کسی بھی ملک و قوم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنا ہمسایہ بدل سکے، اسی حقیقت کے پیش نظر پاکستان 75 سال میں اپنی تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود دہلی کے حکمران گروہ کو تاحال قائل نہیں کر سکا کہ اگر وہ خطے میں حقیقی امن و سلامتی کے خواہاں ہیں تو اپنی روش تبدیل کر کے بقائے باہمی اور عدم مداخلت کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ پاکستان کی تمام حکومتیں دیگر معاملات میں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ہمیشہ سے اس امر کی خواہشمند رہی ہیں کہ کشمیر کے دیرینہ مسئلے سمیت سبھی تنازعات کو حل کیا جائے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ مملکت پاک کی جانب سے بھارت کو کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور کسی بھی سطح پر مذاکرات کی ہمیشہ دعوت بھی دی جاتی رہی مگر بھارتی حکمرانوں نے اس جانب کان نہ دھرے۔
توجہ طلب امر ہے کہ واجپائی نے بھی اس حقیقت کا اعتراف ایک سے زائد بار ان الفاظ میں کیا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ''بابری'' نہیں بلکہ '' برابری کا ہے''۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے موصوف نے یہ فلسفہ جھاڑا تھا کہ ''بھارتی مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت اور اس کی تعمیر نو کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنی ساری توانائیاں اس مطالبے کو منظور کرانے کی طرف مبذول کرانی چاہئیں کہ انھیں بھارت میں زندگی کے ہر شعبے میں برابری کے حقوق میسر آنے چاہئیں''۔
ماہرین کے مطابق دہلی کے حکمرانوں نے اپنے ہر قول اور فعل سے اگرچہ بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اول تا آخر متعصب ہندو نظریات کے حامل ہیں اور ان کے سیکولرازم اور انسانیت کے تمام تر دعوے محض لفاظی کے سوا کچھ نہیں مگر جس طور بھارتی عدالتیں بھی اپنے فیصلوں کے ذریعے عدل کا ''خون'' کر رہی ہیں، اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی کم کم ہی ملتی ہے۔ اب وارانسی کی گیان واپی مسجد اور عید گاہ مسجد ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے۔ گیان واپی وہی مسجد ہے جو اورنگزیب عالمگیر نے 1669 میں بنوائی تھی اور یہ مسجد ورثے کے اعتبار سے بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ واضح رہے کہ وارانسی میں واقع اس مسجد سے ایک مندر بھی متصل ہے جسے ''کاشی وشوا ناتھ'' مندر کہا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے منشور میں اس مسجد کی مسمار ی اور پورے رقبے پر مندر کی تعمیر عرصہ دراز سے سرفہرست ہے۔ وارانسی کی عدالت نے چند روز قبل اس مسجد کے ''سروے '' کا فیصلہ صادر کیا تھا تا کہ یہ ''معلوم'' کیا جا سکے کہ ماضی میں اس مسجد کی جگہ کیا تھا؟ اور اس سروے کے نتیجے میں وہی ہوا جس کا خدشہ مسلم برادری ایک عرصے سے ظاہرکر رہی تھی۔ یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے سروے کے لیے جو ٹیم بھیجی، اس نے اعلان کیا کہ اس مسجد کی بنیاد سے '' شیو لنگ'' برآمد ہوا ہے اور یہاں پہلے مندر قائم تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ سارا عمل اس مسجد کی مسماری کے لیے ایک پلان کے تحت کیا جا رہا ہے اور چند روز میں اس تاریخی عمارت کی مسماری کا فیصلہ بھی متوقع ہے۔
اگر بابری مسجد کی شہادت میں بھارتی عدالتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو سبھی جانتے ہیں کہ ایک جانب بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اقرار کیا تھا کہ ماضی میں یہاں کوئی رام مندر ہونے کا ٹھوس دستاویزی ثبوت تو نہیں مگر دوسری طرف مذکورہ بینچ نے محض بھارت کی ہندو اکثریت کے متعصب جذبات کی تسکین کے لیے اس کا فیصلہ جنونی ہندوئوں کے حق میں کر دیا۔ اگرچہ بھارتی عدل و انصاف کی ''برہمنی روایات'' سے یہ غیر متوقع نہیں تھا ۔ بھارتی چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس رنجن گگوئی نے یہ فیصلہ اپنی ریٹائرمنٹ سے محض ایک ہفتہ قبل سنایا ، 17 نومبر 2019 کو موصوف ریٹائر ہو گئے ۔ مبصرین کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں عجلت کی وجہ یہ بھی تھی کہ کرتار پور کاریڈور کا افتتاح چونکہ 9 نومبر کو ہوا اور اس کی وجہ سے مودی سرکار انتہائی دبائو میں تھی اس لیے وہ عوامی توجہ ہٹانے کے لیے کچھ جنونی ہندو جذبات کی تسکین چاہتی تھی، جس کی وجہ سے یہ سب کچھ فوری طور پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی وجہ سے ہی چھ دسمبر کو بھارت کے تمام مسلمان گزشتہ لگ بھگ 30 سال سے یومِ سیاہ کے طور پر منا تے آ رہے ہیں کیونکہ 1992 میںاس دن بھارتی صوبے یو پی میں جو سانحہ رونما ہوا اس نے پورے بر صغیر کے امن و امان کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ اس روز ایودھیا میں بابری مسجد شہید کر دی گئی ، اس کے فوری نتائج تو یہ برآمد ہوئے کہ بھارت بھر میں مسلم کش فسادات کے دوران چند ہی دنوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ تیس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس جرم عظیم کے مرتکب کسی ایک فرد کوبھی سزا نہیں دی گئی جس سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کا اصل چہرہ بڑی حد تک دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ مغربی دنیا نے اپنے سطحی مفادات کی خاطر اس جانب ہنوز خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔یاد رہے کہ بھارت نے اپنی آزادی کے بعد سے نہ صرف مغربی دنیا، بلکہ عالم ِ اسلام کے اکثر ممالک کو بھی طویل عرصے تک یہ تاثر دیے رکھا کہ بھارتمیں جمہوریت قائم ہے اور اس ملک کے مسلمان باشندوں کو کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا اور اگر کہیں مسلم کشی کے واقعات پیش آتے بھی ہیں تو انھیں حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہبھارت کا یہ چہرہ پوری طرح مصنوعی تھا اور گزشتہ 75 برسوں کے دوران وہاں بر سر اقتدار آنے والی ہر حکومت کے دور میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور انھیں اجتماعی اور انفرادی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
توجہ طلب امر ہے کہ واجپائی نے بھی اس حقیقت کا اعتراف ایک سے زائد بار ان الفاظ میں کیا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ''بابری'' نہیں بلکہ '' برابری کا ہے''۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے موصوف نے یہ فلسفہ جھاڑا تھا کہ ''بھارتی مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت اور اس کی تعمیر نو کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنی ساری توانائیاں اس مطالبے کو منظور کرانے کی طرف مبذول کرانی چاہئیں کہ انھیں بھارت میں زندگی کے ہر شعبے میں برابری کے حقوق میسر آنے چاہئیں''۔ واجپائی کے اس بیان میں جو اعترافِ گناہ پوشیدہ ہے وہ یقیناً عذر گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے مگر بظاہر اس سادہ سی بات میں جو تلخ حقائق چھپے ہیں ان پر پوری عالمی برادری کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی بات پاکستان بھی مسلسل 75 برس سے کہہ رہا ہے اور بھارتی مسلمان بھی مسلسل فریاد کرتے رہے ہیں کہ انھیں ملک میں برابری کے حقوق میسر نہیں اور یہ کسی بھی جمہوری معیار کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم دشمنی میں کانگرس بھی BJP سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں اور وہ دراصل '' سافٹ ہندوتوا'' کی پالیسی پر بتدریج عمل پیرا ہے۔ ماہرین کے مطابق دہلی کے حکمران یوں تو انسان دوستی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر ان کی قلعی آئے دن کسی نہ کسی صورت میں کھلتی رہتی ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ دنیا اس بھارتی منافقانہ روش پر سنجیدگی سے توجہ دے گی۔ ||
مضمون نگار ایک اخبار کے ساتھ بطور کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے