انسانی حقوق کا عالمی منشور 10دسمبر 1948کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا جسے یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس کہا جاتا ہے۔10دسمبر کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے تقریبات،سیمینار،واکس اور مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں انسانی حقوق کے حوالے سے عوام کو آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جن ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، ان کی مذمت بھی کی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر1948کو اپنی قرارداد 317میں انسانی حقوق کے عالمی ڈکلریشن کی منظوری دی اور پہلی بار 10دسمبر1950کو یہ دن پوری دنیا میں منایاگیا۔عالمی ادارے کی طرف سے ا نسانی حقوق کو اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ تمام افراد اور اقوام کے لیے ایک جیسا معیار قائم کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ایک ابتدائیہ اور 30آرٹیکلز پرمشتمل ہے جس میں آزادی اظہار،کسی جگہ جمع ہونے،آمدورفت اور مذہبی آزادی کااحاطہ کیاگیا ہے اس میں مساوات اور غیرامتیازی حیثیت کی صراحت کردی گئی ہے تاکہ شہری انسانی حقوق سے مستفید ہوسکیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ضمانت دی گئی ہے کہ ہرکوئی غلامی،تشدد، بے جانظر بندی اور حراست سے آزاد ہوگامگر افسوس اس منشور کو نافذ کرنے والے اور اسے منانے والے مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال پر ایسے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جیسے کشمیر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔سب جانتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی کشمیریوں پر مظالم بڑھے۔انسانی حقوق کاجب منشور بنا اس سے دو ایک سال قبل 1947میں نومبر کے پہلے ہفتے میں 6لاکھ کشمیریوں کاجموں میں قتل عام ہوا۔صرف یہی نہیں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ کشمیریوں کے مال واسباب کو لوٹا گیا ان کی جائیدادیں قرق کی گئیں اور اس کے بعد ایسے مظالم ڈھائے گئے کہ جموں وکشمیر کے مسلمان ڈوگرہ کے مظالم بھول گئے جس نے کشمیریوں پر بے جاٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبی آزادی سماجی سیاسی سرگرمیوں پر روک لگا رکھی تھی مگر افسوس بھارت نے جب27اکتوبر 1947کو مقبوضہ کشمیرمیں فوج داخل کی اس وقت اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا رہا۔1950میں جب پوری دنیا میں یہ دن منایاگیا تب بھی کشمیریوں کے ساتھ کسی نے یکجہتی نہیں کی۔مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہا اور 1980کی دہائی میں ایک بار پھر کشمیر میں بھارتی فوج نے ظلم کا نیا طوفان برپا کیا اور تاحال جاری ہے۔اور اب تک لاکھوں کشمیری شہیدکیے جا چکے ہیں اور لاکھوں معذور اور زخمی ہیں۔ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں،ہزاروں بچے یتیم کیے گئے۔سب سے زیادہ ظلم 5اگست 2019کو ہوا جب بھارت نے تمام عالمی قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں موجود دفعات 370اور 35اے کو حذف کر کے اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔صرف یہی نہیں پوری مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کانفاذ کیاگیا ہے۔جو آج بھی جاری ہے۔لاک ڈاؤن کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لوگوں کا کاروبار تباہ ہوگیا، ان کو معاشی طور پر دست و پا کردیاگیا ہے مگر کشمیریوں کے جذبہ حریت کو وہ سرد نہیں کرسکے، جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کشمیر میں کی گئیں شاید ہی دنیا میں اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر وادیِ نیلم میں بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموںو کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کیخلاف پاسبان حریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ سے بھارتی جنگی جرائم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ وادیِ نیلم کے صدر مقام اٹھمقام کے بنتل شہداء چوک میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کیخلاف احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بھارت کے زیر قبضہ جموںو کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ درج تھا، احتجاج میں شریک نوجوانوں نے بھارتی حکومت اور قابض فوج کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کے آج جب کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے تو دوسری طرف بھارت نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں ریاست جموں کشمیر کے نہتے عوام پر فوجی دہشتگردی مسلّط کرکے انسانی قدروں اور حقوق کی بدترین پامالی کررہا ہے۔ اس وقت کی دنیا گلوبل ویلج کی طرح ایک دوسرے سے جڑ کے رہ رہی ہے لیکن بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ33 برسوں میں سوا لاکھ کے قریب کشمیری شہریوں کو قتل کرچکا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ ریاست میں انسانیت کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے، ظلم ہی ظلم ہے لیکن بھارت کو ان مظالم سے روکنے والا کوئی نہیں۔ بھارتی جیلوں میں اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں کشمیری بزرگ، نوجوان، خواتین اور بچے ظلم و جبر کا شکار بنائے جا رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے ترقی اور انعامات کی لالچ میں جعلی فوجی مقابلوں میں کئی نوجوانوں کو شہید کیا۔
مقررین نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے سامنے یہ سوال رکھا کے جب بھارت دس لاکھ افواج کے ذریعے کشمیری شہریوں کے تمام انسانی، سماجی اور مذہبی حقوق بری طرح پامال کررہا ہے تو یہ عالمی ادارے خاموش کیوں ہیں۔ کیا کشمیر میں انسانیت کا قتل عام کرنے والے بھارتی فوجیوں کو کبھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ سے سوال دہرایا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر یہ عالمی ادارہ چپ کیوں ہے۔ ان کا کہنا تھا کے بھارتی جنگی جرائم پر اقوامِ عالم کی خاموشی کو کشمیری عوام بھارتی جانبداری سے تعبیر کررہے ہیں۔ انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کی مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔ جبکہ کشمیر میں نہتے شہریوں کے قتل عام میں ملوث بھارتی فوجیوں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا حقیقت میں انسانی حقوق کی پاسداری ہوگی۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری بچوں، بچیوں اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بناکران کی بینائی چھینی اور چہرے بگاڑے جارہے ہیں۔ بھارتی جیلوں میں اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں کشمیری بزرگ، نوجوان، خواتین اور بچے اسیری میں ظلم و جبر کا شکار بنائے جا رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے ترقی اور انعامات کی لالچ میں مچھل، شوپیان، سرینگر سمیت درجنوں جعلی فوجی مقابلوں میں کئی نوجوانوں کو شہید کیا۔ تنظیم کے سربراہ نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ جب بھارت دس لاکھ افواج کے ذریعے کشمیری شہریوں کے تمام انسانی، سماجی اور مذہبی حقوق بری طرح پامال کررہا ہے تو یہ عالمی ادارے خاموش کیوں ہیں؟ کیا کشمیر میں انسانیت کا قتل عام کرنے والے بھارتی فوجیوں کو کبھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ سے سوال دہرایا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر یہ عالمی ادارہ چپ کیوں ہے۔ انکا کہنا تھا کے بھارتی جنگی جرائم پر اقوامِ عالم کی خاموشی کو کشمیری عوام بھارتی جانبداری سے تعبیر کررہے ہیں۔ انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے جبکہ کشمیر میں نہتے شہریوں کے قتل عام میں ملوث بھارتی فوجیوں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا حقیقت میں انسانی حقوق کی پاسداری ہوگی۔جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کی جانب سے کشمیر میں جاری ہیں جہاں بھارتی فورسز نے 75سال سے کشمیریوں کو یرغمال بنارکھا ہے اور ان کی حالت زار سے اقوام متحدہ بخوبی واقف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اعداد وشمار کے مطا بق کل آبادی کا38فیصد بچوں پرمشتمل ہے اور اس میں تین فیصد یتیم ہیں اگر یہ اعداد وشمار درست تسلیم کرلیے جائیں تو اس کامطلب یہ ہے کہ کشمیر میں بچوں کی تعداد 20لاکھ سے زائد اوریتیم بچوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد بنتی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کس قدرمظالم ڈھائے گئے۔اتنی بڑی یتیم بچوں کی تعداد شاید ہی کسی خطے میں ہو مگر کسی آزاد ذرائع سے اگرسروے کروایا جائے تو یتیم بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ جہاں کل آبادی کاتین فیصد یتیم بچوں پرہو تو بیوگان کی تعداد کتنی ہوگی۔
انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ موت بھی فطری عمل ہے اور یہ ہرملک اور خطے میں موت اور پیدائش یکساں چل رہی ہے مگرکسی جگہ ایسا نہیں دیکھا گیا کہ شرح اموات اس قدرزیادہ ہو جائے۔مقبوضہ کشمیر میں طبعی اموات بہت کم ہیں ،زیادہ تر اموات بھارتی مظالم کا نشانہ بننے والوں کی ہی ہیں۔بھارتی مظالم کااگرصرف دو عشروں کا ہی جائزہ لیا جائے تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔بھارتی فورسز نے تحریک آزادی کو د بانے کے لیے کشمیریوں کی نسل کشی کی،جنگی حربوں کے طورپر غیرقانونی حراست،اغوا، گھروں کے محاصرے، کرفیوکانفاذ،نہتے اور بے گناہ مسلمانوں پر فائرنگ، پیلٹ گنوں کااستعمال، جعلی پولیس مقابلے اور اس کے بعد ان کی اجتماعی قبریں بنانا،مساجد،مکانات اور دوکانوں کی مسماری،خواتین کی بے حرمتی،قتل،تشدد اور مارپیٹ کاسلسلہ ہنوز جاری ہے مگردنیا کے بڑے بڑے اصول پسند اور بڑے بڑے عالمی امن وانسانی حقوق کے چیمپیئن صرف بھارتی سے معاشی اور اقتصادی تعلقات کی وجہ سے خاموش ہیں ||
کالم نگار ایک کشمیری صحافی اور تجزیہ نگار ہیں جو مظفرآباد سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر اور سینٹرل پریس کلب مظفرآباد کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے