ہنزہ نگر خوابوں کی حسین سرزمین جہاں پریاں اپنا ڈیرہ جماتی ہیں اور دور اُونچے برف پوش پہاڑوں پر آسمان سے باتیں کرتے مارخور اپنی خرمستیوں سے دھیان ہٹا کر جب ان پریوں کو اپنی سرزمین پر چہل قدمی کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ جی ہاں یہ گلگت بلتستان کا ہنزہ نگر ہے جہاں کی نگری نگری دلفریب نظاروں سے مزین ہے اور کیا ہی خوب منظر ہوتا ہے جب سورج کی پہلی کرن گولڈن پیک سے ٹکرا کر اسے سونے کے روپ میں تبدیل کردیتی ہے۔ اگر غروبِ آفتاب کا دلکش و سہانا منظر دیکھنا ہو تو ہنزہ میں واقع قلعہ اَلتت کا رُخ کیجیے۔
وادیٔ ہنزہ نگر گلگت شہر سے تقریباً 112 کلو میٹر شمال میں واقع یہ وادی سطح سمندر سے تقریباً 2438 میٹر بلند ہے۔ یہاں زیادہ تر برشکی زبان بولی جاتی ہے۔ وادیِ ہنزہ نگر کو چاروں طرف سے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ ہنزہ نگر کے چاروں طرف جو مشہور برف پوش پہاڑی چوٹیاں ہیں ان میں مشہور راکا پوشی 7788 میٹر، ہسپر پیک7611 میٹر، الترپیک7388 میٹر اور لیڈی فنگر6000میٹر قابلِ ذکر ہیں۔
دنیاکا شاید ہی کوئی اتنا خوبصورت خطہ ہو جہاں چاروں طرف اسی طرح کی بلند قامت چوٹیوں کا راج ہو۔ ہنزہ نگر ایک بادشاہی ریاست پر مشتمل خطہ تھا جہاں کے حکمران کو''میر'' کہا جاتا تھا۔
شاہراہِ ریشم یہیں سے گزرتی تھی جو چین اور پاکستان کے درمیان رابطے کا قدیم ترین اور واحد ذریعہ تھی۔ ہنزہ نگر کے حکمران میر نے اپنی حفاظت اور رہائش کے لیے بلند پہاڑی پر ایک قلعہ تعمیر کروایا جو ''قلعہ بلتت'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ قلعہ 8 عیسوی میں تعمیر کیاگیا۔2004 میں اقوامِ متحدہ نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا۔ قلعہ بلتت کی بناوٹ اور اندرونی ساخت یادِ رفتہ کو تازہ کرتی ہے۔ قلعہ سے ہنزہ نگر کا نظارہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
وادیِ ہنزہ نگر کے لوگ نہایت ہی سادہ اور ملنسار ہیں۔ ہنزہ گلیشئر سے آنے والا پانی نہایت ہی صحت بخش اور معدنیات سے پُرہوتا ہے، تحقیق کے مطابق ساری دنیا میں شفافیت کے لحاظ سے یہ دوسرے نمبر پر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہنزہ نگر کے لوگ طویل العمر ہوتے ہیں۔ہنزہ نگر اپنی ہریالی، خوبصورتی برف پوش پہاڑوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ دریائے ہنزہ مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا پہلے دریائے گلگت کا حصہ بنتا ہے اور پھر بالآخر دریائے سندھ سیجا ملتاہے۔
ہنزہ نگر میں سیب، ناشپانی، آڑو اور خوبانی کے باغات جابجا نظر آتے ہیں۔ یہاں کی خوبانی لذیذ ہوتی ہے اور اسے خوبانی کا دیس بھی کہا جاتا ہے یہاں کی خوبانی ساری دنیا میں مشہور ہے اور اس سے بنے"APRICOT CAKE"کا کوئی ثانی نہیں۔
قدیم گزرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں بُدھ مت سے تعلق رکھنے والے نقش و نگار پہاڑوں پر جابجا کندہ کیے ہوئے نظر آتے ہیں جو یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے افراد نے بنائے تھے اور آج بھی قابلِ دید مقام رکھتے ہیں۔
حادثاتی طور پر وجود میں آنے والی عطا آباد جھیل بھی قدرت کا انمول تحفہ ہے جو اس علاقے کی پہچان ہے۔ عطاآباد جھیل 2010 میں ایک بہت بڑی لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے وجود میں آئی جو تقریباً21 کلو میٹر پر مشتمل ہے اوراس کی گہرائی تقریباً 360 فٹ ہے۔ اس لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے مختلف گائوں متاثر ہوئے اور اس حادثاتی جھیل نے13 کلو میٹر شاہراہ کو اپنے دامن میں لے لیا۔ چنان چہ نقل و حرکت میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پرا۔ نقل و حرکت کے لیے مقامی تجارتی قافلے کشتیوں کے ذریعے19 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شاہراہ ِ قراقرم تک دوبارہ پہنچتے ہیں۔ ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے حکومتِ چین نے نقل و حرکت کو بلاکسی رکاوٹ جاری رکھنے کے لیے پہاڑوں کے اندر 3سرنگیں تعمیر کی ہیں جن میں سب سے بڑی سرنگ کا فاصلہ 7کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ آپ ایک سرنگ سے نکل کر ابھی عطا آباد کی سحر انگیزی کو دیکھ بھی نہیں پاتے کہ دوسری سرنگ آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے یہ آنکھ مچولی کسی نعمت سے کم نہیں۔
عطا آباد جھیل کا پانی گہرا نیلا نظر آتاہے جو اپنی خوبصورتی پر بہت نازاں ہے۔عطا آباد جھیل دنیا کی سب سے صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک جھیل ہے۔ آپ اپنا سفر ہنزہ نگر سے چائنا بارڈر خنجراب پاس کی طرف کرتے ہیں تو شاہراہ قراقرم آپ کی مدد گار و معاون ہوتی ہے۔ اب آپ پاسو کی طرف محوِ سفر ہیں۔ دلکش و دلفریب نظارے ہر تھوڑی دیر بعد آپ کو رُکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دریائے ہنزہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہے، کہیں دریابہت زیادہ شور مچاتا ہے تو کہیں خاموشی سے اپنا سفر طے کرتا ہے۔ تقریباً45 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ گلگت پہنچ جاتے ہیں یہ سو سال پرانا تاریخی قصبہ ہے۔ یہاں سیاحوں کے لیے کئی ہوٹل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا میوزیم بھی آپ کی دلچسپی کے لیے موجود ہے۔
گلمت اپنے نام کی طرح خوبصورت اور خوشبوئوں سے لبریز ایک حسین قصبہ ہے جہاں قدرتی حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ گلمت سے شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے 15 کلومیٹر پر ''پاسو'' کا مشہور قصبہ آپ کے استقبال کے لیے اپنی بانہیں دراز کردیتا ہے۔
پاسو اپنے گلیشئر اورمنفرد خدوخال کےCONES کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ پاسو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو شاہراہ قراقرم کے ساتھ ڈسٹرکٹ گوجال گلگت بلتستان کا صدر مقام ہے۔ اس قصبہ کے ساتھ ہی پاسو گلیشئر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ پاسو قصبہ کا چپہ چپہ خوبصورتی، دلکشی و رعنائی کی ایک روشن کتاب ہے جو دیکھنے والوں کوِ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی ثنا کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
TUPPODANجو کہPASSO CONESکے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے،6106 میٹر بلند اور قصبہ پاسو سے شمال کی جانب واقع ہے اوریہ ا پنے منفرد خدو خال کی وجہ سے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ فوٹو گرافی کا اعزاز رکھتا ہے۔ یہاں کے تمام مناظر کی عکاسی آپ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے ۔
پاسو سے شاہراہِ قراقرم کی بل کھاتی حسین سڑک پر سفر کرتے ہوئے حسین نظاروں سے اپنی نظروں اور ذہنوں کو معطر کرتے ہوئے تقریباً 39 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد آپ سوست کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ سوست دراصل ڈسٹرکٹ گوجال کا ایک گائوں ہے یہ پاکستان کی آخری آبادی ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان واقع ہے۔ یہ قصبہ شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے والوں کا ایک اہم پڑائو ہے۔ سوست کے مقام پر ایک ڈرائی پورٹ قائم ہے جو پاک چائنا تجارت کا ایک اہم ستون ہے، سوست کو چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اور بلند پہاڑوں سے عظیم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتی تجارتی گاڑیاں ایک عجیب منظر پیش کرتی ہیں اور جب گلگت بلتستان کی حسین تتلی نما رنگ برنگی جیپیں دنیا کے آٹھویں عجوبے شاہراہِ قراقرم کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے لیے محوِ سفر ہوتی ہیں تو کیا ہی کمال منظر ہوتا ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
خنجراب نیشنل پارک سوست سے شروع ہو کر پاک چائنا بارڈر تک جاتا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک پاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے جس کا قیام 1975 میں عمل میں آیا۔ یہ پارک سطح سمندر سے تقریباً4000 میٹر بلند ہے۔ اس میں مارکو پولو بھیڑیے اور دیگر جانور پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرندوں کی بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ خنجراب نیشنل پارک کو دنیا کا سب سے اونچا پارک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کا کل رقبہ تقریباً2270مربع کلومیٹر ہے۔
آپ آسمان سے باتیں کرتے پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی عظیم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چائنا بارڈر پہنچ جاتے ہیں۔ پاک چائنا سرحد دنیا کے دو ملکوں کے درمیان بلند ترین سرحد ہے جس کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً 15397 ہے۔ پاک چائنا تجارتی آمد و رفت اسی سرحد سے ہوتی ہے اور جب چین سے تجارتی قافلوں کے ٹرک پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یہ دلکش منظر آنکھوں کو خیرہ کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سیاحوں کی کثیر تعداد یہاں کا رُخ کرتی ہے۔
یہاں نیشنل بنک آف پاکستان کی طرف سے ATM بھی قائم ہے جس کو دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم کا اعزاز حاصل ہے اور اس اے ٹی ایم کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی کام کرسکتی ہے۔
پاک چائنا سرحد پر سیاح چائنیز اور پاکستانی فوجیوں کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں تاکہ یہ لمحے ساری زندگی یاد رہ سکیں۔ ہنزہ نگر گلگت بلتستان سے خوابوں کا یہ سفر درہ خنجراب پاک چائنا سرحد پر اختتام پذیر ہوجاتا ہے لیکن اس سفر میں پائی جانے والے قدرتی رنگ پہاڑوں کی ہیبت ، دریائوں کی روانی اور پہاڑوں پر دوڑتے مار خور اور سب سے بڑھ کر عظیم شاہراہِ قراقرم کا ساتھ آپ کے جسم و روح کو نئی تازگی عطا کرتے ہیں اور یہ بات دل میں پختہ ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کا خوبصورت ترین خطہ عطا کیا ہے۔
تبصرے