے مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔2007 اور 2008 میں سوات،2012 میں وزیرستان،2014 میں ضرب عضب2017 میں ردالفساد جیسے فقید المثال آپریشن مسلح افواج کے کریڈٹ پر ہیں۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر مسلح افواج نے دہشت گردوں کو شکست دی۔افغانستان کے سرحدی علاقوں سے آنے والے دہشت گرد شاید اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں سے نمٹنے کا ایک وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔یہ 2001 کا زمانہ نہیں جب اندرونی دہشت گردوں سے نمٹنے کا معاملہ کچھ نیا تھا۔اب زمینی حقائق مختلف ہیں۔پاکستانی مسلح افواج کی بیدارمغز قیادت اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے اس صورتحال پر غور کے لیے کور کمانڈر کانفرنس طلب کی۔اس کور کمانڈر کانفرنس میں پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت 2 روزہ کور کمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوئی،جس میں پاک فوج کے پیشہ وارانہ اور تنظیمی امور کا جامع جائزہ لیا گیا۔
بلاشبہ پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر پروفیشنل اپروچ رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی داخلی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے بلکہ مکمل یکسوئی کے ساتھ دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے کارروائی کی جائے،تاکہ ملک میں امن وامان بحال ہو اور دہشت گردی کے عفریت کا سرکچل دیا جائے، کو رکمانڈر کانفرنس میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور عوامی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے جس عزم کا اعادہ کیا ہے وہ قابل تحسین عمل ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے غیرمعمولی حالت میں مسلسل دوروز کورکمانڈر کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل قرارد ی جارہی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو جس طرح افواج پاکستان،پولیس اور سکیورٹی اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا، اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار پوری طرح ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور اس کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ نڈر فورس موجود ہے اور جدید ساز و سامان کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنااتنا آسان نہیں،امید ہے کہ یہ دہشت گردی فوری طورپر ختم ہو جائے گی۔ہمیں یقین ہے شہادتوں کی طویل داستان رکھنے والی ہماری پاک فوج دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے مستعد ہے۔بنوں آپریشن کے دوران پاک فوج نے ثابت کیا کہ وہ آج بھی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔پاکستان کے دیگر سکیورٹی اداروں کو بھی اس صورتحال کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ اپنے تربیتی نظام کو مسلح افواج کے معیار کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔سی ٹی ڈی کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے۔پاکستانی اداروں کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔حکومت کو اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کرنا چاہیے۔پولیس اور اس کے متعلقہ اداروں کے تربیتی نظام کو فوج کے تربیتی نظام سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔جس معیار کے مطابق مسلح افواج کے کمانڈوز خدمات سرانجام دیتے ہیں دیگر سکیورٹی اداروں کو بھی اسی معیار کے مطابق تربیتی نظام کو بلند کرنا چاہیے۔پاکستانی قوم ایک بہادر قوم ہے وہ اپنے سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ قوم کو پاکستان کی مسلح افواج پر اعتماد ہے اور پاک فوج کے ہوتے ہوئے کسی دشمن میں یہ جرأت نہیں کہ وہ میلی آنکھ سے پاکستان کو دیکھ بھی سکے۔ ||
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی و ڈائریکٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے