رنی کوٹ کے نا م سے مشہور اس عظیم دیوار سند ھ کی خا ص با ت یہ بھی ہے کہ اس قلعے کے اندر '' میر ی'' اور '' شیر گڑھ کو ٹ'' کے نا م سے مز ید 2چھوٹے قلعے ہیں جو اس کو دنیا کے منفر د اور عظیم قلعے کی حیثیت دیتے ہیں ۔
سندھ میں موجود موہنجودڑو ، کوٹ ڈیجی کا قلعہ ، مکلی قبرستان اور بھنبھور کا شہر اس بات کے گواہ ہیں کہ سندھ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن اپنے قیمتی ورثے کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے سندھ اس وقت تاریخی مقامات کی تباہی کے دہانے پر ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے جن مقامات کی بحالی پر توجہ دی جارہی ہے ان میں تاریخی '' رنی کوٹ '' قلعہ بھی شامل ہے ،جسے کچھ مؤرخین دنیا کا سب سے بڑا قلعہ بھی قرار دیتے ہیں ۔ لیکن ستم تویہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ سندھ میں دیوارِ چین کی طرح کی ایک دیوار بھی موجود ہے جو ''رنی کوٹ '' قلعہ کو حصار میں لیے ہوئے ہے ۔
رنی کو ٹ کے اندر جہا ں اونچے اونچے پہا ڑ اور سر سبز کھیت ہیںوہیں قلعے کے اندر پا نی کا چشمہ بھی مو جود ہے ، جسے سند ھی زبان میں '' پرین جو تڑ '' کہا جا تا ہے ۔ اس چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام دن کبھی کم تو کبھی زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ چشمہ قلعے کی ایک ایسی جگہ پر موجود ہے جہاں چاروں طرف 1500 سے 2000 فٹ کی بلندی کے پہاڑ موجود ہیں ۔ اس چشمے کے حوالے سے بھی دلفریب داستانیں موجود ہیں ۔
کراچی سے تقریباً 300 کلو میٹر کی دوری پر ضلع جامشورو کے پہاڑی صحرا میں موجود '' رنی کوٹ '' جسے عظیم دیوارِ سندھ بھی کہا جاتا ہے، جامشورو شہر سے لگ بھگ 120 کلومیٹر دور چھوٹے سے سے شہر '' سن '' کے قریب واقع ہے ۔رنی کوٹ قلعہ کب ، کیسے اور کیوں بنا ، اس بحث پر محققین ابھی تک ایک رائے پر متفق نہیں ہو پائے۔ لیکن کچھ مؤرخین کاکہنا ہے کہ یہ سا سا نیوں کے دور کا قلعہ ہے ۔ چندماہرین اسے یونانیوں کے طرزِ تعمیر سے مشابہ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ رنی کوٹ قلعہ 836 ہجری میں عرب گورنر عمر بن موسیٰ نے تعمیر کروایا اور بعض کا کہناہے کہ قلعے کو تالپر حکمرانوں نے 1812 ء میں بنوایا تھا۔
'' رنی کوٹ '' کا سب سے پہلا تذکرہ مشہور انگریز سیاح الیگزینڈر برنس نے کیا جو 1831 ء میں '' رنی کوٹ '' سے گزرا تھا ۔ لیکن موجودہ دور میں رنی کوٹ کو دنیا میں سب سے زیادہ پذیرائی دلانے کے لیے جی ایم سید مرحوم کا بڑا ہاتھ ہے ۔ نامور محقق اور مؤرخ بدر ابڑو ، ایم ایچ پن ہور اور تاج صحرائی کے مطابق رنی کوٹ کی دیواروں کی اونچائی30 فٹ اور چوڑائی 7 فٹ ہے جب کہ رنی کوٹ قلعہ 16 سے 30 کلومیٹر کے اندر پھیلا ہوا ہے ۔
رنی کوٹ کی بحالی پر حکومتِ سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے والی تنظیم ''انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ'' (ای ایف ٹی) کے مطابق یہ قلعہ 32 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلاہوا ہے اور اس کی دیواریں ساڑھے7 کلو میٹر تک طویل ہیں ۔ کچھ محققین کہتے ہیں کہ قلعہ برِ صغیر میں مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے اس وقت بنا تھا جب سندھ ایران کی حدود میں شمار ہوتا تھا ۔ لیکن اس بات کے ٹھوس شواہد موجود نہیں ۔ محقق اے ڈبلیو ہو زنے 1856ء میں سند ھ گزیٹیئر میں لکھا ہے کہ رنی کو ٹ سند ھ کے تا لپر حکمرانو ں نے اپنا قیمتی سا ما ن محفوظ کر نے کے غر ض سے بنوا یا ہو گا ۔
سند ھ کے نا مو ر محقق ڈاکٹر نبی بخش بلو چ بھی کسی حد تک اے ڈبلیو ہوز سے اتفاق کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ تا لپر حکمرانوں کے وزیر نوا ب محمد خا ن لغا ری نے یہ قلعہ بنوایا تھا ۔ رنی کو ٹ پر تحقیق کر نے والے بدرابڑواپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اتنے بڑے قلعے کی تعمیر کسی ایک وقت میں مکمل نہیں ہو ئی ہو گی بلکہ اس قلعے کی تعمیر ایک سے زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہو ئی ہو گی ۔
محققین کے مطا بق رنی کو ٹ کی تعمیر میں کم از کم 3سے 4ہزار مزدوروں نے کئی سال تک کا م کیا ہو گا اور اندازے کے مطا بق اس وقت قلعے کی لا گت پر 12لاکھ روپے خر چ کیے گئے ہو ں گے جو آج کے حسا ب سے اربوں روپے بنتے ہیں۔ رنی کوٹ کے نا م سے مشہور اس عظیم دیوار سند ھ کی خا ص با ت یہ بھی ہے کہ اس قلعے کے اندر '' میر ی'' اور '' شیر گڑھ کو ٹ'' کے نا م سے مز ید 2چھوٹے قلعے ہیں جو اس کو دنیا کے منفر د اور عظیم قلعے کی حیثیت دیتے ہیں ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شیر گڑھ قلعہ زمین کی سطح سے ایک ہزار فٹ کی بلند پہاڑ پر بنا ہوا ہے جہا ں ہر کسی کا جانا ممکن نہیں اور یو ں پہاڑ پر ہو نے کی وجہ سے اس قلعے پر لوگ کم جا تے ہیں ۔ رنی کو ٹ کے اندر مو جو د دوسرے '' میر ی کوٹ'' کو مرکز ی قلعے کی حیثیت حا صل ہے اور آنے والے سیا حوں کی تو جہ بھی اسی قلعے میں زیا دہ ہو تی ہے ۔ اس قلعے کے گر د ہی سند ھ کے محکمہ سیا حت و ثقافت نے گیسٹ ہا ئوسز بھی بنوائے ہیں ۔ اتنے بڑے رقبے پر پھیلی ہو ئی دیوار پر کم و بیش 18واچ ٹاورز بھی ہیں ، جن سے متعلق مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز کسی زما نے میں جنگ اور حفا ظت کے لیے استعما ل ہو تے تھے ۔
رنی کو ٹ میں داخل ہو نے کے لیے ویسے تو5دروازے سن گیٹ ، مو ہن گیٹ، آمر ی گیٹ ، شاہ بر گیٹ اور ٹوری دھوڑوگیٹ ہیں، تا ہم قلعے میں داخل ہو نے کے لیے زیا دہ تر ''سن گیٹ'' کو استعما ل کیا جا تا ہے جسے قلعے کا مر کز ی دروازہ بھی مانا جاتا ہے ۔ قلعے کو دیکھنے کے لیے آنے والے 98فیصد افراد بذریعہ سڑ ک اسی دروازے کے راستے قلعے میں داخل ہو تے ہیں کیو نکہ یہی دروازہ مر کز ی شا ہر اہ سے آنے والے راستے پر مو جو د ہے ۔
رنی کو ٹ کے اندر جہا ں اونچے اونچے پہا ڑ اور سر سبز کھیت ہیں وہیں قلعے کے اندر پا نی کا چشمہ بھی مو جود ہے ، جسے سند ھی زبان میں '' پرین جو تڑ '' کہا جا تا ہے ۔ اس چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام دن کبھی کم تو کبھی زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ چشمہ قلعے کی ایک ایسی جگہ پر موجود ہے جہاں چاروں طرف 1500 سے 2000 فٹ کی بلندی کے پہاڑ موجود ہیں ۔ اس چشمے کے حوالے سے بھی دلفریب داستانیں موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس چشمے کے اندر پریاں یا پھر شاہی گھرانوں کی شہزادیاں آکر نہاتی تھیں ، جس وجہ سے اس کا نام'' پرین جوتڑ '' پڑا ، تا ہم اس حوالے سے بھی کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی ۔
محقق عبدالجبار جونیجو لکھتے ہیں کہ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہر کا تھا جو 7 ہزار قبل مسیح میں بنا تھا جس کی دیواریں 21 کلو میٹر لمبی اور 15 فٹ چوڑی تھیں جب کہ اس قلعے کی دیواریں 9 فٹ تک اندر زمین میں دھنسیں ہوئی تھیں ۔وہ رنی کوٹ سمیت دیگر قلعوں کی طرزِ تعمیر اور فن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رنی کوٹ اور دیوارِ چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کی کڑی ہیں ۔ تاریخ کے لیے اہم ترین سمجھی جانے والی کتاب '' فتح نامہ ''کے مطابق رنی کوٹ قلعہ 1812ء سے 1829 ء تک بن کر تیار ہوا جس کی تصدیق بعد میں اے ڈبلیو ہوز نے بھی اپنی 1876 ء میں چھپنے والی کتاب '' سندھ گزیٹیئر '' میں کی ۔ انگریز مؤرخ اور محقق ایچ ٹی لمبرک نے اپنی کتابوں '' سر چارلس نپیئر اور سندھ ، جان جیکب آف جیکب آباد '' میں سندھ کی تاریخ و تہذیب کے بارے میں بہت سی اہم باتیں لکھی ہیں ۔انہوں نے بھی ان کتابوں میں رنی کوٹ کا تذکرہ کیا ہے ۔ تاریخ کی دیگر اہم کتابوں میں بھی رنی کوٹ کا تذکرہ ملتا ہے ۔ رنی کوٹ کی کوئی مستند اور ایک تاریخ نہیں ملتی ۔ تا ہم مؤرخین اور محققین کے اندازوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ قلعہ کم سے کم 300سال پرانا ہے ۔
رنی کوٹ پر صحیح اور مستند تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں رنی کوٹ کو وہ مقام نہیں مل پایا جو دیوارِ چین سمیت دنیا کے دیگر تاریخی مقامات کے حصے میں آیا۔ محکمۂ ثقافت و سیاحت کی جانب سے رنی کوٹ پر 2017 ء میں پہلی بار اسسٹنٹ کیوریٹر کو تعینات کیا گیا ۔ محکمۂ نوادرات نے غیور عباس کو انچارج رنی کوٹ تعینات کرنے کے ساتھ ہی انہیں 3 ملازمین پر مشتمل دیگر عملہ بھی دیا ۔غیور عباس کو انچارج نے بتایا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس تاریخی قلعے پر پاکستان بننے کے بعد صرف 1980 ء اور 1990ء کی دہائیوں میں وفاقی حکومت نے 2 بار سیمینار ز یا پروگرام منعقد کروائے ۔ 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں تاریخی مقامات کی صوبوں کو منتقلی کے بعدسندھ حکومت نے 2014 ء میں پہلی بار رنی کوٹ پر توجہ دی اور یہاں کچھ تعمیراتی کام کا آغاز کیا ۔
اس قلعے کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس قلعے کے اندر' گبول 'قبیلے کے افراد بسے ہوئے ہیں ، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ یہاں پچھلی سات نسلوں سے آباد ہیں اور انہیں اپنے آبائو اجداد بتا کر گئے تھے کہ رنی کوٹ 2 ہزار سال پرانا ہے ۔ قلعے میں رہنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ گزشتہ 7 نسلوں سے اس قلعے کی زمین ان کی ملکیت رہی ہے اور ان کے پاس ان کی دستاویزات بھی موجود ہیں ۔ نوجوان کے مطابق وہ صرف قلعے کے اندر زرخیز زمین اور اس جگہ کے مالک ہیں جہاں ان کے گھر بنے ہوئے ہیں۔ باقی قلعے کی دیواریں ، پہاڑیاں اور قلعے کے اندرموجود مزید 2 قلعے کس کی ملکیت ہیں انہیں اس کا علم نہیں ۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر قلعے میں ان کے 40 گھر آبادہیں جو 30 کلومیٹر رقبے کے اندر پھیلے ہوئے ہیں ۔ انہیں یاد نہیں کہ کبھی ان کے ہاں پانی کا مسئلہ ہوا ہو۔ انہیں سردیوں یا گرمیوں میں پہاڑوں کے دامن سے آنے والا صاف پانی میسر ہوتا ہے ، البتہ کچھ وقت کے لیے اس کی مقدار کم ضرور ہو جاتی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے تاہم ان کی زندگی اس پانی کی وجہ سے ہی بہتر گزر رہی ہے کیونکہ جہاں وہ اس پانی کو پینے اور کھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہیں اس پانی سے فصل بھی اگاتے ہیں ۔ ||
مضمو ن نگا ر صحا فت کے پیشے سے منسلک ہیں ۔
[email protected]
تبصرے